0
Saturday 28 Dec 2019 23:04
بدقسمتی سے پاکستانی خارجہ پالیسی اقتصاد کے بجائے سیکیورٹی سے منسلک ہے اسی لئے ہم ہر جگہ پیچھے جا رہے ہیں

سعودی دباؤ پر کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت ناکام خارجہ پالیسی کا واضح ثبوت ہے، پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان

سعودی دباؤ پر کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت ناکام خارجہ پالیسی کا واضح ثبوت ہے، پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان پاکستانی صحافت کی انتہائی معروف شخصیت اور سینیئر بے باک کالم نگار و تجزیہ کار ہیں، وہ وفاقی جامعہ اردو کے شعبہ ابلاغ عامہ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں اور آجکل بحیثیت پروفیسر جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے وابستہ ہیں۔ وہ گذشتہ تیس سال سے زائد عرصے سے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، اس کیساتھ ساتھ وہ چالیس سال سے زائد عرصے سے صحافت سے بھی وابستہ ہیں، انکے کالم و تجزیئے روزانہ مختلف قومی اخبارات و جرائد کی زینت بنتے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان کیساتھ سابق صدر مملکت و آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف عدالتی فیصلے اور پاکستان کیجانب سے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے کراچی پریس کلب میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر انکے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: سابق صدر مملکت و آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
یہ بہت بہترین فیصلہ ہے، جمہوری نظام کے استحکام کیلئے ہے، جسٹس سیٹھ نے جو پیرا 66 شامل کیا ہے، دراصل وہ انہوں نے لکھا نہیں کہ جنرل کرامویل جو برطانیہ کے ہیرو ہیں، جنہوں نے برطانیہ میں سول وار کو ختم کرایا، جنگ لڑی، دو سول وار میں وہ کامیاب ہوئے، انہوں نے پارلیمنٹ کو توڑا تھا، انہیں سزا کے طور پر مرنے کے بعد ان کی لاش کو لٹکایا گیا تھا، یہ پیرا اس حوالے سے ہے، یہ ایک علامتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب انسانی حقوق کے پاسدار ہیں، ہم سب سزائے موت کے خلاف ہیں، ہم سب کا مطالبہ رہا ہے کہ سزائے موت نہیں ہونی چاہیئے، میرے خیال میں اس سزا کو علامتی دیکھنا چاہیئے، عدالتی فیصلہ بالکل صحیح ہے، جس نے بھی آئین توڑا، اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے، جہاں تک یہ بات ہے کہ باقی افراد کو شریک نہیں کیا گیا، تو باقی لوگوں کے خلاف بھی مقدمات چلانے چاہیئے، بلکہ شاید ایسا وقت آئے کہ ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق کے خلاف بھی مقدمات چلیں اور مرنے کے بعد بھی انہیں سزا دی جائے۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ عدالت میں گیا اور اب سابق آرمی چیف جنرل (ر) مشرف کو عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا، پہلی بار ایسا دیکھا گیا ہے کہ فوجی سربراہان کے حوالے سے عدالت میں کیسز چلے، پس پردہ کیا عوام نظر آتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
یہ اداروں کا ارتقائی عمل ہے، کارل مارکس کے فلسفے کا ہم لوگ اسی لیے حوالہ دیتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہے کہ ہر سماجی عمل میں تضاد موجود ہے، کارل مارکس کی جو social contradiction کی تھیوری ہے، اس کے مطابق ہر سماجی عمل میں تضاد موجود ہے، اسی تضاد کے نتیجے میں ایک نئی چیز بنتی ہے، تو یہ اداروں کے استحکام کا معاملہ ہے، جنرل پرویز مشرف نے عدلیہ پر حملہ کیا تھا، ججز کو نکال دیا تھا، پھر ججز ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں بحال ہوئے، ججز کی بقاء اسی میں ہے کہ پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی ہو، ورنہ اس ادارے کی اہمیت نہیں رہے گی، اسی بالادستی کے نتیجے میں ملک جمہوری نظام پر چل سکتا ہے اور جمہوری نظام اس ملک کو متحد کرسکتا ہے، لہٰذا یہ ارتقائی عمل ملک کیلئے بہت بہترین ہے۔ پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اور مسلح افواج ایک پیج پر ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے، اس تناظر میں عدلیہ کے یہ فیصلے بہت اہم ہیں، اس کا فائدہ جمہوری نظام کو ہوگا۔

اسلام ٹائمز: اس فیصلے سے جمہوری نظام کی بقاء کیسے ممکن ہے کہ جب فوج اور حکومت جنرل (ر) مشرف کی حمایت کر رہے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
جمہوریت کی بقاء اداروں کی وجہ سے ہوگی، عدلیہ سمیت ادارے مستحکم ہو رہے ہیں، پارلیمنٹ کی مضبوطی کی بات ہو رہی ہے، میڈیا کے نریٹیو کو کنٹرول کرنے کی بات ہو رہی ہے، لیکن مزاحمت ہو رہی ہے، حتیٰ اب تحریک انصاف والے یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کو اپنے مسائل خود حل کرنے چاہیئے، الیکشن کمیشن کے معاملے کو وہیں حل کرنے کی کوشش کریں، اسی طرح جمہوری نظام آگے بڑھتا ہے، یہ پراسس آگے بڑھتے رہنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ایک حلقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالت کے پیچھے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے مخالف جنرل صاحبان ہیں، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
یہ مجھے نہیں پتہ، میرے پاس فوج کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، مگر ایک جنرل نالج کی بات ہے کہ ہر جگہ تضادات تو ہوتے ہیں اور تضادات نئی چیزیں بناتے ہیں، تو تضاد وہاں بھی ہوسکتا ہے، ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی پروموشن نہیں ہوگی، انہیں اعتراض تو ہوگا نا، تو یہ تو نیچرل ہے اور وہ ظاہر ہے کہ اس فیصلے سے خوش بھی ہوسکتے ہیں، یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے، یہ ایک فطری بات ہے۔ میں یہاں یہ بات ضرور واضح کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کے 1973ء کے آئین کے مطابق ملک میں صرف تین ادارے ہیں، انتظامیہ یعنی حکومت، مقننہ یعنی پارلیمنٹ اور عدلیہ، اس کے علاوہ جتنے بھی شعبے اور تنظیمیں ہیں، وہ انتظامیہ کے ماتحت ہیں، ان تین اداروں کے علاوہ کوئی اور چوتھا ادارہ نہیں ہے، یہ بات ہمیں عوام کو سمجھانی چاہیئے، اگر کوئی شعبہ، جو کسی وزارت کے ماتحت ہے، وہ ادارہ بننے کی کوشش کرے گا تو وہ ماورائے آئین کام ہوگا، بہرحال ادارے صرف یہی تین ہیں اور انہیں ہی مستحکم ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا عدلیہ اور پاک فوج کے درمیان حالیہ چپقلش جمہوریت کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
یہ بالکل طے ہے کہ جمہوریت پر شب خون بالکل نہیں مارا جائے گا، ادارے مستحکم ہونگے، میرا خیال ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی بار بار یہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ملکی آئین کی پاسداری کرینگے۔

اسلام ٹائمز: کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کیجانب سے شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
یہ تحریک انصاف حکومت کی ناکام ترین پالیسیاں ہیں، اسے مختلف محاذوں پر شکست ہو رہی ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہوگئی ہے، مقبوضہ کشمیر کے معاملے کو لیکر بھی اقوام متحدہ میں پاکستان کے موقف کو تسلیم نہیں کیا گیا، پاکستان بھارت کے خلاف سلامتی کونسل میں کوئی بھی قرارداد منظور نہیں کرا سکا، ایف اے ٹی ایف نے پھر نئی شرائط لگا دی ہیں، بھارت کے مقابلے میں سعودی عرب نے پاکستان کی حمایت نہیں کی، یہ پاکستان کی ناکامی تھی، جن ممالک نے پاکستان کی حمایت کی، ملائیشیاء، ترکی نے، ان ممالک کے ساتھ پاکستان رویہ افسوسناک ہے، پاکستان کو تمام بلاکس میں جانا چاہیئے، یہ ناکام خارجہ پالیسی ہے، جس کے باعث ہم تنہائی کی طرف جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان کیجانب سے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا اصل سبب سعودی دباؤ تھا۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
اس میں کیا شک ہے، پاکستان نے کوالالمپور سمٹ میں سعودی دباؤ کی وجہ سے شرکت نہیں کی، یہ بالکل سو فیصد درست بات ہے، ظاہر ہے کہ سعودی عرب نہیں چاہتا کہ پاکستان کسی دوسرے بننے والے بلاک کا حصہ بنے، صرف سعودی عرب کے تابع رہے، یہ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کا واضح ثبوت ہے، اپوزیشن کو تو مطالبہ کرنا چاہیئے کہ وزیر خارجہ اپنے عہدے سے فوری مستعفی ہو جائیں کہ وہ مستقل ہر معاملے میں ناکام ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ملک کے بجائے بیرون ملک بن رہی ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
پاکستان کی خارجہ پالیسی تو ملک کے اندر ہی بن رہی ہے، لیکن وزارت خارجہ کو آزاد کرنا چاہیئے کہ وہ خود فیصلے کرے، ملک میں وزارت خارجہ آزاد نہیں ہے اور جب وزارت خارجہ آزاد نہیں ہوگی تو یہی صورتحال ہوگی۔ بہرحال آپ دباؤ کا شکار ہیں اور آپ کی خارجہ پالیسی کوئی نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام نظر آتی ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
ساری دنیا میں خارجہ پالیسی اس کی معاشی پالیسی سے لنک ہوتی ہے، امریکا اور چین کے درمیان اس سال کے شروع میں جو لڑائی تھی، وہ تجارتی لڑائی تھی، تجارتی لڑائی کی وجہ سے ان کے درمیان لفظی جنگ ہوئی، ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیئے گئے، بدقسمتی سے پاکستانی خارجہ پالیسی سکیورٹی سے منسلک ہے، اسی لئے ہم ہر جگہ پیچھے جا رہے ہیں، ورنہ امریکا اور چین کے درمیان کوئی سکیورٹی ایشو نہیں تھا، تجارتی ایشوز تھے، لیکن ہمارے یہاں اقتصادیات کی اہمیت نہیں ہے، سکیورٹی کو اہمیت حاصل ہے، اب سکیورٹی کی بالادستی ہے، اسی لئے ہم تنہائی کی طرف جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی سویلین کو کبھی ملی ہی نہیں ہے، لہٰذا وزیراعظم عمران خان کیا کریں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
یہ بالکل صحیح بات ہے، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ وزارت خارجہ کو آزاد ہونا چاہیئے۔ عمران خان اتنے دعوے کرتے ہیں، تو انہیں چاہیئے کہ وزارت خارجہ کو اقتصادی پالیسی سے منسلک کریں، انہیں یہ کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: خارجہ پالیسی کیسے آزاد ہوسکتی ہے، کیا حل پیش کرینگے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ خارجہ پالیسی اقتصادی پالیسی سے لنک ہونی چاہیئے، جن جن ممالک سے ہمارا اقتصادی مفاد وابستہ ہے، ان کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہونے چاہیئے، یہ ساری دنیا کا اصول ہے، یہ امریکا اور چین کا بھی اصول ہے، یہ روس کا بھی ہے، ہمیں بھی اسی اصول پر عمل کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 835321
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش