QR CodeQR Code

جے یو آئی کا طرزعمل لال مسجد کی یاد دلا رہا ہے

سعودیہ ایران تناؤ کا خاتمہ امریکہ اور اسرائیل کیلئے موت کے مترادف ہوگا، شیخ وقاص اکرم

اپوزیشن عوام کے استحصال میں مولانا کیساتھ برابر کی شریک ہے

15 Oct 2019 23:55

سابق رکن اسمبلی کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کا انداز انتقام کی شکل ہے، یہ انکا آخری حربہ ہے۔ مولانا کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ سیاست میں شکست بھی ہوتی ہے، دیر سویر بھی ہوتی ہے، ایک سیاسی رہنماء کو آپے سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح کی باتیں شیخ رشید بھی کرتے ہیں، لیکن انہیں کوئی سنجیدہ نہیں لیتا، مولانا ایک سنجیدہ سیاست دان ہیں، انہیں یہ زیب نہیں دیتا، یہ خون خرابے کا سہارا لیکر حکومتیں گرانے یا اپنی سیاسی کامیابی کیلئے منصوبہ بندی کریں، یہ بلیک میل کرنے والی بات ہے، جسکی اجازت نہ مذہب دیتا ہے نہ سیاسی اخلاقیات میں اسکی کوئی گنجائش ہے۔


جھنگ سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی شیخ وقاص اکرم 1972ء میں پیدا ہوئے، ایبٹ آباد سے ابتدائی تعلیم مکمل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کی اور بیرون ملک سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ وفاقی وزیر رہے، دو مرتبہ رکن پارلیمنٹ رہنے کے بعد 2018ء میں قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل نہیں کرسکے۔ بے لاگ سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہیں، ملک کی داخلی صورتحال، مولانا فضل الرحمان کیطرف سے ممکنہ آزادی مارچ، دھرنے اور اسکے محرکات و اثرات اور ایران سعودیہ تناؤ میں کمی کیلئے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ثالثی کی کوششوں سمیت زیر بحث ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی حکومت کیخلاف جے یو آئی کے آزادی مارچ کے حوالے سے حکمران جماعت کا موقف ہے کہ مذہب کی آڑ میں سیاسی مقاصد حاصل کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟
شیخ وقاص اکرم:
احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے، اور سیاسی جماعتیں مختلف ایشوز پہ مظاہرے کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی ہیں، اپوزیشن کا کام ہی یہی ہے، جب کوئی پارٹی اس نتیجے پہ پہنچے کہ ایوان میں وہ اپنا موقف پیش نہیں کر پا رہے، تو وہ یہی کام سڑکوں پہ انجام دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان پرانے اور بڑے سیاستدان ہیں، الیکشن کے بعد سے ہی انکا موقف یہی تھا کہ چونکہ وہ اسمبلی میں نہیں ہیں، اس لیے سب سے یہ کہا کہ اس اسمبلی میں ہی نہیں جانا چاہیے، ورنہ الیکشن کے حوالے سے اعتراض تو سب اپوزیشن جماعتوں کو تھا، ہر پارٹی جب اقتدار کی منزل حاصل نہیں کر پاتی تو وہ یہ ضرور کہتی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی۔ جہاں تک مولانا کی طرف سے مذہب کارڈ کے استعمال کی بات ہے تو اس پہ خود اپوزیشن جماعتوں کو اعتراض تھا اور ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی ہر میٹنگ میں اور اسکے بعد بلاول بھٹو زرداری سمیت اپوزیشن رہنماؤں نے اس پر بات کی ہے، اب بھی کر رہے ہیں، یہ صرف پی ٹی آئی کا الزام نہیں ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا الیکشن میں کامیابی بھی مدارس کے بل بوتے پر حاصل کرتے ہیں، جب وہ الیکشن ہار گئے ہیں تو بھی وہ مذہب اور مدارس میں پناہ تلاش کرینگے، یہی انکی طاقت ہے، وہ اسے استعمال بھی کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ماضی کی روشنی میں آپ کا مشاہدہ کیا ہے کہ مذہبی کارڈ استعمال کرنے سے مولانا کو سیاسی نقصان ہوگا؟
شیخ وقاص اکرم:
اس میں دونوں امکانات موجود ہیں۔ ماضی میں جو دھرنے اور اس طرح کے مارچ اور لاک ڈاؤن کیے گئے ہیں،ان میں 1977ء کا احتجاج تو مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود سمیت سرکردہ مذہبی رہنماؤں نے انجام دیا تھا، جو کامیاب رہا، اسی احتجاج کے نتیجے میں قادیانی غیر مسلم قرار پائے، جمعہ کی چھٹی اور شلوار قمیض قومی لباس قرار پائے۔ ایک احتجاج پاکستانی تاریخ میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی کیا، اپریل 1980ء میں مفتی جعفر حسین صاحب نے جنرل ضیاالحق سے اپنے مطالبات منوا لیے تھے، زکاۃ آرڈینس کے متعلق۔ پھر کئی سالوں بعد مولانا خادم رضوی نے بھی اپنے مطالبات منوا لیے، یہ سب دھرنے مذہبی مطالبات منوانے کیلئے انجام دیئے گئے، جو سب کامیاب ہی سمجھے جائیں گے۔ اسی طرح سیاسی مقاصد کیلئے بھی دھرنے دیئے گئے ہیں، انکے ساتھ حکومتوں نے سختیاں بھی کی ہیں اور مذاکرات بھی کیے ہیں، نتیجہ وہی ہوتا ہے جن کے اشاروں پہ ایسے دھرنے دیئے جاتے ہیں۔ کبھی بیرونی طاقتیں بھی اپنی سیاسی پراکسییز کو استعمال کرتی ہیں، صرف عسکری طور پر لڑنے والے ہی ایجنٹ نہیں ہوتے، بیرونی طاقتوں کے سیاسی ایجنڈے پہ کام کرنیوالے بھی ہوتے ہیں، جنکا مقصد ملک میں افراتفری پھیلانا ہوتا ہے، اس سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، معیشت بیٹھ جاتی ہے، ملک کی مشینری رک جاتی ہے، ریاستیں ناکارہ اور تباہ ہو جاتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: ہمارا سوال یہی تھا کہ مولانا فضل الرحمان کا دھرنا کیسا ہے اور اس سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
شیخ وقاص اکرم:
جب لفظ استعمال ہوتا ہے مولانا، تو سب کے ذہن میں مذہب کا حوالہ آ جاتا ہے، حالانکہ پاکستانی سیاست میں مولانا لوگوں کے علاوہ بھی کئی علماء کا سیاسی کردار اور سیاسی مقاصد ہیں۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان بھی سیاست ہی کر رہے ہیں، انکا مارچ اور دھرنا اگر ہوتا ہے تو وہ سیاسی ہی سمجھا جانا چاہیے، اگر انکے سیاسی مقاصد نہ ہوتے تو حکومت کو ضرورت ہی کیا تھی، مولانا کیخلاف محاذ کھڑا کرنیکی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں سمجھتی کہ لوگوں کو مذہب کے نام پر exploit کرنا آسان ہے، یہ بات مولانا بھی بڑے اچھے طریقے سے جانتے ہیں، وہ اس میں مہارت رکھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر یہ سیاسی عمل کا ہی ایک حصہ ہے تو مولانا کیخلاف تنقید کرنیوالوں کو کیا حق حاصل ہے کہ انکے احتجاج کے حق کو استعمال کرنے سے روکا جائے؟
شیخ وقاص اکرم:
ایک ہے سیاسی مقاصد کیلئے اپنے قانونی اور آئینی حق کو استعمال کرنا اور دوسرا ہے کسی سے بدلہ لینا یا اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے لوگوں کو ورغلانا اور کسی اور کو بلیک میل کرنا۔ یہ کام جب حکومت کرتی ہے تو سب کو نظر آتا ہے کہ کسی کیخلاف انتقامی کاروائی ہو رہی ہے، لیکن یہ ایک انتقام کی شکل ہے جو مولانا اختیار کر رہے ہیں۔ انکا طرزعمل ہمیں لال مسجد کی یاد دلاتا ہے، یہ انکا آخری حربہ ہے۔ مولانا کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ سیاست میں شکست بھی ہوتی ہے، دیر سویر بھی ہوتی ہے، ایک سیاسی رہنماء کو آپے سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح کی باتیں شیخ رشید بھی کرتے ہیں، لیکن انہیں کوئی سنجیدہ نہیں لیتا، مولانا ایک سنجیدہ سیاست دان ہیں، انہیں یہ زیب نہیں دیتا، یہ خون خرابے کا سہارا لیکر حکومتیں گرانے یا اپنی سیاسی کامیابی کیلئے منصوبہ بندی کریں، یہ بلیک میل کرنے والی بات ہے، جسکی اجازت نہ مذہب دیتا ہے نہ سیاسی اخلاقیات میں اسکی کوئی گنجائش ہے۔ اب جس طرح وہ مدارس کے بچوں کو سڑکوں پہ لانے کی بات کر رہے ہیں، اس سے وہ سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ جب بچے ہونگے تو پولیس، فوج، اور دوسرے سیکورٹی ادارے انہیں اس طرح نہیں روکیں گے، جس طرح عام طور پر سیاسی ورکرز کو سختی سے نمٹا جاتا ہے۔ اس سے تو یہ لگتا ہے کہ لال مسجد کا مائنڈ سیٹ ابھی تک سیاست میں موجود ہے، لیکن اب اسکا چلنا آسان نہیں ہے۔ اب لوگ بھی یہ پسند نہیں کرینگے، ایسا کوئی ہتھکنڈہ خود مولانا کیلئے کے گلے میں پڑ جائیگا۔ اس کیلئے ریاستی ادارے مکمل احتیاط کرینگے، لیکن خدشہ یہ ہے کہ مولانا خود یہ چاہیں گے کہ ایسا حادثہ پیش آئے اور مولانا لاشوں پہ سیاست کریں، اس سے انکا اپنا چہرہ بے نقاب ہوگا، اگر سیاست میں انکی کوئی حیثیت اور پوزیشن بچ بھی گئی ہے تو وہ ختم ہوجائیگی۔ اسکا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ مولانا فقط سیاسی مقاصد کیلئے ہی ختم نبوت کا نعرہ لگا رہے ہیں، حالانکہ اس سے قبل جب ظفر اللہ جمالی نے اپنا استعفیٰ دیا تھا، اگر انہیں درد ہوتا تحفظ ختم نبوت کا تو یہ بھی اسمبلیاں چھوڑ دیتے۔ یہ تو اسمبلیوں میں تقریریں کرتے رہے۔ جب پیر آف سیال شریف نے استعفیٰ دیا اور تحریک چلائی، اس وقت کئی اراکین اسمبلی نے انہیں اپنے استعفے دیئے، تب مولانا نے کیوں استعفیٰ نہیں دیا۔

اسلام ٹائمز: کیا اپوزیشن کی باقی جماعتوں کا موقف اپنی جگہ پر درست ہے؟
شیخ وقاص اکرم:
مولانا اگر سیاستدان ہیں تو یہ پارٹیز بھی سیاست کے گرو ہیں، اسی لیے انہوں نے مولانا کی مخالفت نہیں کی، لیکن شرط لگا کر حمایت کر دی ہے، وہ کہتے ہیں دھرنے کے حامی نہیں لیکن مارچ کیلئے سہولتیں فراہم کرینگے، پانی کی سبلیں اور کھانے کیلئے لنگر چلائیں گے، اسکا تو یہی مطلب ہوا کہ وہ اندر سے چاہتے ہیں کہ دھرنا کامیاب ہو جائے لیکن نام نہ آئے، ورنہ جس چیز کے آپ خلاف ہیں اس کیلئے سہولت فراہم کرنیکا کیا مطلب ہے۔ انہوں نے مارچ کی حمایت اور دھرنے کو غیر جمہوری انداز کہہ کے سب تعریفیں بھی سمیٹ لیں اور مولانا کے احتجاج کی مخالفت بھی نہیں، یہ اس لیے ایسا کر رہے ہیں کہ اگر دھرنا کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ اسکے ثمرات سے فائدہ اٹھائیں گے، یہ مذہبی رنگ دینے والے دھرنے کا حصہ نہیں بننا چاہتے، لیکن اسی مذہبی کارڈ پہ ہونیوالے مارچ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ اور یہ بھی تمام اپوزیشن جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے ہمیشہ ہی سیاست کیلئے مذہب کو استعمال کیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی جانتے ہیں کہ مولانا اب بھی مذہب کے نام پہ سیاست کر رہے ہیں، اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ سب پارٹیز سیاست کیلئے مذہب کے نام پر عوام کے استحصال میں برابر کی شریک ہیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان نے الیکشن میں شکست کیساتھ ہی کہہ دیا تھا کہ اس سیٹ اپ کا بائیکاٹ ہونا چاہیے، تو انہوں نے احتجاج، دھرنے اور مارچ کا فیصلہ اب آ کر کیوں کیا ہے، پہلے کیوں نہیں کیا؟
شیخ وقاص اکرم:
یہ بڑا اہم سوال ہے، سب نے حتیٰ کہ مولانا کے اتحادیوں اور سیاسی ساتھیوں نے بھی انہیں مشورہ دیا ہے کہ دھرنا موخر کریں، لیکن مولانا ایک عرصے سے اسکی تیاری کر رہے تھے، وہ تیاری خاص اس مہنے کیلئے ہی تھی، جو انہوں نے پورے سال کا وقت لیا یہ بھی اسی لیے لیا ہے کہ وہ مخصوص وقت پہ مخصوص انداز میں دھرنے اور مارچ کیلئے نکلنا چاہتے تھے، انہوں نے پورے پاکستان میں مارچ کیے ہیں، جلسے کیے ہیں، وزیرستان سے لیکر چکوال تک، لیکن ہر جگہ صرف مدارس کے لوگ ہی تھے، انہیں ختم نبوت کے نام پر ہی نکالا گیا، بعض اجتماعات میں جماعت اسلامی یا شاید کچھ اور مذہبی جماعتوں کے لوگ بھی شریک ہوئے، پہلے انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے مذہبی جماعتوں کے پلیٹ فارم کو بھی استعمال کرنیکی کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئے، ہر جگہ جاتے رہے، کسی نے ساتھ نہیں دیا۔

ساتھ ساتھ انہیں سیاسی جماعتیں بھی دھرنا موخر کرنیکی سفارش کرتی رہی ہیں، پھر بھی مولانا نے یہ مہنے اس لیے منتخب کیے ہیں، جب ملک میں غیرسیاسی تبدیلیوں کا موسم ہے، اعلیٰ سطح کے اداروں میں سرکردہ آفشلز کی ریٹائرمنٹ اور ایکسٹنشن کی بات چل رہی ہوتی ہے، بدقسمتی سے یہ ہمارے ملک کی روایت بنتی جا رہی ہے، اس سے حکومتیں بھی فائدہ اٹھاتی ہیں، کبھی کبھی اپوزیشن کو بھی موقع مل جاتا ہے، انہیں کہیں نہ کہیں سے تھپکی مل جاتی ہے، اب مولانا کے متعلق متضاد خبریں ہیں، دیکھیں وہ کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، لیکن انکی سیاست کی بقاء کی ضمانت میرے خیال میں دی گئی ہے، اپنے مارچ کیلئے رکھے گئے مطالبات میں وہ کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں اسکا فیصلہ حکومتی حکمت عملی کریگی یا حالات۔

اسلام ٹائمز: کیا دھرنے یا مارچ کے پیچھے خلائی مخلوق کا ہاتھ ہے یا یہ صرف اپوزیشن کا منتخب کردہ بہترین موقع ہے؟
شیخ وقاص اکرم:
ایک پہلو ایسا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان چونکہ گورننس میں ناکام رہے ہیں تو مقتدر حلقے عمران خان کو بھی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کے پیچھے ہی چلیں، ان سے آگے چلنے میں بہت سارے خطرات کا سامنا کرنا پڑیگا، وہ دھرنا بھی ہو سکتا ہے، مارچ بھی اور احتجاج بھی، بس اس سے زیادہ کہنا مناسب نہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت تو اس حوالے سے بھی مسلسل یوٹرن لے رہی ہے، پہلے انہوں نے کنٹینرز کی پیشکش کی اب ٹانگیں توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں، کیا حکومت اس قابل ہے کہ اتنے بڑی احتجاجی تحریک کو برداشت کر سکے؟
شیخ وقاص اکرم:
یہ حکومت خود ایسے ہتھکنڈے استعمال کر کے اقتدار میں آئی ہے، یوٹرن انہوں نے حکومت میں آنے کے بعد لینے شروع کیے ہیں، لیکن حکومت کی بنیادیں بہت کمزور ہیں، کوئی بھی چیز اپنی جگہ نہیں ہے۔ انکی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ ایک ٹیم نہیں ہیں، شاید کرکٹ کی ٹیم کے تصور پہ بھی پورے نہیں اترتے۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت، یہ لوگ کام نہیں کر رہے۔ لوگوں کو بہت پریشانی ہے۔ لیکن قسمت انکا ساتھ دے رہی ہے۔ کشمیر کی صورتحال کو زیادہ دیر تک حکومتی کمزوریاں چھپانے کیلئے استعمال نہیں کر سکیں گے، ہمارے اڑوس پڑوس کے مخدوش حالات کیوجہ سے ایک غیریقنی صورتحال ہے، اگر تبدیلی آتی ہے تو یہ سیاسی عمل یا سیاسی عمل نماء کسی طریقے سے آئیگی، اسی طرح اگر کشمیر پہ کوئی تیسرا آپشن سامنے آتا ہے تو اس کے لیے بھی سیاسی حکومت کو ہی آگے رکھا جائیگا، پھر جو مہنگائی اور معیشت کی صورتحال ہے، اسے ٹیک اور کرنا اب مشکل ہے، نہ کسی عالمی طاقت کو اس طرح پاکستان کی ضرورت ہے کہ کسی آئندہ حکومت کو کچھ آفر کر سکیں۔

امریکہ تو خود اس علاقے سے جانا چاہتا ہے، چین کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک میں مداخلت کیلئے کسی ریاست کو اتحادی قرار دے، اس پہ اس طرح خرچ کرے، اندرونی کمزوری اگر دور نہ ہو سکی تو انتخابات یا ان ہاوس تبدیلی ہو سکتی ہے، سیاست ہے، سیاست میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آئین کے دائرے کے اندر ہی ہو، کوئی غیر جمہوری عمل بھی نہ ہو۔ لیکن جو کام عمران خان نے شروع کیا ہے اس سے انہیں ملک کے اندر سیاسی طور پر کچھ نہ کچھ سہارا مل رہا ہے، اب انہوں نے سفارتی مہمات شروع کی ہوئی ہیں، جسکی وجہ سے انہیں عوام سے کچھ نہ کچھ کہنے کا جواز مل جاتا ہے، انہوں نے بڑی چابکدستی سے غربت کے خاتمے، کرپشن اور جنگ کی بجائے امن کے اپنے پرانے بیانیے کو استعمال کرنا شروع کیا ہے، اس سے وہ کچھ کچھ ہی سہی، لیکن ملک کے اندر سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن مجموعی طور پر ملک ان سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ مولانا بھی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس سے قبل ایک دھرنا جسکا آپ نے ذکر نہیں کیا، ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے دیا ہے، مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں اور انکے دھرنے میں کوئی مماثلت ہے؟
شیخ وقاص اکرم:
انہوں نے ایک دفعہ نہیں دو دفعہ دھرنا دیا ہے، وہ نرمی سے پیش آنیوالے آدمی ہیں، کوئی بھی آجاتا تھا تو وہ یاداشت پہ دستخط لیکر خاموش ہوکر چلے جاتے تھے، لیکن مولانا فضل الرحمان کا سیاسی حساب انکی نسبت مختلف بھی ہے اور مضبوط بھی ہے، یہ اگر آئیں گے تو آسانی سے نہیں جائیں گے، سختی کرینگے تو یہ برداشت کرینگے، سختی اگر کی گئی تو اسکا جواب بھی دینگے، انکی کوشش ہو گی، بڑی سیاسی کامیابی کے بغیر نہ لوٹیں، ورنہ یوٹرن کے طعنے انکی جان نکال دینگے۔ اسی طرح انکے ساتھ جو ایلیمنٹ آئیگا وہ طاہرالقاردی اور پی ٹی آئی کے ورکرز سے بہت مختلف ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف ملک نہیں سنبھالا جا رہا، دوسری جانب وزیراعظم کشمیر کو پس پشت ڈال کر دوسرے ممالک کے درمیان دشمنیاں ختم کروانے کا مشن لیکر چل پڑے ہیں، کیا یہ ممکنات میں سے ہے؟
شیخ وقاص اکرم:
اگر مثبت انداز میں دیکھیں تو یہ ایک اچھی کوشش ہے، پاکستان کی تاریخ میں یہ کردار امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ کے خاتمے کے حوالے سے مثبت رہا ہے، لیکن اس میں اور امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ میں فرق یہ ہے کہ وہاں امریکہ کا اپنا مفاد تھا، یہاں امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں، اس کے باوجود جب سعودی ولی عہد سے اصرار کر کے پوچھا گیا ہے کہ آرمکو حملوں میں ایران کے ملوث ہونے کے حوالے سے سخت ردعمل دیں تو انہوں نے سخت باتیں بھی کی ہیں، لیکن پہلی دفعہ لچک بھی دکھائی ہے کہ بات چیت ہونی چاہیے، یہ ایک دریچہ ہے، جو نواز شریف کیلئے نہیں تھا، عمران خان کو اپنی کوشش کرنی چاہیے، ہو سکتا ہے سعودی عرب اب پوزیشن میں ہو کہ وہ پاکستان کے ذریعے ایران سے کشمکش میں کمی لیکر آئیں، لیکن امریکہ اور عالمی طاقتیں بالخصوص اسرائیل کیلئے اس میں موت کا پیغام ہوگا، وہ پاکستان کو بھی نقصان پہنچائیں گے اور سعودی عرب کیلئے بھی ایسی صورتحال بنائے رکھنے کیلئے کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کرینگے، ایران نے تو پہلے بھی میاں نواز شریف کو بھی کہا تھا کہ وہ مصالحت کیلئے کوشش کرنا چاہیں تو ضرور کریں، لیکن سعودی عرب نے صاف انکار کیا تھا، ہو سکتا ہے اب انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہو کہ یہ راستہ مناسب نہیں۔


خبر کا کوڈ: 822257

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/822257/سعودیہ-ایران-تناؤ-کا-خاتمہ-امریکہ-اور-اسرائیل-کیلئے-موت-کے-مترادف-ہوگا-شیخ-وقاص-اکرم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org