0
Friday 10 Jan 2020 10:16

مسئلہ کشمیر نہ صرف ملت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے بلکہ دنیائے انسانیت بھی اس مسئلے سے غافل نہیں رہ سکتی ہے، غلام رسول حامی

مسئلہ کشمیر نہ صرف ملت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے بلکہ دنیائے انسانیت بھی اس مسئلے سے غافل نہیں رہ سکتی ہے، غلام رسول حامی
مولانا غلام رسول حامی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے، وہ جموں و کشمیر کے فعال ترین ادارے کاروان اسلامی کے سربراہ ہیں، اولیاء کرام اور صوفیان دین الٰہی کے مشن کی تبلیغ و ترویج میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں، کاروان اسلامی جموں و کشمیر کے زیر اہتمام سال بھر میں نیشنل اور انٹرنیشنل دینی کانفرنسز کا انعقاد بھی ہوتا ہے، جموں و کشمیر کے شہر و گام میں مولانا غلام رسول حامی اپنی تبلیغی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، وہ جموں و کشمیر میں علماء احناف و اعتقاد کی سربراہی کر رہے ہیں، چند ایک دارالعلوم انہی کے زیر نظارت فعال ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا غلام رسول حامی کیساتھ ایک نشست کے دوران تفصیلی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر و مسئلہ فلسطین ملت اسلامیہ کے اہم ترین مسائل میں شمار ہوتے ہیں، جاننا چاہیں گے کہ ان دونوں مسائل میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے۔؟
غلام رسول حامی:
دیکھیئے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ فلسطین میں بھی اُمت مسلمہ کے نہتے، کمزور اور محصور مسلمان اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہاں بھی بے یارومدد گار کشمیری مسلمان اپنے سیاسی حقوق کی بازیابی کے لئے گزشتہ سات دہائیوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔ وہاں بھی ہر روز بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے، نہتے عوام پر گولیاں برسائی جاتی ہیں، غریب فلسطینیوں کے مکانات مسمار کئے جاتے ہیں اور یہاں بھی آئے روز کسی نہ کسی بے گناہ کو جرم بے گناہی میں موت کی ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ فلسطین کی ایک بڑی آبادی غزہ میں محصور ہے، محصورین غزہ کو زندگی گزارنے کے لئے بنیادی ضروریات سے جان بوجھ کر محروم رکھا جارہا ہے، اسرائیلی چھوٹے چھوٹے بچوں کے لئے دودھ اور روٹی تک بیرونی دنیا سے وہاں آنے نہیں دیتے ہیں۔

2008ء، 2010ء اور 2016ء  اور اب 5  اگست سے یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے، یہاں بھی عوامی آبادی کو اپنے گھروں میں یرغمال بناکر اُنہیں زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہاں بھی ہفتوں اور مہینوں کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا جاتا ہے۔ آئے روز عوامی نقل و حرکت پر قدغن لگانے کے لئے بندشیں لگائی جاتی ہیں،  5 اگست سے تو بالکل اسرائیلی طرز پر کشمیر کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی ہے۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودیوں کو لالاکر آباد کیا جارہا ہے، اسرائیل بڑے بڑے شہروں پر دعویٰ کرکے اُنہیں یہودیوں کی ملکیت قرار دیتا ہے اورآئے روز بڑی بڑی کالونیاں تعمیرکرکے فلسطینیوں کی آبادی کا توازن بگاڑنے کے مشن کو پورا کررہا ہے اور یہاں کشمیر میں دہائیوں سے یہی طرز عمل اپنایا جارہا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کا مسئلہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ دونوں جگہوں پر دنیا کی بہت بڑی آبادی کسمپرسی اور پریشانی کے عالم میں رہ رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: فلسطین ہی کی طرح مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کنال زمین پر قابض فورسز کا قبضہ دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے، اس معاملہ کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
غلام رسول حامی:
اس میں کوئی شک و تردد نہیں ہے کہ وادی کشمیر میں لاکھوں کنال اراضی بھارتی فوج کے زیر تحویل ہیں۔ ایک چھوٹے سے خطہ میں دس لاکھ فوجیوں کی موجودگی سے لوگوں کی ذہنی اور نفسیاتی حالت کیا ہوگی اس کا اندازہ مختلف غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے آنے والی اُن رپورٹوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جن میں ذہنی امراض کے شکار مریضوں کی بڑھتی ہوئی تشویشناک شرح کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ابھی یہاں یہ کام حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر انجام دیا جارہا ہے کہ ہزاروں کنال اراضی فوج کی تحویل میں دی جارہی ہے، جہاں پر وہ کالونیاں تعمیرکرنے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ پنڈت کالونیوں کا منصوبہ اپنی جگہ زیر غور ہے۔ 5 اگست کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی اور ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی پالیسی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آبادی کے تناصب کو بگاڑنے کا ایک بڑا منصوبہ بھارتی حکومت کے زیر غور ہے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین کے برعکس مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کیا کمی و خامی رہی ہے۔؟
غلام رسول حامی:
فلسطین کے حوالے سے ہمیشہ ہمیش اُمت مسلمہ کا مؤقف قریب قریب ایک ہی جیسا رہا ہے۔ سوائے چند ممالک کے عیاش اور خود غرض حکمرانوں کے دنیائے اسلام کا ہر فرد بشر اس بات کو مانتا ہے کہ فلسطین کی سرزمین اُن کی ہے، بیت المقدس قبلہ اول ہے اور اِس سرزمین پر سوائے مسلمانوں کے کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔ گویا مسلمان دنیا کے چاہے کسی بھی خطہ میں کیوں نہ رہ رہے ہوں ، اُن کے دل فلسطین کے لئے ڈھڑکتے ہیں، ان کی روحیں فلسطینی مسلمانوں کے لئے تڑپتی ہیں لیکن کشمیر کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ فلسطین کے مسئلہ کو ہر مسلمان نے اپنا مسئلہ ایمان بنایا ہے جب کہ کشمیریوں کا مسئلہ صرف کشمیریوں کا درد ہے، یہ ان کی کہانی ہے، یہ ان کا رونا ہے، حالانکہ یہ نہ صرف ملت اسلامی کا مشترکہ مسئلہ ہے بلکہ دنیائے انسانیت بھی اس مسئلے سے غافل نہیں رہ سکتی ہے۔

کشمیری قوم کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ عالمی ایوانوں میں، دنیا کے کونے کونے میں اس کی آواز پہنچانے کے لئے اُنہیں حقیقی ہمدرد اور صحیح العمل ترجمان نصیب نہیں ہوئے ہیں۔ ہم پاکستان کی بات کریں تو وہ اس مسئلے کا ایک فریق ہے، گزشتہ ستر برسوں میں اگر دنیا میں کہیں بھی کشمیریوں کی درد بھری چیخیں اور آہیں سنی گئیں تو اُس میں پاکستان کا ہی کلیدی رول رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس پیمانے پر تیر بہدف کوششیں ہونی چاہیئے، جس طرح سے مسئلہ کی تشہیر اور ریاست کے طول و عرض میں مسلم اکثریت کے خلاف حقوق انسانی کی پامالیوں کی داستان سرائی ہنگامی بنیادوں پر کرنی مطلوب تھی اُس پیمانے پر کبھی بھی نہیں ہوئی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکی رائے میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کیا کچھ انجام پانا چاہیئے۔؟
غلام رسول حامی:
مسئلہ کشمیر کو اُمت مسلمہ کے درد کے طور پر اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اگر پوری امت واقعی جسدِ واحدہ ہے تو مسلم دنیا کو اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے دیگر اقوام تک اس مسئلے کی اہمیت، اصلیت اور اسے حل کرانے کی ضرورت سے آگاہی دینے کے لئے ٹھوس اقدام کرنا ہوگا۔ اس کے لئے کشمیریوں کی قیادت کو بھی نئے سرے سے اپنی حکمت عملی مرتب کرنی چاہیئے۔ جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے ماضی کے بہت سارے طور طریقوں کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ اولین ترجیح اس بات کو ہونی چاہیئے کہ وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں ہورہی انسانی جانوں کے زیاں اور حقوق البشر کی پامالیوں کو کیسے روکا جائے۔ ہمارا ماننا ہے کہ مرنا مارنا ہی کسی تنازعے کا حل ہوتا تو 1947ء میں جموں قتل عام کے بعد مسئلہ کشمیر زندہ ہی نہیں رہنا چاہیئے تھا، پاکستان کے ساتھ تین بڑی جنگوں میں ہزاروں لوگوں کے ہلاکت کے بعد دونوں ممالک خاموشی سے بیٹھ گئے ہوتے۔ مسائل ہلاکتوں اور جنگوں سے حل نہیں ہوتے ہیں بلکہ مسائل اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف اور اصولوں کے تقاضوں کو پورا کرکے ہی حل کئے جاسکتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اس بات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کہ کیوں ہمارے مسئلہ کو دنیا اہمیت نہیں دیتی ہے۔ وجوہات جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس سمت میں ٹھوس منصوبہ بندی کرکے عالم انسانیت کے دلوں اور ضمیر پر دستک کی حکمت عملی کو وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کے حوالے سے بھارتیہ عدلیہ کے حکم کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔؟
غلام رسول حامی:
دیکھیئے 6 دسمبر 1992ء ہندوستانی سیاست کا وہ سنگ میل ہے جس نے سیاست کا نقشہ ہی پلٹ دیا۔ اسی روز1992 ء کو ایودھیا میں مغل شہنشاہ بابر کے دور کی ایک چھوٹی سی مسجد منہدم ہوئی اور سمجھیے کہ اس روز ہندوستانی آئین میں ایک بدنما داغ لگ گیا۔ یوں تو بابری مسجد ایودھیا کی ایک چھوٹی سی مسجد تھی، لیکن جس طرح اس مسجد کو ایک ہندو مجمع نے گرایا اس میں عقیدت کم اور سیاست بہت زیادہ تھی۔ بھلے ہی اس مجمع کے اندر عقیدت کا جذبہ رہا ہو، لیکن اس مجمع کو اکٹھا کرنے والی تنظیم وی ایچ پی اور بی جے پی کے مقاصد پوری طرح سیاسی تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ 6 دسمبر 1992ء کو اپنی بہت ساری ذیلی تنظیموں کا استعمال کر کے سَنگھ نے ہندو راشٹر کی بنیاد رکھی تھی اور اب 2019ء میں اسی دسمبر ماہ میں ہندوستانی پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل پاس کرا کر آر ایس ایس کا ہندو راشٹر کا خواب تقریباً پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ بلاشبہ بی جے پی کے کندھوں پر سوار ہو کر سَنگھ نے 1925ء میں جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندۂ تعبیر کر لیا۔ اس پورے تنازعہ میں سب سے زیادہ نقصان خود مسلمانوں کا ہوا، جو یہاں اب تقریباً دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ تاریخ میں جو گزر جاتا ہے اسے بدلا نہیں جا سکتا ہے لیکن تاریخ سے سبق ضرور سیکھا جا سکتا ہے۔ اس 6  دسمبر کو بابری مسجد انہدام سے اڑنے والی سیاسی دھول ہم کو یہ سبق دیتی ہے کہ فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کسی بھی سماج کی ہو، وہ ملک اور سماج کے تئیں بہت نقصان دہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 837602
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش