1
Tuesday 26 Nov 2019 22:46
آئی ایس او کی تنظیم سازی اور تربیت پر خصوصی توجہ دینگے

طلباء کو منظم سازش کے تحت سیکولر بنایا جا رہا ہے، عارف حسین

اتحاد بین المسلمین کی طرح اتحاد بین المومنین کی بھی ضرورت ہے
طلباء کو منظم سازش کے تحت سیکولر بنایا جا رہا ہے، عارف حسین
عارف حسین الجانی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر منتخب ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے ہیں، نہایت ہی خوش گفتار اور بااخلاق شخصیت کے مالک ہیں۔ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم فل کے طالبعلم ہیں۔ تنظیمی کیریئر کا آغاز نگر سے کیا، یونٹ صدر رہے اور اسکے بعد ڈویژن میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ گلگت ڈویژن میں جنرل سیکرٹری، پریس سیکرٹری اور سینیئر نائب صدر کے عہدے پر کام کیا، بعدازاں ڈویژنل صدر منتخب ہوگئے۔ گذشتہ برس مرکزی سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری احسن انداز میں نبھائی جبکہ سال 20-2019ء کیلئے انہیں آئی ایس او کا نیا میر کارواں منتخب کر لیا گیا ہے۔ نئی ذمہ داریاں ملنے پر ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے لاہور میں ان کیساتھ ایک نشست کی، جس میں طلبہ سیاست، تنظیمی امور سمیت دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ عارف حسین کیساتھ ہونیوالی گفتگو کو قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے نئی ذمہ داری ملنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، آئی ایس او ہر سال کو ایک عنوان کے تحت مناتی ہے، آپ صدر منتخب ہوئے ہیں، اس سال کو کس عنوان سے منا رہے ہیں۔؟
عارف حسین الجانی:
اس عنوان کا فیصلہ مجلس عاملہ کے اجلاس میں ہوتا ہے، مجلس عاملہ ہی فیصلہ کرتی ہے کہ کس عنوان کے تحت سال منایا جائے، البتہ میں اجلاس میں اپنی رائے دے سکتا ہوں، میرے خیال میں اس سال میں ہمارا فوکس تعلیم و تربیت اور توسیع تنظیم پر ہوگا۔ تربیت میں طلبہ کی اکیڈمک گائیڈنس شامل ہے۔ طلبہ کو مختلف شعبوں کی جانب راغب کرنے کیلئے کیریئر گائیڈنس فراہم کریں گے جبکہ فکری تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی، نوجوانوں کو ذات خدا کے قریب کرنے کیلئے تربیتی مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ اس حوالے سے علمائے کرام اور سابقین کیساتھ رابطے کئے جائیں گے اور فکری تربیت کے حوالے سے علمائے کرام سے استفادہ کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او اور علماء کے درمیان رابطے کا فقدان رہا ہے، آپ اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرینگے کہ علماء اور نوجوانوں میں موجود خلا ختم کیا جا سکے۔؟
عارف حسین الجانی:
ہم علمائے کرام کیساتھ رابطے میں ہیں اور ان شاء اللہ علماء کی سرپرستی میں ہی ہماری تنظیم گروتھ کر رہی ہے۔ ماضی میں البتہ یہ ہوا ہے کہ علمائے اور نوجوانوں میں کچھ دوریاں آئیں، مگر اب اس پر فوکس کریں گے اور علمائے کرام سے استفادہ کریں گے اور نوجوانوں کو علماء کے قریب لائیں گے۔ اس خلا کو ختم کریں گے، جو ماضی میں علمائے کرام اور نوجوانوں میں پیدا ہوا ہے۔ علماء سے رابطے کا یہ سلسلہ ملک گیر سطح تک بڑھائیں گے اور ہر سطح پر یونٹ سے ڈویژن اور پھر ڈویژن سے مرکز تک علمائے کی رہنمائی میں آگے بڑھیں گے۔ علماء کی سرپرستی یقیناً تنظیم کی فعالیت کیلئے ضروری ہے اور اس سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: لاہور میں 29 نومبر کو ’’طلبہ مارچ‘‘ ہونے جا رہا ہے، کیا آئی ایس او بھی اس مارچ میں شریک ہو رہی ہے۔؟؟
عارف حسین الجانی:
طلبہ مارچ کے حوالے سے متحدہ طلبہ محاذ کے پلیٹ فارم پر تمام رکن تنظیموں کا اجلاس بلایا ہے، جس میں اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ جہاں تک 29 نومبر کو ہونیوالے ’’طلبہ مارچ‘‘ کی بات ہے تو اس مارچ کے مقاصد واضح نہیں، جب وہ اپنے اہداف و  مقاصد واضح کریں گے تو پھر شرکت کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے سوچا جا سکتا ہے۔ البتہ متحدہ طلبہ محاذ کی جانب سے جو اس مارچ کی مخالفت میں بیان جاری ہوا ہے، میرے خیال میں وہ قبل از وقت ہے، وہ اے ٹی آئی کا ذاتی موقف ہے، متحدہ طلبہ محاذ کا موقف نہیں۔ اس بیان کو متحدہ طلبہ محاذ کا مشترکہ موقف نہیں کہہ سکتے۔ اس کیلئے ایم ٹی ایم کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، اس میں اس حوالے سے حکمت عملی طے کر لی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر پابندی ہے، حکومتی حلقے کہتے ہیں یونینز بدامنی پھیلاتی ہیں، فسادات ہوتے ہیں، جس سے تعلیمی نقصان ہوتا ہے، آپ یونین بحالی کے حق میں ہیں۔؟
عارف حسین الجانی:
طلبہ یونینز، طلبہ حقوق کیلئے ہوتی ہیں۔ وائیلیشن کرنیوالے اور بدامنی پھیلانے والے عناصر طلبہ نہیں ہوتے بلکہ آوٹر ہوتے ہیں۔ ہماری تنظیم تو عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے۔ ہم نے ہر موقع پر اور ہر پلیٹ فارم پر شدت پسندی کی مذمت کی ہے۔ آئی ایس او تعلیمی اداروں میں فرقہ واریت، بدامنی اور لڑائی جھگڑے کی مذمت و مخالفت کرتی ہے، ہم نے ہمیشہ وحدت اور بھائی چارے کی بات کی ہے۔ متحدہ طلبہ محاذ کے قیام میں بھی آئی ایس او پاکستان کا نمایاں کردار ہے۔ ہم اپنے اس کردار کو جاری رکھیں گے۔ اس سے برداشت کا کلچر فروغ پاتا ہے۔ آئی ایس او نے کبھی بھی شدت پسندی کی سیاست نہیں کی، بلکہ تعلیمی اداروں میں ہمارا مقصد صرف طلبہ کی اصلاح ہوتا ہے۔ نوجوانوں کی زندگی اسلامی اصولوں پر استوار کرنا ہمارا مقصد ہے اور طلبہ کے جائز حقوق کیلئے جدوجہد ہماری ترجیح ہے۔ اس کاز کیلئے ہم کام کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کے قبضے ہیں، جبکہ قابض تنظیم کسی دوسری تنظیم کا وجود ہی برداشت نہیں کرتی، کیا یہ قبضے درست فعل ہیں۔؟؟
عارف حسین الجانی:
طلبہ تنظیموں کے قبضے بالکل غلط ہیں۔ ہر تعلیمی ادارے کے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ کسی بھی تنظیم کے کارکنوں کیلئے اپنے ادارے کے قوانین پر عملدرآمد کرنا لازم ہے۔ طلبہ کو ادارے کی پالیسیوں کا احترام کرنا چاہیئے۔ تعلیمی اداروں کے قوانین کی دھجیاں نہیں اُڑانی چاہیئں۔ اس حوالے سے یونیورسٹی کے رولز کو اگر کوئی طلبہ تنظیم وائلیٹ کرتی ہے تو وہ غلط کرتی ہے۔ سب سے مقدم قانون ہے۔ اگر کوئی اس قانون کو پامال کرکے قبضے کرتا ہے یا کسی دوسرے گروپ یا تنظیم کو برداشت نہیں کرتا تو یہ اقدام غلط اور قابل مذمت ہے۔ ہم اس کی کبھی بھی حمایت نہیں کرتے۔

اسلام ٹائمز: طلبہ میں اساتذہ کے احترام کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔ ملتان میں پروفیسر پر نوجوانوں کے تشدد کا افسوسناک واقعہ پیش آیا، کیا وجہ ہے کہ معاشرے سے استاد کا احترام ختم ہو رہا ہے۔؟؟
عارف حسین الجانی:
استاد کے احترام میں کمی کی وجہ ہمارا نصاب ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، اس میں اخلاقیات کا درس ہی نہیں دیا جاتا۔ اگر ہمارے نصاب میں تعظیم اور قدر سکھائی جائے تو ایسے افسوسناک واقعات نہ ہوں۔ ہمارے نصاب میں تربیت کے پہلو کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بہ دن تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ اساتذہ کا احترام نہ کرنیوالی قومیں ہمیشہ تنزلی سے دوچار ہوتی ہیں۔ آئی ایس او ملتان جیسے واقعات کی مذمت کرتی ہے۔ ہم اساتذہ کے احترام کے قائل ہیں، وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے اساتذہ کا احترام کرتی ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو نصاب پر توجہ دینا ہوگی۔ نصاب کا ازسر نوء جائزہ لینا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسا نہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں طلباء کے درمیان سیکولر اور مذہبی کی تقسیم آچکی ہے۔؟؟
عارف حسین الجانی:
بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے دشمنوں کا ٹارگٹ ہیں۔ تعلیمی اداروں میں غیر ملکی این جی اوز کی بہت زیادہ انویسٹمنٹ ہے۔ ایک منظم سازش کے تحت نوجوانوں کے اذہان سے اسلامی اقدار کو ختم کیا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کو سیکولر ازم کی طرف مائل کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت نصاب پر توجہ دے، تعلیمی اداروں سے غیر ملکی مداخلت کا خاتمہ کرنا ہوگا، ناچ گانے کے لچر پروگرامز بند کرنا ہوں گے۔ ریاست مدینہ کے دعویدار حکمران نوجوانوں کی تربیت بھی مدینہ کی طرز پر ہی کریں۔ نوجوانوں کو ایسی تعلیم نہ دی جائے، جو ریاست مدینہ میں نہیں تھی، نوجوانوں کو مغربی کلچر کی بجائے اسلامی کلچر کا دلدادہ بنایا جائے۔ حکومت تعلیمی اداروں میں بیرونی مداخلت روک سکتی ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں سیکرٹری کلچر اور سیکرٹری تعلیم غیر ملکی این جی اوز کے ایماء پر فحاشی و عریانی والی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ یہ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی ادارے ہیں؟ کہ جہاں طالبات طلبہ کیساتھ مخلوط محافل میں رقص کرتی ہیں۔ ہم ایسے کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسا نصاب اور تعلیمی اداروں کا نظام ہو کہ جہاں سے طالبعلم ایک اچھا اور مفید شہری بن کر نکلے۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او نے ملی وحدت کے حوالے سے کوششیں کی ہیں، ان میں کس حد تک کامیابی ملی ہے۔؟؟
عارف حسین الجانی:
اس حوالے سے صورتحال کافی حوصلہ افزاء ہے۔ آئی ایس او تمام ملی جماعتوں کیلئے وحدت کا مرکز ہے۔ ہمارے مرکزی کنونشن میں ’’اتحاد ملت کانفرنس‘‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ جس سے ہمیں حوصلہ ملا ہے، تمام ملی تنظیموں نے مثبت ردعمل دیا ہے۔ جتنی اتحاد بین المسلمین کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ اتحاد بین المومنین کی بھی ضرورت ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اب ملی رہنماوں کیلئے واجب ہے کہ وہ وحدت کیلئے کردار ادا کریں۔ ناروے میں قرآن مجید نذر آتش کرنے کا واقعہ ہو یا پاکستان میں امام زمانہ (ع) کی توہین، یہ سب انتشار پھیلانے کی سازشیں ہیں۔

ہم اس کیلئے پورا سال کوشش کریں گے اور تمام ملی جماعتوں کو متحد کریں گے، وحدت کا فروغ ہی ہماری ترجیح ہوگا اور ہمیں یقین ہے کہ آئی ایس او ایک دن اس مقصد میں کامیاب ہو جائے گی، کیونکہ وحدت ملت کیلئے ضروری ہے۔ اتفاق میں برکت ہے، یہ کہانی تو ہم اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں، مگر ہم خود اس پر کب عمل کریں گے؟ یہ سوال ہم سب کیلئے اہم ہے۔ ہمیں تمام باہمی اختلافات نظر انداز کرکے وحدت کیلئے کام کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او ایک طلبہ تنظیم ہے، نوجوانوں کی کیریئر گائیڈنس کیلئے کیا کر رہی ہے۔؟؟
عارف حسین الجانی:
اس حوالے سے ہمارا ادارہ ’’بورڈ آف لٹریسی ڈویلپمنٹ‘‘(بولڈ) کام کر رہا ہے۔ ہم کیریئر کونسلنگ سیمینار کروائیں گے، تاکہ نوجوان اپنے شعبے کا انتخاب اپنے ذہن کے مطابق کرسکیں۔ ہم مستحق طلبہ کو سکالر شپ دیتے ہیں اور اس سلسلے کو مزید وسعت دیں گے۔ اس سال ہماری ترجیح تعلیم ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم کے میدان میں تاریخی کام ہو، اس حوالے سے بھرپور کوششیں کی جائیں گی۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او مستحق طلبہ کو سکالرشپ دیتی ہے، کیا اس سکالر شپ کیلئے آئی ایس او کا رکن ہونا لازمی ہے۔؟؟
عارف حسین الجانی:
نہیں، کوئی بھی مستحق طالبعلم سکالر شپ لے سکتا ہے۔ یہ تمام طلبہ کیلئے ہے۔ یہ سکالر شپ ہم صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے مستحق طلبہ کو ہی دیتے ہیں۔ یہ معیار اور میرٹ پر فراہم کیا جاتا ہے۔ ہم ہر حقدار کو سکالر شپ دیتے ہیں، خواہ وہ ہمارا کارکن ہے یا نہیں۔ اس کیلئے بولڈ کا ادارہ تحقیق کرتا ہے اور سکالرشپ دیتا ہے۔ ہمارا مقصد تعلیم کا فروغ ہے۔ اس کیلئے یہ سلسلہ شروع کیا ہے اور اسے مزید وسعت بھی دے رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکو مرکزی صدر کی ذمہ داری ملی ہے، تعلیم و تربیت کے علاوہ کس پہلو پر فوکس ہوگا۔؟؟
عارف حسین الجانی:
تنظیمی اور فکری سطح پر افراد کی قلت ہے۔ تمام تنظیموں میں تربیت کا فقدان ہے۔ ہمارا فوکس افراد سازی پر ہوگا، ماضی میں آئی ایس او نے ہی تمام ملی تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کی ہے۔ ہم ممبر سازی کریں گے اور اس سال زیادہ سے زیادہ تربیت یافتہ افراد تیار کریں گے جو ملی معاملات میں فعال کردار ادا کریں گے۔ اب بھی اگر تمام ملی تنظیموں کو دیکھیں تو آئی ایس او کے تیار کردہ افراد ہی فعال کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ آئی ایس او اس سلسلے کو قائم رکھے اور ایسے صالح افراد تیار کئے جائیں، جو ملت کیساتھ ملک کی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کریں۔
خبر کا کوڈ : 829153
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش