0
Tuesday 7 Jan 2020 21:20
ایوان میں خبریں پڑھ کر سنانے والے خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے

عظیم مسلم جرنیل قاسم سلیمانی کیلئے شہید کا لفظ نہ کہنا عمران خان کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے، قیصر احمد شیخ

عظیم مسلم جرنیل قاسم سلیمانی کیلئے شہید کا لفظ نہ کہنا عمران خان کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے، قیصر احمد شیخ
پاکستان مسلم لیگ نون پنجاب کے رہنماء قیصر احمد شیخ 1946ء میں پیدا ہوئے، کراچی چیمبر آف کامرس کے رکن رہے۔ 2013ء میں جھنگ سے الیکشن لڑا اور چنیوٹ کی نشست سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، 2018ء میں دوبارہ چنیوٹ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ نیب قوانین میں ترمیم، آرمی ایکٹ کی منظوری، پی ایم ایل این کے سیاسی بیانیے، مشرق وسطیٰ کے سنگین حالات اور پاکستان کے موقف سمیت اہم ایشوز پر اپوزیشن کے نقطہ نظر پر انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: نیب قوانین میں ترمیم کا جو کام مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی اپنے ادوار میں نہ کرسکیں وہ پی ٹی آئی نے کر لیا ہے، کیا اپوزیشن جماعتوں کے نزدیک قانون سازی کبھی ترجیح نہیں رہی۔؟
قیصر احمد شیخ:
یہ انکا کارنامہ نہیں، بلکہ حکومت اور ان کے نیب نامی نائب نے شریف خاندان سمیت سینیئر مسلم لیگی ارکان کا احتساب کر لیا ہے، حکومت اپنے مذموم مقاصد میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، اَب حکومتی ارکان کے احتساب کی باری آئی تو سلیکٹڈ وزیراعظم نے اپنے سمیت ساتھیوں کو بھی این آر او دے دیا، مسلم لیگ (ن) کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئے آنے والی حکومت کی اپنی دیوار گرنے والی ہے۔ اب ہواؤں کا رخ تبدیل ہونے کے خوف اور مالم جبہ، بی آر ٹی کیسز میں اپنے وزراء اور ارکان کو بچانے کے لئے نیب آرڈیننس لایا گیا ہے، اپوزیشن جماعتوں کے ارکان احتساب میں حساب دے چکے ہیں، جن کی طرف کچھ بھی نہیں نکل سکا، اب عمران خان سمیت اِن حکومتی ارکان کے احتساب کی باری تھی، مگر عمران خان نے آرڈیننس کے ذریعے باری بند کر لی ہے، سلیکٹڈ نے اپنے سمیت اُن ارکان اور وزیروں کو بھی این آر او دے دیا ہے، جن پر اُنہوں نے اربوں اور کروڑوں روپے کی کرپشن کے الزامات عائد کئے تھے۔ ثابت ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی صرف مسلم لیگ (ن) کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئے اقتدار میں آئی تھی، تاہم سیاسی اور معاشی حالات میں حکومت کی اپنی دیوار گرنے والی ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ (ن) نے آرمی چیف کی توسیع اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں نہیں لیا، اس سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ اپوزیشن نے ایک بار پھر یوٹرن لے لیا ہے، کیا آپ نے اپنا بیانیہ بدل لیا ہے۔؟
قیصر احمد شیخ:
یہ ایک مخاصمانہ رویہ ہے کہ ایکدوسرے کے مثبت اقدامات اور پالیسیوں کو بھی خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسا ہی آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ ہے، یہ قومی سلامتی سے جڑے ایشوز ہیں، اس پر کسی نے کوئی یوٹرن نہیں لیا، سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو مسئلہ حل کرنے کیلئے کہا، پہلی بار پی ٹی آئی نے بھی سب کو اس پر ایوان میں بات کرنے کا موقع دیا اور تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا، لیکن یہ بل پاس کر لیا گیا۔ کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی لیڈر افواج پاکستان سمیت کسی ریاستی ادارے کو متنازعہ بنا کر کمزور نہیں کرنا چاہتا، نہ ہی یہ ملکی مفاد میں ہے۔

