0
Saturday 14 Dec 2019 17:51
حکومت کی منفی سوچ کیوجہ سے ہر کام الٹا ہوکر سامنے آرہا ہے

امریکی خوشنودی کی خاطر کشمیر کو پسِ پشت ڈال دینا ایک بڑا المیہ ہے، طلال چوہدری

امریکی خوشنودی کی خاطر کشمیر کو پسِ پشت ڈال دینا ایک بڑا المیہ ہے، طلال چوہدری
سابق وفاقی وزیر محمد طلال چوہدری 1973ء میں پیدا ہوئے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماء نے 2008ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہیں ہوئے، 2013ء میں فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے سائنس، ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی رہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال، اپوزیشن کی حکمت عملی اور ممکنہ حکومت مخالف اتحاد سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انکے ساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومتی وزراء کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بالکل ٹھیک چل رہی ہے، سازش کے تحت حزبِ اختلاف پروپگنڈہ کرکے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، کیا اپوزیشن کا اختلاف صرف تعصب پہ مبنی ہے۔؟
طلال چوہدری:
ہم اس پر یقین نہیں رکھتے کہ بلاجواز کسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنائیں، وزیراعظم اور ان کی فاضل ٹیم، دونوں قومی معیشت میں استحکام کے دعوے کر رہے ہیں، لیکن ملک کے عوام ابھی اس برائے نام معاشی استحکام کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہو سکے۔ عام آدمی کی معاشی صورتحال وزیر اعظم اور مشیر خزانہ کے معاشی بیانیے کے برعکس ہے۔ مہنگائی کا قومی اشاریہ عام آدمی کو درپیش معاشی مشکلات کو سمجھنے کا ایک آسان کلیہ ہے مہنگائی کی عمومی شرح 12.7فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو کہ پچھلے سال 5.7 فیصد تھی، گزشتہ برس کی نسبت اس برس تقریباً پانچ فیصد زیادہ مہنگائی ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایسی بہت سی اشیا جو ملکی پیداوار ہیں، خاص طور پر اشیائے خورونوش، کی قیمتوں میں عدم استحکام سب سے زیادہ ہے۔

سبزیوں کی قیمتیں ہی دیکھ لیں، ٹماٹر کی قیمت میں نومبر 2018ء کے مقابلے میں اس نومبر میں 436 فیصد اضافہ ہوا ہے، پیاز کی قیمت میں 166 فیصد جبکہ آلو کی قیمت میں قریب 44 فیصد اضافہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ انسانی محنت کی اجرتوں میں تو اس حساب سے اضافے نہیں ہوئے، کسی آمدنی تو نہیں بڑھ سکی، غیر معمولی طور پر بڑھی ہوئی قیمتیں عام آدمی کے بجٹ پر بے پناہ منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ معاشی بحالی کے امکانات کی دعویدار حکومت نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا مناسب نہیں کہ اپوزیشن یا حکومت پر تنقید کرنیوالے، جن میں صحافی بھی شامل ہیں، وہ کسی ذاتی مفاد یا اختلاف اور تعصب کی وجہ سے حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں، بلکہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، جس کے بعد یہ فطری عمل ہے، اس کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، وہ سارا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈال رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا اس صورتحال میں ملکی مفاد اور عوام کی بہتری کیلئے اپوزیشن سمیت تمام صاحبانِ رائے قوتوں کو حالات میں بہتری لانے کیلئے مشاورتی عمل کے ذریعے حکومت کی رہنمائی نہیں کرنی چاہیئے؟ کیا ایوان میں ایسی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکتیں۔؟
طلال چوہدری:
اس سلسلے میں جتنی کوششیں کی گئی ہیں، اس سے پہلئ کبھی نہیں کی گئیں، لیکن قومی سیاسی معاملات میں اپوزیشن کے ساتھ افہام و تفہیم اوربہتر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی تجاویز اور سفارشات حکومت درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی۔ ہر اپوزیشن رہنماء نے ایوان بھی کوشش کی لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کبھی حکومت کورم پورا نہ کر سکی اور کبھی اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ حکومت اگر محسوس کرے تو یہ ایک بڑا دھچکا ہے، مگر حیران کن طور پر اس طرز عمل میں اس وقت بھی کوئی تبدیلی مشاہدے میں نہیں آ رہی، جب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان اور سربراہ کی تقرری کا معاملہ زیر غور ہے۔ اس اہم معاملے میں حکومت اور حزب اختلاف میں ہم آہنگی اور اتفاق رائے آئینی تقاضا ہے۔ آئین اور قانون سے ہٹ کر حزب اختلاف کے ساتھ کوئی ڈیل کرنے کی تجویز ظاہر ہے حکومت کو کوئی نہیں دے سکتا۔

مگر اس قدر کھچاؤ بھی غیر ضروری اور خود حکومت اور ریاست کے معاملات کیلئے ناموافق ہے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر حکومت اور حزب اختلاف میں ایک رشتہ بھی ہوتا ہے، دونوں کو ایک حد تک مل کر چلنا آئے تو ہی نظام مملکت میں ہمواری کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ پروڈکشن آرڈرز کے معاملے میں حکومت سے جو شکایات ہیں، اس کا فائدہ اپوزیشن کو مل رہا ہے، شاید پروڈکشن آرڈرز کے اجرا اور مذکورہ ارکان اسمبلی کی اجلاس میں شرکت اتنا بڑا واقعہ بن کر نہ ابھرتی جتنی خبریت ان آرڈرز کے اجرا میں تعطل کو حاصل ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ ہر معاملے میں ہر ایشو پر حکومت کا یہی رویہ ہے، جسکی وجہ سے سارا بوجھ عوام پر پڑا رہا ہے، نہ کوئی پالیسی ہے، نہ پہلے سے موجود کسی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: پہلی دفعہ بننے والے وزیراعظم کو اگر دھرنوں، مارچ اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پریشر میں رکھا جائیگا تو وہ کس طرح درست فیصلے کرسکتے ہیں۔؟
طلال چوہدری:
اگر یہ نئے ہیں تو پہلے کنٹینر سے اتریں، یہ تو ایک حقیقت ہے کہ ابتداء اپوزیشن نہیں کی، جہاں تک وزیراعظم کا تعلق ہے، حکومت کو سیاست کا یہ ڈھنگ بھی سیکھنا ہی پڑے گا کہ کہاں سختی کرنا ضروری ہے اور کہاں نرمی سے کام چلانا احسن ہے۔ داخلی اور خارجہ محاذوں پر بے پناہ چیلنجز ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایسا ماحول درکار ہے، جس میں حکومت دلجمعی اور توجہ کے ساتھ کام کر سکے، مگر ایسا ماحول کیونکر پیدا ہو سکتا ہے اگر سیاست کی موجیں ہمہ وقت طوفان اٹھائے رکھیں۔ سیاسی اختلاف نظری اختلاف ہوتا ہے، ذاتی اور شخصی عناد نہیں۔ سیاست بنیادی طور پر خدمت کے مقصد سے سرشار ہونی چاہیے، جیسا کہ سبھی دعویٰ کرتے ہیں۔ مگر عملی طور پر ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ یا اس کے نتائج عوام کے سامنے کیوں نہیں آتے؟ حکومت اگر درپیش چیلنجز سے نمٹنا اور اس معرکے میں سے سرخرو نکلنا چاہتی ہے تو اسے نظری، سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے حزب اختلاف کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا ہو گی۔ ہر معاملے میں ان کے رویے نے حکومت کی سختی کا ثبوت دیا ہے، مگر ایک ایسا حق جو آئین اور قانون کی طرف سے کسی کو حاصل ہو، اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا، کسی صورت مثبت نتائج لے کر نہیں آسکتا۔ یہ انکی سوچ کے منفی کا نتیجہ ہے کہ ہر کام کا الٹا ہو کر سامنے آرہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسکے باوجود عام تاثر یعنی عام آدمی کی رائے یہی ہے کہ گذشتہ حکمرانوں کے مقابلے میں موجودہ وزیراعظم کرپشن سے پاک ہیں، کیا عام آدمی کو کوئی غلط چیز نظر نہیں آرہی۔؟
طلال چوہدری:
اس دور حکومت میں بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے بارے میں نئے انکشافات حیرت میں ڈال دینے والے ہیں۔ موجودہ حکومت شفافیت کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے، مگر عملی طور پر کیا ہو رہا ہے، اس کے لیے یہ تحقیقاتی رپورٹس بھی بتا رہی ہیں کہ پنجاب کے تمام دفاتر ایک طرح سے بک چکے ہیں اور ہر قانونی اور غیر قانونی کام کے لیے لوگوں سے ہزاروں سے لے کر لاکھوں روپے تک بٹورے جاتے ہیں اور لوٹ کا یہ مال محکمہ جات میں اوپر سے نیچے تک تقسیم ہوتا ہے، جبکہ اس مال کا کچھ حصہ حکومت پنجاب کے اہم دفاتر تک بھی پہنچایا جاتا ہے۔ لوٹ مار اس قدر منظم ہے کہ نگرانی کا سارا نظام اس کے سامنے ناکارہ ثابت ہو چکا ہے، ظاہر ہے جب جنگل کا قانون ہو اور ماہانہ کروڑوں کی رشوت کا لین دین ہوتا ہو تو نگرانی کا نظام کہاں تک مقابلہ کرے۔ نظام میں انتہائی حد تک پنپ چکی اس بد عنوانی کا علاج برائے نام اور کاسمیٹک کارروائیوں سے ممکن نہیں۔

اس کیلئے جامع اور مؤثر کارروائیاں ناگزیر ہے، جس کے پیچھے قوتِ عمل اور بھرپور عزم کی طاقت موجودہو۔ کیا موجودہ حکومت یہ کر پائے گی، بظاہر مشکل نظر آتا ہے، کیونکہ پنجاب کی حکومت ان پندرہ ماہ میں کسی اصلاحاتی عمل کیلئے اس درجے کی قوت عمل اور اولوالعزمی کا ثبوت نہیں دے سکی۔ اسی کا نتیجہ رشوت ستانی میں اضافے کا رجحان ہے۔ لیکن یہ لوگ احتسابی عمل اور اپنے مخالفین کو بدعنوان کہہ رہے ہیں۔ ایک طرف نااہلی اور اس کے ساتھ کرپشن دونوں ثابت ہو چکی ہیں۔ لیکن حکومت کے ایماء پر کاروائیاں صرف مخصوص مخالفین کے خلاف ہو رہی ہیں۔ نہ کوئی کاروبار ہو رہا ہے، نہ تجارت، نہ ہی کسی کو روزگار مل رہا ہے، بلکہ نیب کے خوف سے ہر شریف آدمی اپنی عزت بچانے اور مشکل سے گزارا کرنے پر مجبور ہے۔

اسلام ٹائمز: چیئرمین نیب تو کہہ چکے ہیں کہ حکومتی صفوں میں موجود لوگوں کا احتساب بھی ہوگا اور کسی کے کاروبار میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائیگی۔؟
طلال چوہدری:
دعویٰ یہی کیا گیا ہے کہ نیب نے تاجروں کی حالیہ ملاقاتوں کے بعد نرمی برتنا شروع کردی ہے۔ لیکن دوسری طرف  90 روز گزر جانے کے باوجود سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمٰعیل کے خلاف ریفرنس دائر کئے جانے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ اس وقت کے وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور سابق مشیر مفتاح اسمٰعیل کے علاوہ سابق ایم ڈی پی ایس او عمران الحق بھی گرفتار ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کے 71دنوں سے جسمانی ریمانڈ میں پوچھ گچھ کے باوجود نیب ان سے کچھ اگلوا نہ سکا۔ اسی طرح 50دنوں میں مفتاح اسمٰعیل سے بھی کچھ ٹھوس حاصل نہ ہوا۔ شاہد خاقان عباسی پاکستان کے پانچویں بڑے ٹیکس دہندہ ہیں۔ مفتاح اسمٰعیل کی کمپنی اسمٰعیل انڈسٹریز نے گزشتہ سال  30 ارب روپے کا کاروبار کیا۔ 5 ارب روپے ٹیکس اور50 کروڑ روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ ان دونوں کے کسی کرپشن کا کھوج لگایا گیا؟ اس معاہدے میں مبینہ کک بیکس سے انہیں کتنی رقم حاصل ہوئی؟، ان سوالوں کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں، نہی نیب نے آج تک کچھ بتایا ہے، الزام اور بہتان یہ لوگ بہت جلدی لگا دیتے ہیں، اس سے سارا ماحول خراب ہو چکا ہے، اب ایک ہی راستہ ہے کہ موجودہ حکومت اقتدار سے الگ ہو جائے، نئے الیکشن ہوں اور عوامی حکومت بنے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن ایک جانب حکومت کو گرانے اور نئے الیکشن کی بات کر رہی ہے، دوسری طرف یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ سیاسی رہنماؤں کی رہائی کے بدلے حزب اختلاف نے ڈیل کی ہے۔؟
طلال چوہدری:
احتساب عدالت کے جج جنہوں نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنایا تھا، متنازع ہوچکے ہیں اور ان کے خلاف عدالت عظمیٰ کارروائی کررہی ہے۔ تحریک انصاف کو جج کے اعتراف اور اس کے متنازع فیصلے پر نظر آرہا تھا کہ اب نواز شریف باہر آسکتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی وزیر اور مشیر ڈیل کی بات کرنا شروع ہوگئے ہیں، وہ نواز شریف کو ریلیف نہ دینے کے لیے ججز پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے اور اگر انہیں ضمانت مل بھی گئی ہے تو اسے متنازع بنانا چاہتے تھے، یہ عمران خان کی حکومت کا گیم پلان ہے۔ ڈیل کے بارے میں خبریں میڈیا میں صرف اس لیے ہیں، کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف عدالتوں سے میرٹ پر فیصلے آنے والے ہیں اور حکومت کے احتساب ونگ کے پاس ان کے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں، عمران خان اور اس کی کمپنی کی یہی سب سے بڑی پریشانی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی مسائل نے گھیر رکھا ہے، لیکن ایک ایٹمی اسلامی ملک ہونے کے ناطے عالمی سطح پر ہمارا کردار کیسا ہونا چاہیئے۔؟
طلال چوہدری:
دہشت گرد سوچ کی حامل بھارتی قیادت دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں جھونکنے پر تلی ہوئی ہے، اس کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بھی خطے پر اثرات ہیں۔ پاک بنگلہ دیش تعلقات اچھے نہیں جبکہ افغانستان میں بھی بھارتی اثر و رسوخ کام دکھا رہا ہے۔ اسے ناکام بنانے کیلئے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کو یک زبان ہوکر بھرپور جواب دینا ہوگا۔ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات بحال ہوچکے ہیں۔ ابتدائی طور پر تشدد میں کمی اور مستقل جنگ بندی کے لیے طالبان کو قائل کرنے پر توجہ دی جائے گی جبکہ زلمے خلیل زاد طالبان اور کابل حکومت کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ کشمیر میں گولی، لاٹھی اور کرفیو کے ذریعے جذبۂ آزادی کو دبانے کی بھارتی سرکار کی تمام کوششیں کشمیری عوام ناکام بنانے کیلئے قربانیاں پیش کررہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ نام نہاد جمہوریت کی علمبردار مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں جذبہ آزادی کو دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ دوسری جانب افغانستان میں نام نہاد صدارتی الیکشن کے بھی کوئی نتائج برآمد نہ ہو سکے,، حالانکہ یہ انتخابات کا ڈھونگ طالبان کا اثر کم کرنے کے لئے رچایا گیا تھا۔ یہ ایک سیاسی چال تھی جو اُلٹی پڑ گئی ہے۔ اس بار ٹرن آئوٹ بھی بہت کم رہا ہے، ایسے میں انتخابات کے دوران امریکی جنرل سکاٹ ملرکے دورہ ٔ پاکستان کا کیا جواز بنتا ہے؟ امریکی فوج افغانستان سے انخلا نہیں چاہتی۔ وائٹ ہائوس کی پوری کوشش ہے کہ فوج کو جلد ازجلد یہاں سے نکال لیا جائے۔ امریکی صدر عوام کو کرسمس کا تحفہ دینا چاہتے ہیں تاکہ اپنا انتخابی وعدہ پورا کر سکیں، طالبان کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ایران میں بھی پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش ہوئی ہے جو خوش آئند ہے، مگریہ نہ ہو کہ دوسروں کے معاملات میں اور صرف امریکی خوشنودی کیلئے اصل مسئلہ کشمیر، جس پر توجہ مرکوز رکھنا جو ہماری اولین ذمہ داری ہے، اسے ہی پش پشت ڈال دیا جائے۔ موجودہ حکومت نے ایسا ہی کیا ہے جو بڑا المیہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 832727
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش