QR CodeQR Code

ہماری فوج سعودی عرب کی اور وہ ہندوستان کی خدمت کر رہے ہیں، قاضی عبدالقدیر خاموش

31 Oct 2019 22:20

جمعیت علماء اہل حدیث پاکستان کے مرکزی چیئرمین کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہم اس مارچ کی اصولی طور پر تو حمایت نہیں کرتے، لیکن موجودہ حکومت نے معاملات اتنے بگاڑ دیئے ہیں کہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہے نہیں۔ رہی بات مولانا کے مفادات کی، تو مفادات تو ہر سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں، ہر جماعت کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اگر مولانا کی اپنی پارٹی کی ترجیحات اور مفادات ہیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ کوئی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت اپنی ترجیحات کے بغیر تو آگے نہیں بڑھتی۔


قاضی عبدالقدیر خاموش پاکستان میں مذہبی، علمی یا سفارتی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ جمعیت علماء اہل حدیث پاکستان کے مرکزی چیئرمین ہیں۔ پیس اینڈ ایجوکیشن فاونڈیشن اور انٹرفیتھ ڈائیلاگ کمیٹی کے بھی سربراہ ہیں۔ بنیادی طور پنجاب کے علاقے ہیل سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم طویل عرصے سے وفاقی دارالحکومت میں قیام پذیر ہیں۔ انٹرفیتھ ڈائیلاگ اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے سلسلہ میں مختلف ممالک کے دورے کرچکے ہیں۔ دنیائے امن بالخصوص عالم اسلام کو درپیش مسائل و چیلنجز کے موضوع پہ مقالے رقم کرچکے ہیں۔ معاشرے میں امن و تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اسکے فروغ کیلئے سرگرم ہیں۔ اسلام ٹائمز نے جمعیت علماء اہلحدیث کے سربراہ جناب قاضی عبدالقدیر خاموش صاحب کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ
 
اسلام ٹائمز: سب سے پہلے آج رحیم یار خان میں جو افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے، اس پر آپ کیا کہنا چاہئیں گے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش:
یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، اللہ تعالیٰ اس حادثہ میں جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائے اور جو زخمی ہیں انہیں شفاء عطا فرمائے، اللہ سے ہماری دعا ہے کہ جن کے پیارے اس حادثہ میں فوت ہوئے ہیں، انہیں صبر جمیل عطا کرے۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس حادثہ کے متاثرین کی امداد کا اعلان کرے۔  
 
اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت مولانا فضل الرحمان صاحب کے آزادی مارچ کی حمایت کرتی ہے یا نہیں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش:
ہم اس مارچ کی اصولی طور پر تو حمایت نہیں کرتے، لیکن موجودہ حکومت نے معاملات اتنے بگاڑ دیئے ہیں کہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہے نہیں۔ رہی بات مولانا کے مفادات کی، تو مفادات تو ہر سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں، ہر جماعت کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اگر مولانا کی اپنی پارٹی کی ترجیحات اور مفادات ہیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ کوئی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت اپنی ترجیحات کے بغیر تو آگے نہیں بڑھتی۔
 
اسلام ٹائمز: مولانا کے آزادی مارچ سے قبل بریلوی مکتب فکر کے کئی نامور علمائے کرام اور مشائخ کی عمران خان سے ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے مولانا فضل الرحمان کے مارچ کے مقابلہ میں امن مارچ کی بات کی تھی، اس ملاقات پر بعض حلقوں کیجانب سے تنقید سامنے آئی تھی کہ عمران خان مولانا کے مقابلہ میں ایک خاص مسلک کو لانا چاہ رہے ہیں، اس پر آپکی کیا رائے ہے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش:
میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کا رویہ انتہائی نامناسب ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیم کا رویہ بھی ٹھیک نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مولانا مذہب کارڈ استعمال نہ کرے، جبکہ عمران خان خود مولانا کی تحریک کو ناکام کرنے کیلئے مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ عمران خان کی پوری ٹیم عرصہ سے مذہب کارڈ کی رٹ لگائے ہوئے ہے، تو پھر عمران خان صاحب خود مولویوں کو بلوا کر ان سے بیانات دلوا رہے ہیں، کیا یہ مذہب کارڈ نہیں ہے۔؟
 
اسلام ٹائمز: قوم جب دیگر جماعتوں کو آزما چکی ہے، اور اب عمران خان کو مینڈیٹ دیا ہے، تو آپ نہیں سمجھتے ہیں کہ انہیں بھی کچھ ٹائم ملنا چاہئے۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش:
عمران خان تو کسی کی امید نہیں تھے، جس الیکشن میں پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشن سے اٹھا دیا جائے پھر گنتی کی جائے تو شکوک تو پیدا ہوتے ہیں ایسے انتخابات پر۔ پاکستان میں تو کبھی بھی سیاسی حکومتوں کو فیصلے کرنے کا اختیار حاصل نہیں رہا، وزارت خارجہ اور داخلہ سمیت تمام اہم وزاتیں کبھی بھی سیاسی حکومتوں کی انڈر نہیں رہیں۔
 
اسلام ٹائمز: کیا آپ بھی گذشتہ انتخابات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش:
ہم نے تو اسی دن اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا، ان انتخابات پر تو کئی سوالات ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: آج بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع کروا دیا ہے، ایسے میں حکومت پاکستان کی کشمیر پر ایشو اب تک کوششوں کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش:
اصل میں خان صاحب کسی بھی کام کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، ایسے کام تقریروں سے نہیں ہوتے، یہ تیکنیکی معاملات ہوتے ہیں، انہیں تیکنیکی انداز میں ہینڈل کیا جاتا ہے، تب ہی کاوشیں موثر ثابت ہوتی ہیں۔ تقریروں سے کسی دوسری اسمبلیوں کے فیصلے تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔ پاکستان کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں جانا چاہیئے، ہمارا فوکس یو این او پر ہونا چاہیئے، عمران خان کو ان معاملات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، ان کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ یہ بین الاقوامی ملاقاتوں کیلئے ذولفی بخاری جیسے بندے کو بھیج دیتے ہیں۔ کسی کیساتھ دوستی اور کسی کی وفاداری کو دیکھ کر تو انہیں وزارتیں دی ہوئی ہیں۔ عمران خان نے کشمیر کے مسئلہ پر بھی صرف غیر سنجیدگی دکھائی ہے۔
 
اسلام ٹائمز: خان صاحب تو عرب حکمرانوں کے ڈرائیور بھی بنے، لیکن انہوں نے کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی بجائے ہندوستان کا ساتھ دیا۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش:
جب ہمیں قرارداد کیلئے ووٹوں کی ضرورت تھی تو کیا عرب ممالک نے ووٹ دیئے۔؟ یہاں پر سعودی اور امارات کے وزیر خارجہ کیا کہہ  کر گئے تھے، انہوں نے واضح کہا تھا کہ اسے انسانی حقوق کا مسئلہ نہ بنائیں۔ اس سے بڑی ناکامی کیا ہوسکتی ہے۔ جب اسلامی تاریخ رکھنے والا ملک سعودی عرب بھی ہمیں یہ کہے کہ مسئلہ کشمیر کو اسلامی ایشو نہ بناو تو پھر کیا بات رہ جاتی ہے۔ کسی حکمران کی گاڑی چلانا آداب کی خلاف ورزی ہے، یہ خوشامد کی حد ہے۔ ان حرکتوں سے ملکوں کے موقف نہیں بدلتے نہ ہی احترام پیدا ہوتا ہے۔ عربوں کی گاڑیاں چلا کر عمران خان نے پاکستان کی عزت میں اضافہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کی بدنامی کی۔
 
اسلام ٹائمز: مسلم دنیا میں ایران اور ملائشیاء نے تو کشمیر ایشو پر پاکستان کی کھل کی حمایت کی۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش:
کوئی بھی ملک جس نے ہمارا ساتھ دیا اس کا ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
 
اسلام ٹائمز: گذشتہ روز مودی کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر دونوں ممالک کے مابین مزید اہم معاہدے ہوئے ہیں، کیا اب بھی سعودی عرب سے ہمیں کسی قسم کی امیدیں رکھنی چاہئیں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش:
وہ تو اس سے قبل بھی کئی بلین ڈالرز کے معاہدے کرچکے ہیں اور ہمیں امداد پر ٹرخا رہے ہیں، اور ہماری تو فوج ان کی خدمت کیلئے وہاں بیٹھی ہوئی ہے، میں نے عرض کیا نہ کہ ان معاملات کیلئے بڑے وسیع تجربے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کیلئے ماہرین درکار ہوتے ہیں، جب یہ بچوں کے ذریعے مذاکرات کروائیں گے تو یہی نتائج نکلیں گے۔
 
اسلام ٹائمز: عمران خان تو سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کرانے کی بات کر رہے ہیں، آپ ان کی صلاحیتوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔؟
قاضی عبدالقدیر خاموش:
ان کا وہ قد کاٹھ ہی نہیں ہے کہ ان ممالک کے مابین ثالثی کراسکیں، عمران خان کو سعودی عرب اور ایران کے مابین مذاکرات کرانے کی بجائے خود اپوزیشن سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ یہ اپنے ملک میں تو مذاکرات کر نہیں سکتے، ایران اور سعودی عرب کے مابین کیا کروائیں گے۔
 


خبر کا کوڈ: 824968

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/824968/ہماری-فوج-سعودی-عرب-کی-اور-وہ-ہندوستان-خدمت-کر-رہے-ہیں-قاضی-عبدالقدیر-خاموش

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org