0
Saturday 28 Dec 2019 19:28
خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے نے ڈی چوک کی اہمیت بڑھا دی

امریکہ کی خواہش ہے کہ ترکی، ایران، ملائیشیاء اور پاکستان کا مضبوط بلاک نہ بنے، میاں افتخار حسین

خصوصی عدالت نے ایک شخص کیخلاف فیصلہ دیا ہے، اسے فوج کے ادارے پر حملہ تصور نہ کیا جائے
امریکہ کی خواہش ہے کہ ترکی، ایران، ملائیشیاء اور پاکستان کا مضبوط بلاک نہ بنے، میاں افتخار حسین
میاں افتخار حسین 5 اپریل 1958ء کو پبی ضلع نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ انکے والد میاں محمد رفیق ایک محنت کش انسان تھے، جنہوں نے فوج میں بطور وائرلیس آپریٹر فرائض انجام دیئے۔ گورنمنٹ کالج پشاور میں داخلہ لینے کیساتھ ہی پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوگئے۔ تھرڈ ایئر میں اپنے کالج کے پختون اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے صدر بن گئے، جبکہ فورتھ ایئر میں پختون ایس ایف کیجانب سے یونین کا صدارتی الیکشن لڑا، جسے وہ جیت نہ سکے۔ 1979ء میں بی اے کیا۔ بی اے کے دوران اپنی ماموں زاد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹے اور بیٹی سے نوازا، انکے اکلوتے بیٹے میاں راشد حسین کو چند سال قبل دہشتگردوں نے شہید کر دیا۔ میاں افتخار نے 1980ء میں پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1982-83ء کے سیشن میں ایم اے سوشل ورک کی ڈگری حاصل کی۔ 1980ء میں یونیورسٹی کے طالبعلم کی حیثیت سے پختون ایس ایف کے صوبائی صدر منتخب ہوئے۔ 1983ء سے لیکر 1986ء تک مختلف اوقات میں جیل گئے۔ مجموعی طور پر ساڑھے تین سال جیل کاٹی۔ اس دوران انہوں نے 1983ء میں ایم اے پشتو کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1986ء میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ 1987ء میں افغانستان گئے جبکہ دو اڑھائی ماہ سوویت یونین میں بھی گزارے۔ 1988ء میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ الیکشن لڑنے کیساتھ ہی انہوں نے پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے اے این پی میں جست لگائی۔ اسکے بعد امریکہ چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد وطن لوٹ آئے۔ 90ء کا الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ صوبائی اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی سیکرٹری اور ضلعی ڈیڈک کمیٹی کے چیئرمین بنے۔ 1993ء کا الیکشن پی پی پی کے مقابلے میں صرف 149 ووٹوں سے ہارا۔ 1997ء کا الیکشن پھر جیتا۔ 2002ء کا الیکشن پھر پی پی پی کے مقابلے میں ہارا، لیکن 2008ء کا الیکشن جیت لیا اور صوبائی وزیر اطلاعات، ٹرانسپورٹ اور کلچر مقرر کئے گئے۔ 2013ء کے انتخابات میں اپنی جماعت کے اکثر امیدواروں کی طرح وہ بھی ناکام ٹھہرے۔ اسوقت وہ اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہیں۔ منجھے ہوئے اور مدبر سیاستدان میاں افتخارحسین ملکی اور بین الاقوامی حالات پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ انکو صورتحال کا خوب ادراک بھی ہوتا ہے۔ اس لئے کسی بھی ایشو پر انکی رائے کو اہم جانا جاتا ہے۔ موجودہ ملکی، خطے اور بین الاقوامی حالات و واقعات کے حوالے سے اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے گفتگو کی، جسکا احوال قارئین کی نذر ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کی شرکت پر سعودی عرب کے دباؤ کے بارے کیا کہیں گے۔؟
میاں افتخار حسین:
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت کرنے پر پاکستانیوں کے انخلا کی دھمکی دی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ملائیشیاء کے دارالحکومت کوالالمپور کانفرنس سے قبل سعودی عرب کا دورہ کیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ کوالالمپور سمٹ میں ایرانی صدر، ترک صدر، ملائیشیاء کے وزیراعظم مہاتیر محمد سمیت 20 مختلف اسلامی ممالک کے سربراہان نے بنا کسی کے دباؤ میں آئے شرکت کی، جبکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت خلیج اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے بعض سربراہان اس لئے شریک نہیں ہوئے کہ ان پر امریکہ کا دباؤ تھا۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی پر سعودی عرب اور خلیجی اسلامی ممالک کا غلبہ ہے۔ نئے بلاک کے قیام سے او آئی سی کی اہمیت ختم ہو کر رہ جاتی۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ اسلامی ممالک خصوصاََ ترکی، ایران، ملائیشیاء اور پاکستان کا مضبوط بلاک نہ بنے، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے امریکہ کی خواہش کے مطابق پاکستان کو کوالالمپور کانفرنس سے روکے رکھا۔

اگر وزیراعظم شرکت کرتے تو سعودی عرب سے 40 لاکھ پاکستانیوں کا انخلا ہو جاتا، اس کے علاوہ اسٹیٹ بنک میں سعودی عرب کی پڑی رقم نکلوائی جاتی، جس سے پاکستان کے مفادات کو دھچکہ لگ جاتا۔ یہ بات درست ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، جن میں زیادہ تر کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات میں ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار اور محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اسوقت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک صفحہ پر ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دنیا بھر میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی محنت مزدوری، کاروبار اور ملازمتیں کرتے ہیں۔ پاکستان کے اندر پہلے ہی سے بے روزگاری ہے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اگر پاکستانیوں کو بے دخل کیا جاتا تو بہت بڑا بحران سر اُٹها لیتا۔ حکومت پاکستان نے اپنے اور پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ اگر پاکستان شرکت کرتا تو یقیناََ بہت بڑا بحران سر اُٹھا لیتا۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ ایران، ترکی اور ملائیشیاء جیسے ممالک سے سعودی عرب اور اسکے حامی ممالک خوفزدہ ہیں۔؟
میاں افتخار حسین:
اس حقیقت کو جُھٹلایا نہیں جاسکتا کہ امریکہ اور اس کے حامی ممالک کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ ایران، ترکی اور ملائیشیاء ہیں۔ پاکستان کی بھی بہت بڑی اہمیت ہے، اس لئے اسے کوالالمپور سمٹ میں شرکت کرنے سے روکا گیا۔ او آئی سی اسلامی ممالک کی ایک کٹھ پتلی تنظیم ہے، اس کے مقابلے میں اگر مضبوط بلاک بنا تو یقیناََ امریکہ سمیت بہت سے ممالک کے مفادات کو دھچکہ لگے گا۔ یہ اسلامی دنیا کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ اسلامی ممالک کے بہت سے سربراہان کے مفادات امریکہ اور بعض دوسرے ممالک سے اس لئے وابستہ ہیں، کیونکہ ان کی رقم ان ممالک کے بینکوں میں پڑی ہے اور انہوں نے وہاں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ اسلامی دنیا اور امت مسلمہ کا المیہ ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان اور حکمران غیر مسلم ممالک کے غلام بن چکے ہیں، اپنے ذاتی مفادات کی خاطر امت مسلمہ کے مفادات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ انہوں نے اپنا سرمایہ اپنے ممالک کے بجائے دوسرے ممالک کے بینکوں میں رکھ دیا ہے، ان کے سرمایہ پر غیر مسلم ممالک عیاشیاں کر رہے ہیں۔

جب ذوالفقار علی بھٹو اور سعودی ولی عہد شاه فیصل نے اسلامی ممالک کا مضبوط بلاک بنانے کی کوشش کی تو امریکہ نے دونوں کو راستہ سے ہٹایا۔ جب بھی اسلامی ممالک کے سربراہان نے مضبوط اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی بلاک بنانے کی کوشش کی ہے تو امریکہ نے اسے ناکام بنانے کی کوشش کی ہے اور اس کی یہ کوشش کامیاب رہی ہے۔ امت مسلمہ کا کبھی بھی ایک مضبوط بلاک بنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ جب تک اسلامی ممالک کے سربراہان اور حکمران ذاتی مفادات کے خول سے باہر نہیں نکلتے تو تب تک اسلامی ممالک کو غیر مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ظلم جبر اور تسلط سے نجات نہیں مل سکتی۔ یہ مسلمانوں کی بہت بڑی بدسمتی رہی ہے کہ ان کے حکمران غیر مسلموں کی تابعداری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ اسوقت امت مسلمہ تقسیم در تقسیم اور انتشار کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ممالک کو متحد کیا جائے اور ان کی منتشر قوت کو اکٹھا کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: جنرل پرویز مشرف کیخلاف خصوصی عدالت کے فیصلے پر بعض سیاسی رہنماؤں کیجانب سے (ر) جنرل کی حمایت کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
میاں افتخار حسین:
 آصف غفور کی پہلی پریس ریلیز اور بعد ازاں پریس کانفرنس، وفاقی وزراء اور اعتزاز حسن کی تنقید، میڈیا ٹاکس اور خصوصی عدالت اور اس کے تفصیلی فیصلے پر تابڑ توڑ حملوں کی کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی، کیونکہ ان کی گفتگو توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ ہمیں ایک بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریٹائرڈ پرویز مشرف اب فوج کے سربراہ نہیں ہیں، انہوں نے آئین شکنی کی، آئین توڑا اور معطل کیا، جس کی سزا سزائے موت ہے۔ عدالتی فیصلے پر غم و غصہ، عدلیہ کی تضحیک کرنا اور جسٹس وقار احمد سیٹھ کے ذہنی توازن پر سوالات اُٹھانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ وزیراعظم عمران خان ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو آئین شکن سمجھتے رہے اور انہیں موت کی سزا دینے کا مطالبہ کرتے رہے، لیکن انہوں نے ہمیشہ کی طرح اس پر بھی یوٹرن لیا اور آج کل مشرف کا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔

عدلیہ کے پاس وسیع اختارت ہیں، جنہوں عدلیہ کا مذاق اڑایا ہے، ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ دراصل عسکری قیادت اور انٹیلی جنس ادارے اپنے آپ کو طاقت کا سرچشمہ قرار دے رہے تھے، عدالتی فیصلوں نے ان کی طاقت خاک میں ملا دی۔ یہی وجہ ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کسی کو ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کی عمران خان سے تفصیلی مشاورت ہوئی ہے، دونوں بڑوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ عدالتی فیصلے پر اٹھنے والے طوفان کو ختم کرنے کی حتی الوسع کوشش کریں۔ معاملات کو مزید بگاڑنے کی ضرورت نہیں۔ خصوصی عدالت نے ایک شخص کے خلاف فیصلہ دیا ہے، اسے فوج کے ادارے پر حملہ تصور نہ کیا جائے۔ معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جائے، مزید الجھانے میں ملک و قوم کا نقصان ہوگا۔ احتیاط اور تدبر سے معاملہ نہ سلجھایا گیا تو تباہی ملک و قوم کا مقدر بنے گی۔

اسلام ٹائمز: جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پرویز مشرف کی میّت ڈی چوک میں ہی لٹکانے کا فیصلہ کیوں دیا؟ اس میں کیا راز پوشیدہ ہے۔؟
میاں افتخار حسین:
(ہنستے ہوئے) جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پرویز مشرف کی لاش ڈی چوک میں لٹکانے کا پیرا اس لئے شامل کیا کہ ڈی چوک سے سازش کا آغاز ہوا اور 126 دن کا دھرنا دیا گیا تھا، جہاں سے سازش شروع ہوئی تھی، وہیں دفنانا بہتر ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف اور علامہ طاہر القادری کے دھرنوں کا مرکز ڈی چوک اسلام آباد رہا۔ ڈی چوک کی سازش جب ناکام ہوئی تو فیض آباد دھرنے کی سازش شروع ہوئی، اسے بھی ناکام بنا دیا گیا۔ ڈی چوک اور فیض آباد کی سازشوں کے بعد پانامہ لیکس کی سازش گھڑی گئی، جو کامیاب ہوئی۔ بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے نے ڈی چوک کی اہمیت بڑھا دی۔

اسلام ٹائمز: پولیو وائرس خیبر پختونخوا میں پوری قوت کیساتھ پھیل رہا ہے، اسکے اصل ذمہ دار کون ہیں؟ کیونکہ حکومت تمام تر ملبہ انکاری والدین پر ڈالتی ہے۔؟
میاں افتخار حسین:
 اس میں کوئی شک نہیں کہ انکاری والدین پولیو مہم میں بہت بڑی رکاؤٹ ہیں، لیکن کہیں نہ کہیں پولیو ورکرز بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ عوام اور شہریوں کی جانب سے بھرپور تعاون نہ کرنے اور بعض جگہوں پر پولیو ٹیموں کی نااہلی اور غفلت کے باعث پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیو کیسز جس رفتار سے بڑھ رہے ہیں، وہ انتہائی خطرناک ہے۔ کسی وقت پاکستان ان ممالک کی صف میں شامل ہونے جا رہا تھا، جہاں پولیو کا خاتمہ ہوا ہے، جو پولیو فری ممالک سمجھے جاتے ہیں۔ ملک کی بڑی بدقسمتی ہے کہ پولیو کے خاتمے کی بجائے پولیو سے متاثرہ بچیوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ انتھک کوششوں کے باوجود صوبہ میں پولیو کی تباہی کو کنٹرول نہیں کیا جاسکا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پولیو کے متاثرہ بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ پولیو ورکر کی غفلت، لیکن ڈیوٹی پر معمور ان ورکرز کو بھی تو دہشتگردی نشانہ بنایا جاتا ہے، جسکے باوجود بھی وہ ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں، ابھی حال میں چند واقعات رونما ہوئے۔؟
میاں افتخار حسین:
خیبر پختونخوا میں پولیو ورکرز اور پولیو ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کا سلسلہ ایک عرصے سے چلا آرہا ہے۔ دہشت گردوں اور بدامنی پھیلانے والوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ پولیو کا خاتمہ نہ ہو، جس کیوجہ سے وہ پولیو کے ورکرز اور پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اُتار رہے ہیں۔ ایک جانب پولیو کے خلاف منظم سازش ہو رہی ہے اور پولیو کے قطروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، تو دوسری جانب پولیو ورکرز اور پولیو مہم کے دوران ڈیوٹی پر تعینات اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گذشتہ دنوں لعل قلعہ دیر لوئر (پولیو ڈیوٹی پر جانے والے 2 پولیس اہلکاروں کی شہادت) اور لکی مروت میں ہونے والا خودکش دھماکہ اس سازش کی ایک کڑی ہے۔ پولیو کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ صوبہ کے بچوں کو زندگی بھر کیلئے معذور بنانے کی سازش افسوسناک ہے۔ لعل قلعہ میں پولیس اہلکاروں کی شہادت کے واقعہ کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے۔ ہمیں دشمنوں کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر منظم دہشتگرد گروہ سر اُٹھا رہے ہیں، انکی سرکوبی کیلئے ہونیوالے اقدامات کو کیسا دیکھتے ہیں۔؟
میاں افتخار حسین:
 حالیہ دہشت گردی کی وارداتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ صوبہ میں پھر سے دہشت گرد منظم ہو رہے ہیں، یہ انتہائی تشویشناک بات ہے، حکومت دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے عملی اقدامات اُٹھائے۔ حکومت کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا ہوگا، نیشنل ایکشن پلان پر اصل معنوں میں عملدرآمد سے ہی دہشت گردی کے ناسور کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت دہشت گردوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے عوام کی جان و مال کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں ہزاروں قربانیوں کے بعد امن قائم ہوا ہے، موجودہ حکومت کی وجہ سے وہ تمام قربانیاں ضائع ہو رہی ہیں۔

خیبر پختونخوا کا امن ہمیں خیرات میں نہیں ملا، اس کے بدلے میں ہزاروں قربانیاں دی گئی ہیں۔ حکومت شہریوں کو تحفظ دے اور دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرے۔ ہم پاکستان کے اندر تمام علاقوں میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ دہشت گردی ختم کرنے کیلئے جرات اور پالیسی کی ضروت ہے، مگر حکومت کی غلط پالیسوں کی وجہ سے دہشت گرد ایک مرتبہ پھر منظم ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں دہشت گردی کی نئی لہر سے علاقے کے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے، لوگوں کو دھمکی آمیز خطوط مل رہے ہیں، بھتے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایمل ولی خان شمالی وزیرستان کے متاثرین سے ملنے گئے، انہیں مرکزی دروازے پر ہی روک دیا گیا، یہ معاملہ کیا تھا، انہیں کیوں روکا گیا۔؟
میاں افتخار حسین:
ایمل ولی پختونوں کو متحد کرنے کیلئے گھر سے نکلے ہیں، جہاں جہاں پختون ناراض ہیں، وہ وہاں پختونوں کے درمیان اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایمل خان شمالی وزیرستان سے آپریشن ضرب عضب کے دوران نقل مکانی کرنے والوں کی مشکلات معلوم کرنے کیلئے بکاخیل کیمپ پہنچے تھے، انہیں کیمپ کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حکومت پختونوں کے اُبھرتے لیڈر ایمل ولی سے خائف ہیں۔ جب کیمپ کے اندر شمالی وزیرستان کے بے گھر لوگوں سے ملنے گئے تو کیمپ کے مین گیٹ پر کہا گیا کہ انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں، سکیورٹی فورسز کی جانب سے ایمل ولی کو کیمپ کے اندر جانے کی اجازت نہ دینا سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔

فورسز کے اس اقدام سے یہ تاثر ملا کہ ایمل ولی اس ملک کے شہری اور سیاستدان نہیں۔ ایمل ولی کو روک کر کیمپ کے اندر جانے کی اجازت نہ دینے سے آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے، ان کا بڑا جرم یہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں سے ملکر وہ انہیں اپنائیت دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ جنہوں نے ایمل ولی کو بے گھر ہوئے لوگوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی ہے، وہ دراصل آئین شکن ہیں، ایسے عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی ہونی چاہیئے۔ کئی سال گزر جانے کے باوجود نقل مکانی والوں کی اپنے اپنے علاقوں کی واپسی ممکن نہیں ہوسکی۔ آرمی چیف وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کی حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 834057
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش