QR CodeQR Code

عرب ملکوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہا

آیت اللہ خامنہ ای نے کشمیر پر امت کے قائد کی حیثیت سے بیان دیا ہے، مفتی گلزار نعیمی

مذہبی جماعتوں کے موجودہ سب رہنماء فار سیل ہیں

25 Aug 2019 10:33

اپنے خصوصی انٹرویو میں جماعت اہل حرم کے سربراہ نے کہا کہ یہ شرم کی بات ہے کہ متحدہ عرب امارات کے کان تک جوں تک نہیں رینگی، کشمیر کیساتھ مودی یعنی گجرات کا قصاب کیا کر رہا ہے اور ہم کیا کرنے جا رہے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ سرزمیں جسکو آقای نامدار اور اہلیبیت اطہار علیہ اسلام نے اپنی جانوں کے نذرانے دیکر بت پرستی سے چھٹکارا دلایا تھا، متحدہ عرب امارات نے وہاں باقاعدہ بت خانے تعمیر کرائے ہیں، ان ریاستوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو اپنی بادشاہت بچانے کیلئے امریکا کا ہر کہا ہوا مان رہے ہیں، ان عربوں کے اسرائیل کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔


شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگر خاص ہیں۔ انہوں نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے اپنے نظریات کیلئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے، جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ انہوں نے جماعت اہل حرم بھی بنائی ہے۔ اسلام ٹائمز نے مسئلہ کشمیر پر امت اور بالخصوص عرب ممالک اور ایران کے موقف پر ان سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: کشمیر کے حوالے سے کیا کہیں گے، خاص طور پر امت مسلمہ کے رویئے پر، اب تک صرف دو ملکوں ایران اور ترکی نے حمایت کی ہے، باقی سب خاموش ہیں۔؟
مفتی گلزار حسین نعیمی:
کشمیر پاکستان اور امت مسلمہ کا ایک ایسا زخم ہے کہ جس سے ہر وقت لہو رستا نظر آتا ہے، ہر وقت ہمیں نوجوانوں کی لاشیں کٹتی ہوئی نظر آتی ہیں، اپنی ماوں اور بہنوں کی عزتیں پامال ہوتی نظر آتی ہیں، قیام پاکستان کے بعد کشمیر ایک زخم کے طور پر انگریز چھوڑ کر گیا، اس کی تکلیف آج بھی ہمیں محسوس ہو رہی ہے، ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوچکے ہیں، بھارت نے آئین کی شق 370 ختم کرکے کشمیر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے، 21 روز بیت گئے مقبوضہ کشمیر میں سخت کرفیو نافذ ہے، کوئی بھی باہر نہیں نکل سکتا، مساجد اور اسکول ویران پڑے ہیں، اسپتال تک نہیں جاسکتے، میں سمجھتا ہوں کہ امت مسلمہ کا یہ فرض تھا کہ وہ پوری طرح اٹھ کھڑی ہوتی، خاص طور پر ان اسلامی ممالک کو جن کی آواز سنی جاتی ہے یا فیصلہ کن کردار کرسکتے ہیں، ان ممالک کو کشمیری مسلمانوں کی مدد کرنے کی ضرورت تھی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے صاف کہہ دیا ہے کہ امہ کے جو ٹھیکیدار ہیں، ان کے بھارت کے ساتھ اقتصادی مفادات ہیں، جن کی وجہ سے وہ خاموش ہیں اور بات تک نہیں کرتے۔ ایران اور ترکی نے موثر آواز اٹھائی ہے، جس پر ہم دونوں ممالک کے انتہائی مشکور ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ترکی کا بھارت کے خلاف بات کرنا اتنا میٹر نہیں کرتا، جتنا ایران نے اس پر کھل کر بات کی ہے، کیونکہ ایران کی بھارت کے ساتھ بہت پرانی دوستی اور تعلقات ہیں، ایران کے بھارت کے ساتھ معاشی تعلقات ہیں، انڈیا ایران سے تیل کا بڑا خریدار ہے، لیکن اس کے باجود ایران کے صدر اور دیگر شخصیات نے بیان دیا ہے، تہران اور مشہد میں کشمیریوں کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں اور انکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

اسلام ٹائمز: رہبر معظم کے بیان کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار حسین نعیمی:
رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ایک قائد کو جس طرح بیان دینا چاہیئے تھا، انہوں نے اسی طرح بیان دیا ہے، اگر انڈیا اس بیان پر غور کرے تو اس میں بہت سبق اور مستقبل کی تصویر دکھائی گئی ہے، اگر اس ظلم کو بند نہ کیا گیا تو ایران کشمیریوں کے ساتھ ہر حال میں کھڑا ہوگا، عملی طور پر ایران نے مظلوموں کی سرپرستی اور ان کی مالی مدد کرنی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور اس بات کو پوری دنیا مانتی ہے کہ مسلم امہ کے مظلوموں کی ایران مدد کر رہا ہے، فلسطینیوں کی مدد کرتا ہے، شام، لبنان، یمن کے مسلمان ہوں، سب کی مدد کرتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایران کے ایمان کی روشنی ہے، ان کے دلیرانہ فیصلے ہیں، یعنی استکباری قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے، ایرانی قیادت مظلوموں کی مدد کرتی ہے، مظلوموں کی مجبوریوں کو دیکھتے ہیں اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ رہبر معظم نے درست بات کی نشاندہی کی ہے کہ مسئلہ کشمیر برطانیہ جان بوجھ کر چھوڑ کر گیا، تاکہ پاکستان اور بھارت ہمیشہ لڑتے رہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف کشمیریوں پر مظالم ہو رہے ہیں دوسری جانب متحدہ عرب امارات کیجانب سے مودی کو بلایا جاتا ہے اور اسے سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا جاتا ہے۔؟
مفتی گلزار حسین نعیمی:
میں سمجھتا ہوں کہ عملی طور پر عرب ریاستوں نے اسلام کا پرچم سرنگوں کر دیا ہے، اب ان کے سامنے اسلام اور امہ کی کوئی حیثیت نہیں، وہ اپنی بادشاہتوں کو برقرار رکھنے کیلئے ہر وہ کام کرتے ہیں، جو اس معاملے میں ان کیلئے معاون ثابت ہو۔ آپ نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کی بات کی ہے، میں کہتا ہوں کہ اس دنیا میں جو امہ کا سب سے بڑا ٹھیکیدار سعودیہ ہے، جس کی سب سے بڑی کمپنی نے انڈیا میں 20 فیصد شئیرز خرید لیے ہیں، یہ بھارت میں کسی بھی ملک کی سب سے بڑی انویسٹمنٹ ہے، یہ سب خادمین حرمین شریفین کے سائے تلے ہو رہا ہے، مجھے یہ بتائیں کہ اس سرمایہ کاری سے امہ اور دین کو کیا فائدہ ہے؟، چلیں آپ اس سرمائے کاری کو بھارت کے ساتھ مشروط کرتے کہ تم کشمیریوں پر ظلم نہیں کرو گے اور انہیں ان کی رائے کے مطابق آزادی اور حقوق دو گے، مگر یہ بھی نہیں کیا۔

یہ شرم کی بات ہے کہ متحدہ عرب امارات کے کان تک جوں تک نہیں رینگی، کشمیر کے ساتھ مودی یعنی گجرات کا قصاب کیا کر رہا ہے اور ہم کیا کرنے جا رہے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ سرزمیں جس کو آقای نامدار اور اہلیبیت اطہار علیہ اسلام نے اپنی جانوں کے نذرانے دیکر بت پرستی سے چھٹکارا دلایا تھا، متحدہ عرب امارات نے باقاعدہ بت خانے تعمیر کرائے ہیں، ان ریاستوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو اپنی بادشاہت بچانے کیلئے امریکہ کا ہر کہا ہوا مان رہے ہیں، ان عربوں کے اسرائیل کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ پلوامہ کے بعد سعودی عرب کے وزیر خارجہ اسلئے یہاں نہیں آئے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات نارمل نہ ہو جائیں، وہ مسلسل پاکستان پر دباو ڈالتے رہے کہ آپ اسرائیل کو تسلیم کر لیں اور اپنے تعلقات قائم کریں۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ بھارت ہم پر حملہ آور ہو رہا تھا اور یہ اسرائیل کی نمک حلالی کر رہے تھے۔

اسلام ٹائمز: اب جب امت کا یہ حال ہے تو یہ مسئلہ کشمیر کیسے حل ہوگا۔؟
مفتی گلزار حسین نعیمی:
اب اسلامی ریاستوں میں ایسے حالات بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہر ملک اپنے بارے میں سوچ رہا ہے، یعنی امہ کے تصور کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، پاکستان اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ ہم جسد واحد کی طرح رہیں، ایک امت بن کر رہیں، ایران امت کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اسی طرح کسی حد تک ترکی بھی یہی کوشش کر رہا ہے، لیکن جب تک عرب ریاستیں اور یورپی ممالک یہ نہیں چاہتے، تب تک ہم ایسے مسائل کا شکار رہیں گے، ہمارا کوئی مسلہ حل ہو بھی ہوگیا تو بھی ہماری شرائط کے مطابق نہیں ہوگا بلکہ جو ہمارا مخالف ہے، اس کی شرائط کے مطابق ہوگا۔ یہ جو مودی نے سب کچھ شروع کیا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس نے یہ اپنے طور پر شروع کیا ہے؟ اس کو ساری استکباری قوتوں کی سپورٹ حاصل ہے۔

مجھے بتائیں کہ آج تک کسی مغربی قوت نے کہا ہو کہ کشمیر میں انسانی حقوق کو کیسے پامال کیا جا رہا ہے، بنیادی حقوق سلب کئے جا رہے ہیں، انسانی حقوق کے علمبرداروں نے بات کی ہے۔؟ پچاس سال کے بعد سلامتی کونسل کا اجلاس ہوتا ہے، وہ بھی آدھے گھنٹے کیلئے، یہ ظلم کی انتہا ہے کہ کوئی بات ہی نہیں ہوئی، میرے خیال میں انہوں نے پاکستان اور کشمیر کے مظلوموں کو لالی پاپ دیا ہے کہ جی ہم نے پچاس سال کے بعد آپ کا کیس دیکھ رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کشمیر کے مسئلے پر ایک ہیں۔؟
مفتی گلزار حسین نعیمی:
میں عرض کرتا چلوں کہ مجھ پر لوگ ویسے بھی الزام لگاتے رہتے ہیں کہ میں اس حکومت کا حامی ہوں، میں اپنے ضمیر سے مطمئین ہوں کہ میں نے اچھے کام کی ہمیشہ حمایت کی ہے، وہ چاہے (ن) لیگ ہو یا پی پی پی یا پی ٹی آئی ہو، ہمیشہ ان کے اچھے کاموں کو سراہا ہے، سابقہ حکومتوں نے کشمیریوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا، وہ اس طرح کیا کہ کشمیر کمیٹی یعنی جو کشمیر کے مسئلے کو دیکھتی ہے، وہ ایسے شخص کے حوالے کر دی، جو بنیادی اور نظریاتی طور پر قیام پاکستان کے حق میں نہیں تھا، جس کے بھارت کے ساتھ درینہ تعلقات تھے اور ہیں، آپ خود دیکھ لیں کہ دارالعلوم دیوبند میں پاکستان کے پرچم نذر آتش کیے گئے، پاکستان مخالف مظاہرے کیے گئے۔ انہوں نے کبھی کشمیریوں کے حق میں کوئی کمپیئن نہیں چلائی۔

مولانا فضل الرحمان پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے دور میں دس سال تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے، کشمیر پر کوئی ایک اجلاس تک نہ بلایا، اس حوالے سے کوئی بات تک نہ کی۔ آج اس مسئلے پر سفارتی سرگرمیوں میں گرمی محسوس ہوتی ہے، بہت سارے ممالک کو اپروچ کیا گیا ہے، اپنی بات اور موقف پہنچایا گیا ہے۔ آپ جے یو آئی کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ مسئلہ کشمیر کیلئے انہوں نے کوئی اسٹیند لیا ہو، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ بھارت کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے، دوسری بات عرض کرتا چلوں کہ مولانا ٖفضل الرحمان کو مذہبی یا امہ کے رہنما کے طور پر نہ دیکھا جائے، بلکہ انہیں ایک سیاسی رہنما کے طور پر دیکھیں۔ ختم نبوت کا معاملہ ہوا، آئین سے 295 سی کو ختم کرانے کی کوشش کی گئی، مگر مولانا خاموش رہے۔ لیکن موجودہ حکومت پر فتوے لگا رہے ہیں، یہودی اور یہودیوں کے ایجنٹ کہہ رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان صاحب کئی گنا اچھے اور بہتر کام کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا طاہر اشرفی کو دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے پر انکے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں ایسے افراد کو قانون کی گرفت میں آنا چاہیئے۔؟
مفتی گلزار حسین نعیمی:
ان لوگوں نے دین کا چہرہ بگاڑنے کی کوشش کی ہے، دہشتگردوں کے مالی معاون ہیں، پاکستان کے امیج کو دنیا کے سامنے خراب کیا ہے، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے، انہوں نے پاک فوج کا ساتھ دینے کے بجائے دہشتگردوں کو سپورٹ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: افغانستان میں امن کا معاہدہ دیکھ رہے ہیں۔؟
مفتی گلزار حسین نعیمی:
میرا مطالبہ حکومت پاکستان سے یہ ہے کہ اس امن کے معاہدے کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ جوڑا جائے اور امریکا کو کہا جائے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کشمیریوں اور پاکستان کے امنگوں کے مطابق اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل نہیں ہوتا، ہم آپ کی افغانستان میں مدد نہیں کرسکتے۔

اسلام ٹائمز: مذہبی سیاست کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
مفتی گلزار حسین نعیمی:
مذہبی سیاست دانوں نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر دیا ہے، پہلی بات یہ کہ پاکستان میں مذہبی رہنما کوئی موجود ہی نہیں، جس پر اعتبار کیا جائے، یہ سب فار سیل ہیں، جتنی بھی مذہبی جماعتیں دیکھ لیں یا تو مسلم لیگ نون سے جڑی ہیں یا پیپلز پارٹی کی گود میں بیٹھی ہیں، جب مذہب کی نمائندگی کرنے والے سیکیولر جماعتوں سے جڑ جائیں تو آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ مذہبی سیاست اس ملک میں فروغ کر پائے گی۔ مذہب کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں۔

اسلام ٹائمز: وزیر مذہبی امور نے مقامات مقدسہ کے حوالے زیارتی ٹوورز کو وزارت کے دائرہ کار میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیسا اقدام ہے۔؟
مفتی گلزار حسین نعیمی:
میں آپ کو بتاتا چلوں کہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، شام سے ایک سفیر آئے تو انہوں نے بڑے کھلے انداز میں کہا تھا کہ ہم پوری دنیا میں زیارات پر جانے والوں کو سہولیات دیں گے، مذہبی سفر صرف حج و عمرہ ہی نہیں بلکہ شام، عراق، ایران، نجف، کربلا کا سفر بھی مذہبی سفر کہلاتا ہے۔ میری موجودگی میں کہا تھا کہ ہم ان زائرین کو ہر ممکن سہولیات دیں گے۔ پچھلے دنوں انہوں نے شیعہ علماء کو بلایا اور اس پر بات چیت کی، جو نہایت خوش آئند ہے۔


خبر کا کوڈ: 812528

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/812528/ا-یت-اللہ-خامنہ-نے-کشمیر-پر-امت-کے-قائد-کی-حیثیت-سے-بیان-دیا-ہے-مفتی-گلزار-نعیمی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org