اسلام ٹائمز: پارٹی کے اہم رہنماؤں نے خلائی مخلوق کیجانب سے ہونیوالی دھاندلی کے لیگی بیانیے سے ہٹ کر اس معاملے میں الیکشن میں بے قاعدگی کے دعووں کی نفی کر دی ہے، کیا گذشتہ الیکشن کو شفاف مان لیا گیا ہے۔؟
قیصر احمد شیخ:
یہ غلط ہے، جب میاں نواز شریف کی رہائی کیلئے کوئی ڈیل نہیں کی گئی تو اب کیسے ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے بیانیہ سے منحرف ہو جائے، ہمارا آج بھی وہی ورژن ہے، جو پہلے تھا، شاید ہی کوئی حلقہ ایسا ہو، جہاں دھاندلی نہ ہوئی ہو، بلکہ زیادہ تر جگہوں پر تو الیکشن سے قبل الیکٹیبلز کو مجبور کر دیا گیا تھا کہ وہ مخصوص پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑیں یا خلائی مخلوق کی حمایت یافتہ پارٹی کا ساتھ دیں۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت ہر قدم پر لڑکھڑا رہی ہے، ان کے سارے نعرے اور وعدے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں، اس کا یقین ان کی حمایت کرنیوالی قوتوں کو بھی ہوگیا ہے، ایسے میں موجودہ وقت میں جب ہمارا پورا خطہ کشمکش اور بحران کی زد میں ہے۔

اپوزیشن بھی ذمہ داری کا ثبوت دے رہی ہے، ہم نے پہلے بھی قومی مفاد کی خاطر فیصلے کیے ہیں اور اب بھی ادھر ادھر سے ہونیوالی باتوں پر کان دھرے بغیر معاملات کو سلجھانے کیلئے کام کر رہے ہیں، البتہ یہ ساری باتیں ہم نے الیکشن کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایوان میں حکومت کو قومی مفاد اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے مل کر چلنے کی بات کی تھی، لیکن انتقامی سوچ کی وجہ سے عمران خان نے یہ پیشکش مسترد کر دی تھی۔ مسلسل حکومتی ناکامیوں کی وجہ سے اس کا خمیازہ پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: خارجہ پالیسی کے حوالے سے موجودہ حکومت کی کوئی پالیسی نہیں ہے، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
قیصر احمد شیخ:
کوئی بھی ملک خارجہ پالیسی کے بغیر نہ چل سکتا ہے، نہ ہی اپنے قومی مفادات کا تحٖفظ کرسکتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے بڑے دعوے کیے تھے اور پہلی حکومتوں پر زبردست تنقید کی تھی کہ خارجہ پالیسی بنانے اور اس پر عمل درآمد کروانے کیلئے وزات عظمیٰ کا منصب ہی استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن اب تو وزارت خارجہ صرف بیانات جاری کرنے کیلئے ہے، بلکہ امریکی وزیر خارجہ نے تو پاکستانی وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو گھاس بھی نہیں ڈالی، پورے مشرق وسطیٰ میں جنگ کے نقارے بجا دیئے گئے ہیں، لیکن ہماری حکومت عالمی میڈیا میں چلنے والی خبریں پڑھ کر ایوان میں سنا رہی ہے، کہا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان کا موقف ہے۔ یہ ایک کمزور حکومت ہے، جس وزیراعظم نے یہ تک کہہ دیا کہ مودی حکومت میں آئیگا تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائیگا، وہ امریکہ کے سامنے کیسے کھڑا ہوسکتا ہے۔

ہمارے دور حکومت میں بھی ملکی معاشی صورتحال بہت خراب تھی، لیکن یمن میں مداخلت کے حوالے سے پارلیمنٹ میں کھل کر بات ہوئی، ملکی مفاد میں پالیسی بنائی گئی، لیکن وہ دو مسلم ملکوں کے درمیان جنگ کو روکنے کی بات تھی، پاکستان کا ثالث بننے کا اعلان سمجھ میں آتا تھا، اب یہ ثالثی کرواتے کرواتے امریکی استعمار کے ایلچی بن گئے ہیں، بزدلی اور کمزوری کی انتہاء ہے، ایران کے سب سے بڑے جرنیل کی شہادت پر نہ ہی دکھ کا اظہار کیا اور نہ ہی لفظ شہید استعمال کرنے کو تیار ہیں، جس طرح ان کی کوئی داخلہ پالیسی نہیں، اسی طرح ان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں اور بہتر ہے کہ یہ کوئی خارجہ پالیسی بنائیں ہی نہیں، نہ ہی یہ ملکی مفاد کو سمجھتے ہیں، نہ عوامی امنگوں کو اور نہ ہی امت مسلمہ کے مفادات یہ لوگ سمجھ سکتے ہیں، نہ ہی انکا یہ مقام ہے۔

اسلام ٹائمز: سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ پاکستان کی سرزمین امریکہ کو استعمال کرنیکی اجازت دی گئی ہے۔؟
قیصر احمد شیخ:
ایرانی بھائیوں کو پہنچنے والے دکھ پر جتنا بھی ہمدردی کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے، عالمی بساط پہ سیاست اور جنگ کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، پاکستان کو اس میں دھکیلنے کی کوشش کی جائیگی، یہ تاثر قائم ہوا نہیں ہے، بلکہ ایک منصوبے کے تحت پاکستانی آرمی چیف کو فون کرکے امریکی وزیر خارجہ نے یہ چال چلنے کی کوشش کی ہے، لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ بیان مشرق وسطیٰ کی تازہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی حقیقی پالیسی واضح کرتا ہے۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے فون پر بات کی۔

اُس سے اگلے روز امریکہ نے فوجی افسران کی تعلیم و تربیت کے پروگرام میں پاکستانی فوجی افسران کی شمولیت کی بحالی کا اعلان کیا تو عوام کے خدشات ابھر کر سامنے آئے اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے عوامی آراء کا اظہار بھی کیا جانے لگا، ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس وضاحت کے بعد ان خدشات کا ازالہ ہو جانا چاہیئے۔ بغداد میں امریکی حملے میں ایران کی قدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکہ اور ایران کی کشیدگی نئی انتہاؤں کو پہنچ چکی ہے۔ ایران کے ایک اہم ترین فوجی کمانڈر کو نشانہ بنا کر امریکہ نے ایران کے معاملے میں سرخ لکیر عبور کر لی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی اس کشیدہ صورتحال میں پاکستانی قوم کی تشویش واضح ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی جنگوں کے حوالے سے پاکستانیوں کی یادیں بہت تلخ ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا جنگ کی تلخیوں سے پاکستان کو بچانے کیلئے ہمیں امریکہ بہادر کا ساتھ دینا چاہیئے، جبکہ ہمارے اتحادی عرب ملک بھی یہی چاہتے ہیں۔؟
قیصر احمد شیخ:
امریکہ کا ساتھ کسی بھی صورت میں نہیں دیا جانا چاہیئے، لیکن نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی مداخلت اور اس کے نتائج ہم نے ایک دہائی سے زائد مدت تک جس طرح بھگتے ہیں، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، بڑھتی ہوئی کشیدگی اور جنگ کے طبل پاکستانیوں کو ماضی کی تلخیاں یاد دلاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد کے واقعات اور موجودہ صورتحال میں کوئی مناسبت نہیں، اُس وقت امریکہ دہشت گردی کے ایک بڑے حملے کا نشانہ بن چکا تھا، جس کا الزام وہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں پر عائد کرتا تھا، ادھر پاکستان میں بھی حالات مختلف تھے کہ ملک میں فیصلہ سازی کا اختیار سمٹ کر ایک شخصیت کے ہاتھوں میں تھا، جس نے امریکی استدعا پر جس طرح تعاون کی ہامی بھری، وہ بقول امریکیوں کے خود ان کی اپنی توقعات سے بڑھ کر تھی۔

آج وہ حالات ماضی بعید کا حصہ بن چکے ہیں، مگر اُن واقعات کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ افغانستان پر امریکی یلغار کے نتیجے میں پھیلنے والی دہشت گردی کا عفریت ہمارے ملک میں ساٹھ ہزار سے زائد جانیں نگل چکا ہے جبکہ دہشت گردی کی اس لہر کا معاشی نقصان تقریباً 120 ارب ڈالر تھا۔ دہشت گردی کی اس لہر پر ہمارے دفاعی اداروں نے کس طرح قابو پایا، کتنی قربانیاں دی گئیں، پاکستانی شہری ان حقائق سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ دوسری جانب افغانستان اُس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار پر ابھی تک قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہ المناک تجربات ہمیں خطے میں کسی نئی محاذ آرائی کا حصہ بننے کی ہرگز اجازت نہیں دیتے۔

اسلام ٹائمز: کیا امریکہ کیخلاف مزاحمت کرنیوالوں کی کھل کر حمایت اور امداد فراہم کیے بغیر مسلمان خطوں میں امن کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔؟
قیصر احمد شیخ:
کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے دنیا بھر میں مداخلت اور تھانے دار بننے کی روش نے دنیا کو کچھ نہیں دیا، سوائے عدم استحکام اور اقوام عالم کے مابین کشیدگی اور محاذ آرائی کے۔ مشرق وسطیٰ ہی کو دیکھ لیں، اس خطے کے سبھی ممالک اپنے اصولی اختلافات کے باوجود پرامن ہمسایوں کی طرح رہ رہے ہیں اور یہ سبھی ممالک اپنے مخصوص نظام ہائے حکومت کے ساتھ مستحکم طور پر قائم رہے ہیں، مگر پچھلی ایک ڈیڑھ دہائی نے مشرق وسطیٰ کے خطے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، جبکہ تازہ صورتحال نے خطے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ان حالات میں خطے کے تمام با اثر ممالک کی ذمہ داری ہے کہ جہاں تک ہوسکے تباہی کے منڈلاتے بادلوں کے خلاف ڈھال بنیں، نہ کہ جلتی پر تیل کا کام کریں۔

یہ صورتحال خوش آئند ہے کہ ان حالات میں پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے ایسا بیان آیا، جس نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی محاذ آرائی کے لیے فراہم نہیں کرے گا۔ چین، روس، ترکی اور خطے کے دیگر اہم ممالک کی پوزیشن بھی اس معاملے میں پاکستان سے مختلف نہیں۔ یہ صورتحال تسلی دیتی ہے کہ امریکہ اور ایران کے مابین کھلی جنگ کے خطرات کو کم کرنے میں مدد حاصل ہوگی۔ جنرل قاسم سلیمانی ایرانی فورس کے اہم کمانڈر تھے اور امریکی حملے جیسا واقعہ کسی بھی ملک کے لیے برداشت کی حدوں سے باہر کی بات ہے، اس لیے ایرانی فورسز اور حکومت کی جانب سے بدلے کا بیانیہ سمجھ میں آتا ہے، مگر پاکستان، چین اور خطے کے دیگر اہم ممالک کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں، تاکہ اس تلخ ترین صورتحال میں تحمل سے کام لیا جائے۔ یہ حوصلہ افزاء ہے کہ پاکستان اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے۔ جب تک اس خطے کے ممالک اپنے فیصلے خود نہیں کرینگے، امن قائم نہیں ہوگا، نہ ترقی کا سفر جاری ہوگا، غربت اور بدحالی ہمارا مقدر رہیگی۔

توقع کی جاتی ہے کہ دوسرے مسلم ممالک بھی اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کا ساتھ دیں گے اور یوں خطے کو ایک تباہ کن جنگ کے خطرات اور اندیشوں سے نکال لیا جائے گا۔ بہرحال پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس خطے میں جارحیت کے لیے کسی کو بھی اپنا کندھا پیش نہیں کرے گا۔ اقوام متحدہ سے بھی امید کی جانی چاہیئے کہ وہ بھی امن، استحکام اور تحمل کے قیام کیلئے قدم بڑھائے۔ مشرق وسطیٰ کا خطہ تیل کی پیدوار کے اعتبار سے بھی دنیا کیلئے اہم ہے اور اس خطے میں کشیدگی کا مطلب ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اور پوری دنیا اس کے بھیانک نتائج کو بھگتے گی، عالمی سطح پر ایک عظیم تر سفارتی کوششوں سے مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ عمران خان عالمی لیڈر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن عظیم مسلم جرنیل کیلئے شہید کا لفظ زبان پہ نہیں لائے، یہ سعودی حمایت اور امریکہ کے خوف سے زیادہ اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔
خبر کا کوڈ : 837079
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش