QR CodeQR Code

پاکستان کو ممکنہ جنگ کی صورت میں ایران کا ساتھ دینا چاہیئے، کیپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع

19 Jun 2019 23:08

اپنے خصوصی انٹرویو میں جی بی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں کوئی را کا نیٹ ورک نہیں، پرامن لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جی بی میں کوئی علیحدگی پسند تحریک نہیں چل رہی، اپوزیشن جماعتیں چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر یکطرفہ فیصلہ قبول نہیں کریں گی، اگر ایسا کچھ ہوا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، ایران کے ساتھ ہمارا عقیدے کا رشتہ ہے۔


کیپٹن شفیع اسوقت گلگت بلتستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، اسلامی تحریک پاکستان کیطرف سے حلقہ نمبر تین سے وزیر تعمیرات ڈاکٹر اقبال کیخلاف الیکشن لڑا تھا لیکن ہار گئے تھے، اسکے بعد اسلامی تحریک انہیں ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر لائی اور کچھ عرصہ قبل اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے۔ اسلام ٹائمز نے کیپٹن شفیع سے گلگت بلتستان میں پکڑے جانے والے را نیٹ ورک، خطے کے حقوق اور دیگر اہم امور پر انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: کچھ ہفتے پہلے گلگت میں حمید نیٹ ورک کی گرفتاریوں کا دعویٰ کیا گیا، بتایا گیا کہ را کے نیٹ ورک کو توڑا گیا ہے۔ اس پر آپ کیا کہتے ہیں۔؟
کیپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع:
میں نہیں سمجھتا کہ حال ہی میں کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے، آج سے ایک ڈیڑھ سال پہلے کچھ بندے یاسین کے علاقے سے گرفتار ہوئے تھے، جن کو بی این ایف حمید گروپ سے منسلک کیا گیا تھا، ان افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، مگر عدم ثبوتوں کی بنا پر گرفتار افراد کو ضمانت مل گئی تھی، دوسرا یہ جو بات آپ کر رہے ہیں یا پاکستانی میڈیا کے ذریعہ معلومات سامنے آئی ہیں، اس پر یہی کہوں گا کہ حمید خان نے آٹھ فروری کو سرنڈر کر دیا تھا، وہ تین چار مہینے کہاں اور کس کے پاس رہا، ابھی یہ معلومات نہیں بتائی گئیں، اب اچانک نیوز بریک کر دی گئی ہے کہ حمید کو چودہ بندوں کے ساتھ ہتھیاروں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس خبر پر میں نے بطور اپوزیشن لیڈر ایک پریس ریلیز بھی جاری کی، جس میں سوال اٹھایا کہ اگر یہ گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں تو ہمارے علم میں نہیں کہ کونسے علاقے سے یہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں، اگر کوئی ہتھیار برآمد ہوئے ہیں تو ان کے بارے میں بھی ہم لاعلم ہیں۔

اہم بات یہ کہ حمید کے علاوہ گرفتار ہونے والے افراد کون ہیں؟، ان کی تاحال شناخت نہیں کرائی گئی، گلگت بلتستان تو ایک فیملی کی مانند ہے، یہاں پر ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہے۔ یہ چند سوالات اٹھائے تھے مگر اکثر اخبارات نے میرا بیان ہی نہیں چھاپا، اسمبلی میں اس ایشو کا اٹھائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں تو ہماری ایجنسیوں کی بڑی کامیابی ہے، مگر ان گرفتاریوں پر پردہ کیوں ڈالا جائے؟، تمام تفصیل قوم کے سامنے آنی چاہیئے۔ ہم خراج تحسین پیش کریں گے۔ لیکن اگر یہ گلگت بلتستان کی آواز دبانے کی سازش ہے تو ہم اس کی اسمبلی میں بھی مخالفت کریں گے اور باہر بھی آواز بلند کریں گے۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان میں ریاست مخالف کارروائیاں بڑھ رہی ہیں تو دوسری جانب یہ اعلان کہ گلگت بلتستان میں را کا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے، کہیں جی بی کی فضا کیخلاف کوئی سازش تو نہیں ہو رہی۔؟
کیپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع:
یقین مانیں مجھے اس دعوے پر حیرانگی ہو رہی ہے، دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارت نے ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کرکے گلگت بلتستان میں اپنا نیٹ ورک بنایا ہے جبکہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے تو ایک گملا تک نہیں توڑا، یہ بھی حیرانگی والی بات ہے کہ ایک ارب لگا کر فقط چودہ افراد کا نیٹ ورک قائم کیا گیا، یہ تو پھر کچھ بھی نہیں، دیکھیں ہم ستر سال سے اپنے حقوق مانگ رہے ہیں، گلگت بلتستان میں کوئی آزادی یا علیحدگی کی تحریک نہیں چل رہی، ققط اپنے حقوق کی بات کر رہے ہیں، اس طرح کے گمرہ کن پراپیگنڈے جی بی کے عوام کیخلاف ایک سازش سے بڑھ کر نہیں، ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے، میں کہتا ہوں کہ ہمیں دیوار سے لگانے کے بجائے ہمارا شکریہ ادا کرو، ہم پرامن لوگ ہیں اور اپنے حقوق کی بات کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: کچھ عرصے پہلے آپکو بھی جیل میں ڈالا گیا تھا، خیریت تھی۔؟
کیپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع:
اس کے پیچھے بھی ان کے کوئی اپنے مقاصد تھے، ایک متنازعہ شخصیت جو اے ٹی اے کا کوئی انتظامی جج تھا، اس کو چیف الیکشن کمشنر بنانے کیلئے کوشش کی گئی تھی، جس پر میں نے اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناطے مخالف کی تھی، کیونکہ وہ اس کا اہل نہیں تھا، وہ اس کی اہلیت نہیں رکھتا تھا، وہ کسی بھی لحاظ سے اس معیار پر پورا نہیں اترتا تھا، بس اس مخالفت پر مجھے گرفتار کرایا گیا، مجھے پریشر میں لانے کی کوشش کی گئی، مجھے کہا گیا کہ اس جج کے ساتھ اپنے معاملات طے کر لو، ورنہ گرفتار کرلیا جاوں گا۔

اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ ذاتی وارنٹ پر قومی مسئلے پر سمجھوتہ نہیں کروں گا، مجھے کہا گیا تھا کہ اس کے ساتھ (جج) صلح کر لو، کیونکہ گرفتاری سے ایک مہینہ پہلے مجھ پر پریشر کر رہے تھے کہ میں جج کے ساتھ اپنے معاملات طے کر لوں، ورنہ گرفتار کرلیا جاوں گا، اس پر میں نے یہی کہا تھا کہ اپنے ذاتی وارنٹ کہ وجہ سے قومی مسئلے پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا، اگر کوئی وارنٹ ہیں تو سامنا کروں گا، یہی وہ چیز تھی جس کی بنیاد پر مجھے گرفتار کرکے اندر ڈال دیا گیا۔ اس پر ان کو شرمندگی اٹھانا پڑی، مجھے کہا گیا کہ ضمانت لے لو اور مخالفت چھوڑ دو، لیکن میں نے انکار کر دیا تھا۔ میں نے چیف کورٹ سے ضمانت کروا لی۔

اسلام ٹائمز: اس جج کی اپنی کیا حیثیت ہے اور کس بنیاد پر چیف الیکشن کمشنر لگنا چاہ رہا تھا یا لگایا جارہا تھا۔؟
کیپٹن شفیع:
بنیادی طور پر یہ ایک غیر قانونی پراسیکیوٹر تھا، یہ اے ٹی اے کا جج بننے کا بھی اہل نہیں تھا، غیر قانونی طور پر اسے تین بار اے ٹی اے میں بطور جج توسیع دی گئی، کیونکہ یہ جج مسلم لیگ کا دایاں بازو سمجھا جاتا ہے، چیف منسٹر کے ساتھ خاص تعلقات ہیں، اس جج کی جن کے ساتھ وفاداریاں تھیں اور ان کے لیے کام کرتا رہا، اس کا صلہ دینے کیلئے ان اداروں اور افراد نے سینئیر ججز کی تضحیک کرکے اسے آوٹ آف دی وے جاکر چیف الیکشن کمشنر بنانے کی کوشش کی۔ چیف کمشنر بنانے کا طریقہ کار تو یہ ہے کہ گریڈ اکیس کا بیوروکریٹ ہو یا پھر ہائیکورٹ یا چیف کورٹ کا جج یا سپریم ایپلٹ کورٹ کا جج ہو۔

لیکن یہ صاحب کسی بھی معیار پر پورا نہیں اتر رہے تھے، دوسرا چھ اپوزیشن جماعتیں جن کو میں لیڈ کر رہا ہوں، اس کو بائی پاس کیا جا رہا تھا، اس سے پارلیمانی روایات کو نقصان پہنچایا گیا، پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر ایک غیر جانبدار عہدہ ہوتا ہے، اس کی تعیناتی جب بھی ہو، اس میں اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے، ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا تھا، ایک ہمارا اعتراض کرنے کی وجہ یہ تھی اور دوسرا وہ اہل بھی نہیں تھا، تیسرا سینیئر ججز کو اس پینل میں رکھ کہ اسکی سفارش کرنے کا مطلب عدالتوں اور سینیئر ججز کی توہین تھی۔ اس وجہ سے ہم نے مخالفت کی۔

اسلام ٹائمز:اب معاملہ رک گیا ہے یا ابھی چل رہا ہے۔؟
کیپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع:
معاملہ ابھی چل رہا ہے، وہ اپنی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، لیکن سمری میرے خیال میں لا منسٹری میں اب بھی پڑی ہوئی ہے، اگر وفاقی حکومت کی طرف اس جج کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو اس کے بڑے سنگین نتائج سامنے آئیں گے، گلگت بلتستان کی عوام گھروں سے نکلیں گے، میں عوام کو سڑکوں پر نکالوں گا، میں یہ چیلنج سے کہتا ہوں کہ یکطرفہ کوئی بھی کام ہوا تو اس کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے، ہم اب بھی کہتے ہیں کہ اس سمری کو ٹرن آوٹ کریں، میرٹ کو فالو کریں، جو میرٹ پر پورا اترے اسے چیف الیکشن کمشنر لگائیں۔

اسلام ٹائمز: سیاست سے ہٹ کر عالمی منظرنامے پر بات کرتے ہیں، خطے میں ایران امریکہ کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، آپ اسکو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
کیپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع:
میرا موقف یہ ہے کہ امریکا اپنے ڈالر اور اقتصاد کی وجہ سے دنیا پر حکومت کرتا ہے، لیکن اس کے مقابلے میں ایران اپنے عقیدے پر کھڑا ہے، اس دنیا میں سچ سچ ہوتا ہے، جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے، آپ اپنے اہداف کے حصول میں جتنے بھی ڈالر لگا دیں، لیکن آخری جیت حق اور سچ کی ہی ہوتی ہے، الحمد اللہ ایران اپنے اصولی موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور فتح ایران کی ہی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں پاکستان کا اصولی موقف کیا ہونا چاہیئے۔؟
کیپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع:
اگر ہمارے پیش نظر ڈالر نہیں ہے تو ہمیں ایران کا ساتھ دینا چاہیئے، ایران ہمارا ہمسایہ اور برادر ملک ہے، ہماری اپنی بنیاد کلمہ طیبہ ہے، اس بنیاد پر ہمیں ہر صورت اپنے بھائی ملک کا ساتھ دینا چاہیئے۔ آج اسلام کا حقیقی پیروکار تو ایران ہے۔

اسلام ٹائمز: کچھ تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ ایران اگر ٹارگٹ ہوا تو پھر اگلا نمبر پاکستان کا ہے، امریکا اور اسرائیل کبھی بھی ایک ایٹمی ملک کو برداشت نہیں کرینگے۔؟
کیپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع:
ظاہر ہے امریکا کے عزائم تو یہی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کو زیر عتاب لائیں، ایران امریکہ کا دشمن ہوسکتا ہے تو پاکستان کیسے دوست ہوسکتا ہے؟، ایران اور پاکستان تو دو برادر ملک ہیں، دونوں کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے، ہم ایک عقیدے اور ایک مذہب کے ماننے والے ہین، جب ایران اچھا نہیں لگا تو ایک ایٹمی اسلامی ریاست کیسے برداشت ہوسکتی ہے۔


خبر کا کوڈ: 796834

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/796834/پاکستان-کو-ممکنہ-جنگ-کی-صورت-میں-ایران-کا-ساتھ-دینا-چاہیئے-کیپٹن-ریٹائرڈ-محمد-شفیع

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org