0
Tuesday 2 Jul 2019 14:25
پنجاب میں شریف خاندان کی فرعونی سیاست کا سورج غروب ہونیوالا ہے

آرمی چیف نے کھل کر عمران خان کی پالیسیوں پر اعتماد اور حمایت کا اظہار کیا ہے، محترمہ شمیم آفتاب

آرمی چیف نے کھل کر عمران خان کی پالیسیوں پر اعتماد اور حمایت کا اظہار کیا ہے، محترمہ شمیم آفتاب
خواتین کی خصوصی نشست پر پی ٹی آئی کی رکن پنجاب اسمبلی محترمہ شمیم آفتاب 2000ء سے خواتین کے حقوق اور بہتری کیلئے سرگرم عمل ہیں، 2006ء میں خواتین اسلام آباد چیمبر آف کامرس میں شامل ہوئیں، بعد ازاں چیمبر کی چیئرپرسن منتخب ہوئیں، 2010ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ 2013ء میں پی ٹی آئی نارتھ پنجاب کی جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئیں، اسوقت پی ٹی آئی پنجاب کی وائس چیئرپرسن ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رکن اسمبلی کی سرگودہا آمد کے موقع پر اپوزیشن ارکان اسمبلی کی بنی گالا میں وزیراعظم کیساتھ ملاقات، حکومتی صفوں میں پیدا ہونیوالے استحکام اور اپوزیشن کیلئے پیدا ہوتی مشکلات سمیت اہم ایشوز پر انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے آرمی چیف کی رائے حکومتی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کیلئے استعمال کی جانی چاہیئے۔؟
محترمہ شمیم آفتاب:
یہ نہ صرف آرمی چیف بلکہ ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ یکجہتی کی فضاء برقرار رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے، کچھ چیزیں ایسی ہیں، جن پر سیاست نہیں کی جانی چاہیئے، جیسے ملکی معیشت ہے، یہ سارے پاکستان کا مسئلہ ہے اور سب کا رویہ ذمہ دارانہ ہونا چاہیئے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پہ اپوزیشن، حکومت، فوج اور باقی سب اداروں کو ایک نکتے پہ جمع ہونا چاہیئے، لیکن جو آرمی چیف نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے سخت اور مشکل فیصلوں پہ سب کو ان کا ساتھ دینا چاہیئے، اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ موجودہ حکومت، وزیراعظم اور ان کی پالیسییوں کی تائید کر رہے ہیں، یہ بات انہوں نے بڑا زور دیکر کہی ہے کہ کمزور معیشت سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس قسم کے معاملات کو سیاسی رنگ دے دیتے ہیں اور مخالفت کا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔ انکی تو صورتحال یہ ہے کہ تیل نہیں نکلا تو انہوں نے اسکو بھی حکومتی ناکامی قرار دیا اور خوشیاں منانا شروع کر دیں کہ عمران خان نے کہا تھا کہ تیل نکلے گا، لیکن نہیں نکلا۔

اس بات کو سمجھنا چاہیئے کہ یہ پاکستان کی بات ہے، اگر کہیں کمزوری ہے تو اس سے پورا پاکستان نقصان اٹھا رہا ہے، آرمی چیف کی بات مثبت انداز میں لینا چاہیئے، نہ فوج کو متنازعہ بنانا چاہیئے، نہ ہی حکومت کی پالیسیوں کو فقط سیاسی مخالفت کی وجہ سے ناکام بنانے کیلئے کوشش کرنی چاہیئے۔ دوسرا یہ ہے کہ اگر اپوزیشن والے اتنے بڑے سائنسدان تھے تو یہ پچھلے دس سال کیا کرتے رہے ہیں، موجودہ معاشی صورتحال ایک سال میں تو اس نہج پہ نہیں پہنچی۔ یہ گذشتہ ناکامیوں اور کرپشن کا اثر ہے، جو ابھی سامنے آرہا ہے، ان کی مثال کچھ ایسی ہے کہ جیسے ایک گھر میں آگ لگی ہو اور سامنا کھڑا شخص تنقید کر رہا ہو کہ آگ بجھانے کیلئے تم نے بالٹی جو سیدھے ہاتھ سے پکڑ رکھی ہے، اسے الٹے ہاتھ سے پکڑو، اسکا آگ بجھانے سے کیا تعلق ہے، یہ تو صرف روڑے اٹکانے والی بات ہے، آگ کو بڑھانے والی بات ہے۔ یہ بات مناننے والی ہے کہ اب اس کا حل موجودہ حکومت نے نکالنا ہے، ہماری نیت اور اہلیت میں کوئی شک ہوتا تو آرمی چیف اس کی طرف اشارہ کرتے، اس لیے پاکستان کی خاطر موجودہ حکومتی پالیسی کو مکمل کرنے کیلئے عمران خان کا ساتھ دینا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان اقتدار میں انے سے پہلے ہارس ٹریڈنگ کو ملکی سیاست کیلئے مہلک قرار دیتے رہے، اب کسی بھی شاخ سے اڑ کر آنیوالے پنچھی کو اپنے آشیانے میں جگہ دے رہے ہیں، یہ کیسا یوٹرن ہے۔؟
محترمہ شمیم آفتاب:
اس کی وضاحت ہم متعدد بار کرچکے ہیں کہ یہ ارکان اسمبلی جو بنی گالا آئے ہیں، یا پی ٹی آئی کی قیادت سے رابطہ کر رہے ہیں، انہیں کسی نے زبردستی نہیں کہا بلکہ وہ پاکستان کی خاطر ہماری قیادت پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں، کرپشن زدہ سیاسی پارٹیاں اپنی قیادت کے شرمناک کردار کی وجہ سے انتشار کا شکار اور بکھر رہی ہیں، نون لیگ میں تو ویسے ہی تفریق اور تقسیم پیدا ہوچکی ہے، اب مریم نواز اور شہباز شریف کے اختلافات اور پارٹی قیادت کی جنگ کھل کے سامنے آگئی ہے، بلکہ باتیں اس سے بھی بڑھ کر ہو رہی ہیں کہ مریم نے تو نواز شریف کو بھی بائی پاس کرتے ہوئے نون لیگ پہ کنٹرول بنانا شروع کر دیا ہے، اسی جانب چوہدری نثار نے بھی اشارہ کیا تھا کہ جب میں نے نواز شریف سے اس کا تذکرہ کیا کہ جس طرح سب کچھ مریم کے سپرد کر دیا گیا ہے، یہ مسلم لیگ نون اور نواز شریف کی شخصیت اور سیاست کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔

لیکن نواز شریف نے متکبرانہ انداز میں مجھ سے پہلو پھیر لیا اور میں نے بہتر یہی سمجھا کہ نون لیگ سے کنارہ کشی اختیار کر لوں، آج جو لوگ عثمان بزدار کے پاس آئے ہیں اور بنی گالا گئے ہیں، ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ شریف برادران کی فرعونیت سے تنگ ہیں، ان کی اگلی نسل پہلے والوں سے زیادہ متکبر اور مفاد پرست ہے۔ پارٹی چھوڑنے والوں کا یہی موقف ہے کہ ان سے خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ تو اس صورت میں جو لوگ فارورڈ بلاک بنا رہے ہیں یا حکومتی پینچوں کی تائید کر رہے ہیں، وہ ملکی حالات کے پیش نظر یہ کر رہے ہیں، عمران خان تو وزیراعظم بن چکا ہے، اسے چھانگا مانگا کی سیاست سے ویسے بھی کوئی دلچسپی نہیں، نہ ہی پی ٹی آئی اس کی قائل ہے، اس کا جواب نون لیگ کے اندر ہی تلاش کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے جو کچھ جو تیس سال میں کیا ہے، لیگی ارکان اسمبلی وہ ایک ایک چیز جانتے ہیں، جب یہ اقتدار میں تھے تو پانچ پانچ سال تک اپنے ارکان اسمبلی کو نہیں ملتے تھے، ان کی تذلیل کرواتے تھے، پارٹی کے اندر بھی انہوں نے بلیک میلنگ اور دھمکیاں دیکر لوگوں کو قابو میں رکھا ہے، یہ لوگ حکومت بھی غنڈہ گردی سے کرتے رہے ہیں، اب عمران خان نے ان بدمعاشوں سے پاکستان کو آزاد کروایا ہے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، گوجرانوالہ میں لیگی رہنماؤں کے گھروں پر ہی حملے کی کوشش کی گئی ہے، یہ اب مزید بے نقاب ہونگے، اب ان کی سیاست خاتمے کے قریب ہے، اندر سے ہی کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ صرف پنجاب نہیں بلکہ سندھ میں بھی لیگی ارکان پی ٹی آئی کیطرف آنیوالے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اتنی بڑی تعداد میں لیگی ارکان اسمبلی اگر وزیراعظم سے ملے ہیں تو انکی کوئی تصویر کیوں نہیں شائع کی گئی، بعد میں سب نے انکار بھی کر دیا، کیا پی ٹی آئی صرف پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہیں۔؟
محترمہ شمیم آفتاب:
یہ تو سلسلہ ابھی شروع ہوا ہے، پہلے صرف پندرہ ایم پی ایز اور پانچ ایم این ایز تھے، اب یہ تعداد ڈبل ہو رہی ہے، زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہ نون لیگ کے اندر سے اٹھنے والی آواز ہے، جس کو دوسرے اراکین اسمبلی بھی سن رہے ہیں، اب سب کو سمجھ آرہا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے، یہ ایک اچھا عمل ہے، جس کا آغاز بڑے اچھے انداز میں ہوا ہے، یہ اب رکے گا نہیں۔ یہ پورا پاکستان دیکھے گا کہ نہ فلور کراسنگ ہوگی، نہ ہارس ٹریڈنگ ہوگی، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ تبدیل ہو جائیگی، یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے، لوگ روایتی سیاست کو خیر آباد کہہ رہے ہیں، نون لیگ اندر سے بدل جائیگی۔ جو لوگ نون لیگ چھوڑ رہے ہیں، یہ اتنی طاقت اور سیاسی حیثیت رکھتے ہیں کہ دوبارہ الیکشن جیت کر اسمبلی میں آسکتے ہیں۔ اس پر زیادہ وقت نہیں لگے گا، ایک آدھ ماہ کی مدت میں یہ سب کچھ واضح ہو جائیگا۔

اب یہ آواز نون لیگ سے اٹھ رہی ہے، یہ صرف مریم کے مرہون منت نہیں بلکہ حمزہ کی چوہدراہٹ کا بھی اس میں اتنا ہی کردار ہے۔ یہ حقیقت سب کے سامنے عنقریب کھل جائیگی، جو تیس ارکان اسمبلی نون لیگ کو خیر آباد کہیں گے، وہ عمران خان سے پریس کانفرنس میں وفاداری کا اعلان کرینگے اور استعفے دیکر دوبارہ الیکشن لڑیں گے۔ نہ فارورڈ بلاک بنے گا، نہ ہی لوٹا ازم پر عمل کیا جائیگا۔ یہ پی ٹی آئی کے اصولوں کے خلاف ہے، جو بھی آئے گا، وہ اپنی پارٹی اور اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیکر آئیگا اور دوبارہ الیکشن جیتے گا۔

اسلام ٹائمز: جن لوگوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی ہے، وہ تو سب ویڈیو پیغام جاری کر رہے ہیں کہ ہم ذاتی مسائل کی خاطر وزیراعظم سے ملے ہیں، اسکو نون لیگ میں بغاوت کیسے قرار دیا سکتا ہے۔؟
محترمہ شمیم آفتاب:
یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب وزیراعظم عمران خان ہے، جس سے کوئی بھی مل سکتا ہے، اپنی پریشانی کا بتا سکتا ہے، اس میں کوئی ایسی بات نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو ملاقات ہے، یہ ان حالات میں ہوئی ہے، جب اپوزیشن جماعتیں حکومت کیخلاف اتحاد بنانے کیلئے سرگرم ہیں، اس دوران اگر ارکان اسمبلی ملتے ہیں تو اسکا دوسرا پہلو ہی سامنے رکھا جائیگا کہ یہ مسلم لیگ نون کے اندرونی حالات میں پیدا ہونیوالی مشکلات کا نتیجہ ہے۔ پھر یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیئے کہ یہ جو سیاسی جماعتیں ہیں، ان کا نظام ایک ایک خاندان کے پاس ہے، انہوں نے ماحول اس قدر سخت بنایا ہوا ہے کہ چڑیا پر نہیں مار سکتی، صرف ان مخصوص افراد کی ہی چلتی ہے۔

اب یہ ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ یہ ہولڈ ختم ہو رہا ہے، نہ صرف مسلم لیگ نون میں انتشار پیدا ہوچکا ہے بلکہ پی پی پی بھی اسی کا شکار ہے۔ چونکہ یہ پولیٹیکل پارٹی تو ہے ہی نہیں، اسلیے جو لوگ بغاوت کر رہے ہیں، ان کو مشکلات اور دباو کا سامنا کرنا پڑیگا، یہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے، اب بھی ہو رہا ہے۔ اصولی طور پر یہ توڑ پھوڑ اوپر سے شروع ہوئی ہے۔ جب نواز شریف اندر ہوگئے تو شہباز شریف نے کوشش کی کہ انکا قبضہ ہو جائے پارٹی پہ، پھر اسکو مریم نواز نے ناکام بنانے کی کوشش کی، حمزہ بھی آگئے تو اس انتشار کا اثر نیچے ہوا، ایک تو ارکان اسمبلی نے سوچنا شروع کیا کہ کس کی مانیں، کس کی نہ مانیں، دوسرا یہ کہ کس کا بیانیہ مسلم لیگ نون میں چلے گا، تیسرا خاندان جس کا قبضہ تھا، اس پارٹی پہ ان کے درمیان تقسیم اور اقتدار کی جنگ سے نیچے جو لوگ پارٹی میں ہیں، انہیں ریلیف ملا، دباؤ کم ہونا شروع ہوا تو انہوں نے عمران خان سے رجوع کیا، عثمان بزدار سے رابطہ کیا۔

پھر ایک اہم چیز یہ ہے کہ اپوزیشن نے نعرہ لگایا تھا کہ بجٹ منظور نہیں ہونے دینگے اور مریم نواز نے کہا تھا کہ جو پارٹی بجٹ کی حمایت کریگی، اسے عوام کے غضب کا سامنا کرنا پڑیگا، لیکن بجٹ تو اللہ کا شکر ہے کہ منظور ہوگیا، اس ناکامی کا اثر نہ صرف باقی اپوزیشن پارٹیوں پہ پڑا بلکہ خود نون لیگ میں بھی مایوسی پیدا ہوئی کہ اب شریف خاندان کی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے، دوسرا ملک کے مفاد میں یہی بہتر ہے کہ عمران خان کا ساتھ دیا جائے۔ یہ چونکہ ان کا کئی دہائیوں سے جاری شاہی اقتدار تھا تو اس میں دراڑیں اب پڑنا شروع ہوئی ہیں، ان کا یہ طلسماتی محل گرنے میں وقت لگے گا، لیکن یہ وقت زیادہ دور نہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ حکومت مہنگائی اور اپنی ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے یہ حربے استعمال کر رہی ہے، کیا اس سے حکومتی کارکردگی کے نقائص لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوجائینگے۔؟
محترمہ شمیم آفتاب:
ایسا بالکل نہیں ہے، یہ مختلف باتوں کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، کیا پانامہ کیس پی ٹی آئی یا عمران خان کی سازش تھی، عمران خان تو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں جو کچھ پاکستان کیساتھ کیا ہے، اس کو بے نقاب کر رہا ہے، یہ اب ان حقائق کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہی باتیں کرتے رہے ہیں کہ عثمان بزدار کو تو سیاست کا پتہ ہی نہیں، لیکن ایک سال کے اندر ہی ان کی جماعت کے اراکین اسمبلی کو شہباز شریف اور عثمان بزدار کے فرق کا پتہ چل گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دن دکھایا ہے کہ شہباز شریف کو اس کو اپنا آپ دکھانے کیلئے عثمان بزدار جیسے عام سے آدمی کو وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچا دیا اور آج شہباز شریف کی قیادت اور حکمرانی میں اس کا ساتھ دینے والوں نے عثمان بزدار سے مل کر پی ٹی آئی کی قیادت پر بھروسے کا اظہار کیا ہے۔ پنجاب کے خود ساختہ بادشاہوں کے لیے یہ عبرت ہے کہ ایک عام آدمی بھی اقتدار اور تخت پہ بیٹھ سکتا ہے۔ حکومت کی کوئی ناکامی نہیں، ہم الحمد للہ باکل صحیح سمت میں جا رہے ہیں، عوام کی مشکلات جلد حل ہو جائینگی، پاکستان کے لوگ ان لٹیروں کیخلاف عمران خان کیساتھ کھڑے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 802679
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش