QR CodeQR Code

نریندر مودی میں وہ سب کچھ نہیں ہے جو ایک وزیراعظم سے امید کی جاتی ہے، شیلا دیکشت

15 May 2019 21:29

دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کی صدر کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ لڑنے کیلئے ہمارے پاس ایشوز ہیں۔ ہمیں دہلی کو سب سے اچھا شہر بنانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیئے، دہلی ملک کی دارالحکومت ہے۔ اسلئے اس پر لگاتار توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دہلی میں آپکے پاس گندی سڑکیں نہیں ہوسکتیں ہیں۔ بیرون ممالک سے ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ دہلی آتے ہیں۔ اسلئے ہندوستان کو یہ تصویر دینیکی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دہلی حقیقت میں کیسی ہے۔


شیلا دیکشت 1998ء سے 2013ء تک مسلسل تین بار دہلی کی وزیراعلٰی رہ چکی ہے۔ شیلا دیکشت بھارتی ریاست کریلا کی گورنر بھی رہ چکی ہے۔ دہلی یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹری کے اعزاز سے بھی نوازا ہے۔ آپ اترپردیش کی اسمبلی میں اہم منسٹری پر فائز رہ چکی ہیں۔ 1986ء سے 1989ء تک یونین منسٹر بھی رہ چکی ہیں۔  2008ء میں جرنالسٹ ایسوسی ایشن آف انڈیا نے آپ کو بہترین وزیراعلٰی کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ شیلا دیکشت جب 2013ء میں اسلمبی الیکشن ہار گئی تو دہلی کی وزیراعلٰی کی حیثیت سے استعفٰی دیا۔ 10 جنوری 2019ء کو شیلا دیکشت دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کی صدر منتخب کی گئیں۔ شیلا دیکشت اس بات کو لیکر مطمئن ہیں کہ ان انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی دہلی میں اچھی ہوگی۔ اسلام ٹائمز نے شیلا دیکشت سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: ابھی نئی دہلی میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، دہلی کے وزیراعلٰی اروند کیجریوال اسطرح کا ماحول بنا رہے ہیں جیسے کہ کانگریس نے انہیں دھوکہ دیا ہے اور اس وجہ سے دونوں جماعتوں میں اتحاد نہیں ہو پایا۔ اس حوالے سے آپ کی رای جاننا چاہیں گے۔؟
شیلا دیکشت:
میں نہیں مانتی کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔ ذاتی طور پر میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ اتحاد کے حق میں نہیں تھی، کیونکہ ہماری ایک بہت ہی مقتدر پارٹی ہے جس کی ملک بھر میں موجودگی ہے۔ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی تو صرف دہلی تک ہی محدود ہے یا ہریانہ میں اس کا معمولی سا وجود ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی ایک طویل مدتی پارٹی نہیں ہے، اس لئے بھلا ہم کیوں ان سے اتحاد کرتے۔ ہم نے بہت سارے الیکشن اپنی طاقت پر جیتے ہیں اور کچھ ہارے بھی ہیں۔ یہ سیاست کا ایک حصہ ہے۔

اسلام ٹائمز: یہاں عام آدمی پارٹی دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دیئے جانے کے ایشو پر لڑ رہی ہے، وہیں بی جے پی کا ایشو بھی مختلف ہے۔ کانگریس کا ایشو جاننا چاہیں گے۔؟
شیلا دیکشت:
دیکھیئے ہمارا ایشو ترقی و پیشرفت ہے۔ کانگریس یہاں پندرہ سال حکومت میں رہی ہے اور اس نے دہلی کو ایک جدید شہر کی شکل میں تیار کیا ہے۔ جتنا ممکن ہوسکا ہم نے دہلی کو فروغ دیا اور ہم نے دہلی پر اپنی چھاپ چھوڑی۔ بدقسمتی سے ان لوگوں کی وجہ سے ہم الیکشن ہار گئے۔ عام آدمی پارٹی نے لوگوں سے تمام طرح کے جھوٹے وعدے کئے، جیسے مفت بجلی اور مفت پانی کا وعدہ۔ لوگوں نے ان پر اعتماد کیا اور دھوکہ کھایا۔ جمہوریت میں لوگ بدلاؤ کی طرف دیکھتے ہیں، لوگوں نے بدلاؤ کی جانب رخ کیا لیکن اب کانگریس کو اس کے کاموں کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ان انتخابات میں ہم بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔ یہ بات بھی بتاتی چلوں کہ کوئی بھی مرکزی حکومت دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ نہیں دینا چاہے گی کیونکہ مرکزی حکومت پورے ملک کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس لئے دہلی میں اسے ترقی کی ضرورت ہے جو پوری ہندوستانیوں کو فخر محسوس کرا سکے۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ جھوٹے وعدوں کی بات کر رہی تھیں، آپ دو لیڈروں نریندر مودی اور اروند کیجریوال کے خلاف لڑ رہی ہیں، جنہوں نے اپنے انتخابات کے وقت بہت جھوٹے وعدے کئے تھے۔ آپ ان لیڈروں سے کس طرح لڑیں گی۔؟
شیلا دیکشت:
لڑنے کے لئے ہمارے پاس ایشوز ہیں۔ ہمیں دہلی کو سب سے اچھا شہر بنانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیئے، دہلی ملک کی دارالحکومت ہے۔ اس لئے اس پر لگاتار توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دہلی میں آپ کے پاس گندی سڑکیں نہیں ہوسکتیں ہیں۔ بیرون ممالک سے ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ دہلی آتے ہیں۔ اس لئے ہندوستان کو یہ تصویر دینے کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دہلی حقیقت میں کیسی ہے کیونکہ اگر ہم اس میں ناکام ہوتے ہیں اور دہلی کو ایک اوسط شہر بنا دیتے ہیں جو گندہ ہو، تو پھر مجھے فکر ہے کہ یہ دارالحکومت کی شکل میں اپنی پوزیشن ختم نہ کردے۔

اسلام ٹائمز: آپ بھارت کے بہترین وزرائے اعلیٰ میں سے ایک رہی ہیں جنہوں نے پندرہ سال کی طویل مدت تک یہاں حکومت کی ہے۔ اس لئے جاننا چاہیں گے کہ دہلی کے اہم چیلنجز کیا ہیں۔؟
شیلا دیکشت:
دیکھیئے بہت بڑا چیلنج یہ تھا کہ اپنی قوت پر کام کرنے کے لئے اقتدار کا ہونا اور ہمیں ہر کام کے لئے لیفٹیننٹ گورنر کے پاس جانا پڑتا تھا۔ ہمیشہ ایسا کچھ نہ کچھ ہوتا تھا جس سے ہمیں کام کرنے سے روکا جاتا تھا، ہم نے وہ رکاوٹ دور کی تھی۔ تمام رکاوٹوں کے باوجود ہم میٹرو، سی این جی، ائیر کنڈیشن اور بغیر ائیر کنڈیشن والی بسیں لانے میں کامیاب رہے لیکن اگر آپ آج اروند کیجریوال کو دیکھیں تو وہ طویل مدت تک بسیں لانے کی بات لگاتار کرتے رہے لیکن ایک بھی بس نہیں لائے۔ ہم نے دہلی کی بھلائی کے لئے معاون کی طرح کام کیا۔ ہماری حکومت میں ایک وقت میں اٹل بہاری واجپئی وزیراعظم تھے اور پھر منموہن سنگھ وزیراعظم ہوئے تھے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ اٹل بہاری واجپئی نے تعاون نہیں کیا کیونکہ یہ ہر پارٹی کے مفاد میں ہے کہ دارالحکومت کو خوبصورت ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: اپنی حکومت کے دوران آپ مرکزی حکومت کے ساتھ اچھے رشتے بنانے میں کامیاب رہیں لیکن دیکھا گیا کہ اروند کیجروال ہمیشہ حکومت کے ساتھ لڑائی کی حالت میں رہتے تھے۔ اس پر آپ کی کیا رای ہے۔؟
شیلا دیکشت:
مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کرنا مناسب ہے۔ ہمیں شہر کی بہتری کے لئے کام کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں قانون اور آئینی ڈھانچے کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے اور اگر آپ آئین سے باہر قدم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تب مجھے افسوس ہے کہ یہ ناکامی خود کی ہوتی ہے۔ اس طرح کی جنگ و جدل سے آپ کچھ بھی کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اروند کیجروال کی شبیہ میں بہت زیادہ گراوٹ آئی ہے۔ لوگوں نے انہیں تاریخی مینڈیٹ دیا تھا لیکن اب وہ دھوکہ کھائے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نریندر مودی کے بارے میں کیا رای رکھتے ہیں۔؟
شیلا دیکشت:
میں ان پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی ہوں کیونکہ وہ بھارت کے وزیراعظم ہیں، لیکن ایک چیز میں کہنا چاہوں گی اور وہ یہ کہ دیگر وزیراعظم جس طرح کے وقار کا مظاہرہ کرتے تھے وہ وقار مودی میں نہیں ہے۔ اس حوالے سے لوگ بات کررہے ہیں۔ پوری بھارت میں یہ ایک سوچ قائم ہوئی ہے کہ یہاں وہ سب کچھ نہیں ہے جو ایک وزیراعظم سے امید کی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: انتخاب کے چار مراحل ہوچکے ہیں۔ کیا آپ ابھی تک کی کانگریس پارٹی کی کارگردگی سے مطمئن ہیں۔؟
شیلا دیکشت:
اس کا اندازہ لگانا میرے لئے مشکل ہے کیونکہ انتخاب کئی مراحل میں ہو رہے ہیں اور پہلا مرحلہ کسی خاص علاقے یا حصے کی نمائندگی کرسکتا ہے اور دوسرا مرحلہ سماج کے کسی دوسرے حصے کی نمائندگی کرسکتا ہے۔ ایک علاقے کی امیدیں دوسرے علاقے سے کافی مختلف ہوسکتی ہیں، اس لئے ہمیں کچھ وقت کے لئے انتظار کرنا چاہیئے۔ راہل گاندھی نے بھی کہا کہ یہ انتخاب ہندوستان کی روح کے لئے ہے، وہ درست کہہ رہے ہیں کیونکہ یہ انتخاب بھارت کے اس جمہوری نظریہ کو بچانے کے لئے ہے جس کی بنیاد کانگریس نے رکھی تھی۔ پرینکا گاندھی نے بھی بہت مثبت اثر ڈالا ہے اور وہ بہت مقبول ہو رہی ہیں۔ لکھنؤ میں راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کا روڈ شو پر لوگوں کا جو ردعمل تھا وہ انتہائی قابل دید تھا۔ بس اب ہمیں انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیئے۔


خبر کا کوڈ: 793579

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/793579/نریندر-مودی-میں-وہ-سب-کچھ-نہیں-ہے-جو-ایک-وزیراعظم-سے-امید-کی-جاتی-شیلا-دیکشت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org