1
Saturday 27 Apr 2019 23:58
لاپتہ شیعہ افراد کے مسئلے پر ریاست، ادارے اور حکومت ذمہ دار ہیں

وزیراعظم کے کامیاب دورہ ایران پر اپوزیشن کو اسے سراہنا چاہیئے، علامہ احمد اقبال رضوی

وزیراعظم کے کامیاب دورہ ایران پر اپوزیشن کو اسے سراہنا چاہیئے، علامہ احمد اقبال رضوی
کراچی سے تعلق رکھنے والے علامہ سید احمد اقبال رضوی اسوقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرنجام دے رہے ہیں، اس سے قبل وہ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری تربیت کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سرنجام دے چکے ہیں، وہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی مرکزی مجلس نظارت کے رکن بھی ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے علامہ سید احمد اقبال رضوی کیساتھ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ ایران و دیگر موضوعات کے حوالے سے انکی رہائشگاہ پر ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ ایران کے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر کیسے اثرات مرتب ہونگے۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ انٹرویو کیلئے تشریف لانے کیلئے سب سے پہلے اسلام ٹائمز کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پاکستان اور ایران سمیت پورا خطہ جس حساس صورتحال سے گزر رہا ہے، اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان کا دورہ ایران انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان اور ایران دونوں اپنے مشترکہ دشمن امریکا و دیگر اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں کا شکار ہیں، لہٰذا اس حساس اور مشکل صورتحال میں اس دورہ ایران کے بہت زیادہ اسٹریٹجک اور مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ عالمی قوتیں پاکستان کو اپنے دست نگر رکھنا چاہتی ہیں، ایران پر پابندیاں لگا رکھی ہیں، ایران کو عالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتی ہیں، وہ نہیں چاہتیں کہ پاک ایران تعلقات بہتر ہوں، جس کا فائدہ ناصرف پاکستان اور ایران بلکہ مجموعی طور پر پورے خطے کو ہو۔ لہٰذا امریکا سمیت اسلام دشمن قوتوں کی خواہشات کے برعکس یہ دورہ ایران ہوا ہے، خود وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم نے بہت احسن اور باوقار انداز میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے اور ایرانی حکام نے بھی ان کا اچھا استقبال کیا ہے، جو کہ پاکستانی مہمانوں کا حق بنتا ہے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کیخلاف دورہ ایران کتنا مؤثر ثابت ہوگا۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی:
وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران کا ایک بنیادی مقصد سرحد پر ہونے والی دہشتگرد کارروائیوں کے تدارک کے حوالے سے بھی تھا، دونوں ممالک نے اس مسئلے کو کافی سنجیدگی کے ساتھ ڈسکس بھی کیا ہے، دہشتگردی پوری دنیا کا مسئلہ ہے، خصوصاً عالم اسلام دہشتگردی کی آگ میں جل رہا ہے، پوری دنیا جانتی ہے کہ داعش، القاعدہ، طالبان، بوکو حرام سمیت تمام دہشتگرد عناصر کو بنانے والا، انہیں سپورٹ کرنے والا امریکا ہے، انہی دہشتگرد عناصر نے افغانستان، پاکستان اور ایران میں دہشتگرد کارروائیاں کیں، حال ہی میں سری لنکا میں دہشتگرد کارروائیوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، دنیا پر واضح ہے کہ داعش کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ امریکا نے بنایا۔ پاک ایران سرحدی علاقوں میں دہشتگردی بہت بڑا مسئلہ ہے، ایران اور پاکستان دونوں اس اہم مسئلے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، ایران کے اندر بلوچستان کے علاقوں میں جو دہشتگرد تنظیمیں ہیں، وہ ایران کے اندر عوام، فوج، پولیس، سپاہ پاسداران کے خلاف کارروائیاں کرتی ہیں، اسی طرح وہ دہشتگرد قوتیں اپنے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر پاکستان کے اندر بھی کارروائی کرسکتی ہیں۔

اسی طرح پاکستانی بلوچستان کے اندر بھی ایسے دہشتگرد عناصر موجود ہیں، جنہیں، امریکا، بھارت اور عرب ممالک بھی دہشتگردی کیلئے استعمال کرتے ہیں، یہ چیزیں دونوں ممالک کے قابو سے باہر ہیں، کون سا ملک چاہے گا کہ اس کی سرزمین پر ایسی دہشتگرد تنظیمیں ہوں، جو اسے بھی نقصان پہنچائے اور اس کے ہمسایہ ممالک کو بھی نقصان پہنچائے، لہٰذا ایسے دہشتگرد عناصر کے سدباب کیلئے پاکستان اور ایران نے مشترکہ فورس بنائی ہے، جو سرحد پر دہشتگرد عناصر کے خلاف کارروائی کریگی، نان اسٹیٹ ایکٹرز کو قابو کریگی، لہٰذا دہشتگردی کے خلاف بھی یہ دورہ بہت مؤثر ثابت ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا آئندہ ایرانی حکام کا بھی دورہ پاکستان متوقع ہے یا ہونا چاہیئے۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی:
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے، جو انہوں نے قبول بھی کرلی ہے، یہ انتہائی مثبت اشارے ہیں، پاکستان کا دعوت دینا، ایران کا قبول کرنا، میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے حوالے سے سنجیدگی پائی جاتی ہے، دونوں ممالک ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھتے ہیں، ان شاءاللہ امریکا سمیت دیگر اسلام دشمن قوتوں کی خواہشات کے برخلاف پاک ایران تعلقات مزید بہتر ہونگے۔ لہٰذا وزیراعظم عمران خان کا ایرانی صدر کو دورہ پاکستان کی دعوت دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، پاک ایران تعلقات کی بہتری کیلئے ایک سنجیدہ عمل ہے، جو عمران خان صاحب نے انجام دیا ہے، جسے ایران نے ویلکم کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان امریکی سعودی دباؤ سے نکلتا نظر آرہا ہے۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی:
خطے میں تبدیلی آئی ہے، پاکستان کی بہت ساری مجبوریاں ہیں، بہت سارے مسائل ہیں، امریکی دوستی پاکستان کو ستر سالوں میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکی، یہ ہمارے حکمران اچھی طرح سمجھتے ہیں، موجودہ آرمی چیف، وزیراعظم، سیاسی جماعتیں، عوام بھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔ امریکی دوستی کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ امریکا کے حوالے سے ہماری موجودہ حکومت اس مسئلے کو سمجھتی ہے کہ ہمیں امریکا سے دور ہونا چاہیئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا، جس پاکستان کو بنایا تھا، وہ ایک آزاد اور مستقل ملک بنایا تھا، لیکن ہماری آنے والی حکومتیں ملک کو ہمیشہ یا تو برطانیہ کے زیر اثر لائیں یا امریکا یا سعودی عرب کے۔ حکمرانوں کو چاہیئے کہ پہلے اللہ پر بھروسہ کریں، اس کے بعد اپنے لوگوں پر بھروسہ کرنا چاہیئے، پاکستان میں بہت زیادہ استعداد و صلاحیت موجود ہے۔ بہرحال خطے میں تبدیلی آرہی ہے، پاکستان بھی اس تبدیلی کی طرف جانا چاہتا ہے، لیکن اقتصادی مسائل و مشکلات کی وجہ سے یہ لوگ دباؤ کا شکار ہوتے ہیں امریکا اور سعودی عرب سے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان کے دہشتگردی سے متعلق ایران میں دیئے گئے بیانات کو اپوزیشن جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی:
اپوزیشن کا کام ہی حکومت کی ٹانگیں کھینچنا ہوتا ہے، افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاکستان میں جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ صحیح بات بھی ہو تو ٹانگیں کھینچنا ہے اور اگر غلط بات ہو تو اور زیادہ ٹانگیں کھنچنا ہے۔ اپوزیشن کو کوئی نہ کوئی موقع چاہیئے حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کا۔ ہماری ہاں جمہوریت کا مطلب فقط تنقید برائے تنقید کرنا رہ گیا ہے، کیونکہ تنقید برائے اصلاح تو ہے نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو اچھا نہیں لگ رہا کہ عمراں خان صاحب کو اگر کہیں عزت مل رہی ہے، جبکہ اپوزیشن جماعتیں یہ نہیں سمجھ رہیں کہ یہ عمران خان صاحب کی نہیں بلکہ یہ پاکستان کو عزت مل رہی ہے۔ لہٰذا کامیاب دورہ ایران پر اپوزیشن کو سراہنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان کے دہشتگردی سے متعلق بیانات پر آپکی کیا رائے ہے۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی:
جہاں تک وزیراعظم عمران خان کے بیان کا تعلق ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان نے ایران میں کوئی نئی بات نہیں کی، صبح شام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) یہی راگ آلاپ رہی ہیں، دیگر سیاسی جماعتیں بھی پاکستان میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے حوالے سے بار بار باتیں کرتی ہیں، خود عمران خان صاحب نے پہلے کئی بار اپنے خطابات میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ماضی میں حکومتوں نے غلطیاں کی ہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے، کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے حوالے سے، اسی طرح ہمارے آرمی چیف صاحب بھی یہ بات کرچکے ہیں کہ آج جو کچھ پاکستان بھگت رہا ہے، یہ ہماری گذشتہ تیس پینتیس سالوں کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جو بیج ہم نے بویا تھا، اسی کی فصل کو آج ہم کاٹ رہے ہیں۔ لہٰذا اس حوالے سے آفیشل بیانات آچکے ہیں۔ اگر افغان جنگ کے بعد ہم پاکستان میں عسکری گروپوں کو کنٹرول کرتے تو پاکستانی بھی ان دہشتگردوں سے محفوظ رہتے اور دوسرے بھی محفوظ رہتے، لہٰذا یہ مسئلہ تو ہے اس وقت۔

سب کو پتہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں امریکا، عرب ممالک، بھارت سمیت بیرونی قوتیں ہمارے لوگوں کو کہیں نہ کہیں استعمال کرتی ہیں اور ہماری سرزمین استعمال ہوتی ہے، ہمارے خلاف بھی اور ہمارے پڑوسیوں کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس حقیقت کو سب لوگ پہلے ہی جانتے ہیں، دونوں نے دہشتگردوں عناصر کی جانب سے ایک دوسرے کی سرزمین کے استعمال کے حوالے سے باتیں کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک نے دہشتگردوں عناصر کے خلاف مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دینگے۔ اس حوالے سے تو بیانات کو سراہنا چاہییے، ہمیں حقیقت پسند ہونا ہوگا، حقیقت کو تسلیم کرینگے تو ہی سدباب کرینگے۔

اسلام ٹائمز: ایک رائے یہ ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر ریاستی اداروں سے براہ راست بات کی جائے، تاکہ مسئلے کا منطقی حل نکالا جائے، آپکی کیا رائے ہے۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی:
لاپتہ افراد کے معاملے پر حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں سے بھی جہاں بھی قومی مسائل کے حوالے سے ملاقات ہوئی ہے، وہاں مسننگ پرسنز کا مسئلہ سرفہرست رہا ہے، مجلس وحدت مسلمین نے مسننگ پرسنز کے مسئلے پر کبھی بھی سکوت اختیار نہیں کیا، لہٰذا جہاں جلسہ عام ہو، پریس کانفرنسز ہوں، حکومتی افراد ہوں یا ریاستی اداروں کے افسران سے ملاقات ہو، اس میں ایم ڈبلیو ایم نے مسننگ پرسنز کے مسئلے کو سرفہرست رکھا ہے، لہٰذا اس مسئلے پر بات چیت تو ہوتی رہی ہے، ہمارا اس پر اصولی مؤقف ہے کہ آئین کے آرٹیکل دس کے مطابق کسی بھی شخص کی گرفتاری کے چوبیس گھنٹے کے اندر اسے عدالت میں پیش کرنا چاہیئے، تاکہ وہا پنا دفاع کرے۔

ہم یہ کہتے ہیں کہ آرٹیکل دس پر ریاستی اداروں سمیت سب لوگوں کو عمل کرنا چاہیئے، ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام مسننگ پرسنز کو رہا کر دیا جائے، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے، کسی پر الزام ہے تو آپ اسے عدالت میں پیش کریں، عدالتیں اس کا فیصلہ کرینگی، لیکن آپ یہ حق نہیں رکھتے کہ ایک سال، چھ سال، آٹھ سال لوگوں کو بلاجواز مسننگ رکھو، گھر والوں کو پتہ ہی نہ ہو کہ زندہ ہیں یا مردہ ہیں۔ لہٰذا مسننگ پرسنز کے مسئلے میں ریاست بھی زمہ دار ہے، ریاستی ادارے اور حکومت بھی ذمہ دار ہے۔
خبر کا کوڈ : 791042
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش