1
0
Saturday 4 May 2019 20:35

افسوس ہم مخالف فکر سے وابستہ علماء کرام کی تذلیل و تحقیر کو اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں، مولانا الطاف جمیل ندوی

افسوس ہم مخالف فکر سے وابستہ علماء کرام کی تذلیل و تحقیر کو اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں، مولانا الطاف جمیل ندوی
مولانا الطاف جمیل ندوی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شمالی ضلع بارہمولہ سے ہے۔ ابتدائی زندگی سے مطالعہ کرنے اور لکھنے کا شوق و ذوق رکھتے تھے۔ آج وہ کشمیر اور بھارت کیساتھ ساتھ عالمی اخبارات کیلئے بھی مضامین لکھتے ہیں۔ اپنے گھر میں ایک منفرد کتب خانہ رکھتے ہیں، جس میں مختلف افکار و نظریات کی حامل اور مخلتف مذایب و مسالک کی کتابیں موجود ہیں، وہ خود بھی محدود نظریہ سے بالاتر ہوکر مختلف مذاہب کا لٹریچر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مولانا الطاف جمیل ندوی 2004ء میں لکھنو کے عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم ’’ندوۃ العلماء‘‘ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ وحدت اسلامی کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے مضامین لکھتے آئے ہیں۔ فی الحال ایک اسکول میں مہتمم کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل کے ممبر بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا الطاف جمیل ندوی سے ایک خصوصی انٹریو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مقبوضہ کشمیر میں ہر نئے دن نئی پارٹیاں وجود میں آرہی ہیں، کیا یہ کشمیری عوام کو تقسیم کرنیکی ایک کوشش ہے یا ایسا ضروری ہے۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
نئی پارٹیاں جو وجود میں آرہی ہیں، یہ صرف اس حد تک ہیں کہ انہیں مختلف مفادات مطلوب ہیں، اس سے اصل مسئلہ اپنی ہی جگہ موجود ہے۔ اس پر کوئی خاص تبدیلی رونما ہونے سے رہی۔ کشمیر عوام کو تقسیم صرف سیاسی پلیٹ فارم پر  ہوتے ہوئے دیکھنا کم ہے بلکہ عوام کو تو لسانیات، کلچر اور مسالک کے نام پر بھی تقسیم کیا جا رہا ہے اور ہماری قوم بڑی تعداد میں ان لوگوں کے سر میں سر ملا رہی ہے، جو اس کے سامنے سبزہ رکھ کر اسے زہر دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسا کوئی لازمی معاملہ نہیں ہے، کیونکہ یہ نوید خیر نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت بھر میں بی جے پی پھر سے عوام کو ورغلانے میں لگی ہوئی ہے، تاکہ دوبارہ اقتدار انکے ہاتھ آئے، کیا بھارتی عوام دوبارہ فریب کھا سکتی ہے یا پھر شعور سے کام لے گی۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
بھارت میں اہل دانش کی کوئی کمی نہیں ہے، جو کہ اپنی قوم و ملت کے لئے دردمند دل رکھتے ہیں۔ نفرت کی سیاست ہر صورت میں انہیں قابل قبول نہیں ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام تک حقائق پہنچانا یا اسے اس بات کی طرف مائل کرنا کہ نفرت و کدورت سے ملک میں امن و آشتی نہیں آتی بلکہ ایسے تو ممالک کے ممالک برباد ہوا کرتے ہیں۔ اگر دانشور طبقہ اور سلجھے ہوئے صاحبانِ علم اس بات کو عوام تک صحیح طریقے سے پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تو یقیناً منظر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی، ورنہ آج تک یہی ہوتا رہا ہے کہ ہر ملک میں کہ جس کی جتنی بات میں الجھاؤ ہو وہ اتنا ہی قابل قبول بن جایا کرتے ہیں۔ یہ ہر ملک میں ہو رہا ہے۔ ہم بھی بھارت میں امن و امان اور شائستگی دیکھنے کے متمنی ہیں۔  اللہ کرے کہ یہ ملک صحیح راہ پر رہے اور عالم انسانیت کے لئے روح کی تسکین بن جائے نہ کہ درد سر۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ پر بھارتی حکومت کی پابندی اور مزاحمتی قیادت خاص طور پر یاسین ملک کی گرفتاری و قدغن پر کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
جماعت اسلامی پر پابندی ہو یا لبریشن فرنٹ پر۔ مسائل کا یہ حل نہیں کہ ہم زبان و قلم کا گلا گھونٹ دیں بلکہ اب جبکہ اظہار رائے کی آزادی کے چرچے ہر سو ہیں۔ ایسے میں یہ پالیسی کہ نظریات کے افتراق کے سبب مخالف نظریہ رکھنے والے کی زبان کو پابند کیا جائے بلکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس سلسلے میں اصل بات کو سامنے رکھ کر بات کی جاتی کہ کیوں ہمارے نظریہ الگ الگ ہیں۔ مزاحمتی قیادت ہو کہ یاسین ملک ہوں، ہم ہر صورت باہمی رسہ کشی سے اجتناب کی خواہش رکھتے ہیں اور مسائل کا حل آپسی محبت اور انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پر چاہتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ ہم چاہتے ہی نہیں کہ انسانیت کی بقاء و احترام باقی رہے۔ ایسے نفرتیں مزید دوریاں پیدا کرنے میں معاون بن جاتی ہیں۔ ہماری قلبی تمنا ہے کہ ہر سطح پر باہمی محبت اور بات چیت و مذاکرات کی بنیاد پر مسائل کا حل ہو۔

اسلام ٹائمز: آپ نے اس جانب اپنے ایک مضمون میں وضاحت فرمائی تھی کہ کشمیر ایسے حالات سے گزر رہا ہے اور ایسے ماحول میں مناظرہ بازی سے فضا کو مکدر کرنیکی جو کوششیں کی جا رہی ہیں، اس پر ہمارے قارئین کرام کیلئے مزید وضاحت جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
امت مسلمہ کے بہت سے مسائل ہیں، لیکن جب امت ایسے کرب میں مبتلاء ہو تو امت کے لئے ایسے مسائل پر ہڑبونگ مچانا جن میں مختلف احادیث وارد ہوئی ہوں، امت مسلمہ کے لئے کوئی اچھا کام اور کار ہائے نمایاں نہیں ہوسکتا، امت مسلمہ جن مسلمہ اصولوں پر ایک نظریہ رکھتی ہے، انہی کو بنیاد بنا کر امت کا ایک صف میں ہونا از حد ضروری ہے، کیونکہ یہ ہماری بقاء کا واحد راستہ ہے۔ ایسی صورتحال میں جب امت مسلمہ کا انگ انگ زخموں سے چور ہو، اس کا جسم لہولہان ہو۔ ان مناظرہ بازیوں کے رواداروں کو یک و تنہا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے لازم ہے کہ ہم اسلام کی محبت و اخوت پر مبنی تعلیمات کو عام کریں اور انہی کو اپنے لئے روح کی تسکین بنائیں۔

امت نے جب بھی باہمی رسہ کشی کو تھام لیا، تب تب آخر پر اس کے حصے میں تباہی ہی آئی ہے۔ کہیں پر ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ امت آپس میں دست و گریباں ہو اور کامیابی نے ان کے قدموں کو بوسہ دیا ہو۔ میری سانس کا ہر لمحہ اس بات کا خواہشمند ہے کہ آے کاش میرے نبی کریم (ص) کی امت ایک ہی جسم کی مانند کھڑی ہوکر اپنی بقاء و کامیابی کے لئے محو پرواز رہتی، تاکہ تا قیامت رب کی اس زمین پر رب کے بندے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتے رہتے۔ نفرت کے سوداگروں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: اسلامو فوبیا کے تحت یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مسلمان اخلاقیات سے کوسوں دور ہیں اور مسلمان بھی کبھی ایسا ہی دکھائی دیتا ہے، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
دیکھیئے، تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے تلواروں سے زیادہ اپنے اخلاقِ کریمانہ سے ہی غیر مسلم برادری کو اسلامی تعلیمات کی طرف مائل کیا ہے۔ فلسطین، افریقہ، ایران وغیرہ میں ایسے ہزاروں واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جب غیر مسلم برادری نے مسلمانوں کے جانے پر ان کی جدائی کے تصور سے ہی غم و الم کا مظاہرہ کیا، وہ ان کی تیر و تلوار سے زیادہ ان کی محبت و خلوص و سادگی و دیانتداری، امانتداری اور اخلاقی بلندی سے متاثر تھے۔ ہماری بدنصیبی کہ ہم علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت کے میدان میں رہ کر بھی اپنے اخلاقی دیوالیہ پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپسی تذلیل و تحقیر کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ ہم مخالف فکر سے وابستہ علماء کرام کی تذلیل و تحقیر کو اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں اور بیہودہ مسکراہٹ کا ٹیگ لگا کر سوشل میڈیا پر اہل رائے بن جاتے ہیں، جہاں پھر مخالف فکر کے گالی گلوچ کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں، یہ حق آپ کو  کس نے دیا کہ کسی کی معمولی سی غلطی پر اس کی تذلیل کرتے پھریں۔ اس سے واقعاً اسلام کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور اسلام دشمن عناصر کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمارے علماء کرام کیوں بروقت یا بعد از وقت ایسے عناصر کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے، جو عناصر انتشار و منافرت کے درپے ہیں۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
صاحبان علم کو رب کریم نے اپنی طرف سے خصوصی فضل و کمال عطا فرمایا ہے۔ اس فضل و کمال کی قدر کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ یہ طبقہ اپنے اندر للہیت کو پیدا کرے۔ خودی نہ بیج دے یا اپنی انا کی تسکین کی خواہش نہ کرے۔ اپنے فضل و کمال کو رب الکریم کی بندگی میں صرف کرے۔ خود کی خوشنودی پانے کے بجائے رب کی رضا کو ترجیح دے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر صاحبان فضل و کمال انسانوں کے لئے درد سر بن جایا کرتے ہیں۔ جہاں تک آج کی بات ہے ہم مانتے ہیں کہ اب بھی ایسے اہل علم باقی ہیں۔ جن کی راتیں، جن کے لمحات اسی تگ و دو میں صرف ہوتے ہیں کہ انسانیت کو انسانیت کا سبق یاد کرایا جائے، جن کی تمنائے دل ہے کہ امت باہمی منافرت و چپقلش کے بجائے محبت و اخوت کے در پر رہے پر۔

اب کچھ سالوں سے ایسا طبقہ بھی میدان علم میں آکھڑا ہوا ہے، جنہیں مزاج نبوت کے بجائے اپنی پڑی ہے، وہ چاہتے ہی نہیں کہ امت مسلمہ کے درد کم ہوں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر خوش لحان کو صاحب علم مان کر اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ منافرت بڑھ گئی ہے اور انسانیت مٹتی گئی۔ اس سے نکلنے کے لئے از حد ضروری ہے کہ ایسے افراد کو نہ سنا جائے۔ بروقت کا ادراک تب ہی ممکن ہے جب ہمارے اہل علم اللہ کے سامنے خود سپردگی اختیار کریں۔ اللہ کرے کہ ہمارے علماء بروقت نفرت و کدورت کا تدارک کرنے میں پہل کریں۔

اسلام ٹائمز: اس انتشاری دور میں وحدت اسلامی کی اہیمیت و ضرورت جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا الطاف جمیل ندوی:
اس انتشاری دور میں وحدت امت اسلامی کی ضرورت اتنی ہی ہے جتنی زندگی کے لئے آکسیجن کی اہمیت و ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بناء اب کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ اگر ہم نے اس جانب توجہ نہ دی تو یقیناً ہماری داستان الم کو قلم بند کرنے والے بھی ہمارے رویہ پر ماتم کناں ہوجائیں گے کہ کیا انہیں اپنے قرآن و سنت کے اوراق مقدسہ میں یہ آسان بات سمجھ نہ آئی کہ بقاء کس میں ہے اور بربادی کس میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 791789
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

الطاف جمیل ندوی
India
شکریہ عزیز محترم آپ کا
ہماری پیشکش