0
Sunday 5 May 2019 10:38

سنسرشپ اور میڈیا پر قدغن لگا کر 71ء والی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے، سینیٹر رضا ربانی

سنسرشپ اور میڈیا پر قدغن لگا کر 71ء والی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے، سینیٹر رضا ربانی
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء اور سابق چیئرمین سینیٹ 1953ء کو پیدا ہوئے، 1986ء میں ایل ایل بی مکمل کیا۔ اس دوران لبرل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سربراہ رہے، 1968ء سے ہی پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستگی اختیار کی۔ ضیاء دور میں جیل کاٹی۔ دو سال رکن صوبائی اسمبلی رہے بعد ازاں 1993ء سے لیکر اب تک متعدد بار سینیٹ کے رکن رہے، 2015ء سے 2018ء تک سینیٹ آف پاکستان کے ساتویں چیئرمین رہے۔ ماہر قانون، جزوقتی لیکچرر اور سیاسی رہنماء کیساتھ پاکستان میں آزادی اظہار کے بارے میں اٹھنے والے سوالات سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومت پی ٹی ایم کیخلاف چارج شیٹ بھی جاری کرچکی ہے اور انکے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کر رہی، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
سینیٹر رضا ربانی:
یہ کچھ چیزیں ہیں جن کی سمجھ نہیں آرہی، جیسے پی ٹی ایم میں مختلف جماعتوں سے لوگ آکر جمع ہوگئے، پی ٹی آئی نے بڑھ چڑھ کر انکی حمایت کی، وزیراعظم تو اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ انکے مطالبات درست ہیں، انہی لوگوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی، پشتونوں نے انہیں ووٹ دیئے ہیں، پارٹیوں نے انکی حمایت کی ہے، آج بھی وہ ایوان میں بیٹھے ہیں، اپنا استحقاق استعمال کر رہے ہیں، سینیٹ اور کے پی حکومت اور وزیراعلیٰ کے پی انکے ساتھ مذاکرات کیلئے کمیٹیاں بنا رہے ہیں، اس وجہ سے ابہام بھی ہے اور تضاد بھی ہے، کیا اتنے بڑے الزامات کے بعد یہ کافی ہے کہ انہیں میڈیا کوریج نہ دی جائے۔

اسلام ٹائمز: موقف تو یہ اپنایا گیا ہے کہ 71ء میں میڈیا آزاد نہیں تھا، لیکن اب آزاد ہے، یہ واضح ہے یا اس میں بھی ابہام ہے۔؟
سینیٹر رضا ربانی:
قومی سلامتی کی جہاں تک بات ہے، ہر محب وطن اسکا خیال رکھتا ہے، لیکن جہاں استدلال کی کمی ہو، وہاں بات تو کی جا سکتی ہے، حقیقیت میں اسوقت 71ء سے زیادہ سختی ہے، آپ ان لوگوں سے بات کریں، جنہوں نے اس دور میں صحافت کی ہے، اسوقت مسئلہ یہ تھا کہ ٹیکنالوجی اور سہولیات نہیں تھیں، فاصلے بہت زیادہ تھے۔ چلیں اس بات کو چھوڑیں اسوقت ہر ایک کو یہ پتہ تھا یا بتایا جاتا تھا کہ کیا کرنا چاہیئے، کیا نہیں کرنا چاہیئے، ابھی کسی کو کوئی پتہ نہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، خود وزیراعطم کو دیکھ لیں، ایک زبان سے کہتے ہیں کہ پشتونوں کیلئے جو آواز اٹھائی جا رہی ہے، یہ درست ہے تو پھر آپ انکے بیانیے کی خود تائید کر رہے ہیں، اس سے آئی ایس پی آر کی ساری بات کی ہی نفی ہو جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پیپلز پارٹی بھارت اور افغانستان کی ایجنسیوں سے پیسہ لیکر کام کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کی مخالف ہے۔؟
سینیٹر رضا ربانی:
نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، ہمارا موقف یہ ہے کہ مختلف باتوں کو آپس میں ملایا نہ جائے، ہم نے تو سب سے پہلے سوات میں آپریشن کیا تھا، ان لوگوں کیخلاف جو ملک دشمن طاقتوں سے پیسہ لیکر ہماری فوج کیخلاف کارروائیوں میں ملوث تھے۔ لیکن یہاں جو بات کی جا رہی ہے، اس انداز میں کیس بنا کر پیش کرنے اور میڈیا کو ڈائریکٹ کنٹرول پر ہمیں تحفظات ہیں، یہ نہیں ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے کہ میڈیا کے ذریعے ملک دشمن گروہوں کو بھی پیغام دیا جائے اور عوام کے سامنے بھی انہیں بے نقاب کیا جائے۔؟
سینیٹر رضا ربانی:
اگر کوئی ملک دشمن ہے تو ہمیں اس سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، لیکن زیادہ بہتر یہ تھا کہ میڈیا اور عوام کے سامنے سوالات اٹھانے کے بجائے اگر کوئی گروہ ملک دشمن قوتوں سے پیسہ لے رہا ہے تو اس کو عدالت میں لے جائیں اور عدالت اس کے خلاف کارروائی کا حکم دے، عوام کو بھی سمجھ آئے، یہ جو طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے، لوگ دیکھ رہیں ہیں کہ ایک طرف پارلیمان میں انکے لوگ بیٹھے ہیں، عمران خان انکے جلسوں میں تقریریں کر رہے ہیں، چیئرمین سینیٹ ان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ پھر لائیو پریس کانفرنس میں میڈیا پرسنز اور اینکرز کو کہا جا رہا ہے کہ آپ پی ٹی ایم کو مین اسٹریم میڈیا میں کوریج نہیں دے سکتے، ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آزادی اظہار پر کوئی پابندی نہیں، اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ آزادی اظہار پر تو کوئی پابندی نہیں، لیکن میڈیا کو تو آپ کنٹرول کر رہے ہیں، اب ملک کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے لوگوں کو موقع تو ملے گا کہ پاکستان میں پریس کی آزادی پر انگلیاں اٹھائیں۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ان حقائق کو پارلیمان کے سامنے رکھا جائے، وہاں اس پر بحث ہو، کیا عوام سے براہ راست مخاطب ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ منتخب ہو کر آنے والوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے یا ہمیں ان پر اعتماد نہیں ہے، کیا اس سے اس بات کی نفی نہیں ہو رہی کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں، اپوزیشن کی ہر بات کو یہ کہہ کر رد کر دینا کہ یہ اپنی کرپشن چھپانا چاہتے ہیں نامناسب ہے۔ اب یہ جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف میڈیا کو کنٹرول کی جا رہا ہے بلکہ میڈیا کو جیسے سمجھ آتی ہے، قومی مفاد کا نام دیکر استعمال کیا جا رہا ہے، خدانخواستہ یہ نہ ہو کہ ہم ایک دو عشروں کے بعد پھر کہہ رہے ہوں کہ اگر پہلے میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا نہ ہوتے۔

اسلام ٹائمز: کیا اسوقت ایسے حالات پیدا ہونیکا امکان ہے کہ صورتحال مشرقی پاکستان کے زمانے کا رخ اختیار کر جائے۔؟
سینیٹر رضا ربانی:
جمہوریت کا سب سے پہلا اور بنیادی رکن تو آزادی اظہار ہے، میڈیا ہاوسز کو پابند نہ بنایا جائے، ورنہ سنسرشپ کی وجہ سے لوگوں کو غلط ذرائع سے خبروں کا سلسلہ شروع ہو جائیگا، جس کی وجہ سے لوگ اپنے ملک اور ریاستی اداروں کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہو جائیں گے، جس سے غلط فہمیاں بڑھیں گئیں، نفرتیں جنم لیں گئیں۔ پہلے ہی اٹھارویں ترمیم کو ختم کرکے صدارتی نظام لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، اسکا نتیجہ کیا ہوا، لوگوں میں بے چینی پھیلے گی، حکومت ایسے اقدامات کریگی تو خود بخود حالات 71ء والی اسٹیج پہ پہنچ جائیں گے۔ کسی بھی میڈیا کی سنسرشپ آئین کی خلاف ورزی ہے، جس نے آزادی اظہارِ رائے کو ایک بنیادی حق تسلیم کیا ہے۔

اس زمانے میں میڈیا کی جمہوریت کے لیے خدمات ہیں، موجودہ حکومت نے میڈیا کو دباؤ میں لینے کے لیے سینسر شپ کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ معلومات کے انقلاب کے اس دور میں میڈیا کردار اہم ترین ہے۔ اس وقت میڈیا ورکرز کو تین طرح کے مسائل کا سامنا ہے، جس میں تبدیلیاں، ان کی تنخواہوں میں بڑی حد تک کٹوتی اور تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی شامل ہے۔ 2014ء میں پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران میڈیا نے انہیں مکمل کوریج دی، لیکن جیسے ہی یہ جماعت اقتدار میں آئی تو اس نے سب سے پہلے اسی کو نشانہ بنایا۔

اسلام ٹائمز: کیا سیاسی عمل میں حصہ لینے والے گروپوں کو موقع فراہم نہیں کیا گیا کہ وہ اپنا موقف سوشل میڈیا کی بجائے پارلیمان میں پیش کریں، پھر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آزادی اظہار کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔؟
سینیٹر رضا ربانی:
یہ تو بدقسمتی ہے کہ جو لوگ پارلیمان میں تو پہنچ گئے ہیں، لیکن اپنا مقدمہ جس میں تضادات بھی ہونگے، وہ میڈیا پہ بیان نہیں کرسکتے، اگر تضادات ہونگے تو عوام خود اس کو نوٹ کر لینگے، اگر جمہوریت اور جمہوری اقدار کی بات کی جائے تو اس طرح کے مائنڈ سیٹ اور سوچ کی موجودگی میں وہ تو آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں، نہ ریاست کا فلاحی ہونے کا کوئی تصور ابھر سکتا ہے، بنیادی سوالات پیدا ہوتے رہیں گے۔ وہ تو موومنٹ بھی ہیں اور ایک سیاسی فورس بھی ہیں۔ خلاف قانون جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس پہ قانون کے مطابق ٹریٹ کیا جائے۔ لوگ تو اب بھی گرفتار کئے جا رہے ہیں، مقدمات بھی چل رہے ہیں، پھر بھی ریاستی اداروں کو شوق ہے کہ وہ اس پہ بات کرین۔

پھر پشتونوں کا کیا کرینگے، خود حکومت میں ساٹھ فیصد تو پشتون ہیں، انہیں کیا پیغام دے رہے ہیں، ہم تو کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی ریاستی ادارے کے ذریعے حکومت اپنا بیانیہ پیش نہ کرے، بلکہ جو بھی کہنا ہے خود کہیں۔ ورنہ ملک اور ریاست کا نقصان ہوگا، یہ ریاستی ادارے اس طرح متنازعہ ہو جائیں گے، انکی ساکھ متاثر ہوگی۔ آئین کا آرٹیکل 19 ہر شہری کو آزادی رائے کا حق دیتا ہے. اگر صحافی پر قدغن لگایا جائے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ آمریت میں سنسرشپ پر اخبار کی جگہ خالی چھوڑ دی جاتی ہے۔ اب دنیا میں جہاں مسنگ پرسن ہیں، وہی مسنگ نیوز بھی ہے، نامعلوم نمبر سے صحافیوں کو فون آتا ہے اور ایونٹ کا بلیک آؤٹ کر دیا جاتا ہے۔ ملک کے کسی پریس کلب میں بھی سیاسی جماعتیں پریس کانفرنس نہیں کرسکتیں، یہ آزادی اظہار کے منافی ہے۔
خبر کا کوڈ : 792176
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش