QR CodeQR Code

مدارس میں اصلاحات کے مخالفین دہشتگردوں کی افزائش اور حمایت کے قائل ہیں، شفقت محمود

10 May 2019 19:47

وفاقی وزیر کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی یعنی طالبان اٹھے ہی مدارس سے تھے، پھر کچھ مدارس ہی تھے، جہاں سے انہیں مسلسل افرادی قوت اور امداد ملتی رہی ہے۔ اگر انکی افرادی قوت کیلئے جو مدارس کام کرتے رہے ہیں، اگر انکا راستہ نہ روکا جائے تو ساری زندگی بس ہماری سکیورٹی فورسز جنگ ہی لڑتی رہیں اور نئے سے نئے دہشتگرد پیدا ہوتے رہیں، دہشتگردی کی جنگ جیتنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ انکو جہاں سے کمک ملتی ہے، وہ راستہ بند کیا جائے۔


وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود 1950ء میں پیدا ہوئے، 1970ء میں پنجاب یونیورسٹی سے نفسیات میں ماسٹر کیا، 1981ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر مکمل کیا، 1987ء میں کیلیفورنیا سے پبلک پالیسی میں ماسٹر کیا۔ 1973ء میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ملازمت اختیار کی، 1990ء میں جوائنٹ سیکرٹری ریٹائرڈ ہوئے۔ 1990ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ترجمان رہے۔ 1994ء میں سینیٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے، 2000ء تک سینیٹ کے ممبر رہے، نگران وزیراعظم معراج خالد کیساتھ فوڈ، ایگریکلچر، لائیو اسٹاک، ماحولیات، اربن افیئرز، جنگلات، لوکل گورنمنٹ، دیہی امور کے وفاقی وزیر رہے، 1999ء میں مشرف دور میں پنجاب کے وزیر اطلاعات رہے، 2011ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے، 2013ء میں رکن قومی اسمبلی بنے، 2018ء میں پھر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وفاقی وزیر کیساتھ مدارس میں اصلاحات اور اصلاحات پر ہونیوالی تنقید سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ مدارس میں اصلاحات صرف سیاسی بنیادوں اور آئی ایم ایف یعنی بیرونی دباؤ پر کی جا رہی ہیں، کیا یہ درست ہے۔؟
شفقت محمود:
اس میں ایک اہم بات تو یہ ہے کہ اصلاحات سے پہلے تمام مدارس کے جو وفاق ہیں، ان سے مشاورت کی گئی ہے، پھر جو اقدامات تجویز کئے گئے ہیں، وہ بہت سارے مدارس بلکہ مدارس کے نظام اس کو لاگو کرچکے ہیں، کئی مدارس جدید تعلیم متعارف کروا چکے ہیں۔ اس میں انہیں مسئلہ یہ ہے کہ انکی ڈگری مارکیٹ میں قابل قبول نہیں، فی الحال یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ انہیں وزارت تعلیم کے ماتحت کر دیا جائے، تاکہ ان کے سرٹیفیکیٹ اور ڈگری قابل قبول ہو، جو مدارس محنت کرتے ہیں۔ طالب علم اپنا وقت استعمال کرتے ہیں، وہ ضائع نہ ہو بلکہ ان کے کیئریئر میں انکے کام آئے۔ پھر جے یو آئی یا فضل الرحمان کا اعتراض اس لیے بھی درست نہیں کہ جو نینشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا، اس میں مدارس کی اصلاحات کا نکتہ بھی شامل تھا، یہ ضروری ہیں۔ پہلے ہی ان اصلاحات پر عمل درآمد نہیں ہوا، اس میں دیر ہوگئی، کیا لاکھوں بچے جو مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان کو معاشرے کا فعال اور مفید شہری بنانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں ہونے چاہیں، اگر مولانا صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاست ہے تو وہ سمجھتے رہیں۔

یہ اقدامات ایک اچھی سیاست ہے، سب کو اس کی حمایت کرنی چاہیئے، پہلے سے اس پر قومی اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ جب اتنی بڑی تعداد میں طالب علم اپنا روزگار کمائیں گے تو وہ ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ اس کے علاوہ جو دہشت گردی کے حوالے سے تحفظات ہیں، انہیں بھی سامنے رکھنا چاہیئے، آپ دیکھیں ٹی ٹی پی یعنی طالبان اٹھے ہی مدارس سے تھے، پھر کچھ مدارس ہی تھے، جہاں سے انہیں مسلسل افرادی قوت اور امداد ملتی رہی ہے۔ اگر انکی افرادی قوت کیلئے جو مدارس کام کرتے رہے ہیں، اگر انکا راستہ نہ روکا جائے تو ساری زندگی بس ہماری سکیورٹی فورسز جنگ ہی لڑتے رہیں اور نئے سے نئے دہشت گرد پیدا ہوتے رہیں، دہشت گردی کی جنگ جیتنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ ان کو جہاں سے کمک ملتی ہے، وہ راستہ بند کیا جائے، اس طرف سے دیکھیں تو مولانا فضل الرحمان ان دہشت گردوں کی حمایت اور انکی افزائش کے قائل ہیں اور غصہ اپنا حکومت پر اتار رہے ہیں۔ اصلاحات کا مخالف کوئی بھی ہو وہ اسی کیٹیگری میں آئے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا مدارس کو بند کرنے سے دہشتگردی کا راستہ روکا جا سکتا ہے، لاکھوں کی تعداد میں پڑھنے والے طالب علموں کو متبادل ذرائع سے تعلیم فراہم کی جا سکتی ہے۔؟
شفقت محمود:
پہلی بات تو یہ ہے کہ مدارس کو مکمل بند کرنیکی کوئی پالیسی نہیں، صرف موجودہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے کیلئے اصلاحات کی جا رہی ہیں، جو ضروری ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں پڑھنے والے طالب علموں کو باقی اسکولوں، کالجوں میں زیر تعلیم طلبہ کی طرح وزارت تعلیم کے ذریعے یہ کام کیا جا رہا ہے۔ مدارس کیخلاف کوئی جنگ نہیں چھیڑی جا رہی۔ باقی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طالب علموں کی طرح مدارس میں زیر تعلیم طالب علموں کا حق ہے کہ حکومت انکی فلاح و بہبود اور بہتر مستقبل کیلئے ان پر توجہ دے۔ مولانا کا مسئلہ یہ ہے کہ آج وہ ایک لٹے ہوئے کارواں کو لیکر سڑک کنارے بیٹھے ہیں۔ ان کی ساری کمائی اور قوت مدارس میں پڑھنے والے بچے اور وہاں پڑھانے والے علماء ہیں، وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ ان کے دست نگر رہیں، انہیں کے ہاتھ سے لیں اور انہی کے اشاروں پہ جہاں مولانا ملین مارچ کریں یا احتجاج کریں، ان کی کال پر آجائیں، انکی طرف سے مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اگر مدارس کو حکومت وزارت تعلیم کے انڈر کر دے تو مولانا کی یہ حیثیت ختم ہو جاتی ہے، وہ کسی مدرسے سے طلاب کو نہیں بلا سکتے، اس سے مولانا کی سیاست اور سیاسی طاقت ختم ہو کر رہ جائیگی۔ مولانا صاحب کی سیاست کا محور ہی یہ ہے۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب کے اعتراض سے ہٹ کر یہ سوال ہے کہ جب لاکھوں طالب علموں کو مفت تعلیم دی جا رہی ہے تو یہ کام حکومت کیسے سنبھالے گئی، ایک پہلو یہ ہے کہ مدارس اپنا کام اپنے بل بوتے پر کریں، لیکن حکومت کنٹرول اپنا بنا لے، یہ اعتراض درست نہیں۔؟
شفقت محمود:
یہ بات اتنی سادہ نہیں، جو کہا جاتا ہے کہ مدارس میں لاکھوں طالب علم مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یہ جو مفت تعلیم دی جاتی ہے، کیا علماء کی یا مدراس کی فیکٹریاں ہیں، یہ پیسہ بھی تو لوگ ہی دیتے ہیں، مدرسہ صرف سہولت فراہم کرتا ہے، اس کام سے کوئی نہیں روک رہا، صرف معاشرے کی ضرورت اور طالب علم کے مستقبل کو سدھارنے کیلئے اصلاحات ضرروی ہیں۔ پھر آپ دیکھیں اگر یہ کہا جاتا ہے کہ مدارس ہی لاکھوں طالب علموں کو پڑھا رہے ہیں، اس کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں بچے بچیاں ہیں، جو زیرتعلیم ہیں، اگر حکومت ان کے تعلیمی معاملات کو چینلائز کر رہی ہے تو اس میں کیا حرج ہے کہ مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنیوالوں کو بھی انکا حق دیا جائے اور ریاست اور حکومت ان پر توجہ دے۔

اسلام ٹائمز: لاکھوں کی تعداد میں تو صرف مدارس ہی طالب علموں کو مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں، کوئی اور غیر سرکاری شعبہ اتنی بڑی شراکت کا متحمل نہیں، مدراس کا موازنہ کمرشل تعلیمی اداروں سے کیسے کیا جا سکتا ہے۔؟
شفقت محمود:
ہاں ایک طرف تو یہ اصلاحات کی مخالفت سیاسی بنیادوں پر کی جا رہی ہے، دوسرا یہ ہے کہ جے یو آئی جیسے گروپوں کے زیر اثر اور زیر انتظام مدارس ایک کاروبار بھی ہے، انکا تمام گھرانہ اور قریبی رشتہ دار اس میں حصہ دار ہیں، ان سب کے ایک درجن دو دو درجن مدارس چل رہے ہیں، ماشاء اللہ بہت اچھا کاروبار ہے، پھر ساتھ یہ دباؤ ڈالنے کیلئے سیاسی انسٹرومنٹ بھی ہے۔ یہ مدارس میں زیر تعلیم طالب علموں کے نام پہ بہت کچھ کماتے بھی ہیں، ساتھ جب بھی کال دیں وہ سایسی مظاہروں کیلئے اکٹھے بھی ہو جاتے ہیں، پھر دوسرے سیاسی کارکنوں کی نسبت یہ لوگ زیادہ جذباتی انداز میں میں کام کرتے ہیں، کیونکہ انہیں مذہب اور اسلام کے نام پر سیاست کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملتان میں کئی کنال جگہ مدرسے کے نام پہ لی گئی اور وہاں کئی دکانیں بنائی گئی تھیں، جو غیر قانونی تھیں۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف پی ٹی آئی جے یو آئی کی سخت مخالف ہے، دوسری طرف کم عمری کی شادی اور انسانی حقوق سے متعلق بل پر دونوں متفق ہیں، کیا حکمران جماعت کی سوچ قدامت پسندانہ ہی ہے۔؟
شفقت محمود:
نہیں ایسی کوئی بات نہیں، ہمارا ایسا کوئی مطمع نظر نہیں، پی ٹی آئی میں سب جماعتوں سے زیادہ خواتین فعال ہیں، لیکن مذہبی جماعتیں بالخصوص مولانا صاحب کو ہمیشہ جب بھی خواتین کے حقوق کی بات ہو تو مذہب یاد آتا ہے، وہ بھی سیاسی مخالفت کیلئے، لیکن جب انکے ذاتی مفاد کا خیال رکھا گیا ہو، وہاں یہ سب چیزیں وہ جائز قرار دیتے ہیں، اس کی کئی مثالیں ہیں، یہی مولانا صاحب جنرل مشرف کے اتحادی تھے، صوبہ سرحد اسمبلی میں جب مشرف کو ضرورت تھی تو یہ صاحب سرکاری خرچے پر عمرے پر چلے گئے، تاکہ اسمبلی کی کارروائی مشرف صاحب کی مرضی سے مکمل ہوسکے۔ جب اس بل کی معیاد گذر گئی تو پھر مولانا واپس آگئے۔ اس وقت تو ان کو شریعت اور اسلام یاد نہیں تھا، اب انہیں اسلام اور مدارس کی یاد ستا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا حکومت کیلئے بہتر نہیں کہ وہ ایک بار پھر علماء سمیت تمام سیاسی مذہبی رہنماؤں کو اعتماد میں لیں، تاکہ اصلاحات سمیت قانون سازی کا عمل مکمل ہوسکے۔؟
شفقت محمود:
یہ بات تو سارا ملک جانتا ہے کہ مولانا صاحب ان دنوں میں بہت برہم اور ناراض ہیں، انکے غصے کی وجہ سب کو پتہ ہے، اسی لیے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ حکومت کیخلاف کسی فعال احتجاج کا حصہ بن سکیں، اس وجہ سے وہ اس حد تک منفی راستے پر چل رہے ہیں کہ ملکی اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، آپ خود دیکھیں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پہ انہوں نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے اصلاحات کی بات کر رہے ہیں، یہ ایک جھوٹا اور بھونڈا الزام ہے، جو مولانا نے قومی اداروں پر لگایا ہے۔ یہ اصلاحات کی بات تو نہ صرف ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے بلکہ 2002ء سے یہ قومی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ اس کیلئے 2 اعشاریہ سات بلین روپے بھی مختص کیے گئے ہیں۔ اب قانون سازی تو جو پہلے ہوچکی ہے، وہی کافی ہے اگر اس پر عملدرآمد کروایا جائے تو۔

مولانا صاحب اگر ان طالب علموں کیلئے مخلص ہیں تو کہیں کہ حکومت جو بجٹ مختص کیا گیا ہے، اس کو زیادہ کریں۔ انہوں نے کوئی مثبت بات تو کی ہی نہیں، ہمارے دین میں یہ تو ممانعت ہے ہی نہیں کہ آپ دینی تعلیم کیساتھ معاشیات، ریاضی، میڈیکل اور دوسرے علوم نہ سیکھیں۔ حکومت ان بیانات سے بلیک میل نہیں ہوگی۔ مولانا صاحب تو جب سے اسمبلی سے باہر ہوئے ہیں، انہوں نے سیاست کا بازار گرم کر رکھا ہے، وہ تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ یوم آزادی بھی نہیں منائیں گے، یعنی ایسا پاکستان جس کی اسمبلی میں وہ مراعات نہیں لے رہے، اسے وہ آزاد بھی تصور نہیں کرتے، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کی وجہ سے دباؤ میں آکر حکومت اقدامات چھوڑ دے اور قانون سازی مکمل نہ کرے۔

اب بھی وہ جو اخراجات کر رہے ہیں، اپنی جیب سے تو نہیں کر رہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جو بھی فنڈنگ ہو رہی ہے، وہ صرف مولانا صاحب کے ذریعے ہی ہو۔ اس کے علاوہ جتنی بھی زیادہ ہو، وہ یہی کہیں گے کہ زیادتی ہو رہی ہے۔ یہ دراصل پاکستان اور لاکھوں بچوں کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے، اس کو اس طرح دیکھنا چاہیئے۔ حکومت ان بچوں کی کوالٹی آف لائف بڑھانا چاہتی ہے، وہ غریب بھی ہیں اور اپنے مذہب سے محبت بھی کرتے ہیں اور مستقبل میں مذہب کی نمائندگی بھی انہوں نے کرنی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان کیلئے بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ انتظامات کریں، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔


خبر کا کوڈ: 793386

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/793386/مدارس-میں-اصلاحات-کے-مخالفین-دہشتگردوں-کی-افزائش-اور-حمایت-قائل-ہیں-شفقت-محمود

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org