QR CodeQR Code

مغرب میں عوام انسانی حقوق کیساتھ اور انکی حکومتیں مفادات کیساتھ ہوتی ہیں

امریکہ پاکستان کیلئے اسٹریٹیجک تجارتی پارٹنر بھارت کیخلاف دباو بڑھانے کی غلطی نہیں کریگا، بیرسٹر محسن شاہنواز

مغربی ممالک کی سیاست منافقت پر مبنی ہے، وہ اصولوں کی نہیں بلکہ مفادات کی سیاست کرتے ہیں

22 Aug 2019 10:56

پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماء کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ جب عرب ممالک کھل کر پاکستان کی بات نہیں کر رہے، بلکہ سن ہی نہیں رہے تو امریکہ سے امید لگانا بیکار اور بے وقوفی ہے، پہلے صدر ٹرمپ نے ثالثی کی بات کی اور مودی حکومت نے اتنا بڑا اقدام اٹھایا، اب بھی انہوں نے دونوں کا ذکر کیا ہے، دونوں کو دوست کہا ہے، عمران خان کب سے صدر ٹرمپ کے دوست ہوگئے ہیں، انکی ایک ہی ملاقات ہوئی ہے، امریکہ کو اس وقت بھی اپنا مفاد عزیز ہے، وہ دنوں میں بیان بدل سکتے ہیں۔


سابق وزیر مملکت، رکن قومی اسمبلی اور پی ایم ایل این سرگودہا کے رہنماء بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا 1977ء میں پیدا ہوئے، 2013ء میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 65 سے کامیابی حاصل کی۔ 1999ء میں پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف حکومت کی برطرفی کے بعد انکے والد، مسلم لیگ نون سرگودہا کے صدر شاہنواز رانجھا کو مشرف حکومت کیجانب سے سخت دباؤ کے پیش نظر انہیں سعودی عرب روانہ کر دیا، جسکے بعد محسن شاہ نواز رانجھا برطانیہ گئے اور وہاں سے قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی، اس دوران مسلم لیگ نون انٹرنیشنل کے مرکزی آفس سے منسلک ہوگئے، جسکے بعد نواز شریف نے انہیں عملی سیاست میں آنیکی تلقین کی۔ پی ایم ایل این کے رہنماء اور سابق وزیر مملکت کیساتھ موجودہ سیاسی صورتحال، اپوزیشن کی حکمت عملی، مسئلہ کشمیر، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: ملک کی سلامتی اور جغرافیہ کو چیلنجز درپیش ہیں، ان حالات میں اپوزیشن کو آل پارٹیز کانفرنس میں پی ٹی آئی کو بھی دعوت دینی چاہیئے تھی، کیا ایسے وقت میں بھی اتحاد ممکن نہیں۔؟
محسن شاہنواز:
یہ تو ایک پہلو ہے، ورنہ حکومت تو یہ کہہ رہی ہے کہ ہم نے اپوزیشن کو شکست دی ہے، ناکام بنایا ہے، ہم نے تو کشمیر پہ حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ سب کو مل بیٹھنا چاہیئے، لیکن حکومت اس سے گریزاں ہے، بڑی ذمہ داری تو حکومت کی ہے، انہوں نے جس طرح معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے اور اسکا الزام اپوزیشن کو دینے میں لگے ہوئے ہیں، اسی طرح کشمیر کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی، جس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزراء کیلئے آج بھی صرف انتقام ہی ایک اہم ایشو ہے، بجائے اس کے کہ کشمیر کیلئے کام کریں، طعن و تشنیع سے کام لیا جا رہا ہے، ہم تو پہلے بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو پاکستان سے زیادہ مودی کی حکومت عزیز ہے، اسی لیے وہ ملک میں کسی کو برداشت کرنیکے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ جتنی ضرورت آج قوم کے ایک جگہ اکٹھے ہونے کی ہے، پہلے شاید کبھی نہیں تھی، دنیا میں سقوط سری نگر کی باتیں ہو رہی ہیں، وزیراعظم اپنا ہی ملک فتح کرنے نکلے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کی ڈپلومیسی کامیابی سے جاری ہے، امریکی صدر نے چند دنوں میں دو بار بات کی ہے اور ثالثی کی پیشکش کو دہرایا ہے۔؟
محسن شاہنواز:
جب عرب ممالک کھل کر پاکستان کی بات نہیں کر رہے، بلکہ سن ہی نہیں رہے تو امریکہ سے امید لگانا بیکار اور بے وقوفی ہے، پہلے صدر ٹرمپ نے ثالثی کی بات کی اور مودی حکومت نے اتنا بڑا اقدام اٹھایا، اب بھی انہوں نے دونوں کا ذکر کیا ہے، دونوں کو دوست کہا ہے، عمران خان کب سے صدر ٹرمپ کے دوست ہوگئے ہیں، انکی ایک ہی ملاقات ہوئی ہے، امریکہ کو اس وقت بھی اپنا مفاد عزیز ہے، وہ دنوں میں بیان بدل سکتے ہیں، امریکی صدر اگر بھارتی وزیراعظم سے افغان امن عمل کو ذہن میں رکھ کر بات کریں گے تو اس سے کشمیریوں یا پاکستان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ امریکہ کی ترجیح خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ ہے، نہ کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔ اسی لیے انہوں نے کسی حل کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا بلکہ مسئلہ کشمیر کے پیچیدہ ہونے پر زور دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا اس سے سفارتی سطح پر دنیا بھر میں بھارت پر دباؤ نہیں آئیگا۔؟
محسن شاہنواز:
جب مسلمان ممالک نے کشمیر میں ہونیوالی بربریت کو دیکھتے ہوئے کوئی ایسی بات تک نہیں کی، جس سے بھارت سفارتی سطح پر دباؤ محسوس کرے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ پاکستان کی خاطر یا کشمیر کے مسلماںوں کی خاطر اہم ترین اسٹریٹیجک تجارتی پارٹنر کیخلاف دباو بڑھانے کی غلطی کریگا۔ حقیقت میں پاکستان امریکہ پر اعتماد ہی نہیں کرسکتا کہ بھارت کے ساتھ اس کے اپنے مفادات ہیں۔ امریکہ بھی پاکستان پر اعتماد کیلئے تیار نہیں ہے، وہ پاکستان کے لیے بھارت کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کشمیریوں کے حوالے سے نریندرمودی پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکیں گے۔ عملی طور پر جو کچھ کرنا ہے، وہ پاکستان نے خود کرنا ہے، امریکی صدر تو دونوں طرف دوستی کا اشارہ دے رہے ہیں، اگر ظالم اور مظلوم کو ایک ہی نصحیت کی جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ ظالم کے ساتھ ہیں۔ بھارتی مظالم کے خلاف کسی نے کھل کر مذمت نہیں کی ہے۔

اس معاملے پر جب تک ہم کچھ نہیں کریں گے، ڈونلڈٹرمپ بھی کچھ نہیں کرسکتے ہیں، ہمیں خود اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی، جیسا کہ امریکہ نے 5 اگست کے اقدام کی مخالفت یا مذمت نہیں کی، جس کے بعد مثبت توقعات نہیں رکھ سکتے۔ اسکا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ بھارتی وزیراعظم امریکی صدر کی بات کو ٹالنے کی کوشش نہیں کریں گے، اسی طرح یہ بات بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے لیے یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ کیا امریکہ کی ثالثی سے ہمیں انصاف مل سکے گا۔ مجموعی طور پر مغربی ممالک بھارت پر دباؤ ڈالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اس سے پہلے بھی اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے کشمیر سے متعلق رپورٹوں میں تحفظات کا اظہار کیا ہے، لیکن اس سے ان ممالک کے رویئے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، بلکہ مغربی ممالک کے لیے انسانی حقوق ایک سیاسی نعرہ ہے، معاشی مفادات کے تحفظ کے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں۔

مغرب میں عوام انسانی حقوق کے ساتھ ہیں اور وہی حکومتوں کو اس حوالے سے سرگرم ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ جس طرح پاکستان کو انسانی حقوق اور دہشت گردی کا نام لیکر بلیک میل کیا گیا، ایسی کوئی بات بھارت کے متعلق نہیں کہی گئی۔ مغرب کی حکومتوں کو بھی انسانی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر ہم عالمی رائے عامہ تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ پالیسی کی تبدیلی کے لیے حکومتوں کو تبدیلی پر مجبور کرسکتی ہے۔ اس لیے راستہ موجود ہے، جسے اپنا کر سیاسی اور سفارتی جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہم جتنی جلدی سمجھ لیں، اتنا زیادہ ہم نقصانات سے بچ جائیں گے کہ مغربی ممالک کی سیاست منافقت پر مبنی ہے۔ وہ اصولوں کی نہیں بلکہ مفادات کی سیاست کرتے ہیں، انہوں نے اپنے ہمیشہ انسانی حقوق کو اپنے مفادات کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔

عراق میں جنگ کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہوئے، لیکن ان ممالک نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کیں۔ برطانوی حکومت جاتے وقت ہمارے لیے کشمیر کا مسئلہ چھوڑ گئی ہے۔ انہوں نے اپنے مفادات کے لیے دوسروں کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ فرانس نے سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس میں مظلوم کشمیریوں کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ مغرب میں عوام انسانی حقوق کے ساتھ اور ان کی حکومتیں مفادات کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ہماری شروع سے یہ رائے ہے کہ کسی ایک ملک پر بھروسہ باندھ کے بیٹھنے کی بجائے ہمیں عالمی عدالت انصاف میں جانا چاہیئے، بھرپور انداز میں آواز بلند کرنی چاہیئے، لیکن پہلے کی طرح یہ حکومت اس میں بھی دیر کر دیگی۔

اسلام ٹائمز: یو این او کی رپورٹس میں کشمیر میں ہونیوالی زیادیتوں کی تفصیل موجود ہے، جب اس سے کچھ نہیں بنا تو عدالت میں جانے سے کیا ہوسکتا ہے۔؟
محسن شاہنواز:
پہلی ذمہ داری تو ہماری اپنی ہے کہ ہم ہی ہر جگہ آواز اٹھائیں، دنیا تک حقائق پہنچائیں، اسی طرح قانونی لحاظ سے بھی ایک سخت محاذ ہے، جہاں ہم نے خود ہی جنگ لڑنی ہے، جیسے کلبھوشن کے کیس میں ہوا ہے، آواز سنی جائے یا نہ سنی جائے، ہمیں بلند ضرور کرنی چاہیئے۔ بھارت کے مظالم کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اداروں کی رپورٹیں موجود ہیں، جو بھارت کے خلاف ثبوت ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انصاف نہیں ملا۔ پاکستان کا عالمی عدالت انصاف جانا صرف علامتی قدم ہے، اس سے بھارت پر کوئی دباؤ نہیں آئے گا۔ بھارت ظلم کرتا ہے اور بدلے میں صرف بیانات دیتے ہیں، اس سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔ قانونی جنگ بیانات سے نہیں لڑی جا سکتی، اس کے لیے زیادہ عرق ریزی سے کام کرنیکی ضرورت ہے، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مقدمہ صرف عدالت میں لیجانے سے کشمیر کا قبضہ ختم کروا لیں گے۔

بلکہ قانونی جنگ کا یہ ایک پہلو، سیاسی، سفارتی اور عسکری محاذ پہ بھارت کو جواب دینا پڑیگا، جس کے لیے پوری قوم کا متحد ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انصاف ملنا اور پھر اس پر عمل ہونا الگ الگ باتیں ہیں، ہمیں اپنا کیس پوری تیاری سے لڑنا چاہیئے کہ اس میں بھارت کے خلاف بہت سارا مواد موجود ہے۔ اس کیس میں بھارت کے خلاف پوری تاریخ بطور گواہ موجود ہے۔ بھارت کے خلاف فیصلہ آبھی جائے تو اس پر عمل نہیں ہونا ہے، لیکن بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانا ضروری ہے۔ اب تک جتنا انصاف ملا ہے، سب کو پتہ ہے۔ ہمیں توقعات کم رکھ کر ضرور عالمی عدالت میں جانا چاہیئے، تاکہ دنیا کو حقائق کا پتہ چل سکے۔ پاکستان کو یہ بات جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی اٹھانی چاہیئے۔ اس کے لیے مزید کوشش درکار ہوگی۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کی معاشی پالیسیوں اور عالمی سطح پر سفارتکاری میں پیش پیش آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر کیا کہیں گے۔؟
محسن شاہنواز:
یہ تو کوئی بھی نہیں کہے گا کہ جنرل قمر جاوید کی اہلیت میں کسی کو شک ہے، لیکن عمران خان نے جنگ کی مثال دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ کسی ایک شخص کو ایکسٹنشن دینے کا مطلب قانون توڑنا ہے اور ادارے کو تباہ کرنا ہے، آج خود انہوں نے قانون توڑا ہے، جو بات ہے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی تو یہ کوئی عمران خان کا کارنامہ نہیں، یہ تو برسوں سے ہو رہا ہے، یہ ایک دوسری بات ہے کہ عمران خان نے آج ایک اور یوٹرن لیا اور وہ ویسے بھی یوٹرن لینے کے حوالے سے مشہور ہیں، تاہم فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ جنرل ایوب سے لیکر جنرل کیانی تک کئی لوگوں کو توسیع ملی ہے، لیکن امید ہے کہ آرمی چیف یہ تاثر اب ختم کرینگے کہ ہمارے ادارے سیاست میں ملوث ہوتے رہے ہیں، پہلے کئی ایشوز رہے ہیں، اب انہیں پروفیشنل امور پر ہی توجہ دینا ہوگی، اب یہ بحث مناسب نہیں کہ یہ ٹھیک ہوا ہے یا نہیں۔ ایک سیاسی ورکر ہونے کے ناطے توسیع کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے جو نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ علاقائی صورتحال اسکا تقاضا کرتی ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے، تاکہ پالیسی کا تسلسل برقرار رہے۔؟
محسن شاہنواز:
یہ جو جواز بتایا جا رہا ہے، وہ بھی کوئی زیادہ درست نہیں، ورنہ آپ کو یہ سوچنا ہوگا کہ ملک جن حالات کا شکار ہوا ہے، اس کی وجہ تو یہ خود حکومت ہے، اندرونی اور بیرونی طور پر جن مشکلات کا ہمیں سامنا ہے، اسکی ساری ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے، تو وہ اس نااہلی میں ملک کے اداروں کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں، جس سے اداروں کا امیج خراب ہوگا۔ جب ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے جا رہے ہیں تو وہ وجوہات بھی دیکھنا پڑینگی، جنکی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں، وزارت خارجہ اور وزیر برائے امور خارجہ کس لیے ہیں، انہیں پھر گھر بٹھا دیں۔ اسی طرح اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ دوست ملکوں سے پیسے لیکر دیئے ہیں آرمی چیف نے، اسکا کیا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت نام کی حکومت ہے، جو خود کچھ نہیں کرسکتی، سول ملٹری تعلقات میں بہتری کا یہ مطلب تو نہیں لیا جانا چاہیئے کہ سول ادارے اور حکومت کے امور فوجی اور عسکری قیادت انجام دے۔

پھر تو آپ خود ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں اور یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ امور مملکت اور حکومت کو اسٹیبلشمنٹ چلا رہی ہے۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ مثالی تعلق ہے، یہ مثالی تعلق نہیں بلکہ انحصار ہے، یہ وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ کیا اثرات مرتب کرتا ہے، اگر مستقبل میں جھانک کر کچھ کہنا مشکل ہے تو ہمیں ماضی کو دیکھ کر سمجھنا چاہیئے کہ ان فیصلوں کے اثرات کیا ہوتے ہیں، ماضی میں دیکھیں، پہلے جب بھی ایسے تجربات ہوئے ہیں اس سے ملک کو کبھی فائدہ نہیں ہوا، ملک اور جمہوریت کا نقصان ہوا ہے، ملکی سلامتی کے اداروں کا وقار اپنی جگہ ہے، لیکن اب دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ ملکی بقاء کے لیے جو فیصلے کیے جاتے ہیں، وہ مقاصد ہی پورے ہو جائیں جو بتائے جا رہے ہیں۔

لیکن ایک بات تو اٹل ہے کہ یہ سب آرمی چیف کا کام نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ جس طرح ابھر کر دنیا کے سامنے آیا ہے، یہ کسی حکومتی یا ریاستی شخصیت کا کمال نہیں، یہ تو مودی نے ہمیں چیلنج کیا ہے، اب اس سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں، یہ ہماری سیاسی قیادت کا کام ہے، اگر جنگ ہی کرنا ہوتی اور یہ مسئلہ ہم جنگ سے حل کر پاتے تو کب کا حل ہوچکا ہوتا، ہمیں دو دہائیاں ہوگئی ہیں کشمیر کیلئے لڑتے ہوئے، جو لوگ جہاد کرتے رہے ہیں، وہی ہماری جنگ تھی، لیکن اس کے نتائج ہم حاصل نہیں کرسکے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو حکومت لائی گئی، وہ بری طرح ناکام اور فیل ہوچکی ہے اور اصل ڈر تو یہ ہے کہ جو حال ان لوگوں نے ملک کی معیشت اور سیاست کا کیا ہے، یہی حال خارجہ پالیسی کا بھی ہوا تو دشمن کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔


خبر کا کوڈ: 811932

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/811932/امریکہ-پاکستان-کیلئے-اسٹریٹیجک-تجارتی-پارٹنر-بھارت-کیخلاف-دباو-بڑھانے-کی-غلطی-نہیں-کریگا-بیرسٹر-محسن-شاہنواز

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org