0
Monday 25 Nov 2019 09:01

آر ایس ایس بھارت کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے، غلام احمد میر

آر ایس ایس بھارت کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے، غلام احمد میر
غلام احمد میر کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے۔ وہ جموں و کشمیر کے قدآور سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ غلام احمد میر پردیش کانگریس کیلئے ریاست جموں و کشمیر میں صدر کے طور پر گذشتہ بارہ برسوں سے فعال ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی اسمبلی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں اور پردیش کانگریس کیلئے سالہا سال سے انتخابات میں حصہ لیکر اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے غلام احمد میر سے بھارت کی سیاسی صورتحال اور کانگریس و بھاجپا کی باہمی رسہ کشی پر بھی تفصیلی انٹریو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز۔ کیا آپ کانگریس پارٹی کو مضبوط ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، کیا آپ بھارتی عوام کو دوبارہ اپنے موافق دیکھ رہے ہیں۔؟
غلام احمد میر:
دیکھیئے بھارتی عوام کا موڈ تبدیل ہو رہا ہے اور ملک کے نوجوان کانگریس کی طرف امید سے دیکھ رہے ہیں۔ ملک کے غریبوں کے لئے کم از کم آمدنی گارنٹی یعنی ’’نیائے منصوبہ‘‘ سے سیاسی تناظر بہت جلد بدلنے والا ہے۔ کانگریس پارٹی کے صدر محترم راہل گاندھی کا خیال ہے کہ اس نئے منصوبہ سے ملک کو ریمونیٹائیز کرنے میں پوری مدد ملے گی۔ ہمارا ماننا ہے کہ ’’نیائے منصوبہ‘‘ ہندوستان کی معیشت کو ریمونیٹائیز کرے گا۔ جیسے انجن میں پٹرول ڈالا جاتا ہے، نیائے منصوبہ ملک کی معیشت کو جمپ اسٹارٹ کر دے گا۔ بھاجپا کی غلط پالیسیوں کو کانگریس کے بغیر کوئی اور سدھار بھی نہیں سکتا ہے۔ ملک کی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانا ہمارا فریضہ ہے۔ نوجوان کانگریس کی طرف امید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ نیائے منصوبہ ایک پہل ہے بہتر معیشت کی جانب۔ بھاجپا کو یہ نیائے منصوبے ہضم نہیں ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری مشینری اس منصوبے کے خلاف لگائی ہوئی ہے لیکن ہم اس منصوبے کو کامیاب بنا کر ہی دم لیں گے۔

اسلام ٹائمز: بھارتیہ جنتا پارٹی آپکے نئے منصوبے نیائے منصوبہ کو نشانہ بنائے ہوئے ہے اور کہہ رہی ہے کہ نیائے منصوبہ کیلئے پیسہ کہاں سے آئیگا۔؟
غلام احمد میر:
ہم نے ہمیشہ اپنے وعدے کو نبھایا ہے۔ ہم نے مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، پنجاب، کرناٹک میں کسانوں سے قرض معافی کا وعدہ کیا تھا، وہ وعدہ ہم نے پورا کیا ہے۔ نریندر مودی نے کہا تھا کہ کسانوں کے قرض کی معافی کے لئے پیسہ نہیں ہے لیکن ہم نے کانگریس کی حکومت سازی کے 48  گھنٹے میں قرض معاف کرکے دکھایا تھا۔ نیت خالص ہو تو ملک کی عوام ہمیشہ ساتھ دیتی ہے۔ ہماری طاقت یہاں کی عوام ہے اور لوگوں کا اعتماد ہے، جو ہمیں ملک کو تبدیل کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کی عوام بھاجپا کی خراب پالیسیوں سے تنگ آچکی ہے، عوام چاہتی ہے کہ کوئی آگے آئے اور انہیں راحت پہنچائے۔ اب بھاجپا والے کہہ رہے ہیں کہ نیائے منصوبہ کے تحت پانچ کروڑ خاندانوں کے لئے 72 ہزار روپے سالانہ کی رقم کہاں سے آئے گی۔ میں کہتا ہوں کہ مودی جی کے مٹھی بھر صنعت کار دوستوں کی جیب سے پیسہ نکلے گا، متوسط طبقہ پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ ان سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا جائے گا اور نہ ہی ٹیکس میں کوئی اضافہ ہوگا۔ ہمارا ماننا ہے کہ نیائے منصوبہ سے غریبوں کے ہاتھ میں اور پیسہ آئے گا، مانگ بڑھے گی اور نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔

اسلام ٹائمز: بھاجپا نے کیسے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔؟
غلام احمد میر:
بڑے نوٹوں کی منسوخی اور جی ایس ٹی نے ملک کی معیشت کو تباہ کرکے رکھا ہے۔ ان ٹیکسز کے نتیجے میں بھارتی عوام کو شدید نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ یہ حربے مودی کے دور کی سب بڑی ناکامیاں ہیں۔ مودی جی کی ایک اور خامی ہے کہ انہیں زرعی علاقہ کے مسائل معلوم ہی نہیں ہیں۔ نریندر مودی کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی طاقت کھیتی ہے اور آپ اسے درکنار نہیں کرسکتے ہیں۔ ان کی ایک اور خامی یہ ہے کہ کالے دھن کے خلاف لڑائی میں وہ فیل ثابت ہوئے ہیں۔ آپ کوئی ایک کام بتائیں جو بھاجپا نے کیا ہو اور اسے ملک کی معیشت کو نقصان نہ پہنچا ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ شدت پسندی سے ملک کی معشیت کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا ہے۔ جب تک ہم لوگوں کے مسائل اور ترقی کی راہوں کا تعین نہیں کریں گے، تب تک ہم ملک کی معیشت کو سدھار نہیں سکتے ہیں۔ لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیل کر ملک کو نہیں چلایا جاتا ہے۔ آج ملک کی حالت دیکھتے ہوئے تبدیلی کا ماحول صاف نظر آرہا ہے۔ آج یہاں بے روزگاری عروج پر ہے، نوجوان بے چین ہے۔ کھیتی اور کسان بحران سے دوچار ہیں اور مودی جی بے خبر ہیں۔ چہار سو بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے، جس میں مودی کا کردار بھی صاف نظر آرہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں رافیل  معاملے پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔؟
غلام احمد میر: حالیہ دنوں روزنامہ دی ہندو نے رافیل کو لے کر جو دستاویز شائع کی ہیں، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نریندر مودی ہندوستان کی نیگوسی ایشن ٹیم کو بائی پاس کرکے رافیل کی قیمت کا مول بھاؤ سیدھے دسالٹ کمپنی سے کر رہے تھے۔ بس تنہا انہی کاغذات کی بنیاد پر نریندر مودی جیل جاسکتے ہیں۔ رافیل معاملے پر بھارت کی مول بھاؤ کرنے والی ٹیم کہہ رہی ہے کہ ہمارا سالوں کا کام وزیراعظم نریندر مودی نے بائی پاس کر دیا۔ بائی پاس کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوگی، یہ وجہ ملک کے عوام جاننا چاہتے ہیں۔ ایک اہم وجہ بدعنوانی بھی ہوسکتی ہے۔ میں نے کہا کہ رافیل معاملے پر اگر غیر جانبدارانہ جانچ ہوئی تو مودی جیل بھی جاسکتے ہیں۔  مودی جی نے ان کاغذات کے بارے میں آج تک کچھ نہیں بولا۔ ہمیں امید ہے کہ رافیل کے معاملہ پر ملک کا قانون اپنا کام کرے گا۔ اس معاملہ میں ملک کے دفاعی نظام کو اب تک نظرانداز کیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ مجھے رافیل معاملے کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہے، یعنی وہ اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ وزیر دفاع کے افسران کہتے ہیں کہ نریندر مودی خود مول بھاؤ کر رہے تھے، یہ خود ایک جرم ہے۔ ہمارا ایک سوال ہے کہ 526 کروڑ کا رافیل جہاز 1600 کروڑ میں خریدا جائے گا اور وہ ہندوستان میں تخلیق بھی نہیں ہوگا، کیا یہ رویہ قوم پرستی ہے۔

اسلام ٹائمز: مودی اور آر ایس ایس سے ملک کو کیا خطرہ ہے۔؟
غلام احمد میر:
دیکھیئے، یہ لوگ ہندوستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، ہمارے ملک میں جو بھی رہتا ہے، وہ ہندوستانی ہے اور کانگریس نے اس کو ہمیشہ تسلیم کیا ہے، لیکن بی جے پی ملک کو تقسیم کرنے میں یقین رکھتی ہے اور میں نے یہ 26  سال کے دوران بھارت میں رہ کر دیکھا ہے۔ آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہوسکتی ہے، جو مختلف شعبوں میں کام کرتی ہے، لیکن اس کی بری بات یہ ہے کہ وہ ہندوستان کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے۔ آپ جب ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کی بات کرتے ہیں تو اس پر ایمانداری سے عمل بھی کرنا چاہیئے۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ شدت پسندی اور لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیل کر ملک کو نہیں چلایا جاسکتا ہے۔ ملک کو اصولوں پر چلایا جاتا ہے۔ ایسے منصوبے جو ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلیں کیسے ملک کے مفاد میں ہوسکتے ہیں۔ ایسے منصوبوں سے وقتی طور پر کسی ایک پارٹی کو فائدہ تو پہنچ سکتا ہے، لیکن دائمی طور پر ایسے منصوبوں سے تباہی اور بربادی ہی ہاتھ آتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بابری مسجد کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
غلام احمد میر:
میرا ماننا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو آخری امید سپریم کورٹ سے تھی اور وہ عدالت سے انصاف کی امید لگائے ہوئے تھے۔ بھارتی مسلمان اب بھی عدالت عظمیٰ سے اس فیصلے پر نظرثانی کرنے کے خواہشمند ہیں۔ مسلمان سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے، لیکن سپریم کورٹ کو چاہیئے تھا کہ فیصلہ سنانے میں جلد بازی سے کام نہ لیتا۔ سپریم کورٹ کو چاہیئے کہ تمام فریقین کو اعتماد میں لیکر فیصلہ سناتا۔ ایک طرف اگر ہندو اس فیصلہ سے مطمئن ہیں اور ان کی امنگوں کا لحاظ رکھا گیا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ مسلم رہنما اس فیصلے سے ناخوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ فیصلے پر عدالت عظمٰی نظرثانی کرے۔ ساتھ ہی ساتھ یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس نوعیت کے فیصلے کی امید رکھتی تھی، فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق ہی سامنے آیا۔ کسی کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے کوئی فائدہ ہوا کہ نہیں، لیکن بی جے پی کو بابری مسجد یا رام مندر کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔
خبر کا کوڈ : 828860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش