0
Tuesday 7 May 2019 23:41

تمام لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی تک احتجاجی دھرنا جاری رہیگا، خانم سلطانہ

سالوں سے جبری گمشدگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ لاپتہ شیعہ افراد کیخلاف کوئی ثبوت نہیں
تمام لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی تک احتجاجی دھرنا جاری رہیگا، خانم سلطانہ
جبری گمشدہ شیعہ افراد کے اہلخانہ کیجانب سے محمد علی سوسائٹی کراچی میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی رہائشگاہ کے سامنے احتجاجی دھرنا گذشتہ 28 اپریل 2019ء سے جاری ہے۔ لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کیلئے سات رکنی مذاکراتی کمیٹی بنائی گئی ہے، خانم سلطانہ کمیٹی کی رکن اور کراچی سے نومبر 2016ء سے لاپتہ نوجوان نعیم حیدر کی ہمشیرہ ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے خانم سلطانہ سے احتجاجی دھرنے کے حوالے سے احتجاجی کیمپ میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: احتجاجی دھرنا کن اغراض و مقاصد کے تحت دیا گیا ہے۔؟
خانم سلطانہ:
کراچی میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی رہائش گاہ کے باہر دیئے گئے احتجاجی دھرنے کا مقصد کراچی سمیت ملک بھر میں جبری گمشدہ کئے گئے شیعہ افراد کی بازیابی ہے۔ ملک میں شیعہ نسل کشی تو جاری ہی تھی، محب وطن شیعہ مسلمانوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا، ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، اب محب وطن شیعہ نوجوانوں اور افراد کو اسیر بھی کیا جا رہا ہے، ہمارے بچوں، بھائیوں کو گھروں سے، راستوں سے اٹھا کر جبری گمشدہ کیا جا رہا ہے، ہم نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن ہمیں کہیں سے بھی انصاف نہیں ملا، لہٰذا اب ہم نے صدر پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، ان کے گھر کے سامنے پُرامن احتجاجی دھرنا دیا ہے، ہمیں صدر پاکستان سے امید تھی کہ وہ ہم بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کے سروں پر دست شفقت رکھیں گے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے ایک کمیٹی بنا کر جبری گمشدہ افراد کے خانوادگان کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے بھیج دی، جس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، وفاقی وزیر علی زیدی و دیگر افراد شامل ہیں، اس کمیٹی نے ہم سے کہا کہ ہم دھرنا ختم کر دیں، ہم دونوں جانب سے تین تین افراد پر مشتمل چھ رکنی کمیٹی بنائیں گے، جو لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کیلئے کام کریگی، ہم لاپتہ افراد کی بازیابی کروائیں گے، لیکن ہم نے حکومتی کمیٹی کی تجویز مسترد کر دی۔

اسلام ٹائمز۔ مذاکرات کیلئے بنائی گئی کمیٹی میں کون کون ہے، کتنے افراد پر مشتمل ہے۔؟
خانم سلطانہ:
سات رکنی مذاکراتی کمیٹی ہے، ہم چار افراد جبری گمشدہ ہونے والوں کے اہلخانہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے تین ناصران ہیں، جن میں محترم صغیر عابد رضوی، راشد رضوی صاحب اور حسن رضا سہیل صاحب ہیں۔ اس طرح یہ سات رکنی مذاکراتی کمیٹی ہے۔ مذاکراتی عمل کے حوالے سے متاثرہ خانوادوں کو مکمل اعتماد میں لیا گیا ہے، ہمارے جو تین ناصران ہیں، وہ ہم سے پوچھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ مخصوص لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ ہے یا پورے ملک سے لاپتہ ہونیوالے افراد کی بازیابی کا۔؟
خانم سلطانہ:
ہم نے پورے ملک سے تمام لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے، ہمارا احتجاجی دھرنا صرف کراچی یا کچھ مخصوص افراد کی بازیابی کیلئے نہیں، بلکہ ہمارا دھرنا ملک بھر میں ہونے والے تمام لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کیلئے ہے، ہم تمام لاپتہ شیعہ افراد کے اہلخانہ کی نمائندگی کر رہے ہیں، تقریباً 80 سے زائد شیعہ افراد جبری گمشدہ کئے گئے ہیں، جن کی فہرست ہم نے گورنر سندھ صاحب کو دے دی ہے، جس پر خود گورنر صاحب نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ہم لاپتہ شیعہ افراد کے اہل خانہ کا مطالبہ درست ہے، کیونکہ ہمارا مطالبہ آئینی ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ جبری گمشدہ کئے گئے افراد کو رہا کیا جائے یا اگر ان پر الزام ہے، تو انہیں ثبوت کے ساتھ عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ کئی کئی سالوں سے شیعہ افراد کو جبری گمشدہ کرکے اپنے پاس رکھنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے بچوں کے خلاف اداروں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جاری احتجاجی دھرنے کو قوم کی کتنی حمایت حاصل ہے۔؟
خانم سلطانہ:
ہم خدا اور اس کی آخری حجت مولا امام زمان (عج) کی مدد و نصرت کے سہارے آگے بڑھ رہے ہیں، ہمارے احتجاجی دھرنے کو پوری شیعہ قوم کی بھرپور حمایت حاصل ہے، وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، ہمارے احتجاج میں شریک ہیں، روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین، بچے، بوڑھے، نوجوان دھرنے کے مقام پر آتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں ہمارے حق میں احتجاجی مظاہرے، علامتی دھرنے دیئے جا رہے ہیں، اس کے ساتھ بیرون ملک بھی ہمارے حق میں احتجاج کیا جا رہا ہے، ہم قومی حمایت کے حوالے سے مطمئن ہیں۔ ہم خصوصی طور پر اپنے علمائے کرام، ذاکرین عظام، ماتمی انجمنوں، تنظیموں، جماعتوں، اداروں و دیگر کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس کڑے وقت میں وہ ہمارے شانہ بشانہ ہماری جدوجہد میں شریک ہیں، ہمارے ساتھ استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سب نے آخری لاپتہ شیعہ کی بازیابی تک جدوجہد جاری رکھنے کی یقین دھانی کرائی ہے، حمایت کی ہے۔ دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے لاپتہ شیعہ افراد کے خانوادے، شہید ہونے والے افراد کے اہل خانہ بھی کراچی آکر ہماری حمایت کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کے رسپانس کے حوالے سے کیا کہیں گی۔؟
خانم سلطانہ:
حکومت کا کوئی خاص رسپانس نہیں ہے، جیسا کہ میں پہلے عرض کیا کہ گذشتہ دنوں گورنر سندھ کی سربراہی میں حکومتی وفد مذاکرات کیلئے آیا تھا، اس نے ہمیں کہا کہ ہم دھرنا ختم کر دیں، ہم لاپتہ شیعہ افراد کو بازیاب کروانا شروع کریں گے۔ لیکن ہم نے دھرنا ختم کرنے کی بات رد کر دی، ہم تو یہاں آئین کے تحت اپنا مطالبہ لیکر بیٹھے ہیں، ہم تو صرف یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمارے کسی فرد نے کوئی جرم کیا ہے، تو آپ ثبوت کے ساتھ اسے عدالت میں پیش کریں اور اگر کوئی الزام نہیں ہے، کوئی ثبوت نہیں ہے تو پھر انہیں رہا کرکے ہمارے حوالے کر دیں، کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ محب وطن شیعہ افراد کو بغیر کسی جرم و ثبوت کے دو سال، تین سال، چھ چھ سال، آٹھ آٹھ سالوں سے جبری گمشدہ کیا ہوا ہے، جن سے متعلق اہلخانہ کو کچھ نہیں پتا، نہ کبھی ملوایا گیا یا کوئی معلومات دی گئی ہیں۔

اسلام ٹائمز۔ لاپتہ شیعہ افراد کے حوالے سے ریاستی اداروں پر الزام عائد کیا جاتا ہے، اداروں کا رسپانس کیسا ہے۔؟
خانم سلطانہ:
جہاں تک بات ہے ریاستی اداروں کی تو ریاستی اداروں پر شیعہ افراد کی جبری گمشدگی کا صرف الزام نہیں بلکہ وہ براہ راست ملوث ہیں، بلکہ چار شیعہ نوجوانوں کی ایم آئی (پاکستانی خفیہ ایجنسی) کے پاس موجودگی کا ثبوت ہم نے خود وفاقی وزیر علی زیدی کو اس وقت دیا ہے کہ جب وہ گورنر سندھ کے ساتھ ہم سے مذاکرات کیلئے آئے تھے، کیونکہ علی زیدی صاحب کہہ رہے تھے کہ ہم لاپتہ افراد کو ڈھونڈیں گے، تو ہم نے انہیں کہا کہ آپ جنہیں ڈھونڈیں گے سو ڈھونڈیں گے، لیکن یہ چار تو ایم آئی کے پاس موجود ہیں، جس کی خود انہوں نے رپورٹ دی ہے۔ ہم نے بھی اداروں سے رابطے کئے، لیکن انہوں نے ہمیشہ انکار کیا کہ ان کے پاس کوئی لاپتہ فرد نہیں ہے، جبکہ کئی سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیجز موجود ہیں کہ جس میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ باوردی پولیس اور رینجرز اہلکار شیعہ جوانوں کو گھروں سے اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔

تمام لاپتہ افراد کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ پولیس، رینجرز، سادہ لباس اہلکار دروازہ توڑ کر، گھروں میں کود کر اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرکے ہمارے بچوں، بھائیوں گھروں سے اٹھا لے گئے ہیں۔ اگر آپ سچے ہیں، آپ کے پاس ثبوت ہیں، تو آپ وارنٹ گرفتاری لے کر دن کی روشنی میں سب کے سامنے آئیں، گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کریں، لیکن اس طرح سے جبری گمشدہ کرنا، کئی کئی سالوں غیر آئینی، غیر قانونی حراست میں رکھنا، عدالتوں میں پیش نہ کرنا یا پھر کچھ کو طویل عرصے بعد مختلف الزامات کے تحت منظر عام پر لانا ان کے غلط ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ خدانخواستہ ہمارے کسی بچے نے کوئی جرم کیا ہے تو آپ ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں سے سزائیں دلوائیں، تاکہ ہمیں بھی پتہ ہو کہ ہمارے بچے نے کچھ غلط کیا ہے، لیکن اس طرح کئی کئی سالوں جبرہ گمشدہ رکھنا انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی، غیر آئینی و غیر قانونی ہے، ہم صرف اس کے خلاف صدائے حق بلند کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لاپتہ افراد کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، کیا مطالبہ کرینگے آپ لوگ۔؟
خانم سلطانہ:
سب سے پہلے تو حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ تمام ریاستی ادارے حکومت کے ماتحت ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ریاستی ادارے بھی ذمہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ اور کون ذمہ دار ہوسکتا ہے۔ مطالبہ وہی ہے کہ جبری گمشدہ کئے گئے ہمارے پیاروں کو بازیاب اور رہا کروایا جائے، کسی کے خلاف کوئی الزام ہے تو مقدمہ درج کرکے ثبوتوں کے ساتھ عدالت میں پیش کر دیں۔ اس مطالبے کو پورا کئے بغیر ہم احتجاجی دھرنا ختم نہیں کرینگے۔

اسلام ٹائمز: احتجاجی دھرنا لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے کو اجاگر کرنے کے حوالے سے کتنا مؤثر ثابت ہوا ہے۔؟
خانم سلطانہ:
اس احتجاجی دھرنے نے جبری گمشدہ کئے گئے محب وطن شیعہ افراد کے حوالے سے ہر خاص و عام کو آگہی دے دی ہے، اس دھرنے کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں، لاپتہ شیعہ افراد کا مسئلہ پوری طرح ناصرف ملک، بلکہ بیرون ملک بھی اٹھایا جا چکا ہے، پوری شیعہ قوم میں اس وقت بیداری نظر آتی ہے، سب نے اپنے اپنے جھنڈے لپیٹ کر ایک ہی جگہ کھڑے ہوگئے ہیں، سب استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ بھرپور آواز بلند کر رہے ہیں، اس وقت سب ہم آواز ہوچکے ہیں، سب کا ایک مطالبہ ہے کہ تمام لاپتہ شیعہ عزاداروں کو بازیاب کرایا جائے، رہا کیا جائے۔ ہم رمضان میں بھی یہی بیٹھے ہیں، روزے بھی یہی رکھیں گے، یہی سحری اور افطار کرینگے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں گورنر سندھ کی سربراہی میں آنیوالے وفد کیساتھ مذاکرات کے حوالے سے آگاہ کر دیں۔؟
خانم سلطانہ:
گورنر سندھ کی سربراہی میں آنے والا وفد ہمارے مطالبات سے مکمل متفق تھا، انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن اس کے باوجود حکومتی وفد نے ہم سے یہی چاہا کہ ہم دھرنا ختم کر دیں، پھر دونوں جانب سے تین تین افراد پر مشتمل چھ رکنی کمیٹی بنا کر لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کیلئے مشترکہ کوششیں کریگی، کمیٹی کی مستقل میٹنگز ہونگی، لیکن ہم نے اس بات کو مسترد کر دیا اور واضح بتا دیا کہ ہم آخری فرد کی بازیابی تک یہاں دھرنا دیکر بیٹھیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا کوئی الٹی میٹم یا ڈیڈ لائن دی ہے حکومت کو یا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
خانم سلطانہ:
اگر ہمارے مطالبات یوم علیؑ یعنی اکیس رمضان المبارک تک نہیں مانے گئے تو ہم ملک بھر میں تمام مرکزی جلوسوں کو روک کر دھرنا دے دینگے۔
خبر کا کوڈ : 792873
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش