0
Thursday 24 Oct 2019 20:11
پاکستان ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے، جبکہ مولانا سمیت اپوزیشن کو ہی ترقی ہضم نہیں ہو رہی

مولانا قوم کے خیر خواہ نہیں بلکہ نواز شریف اور زرداری کے خیر خواہ ہیں، ناصر موسیٰ زئی

اگر ہماری صفوں میں بھی کوئی کرپشن کرتا ہوا پکڑا گیا تو اسکے ساتھ بھی قانون کے مطابق سلوک ہوگا
مولانا قوم کے خیر خواہ نہیں بلکہ نواز شریف اور زرداری کے خیر خواہ ہیں، ناصر موسیٰ زئی
ناصر موسیٰ زئی پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر گذشتہ عام انتخابات میں صوبائی دارالحکومت پشاور کے حلقہ این اے 29 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم پشاور میں ہی حاصل کی۔ ایڈورڈز کالج پشاور سے انٹر اور گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے مارکیٹنگ میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے کیا۔ وہ مسلسل دو بار مسلم لیگ (ن) کے صوبائی ترجمان مقرر ہوئے۔ ناصر موسیٰ زئی نے 2008ء اور بعدازاں 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔ 2018ء میں بعض معاملات پر اختلاف کے بعد انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو خیر باد کہہ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور ان کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 29 کیلئے پارٹی امیدوار نامزد کیا گیا۔ انہوں نے الیکشن میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ گذشتہ دنوں جب پارلیمانی سیکرٹری کی نامزدگی کا مرحلہ آیا تو ناصر خان کو پارلیمانی سیکرٹری برائے اسٹیبلشمنٹ نامزد کیا گیا، جبکہ وہ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے رکن بھی ہیں۔ ناصر خان موسیٰ زئی کا شمار متحرک کارکنوں میں ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے رکن قومی اسمبلی سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کی نذر ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت کا ایک سال پورا ہوگیا ہے اور اسوقت اپوزیشن جماعتیں اسلام آباد میں دھرنا دینے جا رہی ہیں، یہ وہ عمل ہے جو آپکی جماعت خود کر چکی ہے، اب اس دھرنے کی سیاست کو کیوں غلط قرار دیا جا رہا ہے؟
ناصر موسیٰ زئی:
اس سلسلے میں پہلی بات واضح کرتا چلوں کہ ہمارے اور ان کے دھرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے، ہم نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، ہمارا مطالبہ صرف چار حلقے کھولنے کا تھا، اس مقصد کیلئے ہم نے بار بار حکومت اور الیکشن کمیشن کو اپنے مطالبات سے آگاہ کیا مگر جب دونوں میں سے کسی نے بھی ہماری نہ سنی، جس کے بعد ہمیں انتہائی اقدام کے طور پر دھرنا دینا پڑا۔ اگر اُسوقت ہمارا یہ مطالبہ مان لیا جاتا تو کسی بھی صورت دھرنے کی نوبت نہ آتی، جہاں تک 2018ء کے عام انتخابات کا تعلق ہے تو ان میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں ہوئی، مگر چونکہ تمام جماعتوں کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا اس لئے ان سے آج اپنی شکست ہضم نہیں ہو رہی، اب اگر اسی تناظر میں اپوزیشن جماعتوں کے دھرنے کی بات کی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے اسے دھرنے کی بجائے آزادی مارچ کا نام کیوں دیا؟

ظاہر ہے کہ ان کو پتہ ہے کہ اس کیلئے دھرنے کا نام استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ دوسری افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ آج سیاست میں مذہبی کارڈ استعمال کیا جا رہا ہے، اسوقت آزادی مارچ کیلئے تحفظ ناموں رسالت ﷺ کے نام پر چندہ وصولی پورے عروج پر ہے۔ مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے، اس ملک میں ناموس رسالت ﷺ کا کوئی ایشو ہی نہیں، ہماری حکومت نے ماضی میں ختم نبوت ﷺ کے حلف نامے میں ترمیم کی کوشش کو بڑی کامیابی کے ساتھ ناکام بنایا تھا، جبکہ جے یو آئی (ف) اس موقع پر چونکہ وفاقی حکومت کا حصہ تھی اس لئے وہ خاموش رہی تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت پہلی بار دینی مدارس کے طلبہ کی بھر پور سپورٹ کر رہی ہے، ملک کی تاریخ میں پہلی بار دینی مدارس کے پوزیشن ہولڈر بچوں کو اعلٰی سطح پر انعامات دیئے گئے ہیں، اسی طرح آئمہ کرام کیلئے اعزاز بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اس لئے مذہبی کارڈ کے استعمال کی کوششیں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوگی۔

حیرت ہے کہ جب مولانافضل الرحمٰن جنرل مشرف کے دور میں ایک صوبائی حکومت کے مالک تھے تو اسوقت اسلام آباد کی لال مسجد میں بدترین کارروائی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں مسجد کیساتھ ساتھ سینکڑوں طالبات بھی شہید ہوئی تھیں، مگر تب مولانا فضل الرحمٰن نے نہ تو احتجاجی دھرنا دیا نہ ہی کوئی مارچ کیا تھا، ان کی سیاست کا مقصد صرف اور صرف حصول اقتدار ہے۔ اس مقصد کیلئے جے یو آئی (ف) آج دینی مدارس کے بچوں کو بھی استعمال کر رہی ہے جو بہت بڑی زیادتی ہے، کیونکہ ان بچوں کے والدین ان کو حصول علم کیلئے مدارس بجھواتے ہیں، ہماری صوبائی حکومت ان بچوں کو ہر صورت روکنے کی کوشش کرے گی، ہم ان کو گمراہ نہیں ہونے دیں گے۔ جے یو آئی (ف) کا مارچ اسلام نہیں اسلام آباد کیلئے ہے، اسی لئے تو وزیراعلٰی خیبر پختونخوا محمود خان نے واقع طور پر کہہ دیا ہے کہ کسی کو بھی صوبے کا ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اسلام ٹائمز: لیکن احتجاج تو ہر ایک کا جمہوری حق ہے؟
ناصر موسیٰ زئی:
بالکل آپ نے ٹھیک کہا لیکن مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ کرپٹ مافیا کو بچانے کیلئے ہے، مولانا قوم کے خیر خواہ نہیں بلکہ نواز شریف اور زرداری کے خیر خواہ ہیں۔ پاکستان ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے، جبکہ مولانا سمیت اپوزیشن کو ہی ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔ بہت جلد عوام عمران خان کی قیادت میں خوشحالی دیکھیں گے اور اپوزیشن کا دروغ گوئی پر مبنی واویلا ناکام ہو جائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے پہلے کشمیر کمیٹی کو لسی ڈکارنے کیلئے استعمال کیا تھا، اب مدرسے کے بچوں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم قوم اب مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کو جان چکی ہیں اور آزادی مارچ کا غبارہ ہوا میں ٹھس ہو جائے گا۔ موجودہ حکومت ہر طرح سے کوشش میں ہے کہ سخت فیصلوں کے بعد عوام کو ریلیف فراہم کر سکیں۔ موجودہ حکومت ایسی دیرپا پالیسیاں ترتیب دے رہی ہے جس سے موجودہ سخت حالات کا جلد خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور اپوزیشن ہمیشہ حکومت کیلئے حسرت کرتی رہے گی۔ یہ بجا کہ احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے، مگر یہ حق نامناسب وقت اور نامناسب طریقے سے استعمال کرنے کا حق کسی کو بھی ہے۔ آپ خود دیکھیں ابھی تک دونوں بڑی جماعتوں نے اس احتجاج میں شرکت کا باضابطہ اعلان نہیں کیا، ابھی تک ان کی طرف سے صرف بیان بازی ہی ہو رہی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو بھی احساس ہے کہ یہ وقت اس قسم کے احتجاج کیلئے کسی بھی صورت مناسب نہیں۔

اسلام ٹائمز: تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی تیاریاں بھی احتجاج روکنے کے حوالے سے پوری ہیں؟
ناصر موسیٰ زئی:
بالکل کسی قسم کی گڑ بڑ سے نمٹنے کیلئے ہماری تیاریاں مکمل ہیں، وزیر داخلہ بھر پور طریقے سے متحرک ہیں، صرف پنجاب پولیس کے 20 ہزار جوان ہمہ وقت چوکس رکھے گئے ہیں جو ضرورت پڑنے پر صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کئے جائیں گے۔ لیکن یہاں میں یہ بھی ضرور یاد دلاتا چلوں کہ جب ہم نے دھرنا دیا تھا تو اس وقت مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ پی ٹی آئی والے جتھہ لے کر آئے ہیں اور حکومت کو طاقت کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے اس جتھے کو اسلام آباد سے نکال دینا چاہیئے، وہ دھرنے کو نامناسب روایت قرار دیتے رہے ہیں یہی موقف موجودہ تمام اپوزیشن جماعتوں کا بھی تھا، مگر آج ان تمام جماعتوں نے اپنا موقف بدل لیا ہے۔ یوں اسوقت ہمارے دھرنے کو خلاف آئین قرار دینے والی تمام جماعتوں نے یوٹرن لیتے ہوئے آج اپنے دھرنے کو آئینی و قانونی قرار دینے پر سارا زور صرف کر دیا ہے، جو ان کی سیاسی منافقت کی انتہا ہے۔ جب ہم نے حکومت کے خاتمہ کی بات کی تھی تو اسے جمہوریت کے خلاف سازش سے تعبیر کیا گیا، مگر آج بھی جماعتیں جب حکومت کے جانے کی باتیں کر رہی ہیں تو کسی کو بھی جمہوریت خطرے میں دکھائی نہیں دیتی۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے، آپ کے خیال میں وفاقی حکومت اپنے وعدوں کی تکمیل میں کس حد تک کامیاب رہی ہے؟
ناصر موسیٰ زئی:
پوری قوم کو پتہ ہے کہ جس وقت ہم نے اقتدار سنبالا تو ملک کی اقتصادی حالت ناگفتہ بہ ہوچکی تھی، سابق حکمرانوں نے بدترین زیادتی کرتے ہوئے آخری دنوں شارٹ ٹرم قرضے انتہائی زیادہ شرح سود پر لئے، اسی طرح آخری دنوں میں قرضوں کی جو ادائیگی کی جانی تھی وہ بھی یہ کہہ کر روک دی گئی کہ اب نئی حکومت ادا کرے گی، یوں توازن بگاڑ کر رکھ دیا گیا تھا۔ ہم نے اس ایک سال میں ان کے لئے ہوئے قرضوں میں سے 10 ارب ڈالر واپس کر دیئے ہیں، یوں ان لوگوں نے جو عدم توازن پیدا کر دیا تھا وہ اب بتدریج برابر ہونے جا رہا ہے، مسلسل کوششوں اور کفایت شعاری کی پالیسی کی وجہ سے ملکی معیشت اب پٹڑی پر چڑھ چکی ہے اور اب اگلے 2 سال کے دوران اس کے ثمرات پوری قوم اپنی آنکھوں سے دیکھے گی۔

اسلام ٹائمز: کرپشن کے خاتمہ کیلئے کوششوں میں کتنی کامیابی حاصل ہوسکی ہے اور مکمل شفافیت کیلئے حکمت عملی کن مراحل میں ہے؟
ناصر موسیٰ زئی:
بعض چیزیں کہنے کی بجائے دیکھنے والی ہوتی ہیں، ہمارے وزیراعظم بار بار کہتے چلے آرہے ہیں کہ جب چین میں اوپن مارکیٹ اکانوی کا آغاز ہوا اور ترقی کی نئی راہیں کھلنے لگیں تو ساتھ ہی کرپشن بھی شروع ہوگئی، جس کے بعد سخت اقدامات کرتے ہوئے سینکڑوں حکومتی اہلکاروں اور وزراء کو سخت ترین سزائیں دی گئیں، جس کے بعد اب وہاں کرپشن نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، جس کے بعد ان کی ترقی کی شرح میں مزید تیزی آ چکی ہے۔ ہم بھی اپنے ملک میں یہی چاہتے ہیں، یہاں ہر ادارے میں کرپشن ہو رہی ہے کسی کو بھی ملکی مفاد عزیز نہیں، سب ہی اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کرپشن کے خلاف بلاامتیاز کارروائی شروع کر رکھی ہے اور اس کے ثمرات سامنے آتے جا رہے ہیں، ہم کرپشن کے ناسور مکمل طور پر ختم کر کے ہی دم لیں گے۔ کسی کو بھی کرپشن کے خلاف جہاد کی راہ میں روڑے اٹکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر ہماری صفوں میں بھی کوئی کرپشن کرتا ہوا پکڑا گیا تو اس کے ساتھ بھی قانون کے مطابق ہی سلوک ہوگا۔

اسلام ٹائمز: مگر اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یکطرفہ احتساب ہو رہا ہے اور ہمیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
ناصر موسیٰ زئی:
یہ بھی بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ اِسوقت اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف جو کیس چل رہے ہیں اور جن کی بنیاد پر ان کے اکثر مرکزی قائدین جیلوں میں ہیں وہ کیسر انہی کے ادوار حکومت میں ایک دوسرے کے خلاف بنائے گئے تھے۔ ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن اور خود آصف زرداری انہی کیسز میں جیلوں میں بند ہیں جو مسلم لیگ (ن) کے دور میں بنے تھے، جبکہ میاں نواز شریف کو جس کیس میں سزا ہوئی وہ خود ان کے اپنے دور میں بنا تھا، اس لئے موجودہ حکومت پر پسند و ناپسند کے الزامات پوری طرح سے بے بنیاد ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کا تعلق پشاور کے پسماندہ علاقے سے ہے، اپنے حلقے کے بنیادی مسائل کیلئے کون کونسے اہم اقدامات کئے ہیں؟
ناصر موسیٰ زئی:
میرے حلقے کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈشیڈنگ کا تھا، بلکہ یہ پوزرے صوبے کا سنگین مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پیسکو سالانہ لائن لاسز تین سے چار ارب روپے سالانہ چلے آرہے تھے۔ لائن لاسز کی بڑی وجہ کنڈا کلچر ہے جس کے خاتمے کیلئے میری تجویز پر اب پورے صوبے کیلئے اڑھائی سے تین ارب روپے کا منصوبہ لایا جا رہا ہے جس کے تحت کیبل سسٹم متعارف کیا جائے گا۔ اس سے 50 فیصد تک لائن لاسز ختم ہو جائیں گی۔ اس کیلئے ٹینڈر ہو چکا ہے، نومبر میں اس پر کام شروع ہو جائے گا جس سے میرا حلقہ بھی مستفید ہوگا۔ اس طرح گیس کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔ اسکیم چوک سے سیفن گیس منصوبے کا افتتاح ہو چکا ہے، جبکہ اب سیفن چوک سے تنگی تک کا مرحلہ شروع کیا جا رہا ہے اس سے گیس کے کم پریشر کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ اس طرح اپنے حلقے میں ہر یونین کونسل کی سیٹ پر بارہ ٹرانسفارمر فراہم کرنے کا پروگرام بھی ہے۔ حلقے کی تمام مساجد کو سولرائز کیا جائے گا، جبکہ سکولوں کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔ اپنے حلقے میں دو نئے نادرا مراکز قائم کئے جائیں گے، تاکہ عوام کی مشکلات کم ہو سکیں۔ اسی طرح اوچ نہر کے دیرینہ مسئلہ پر توجہ دی گئی ہے۔ 88 کروڑ کی لاگت سے جدید ترین پمپنگ سسٹم سے اوچ نہر کا مسئل عنقریب حل ہو جائے گا جس کے بعد اگلی فصلوں کیلئے پانی دستیاب ہوسکے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ اسوقت پارلیمانی سیکرٹری برائے اسٹیبلشمنٹ کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں، بیوروکریسی کے حوالے سے اصلاحات کا عمل کن مراحل میں ہے؟
ناصر موسیٰ زئی:
بیوروکریسی کیلئے اصلاحات کو حتمی شکل دی جاچکی ہے، تقرریوں اور تبادلوں کیلئے قواعد وضع کئے جا رہے ہیں تاکہ تمام معاملات میں شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔ پشاور میں گیس اور بجلی کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کئے جا رہے ہیں، عمران خان کا پہلے دن سے ہی یہ کہنا تھا کہ اداروں کو ہر صورت اصلاحات سے ہمکنار کریں گے۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے سرکاری افسران کا قبلہ درست کرنا لازمی امر ہے، اسی لئے اب افسران کی تقرریوں و تبادلے کیلئے نیا طریقہ کار سامنے لایا جا رہا ہے جس کیلئے سفارشات کو حتمی شکل دی جاچکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 823258
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش