0
Saturday 18 Jan 2020 11:54
پوری دنیا میں بدامنی کا بیج بونے والا امریکہ ہے

عمران خان کسی بھی وقت یوٹرن لیکر امریکی صدر کے اقدام کی حمایت کا اعلان کرسکتے ہیں، سینیٹر غوث نیازی

ایران خطے کی واحد طاقت ہے، جس نے امریکی طاقت اور غرور کے سامنے سر نہیں جھکایا
عمران خان کسی بھی وقت یوٹرن لیکر امریکی صدر کے اقدام کی حمایت کا اعلان کرسکتے ہیں، سینیٹر غوث نیازی
سینیٹر غوث محمد نیازی پاکستان مسلم لیگ نون پنجاب کے اہم رہنماء ہیں، 2015ء میں سینیٹ کی جنرل سیٹ سے سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1986ء میں پنجاب سے ایم بی بی ایس مکمل کرنے بعد سے میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کیساتھ ساتھ سیاست میں بھی فعال ہیں۔ خارجہ امور، علاقائی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ سینیٹ آف پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ، قومی ورثہ، واٹر اینڈ پاور اور نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوارڈینشین کمیٹیز کے ممبر رہے۔ ایران کیخلاف امریکی جارحیت، موجودہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں اور احتساب سمیت سیاست کو کنٹرول کرنیوالے عوامل سمیت مستقبل کے ملکی و سیاسی منظرنامے کے حوالے لیگی رہنماء کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: موجودہ حالات میں ایران کیخلاف امریکی پابندیوں اور جارحانہ اقدامات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
سینیٹر غوث نیازی:
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ایک سپر پاور ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ سامراجی اور ظالم قوت ہے، پوری دنیا میں بدامنی کا بیج بونے والا امریکہ ہے۔ ایران خطے کی واحد طاقت ہے، جس نے امریکی طاقت اور غرور کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ امریکہ کی ایران کیخلاف معاشی، سیاسی اور فوجی جنگ کا مقصد ایران کو اسرائیل کے مقابل ایک رکاوٹ کے طور پر انہیں مجبور کرنے کیلئے ہیں۔ ایران کی اسرائیل دشمنی اور فلسطین کی آزادی کا پرچم اٹھانے والوں کی حمایت ہی انکا سب سے بڑا جرم ہے۔ اسرائیل علاقے میں مسلسل زیادتیوں کے ذریعے امن کو تہ و بالا کیے ہوئے ہے۔ اسرائیل کی غنڈہ گردی کے آگے سب نے سر جکھا دیئے ہیں، لیکن ایران ڈٹ کر کھڑا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے عراق پر حملہ کیا، دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ شروع کی اور افغانستان سمیت ایران کے اردگرد ڈیرے جما لیے ہیں، لیکن ایرانی قیادت اور قوم ایک دلیر اور بہادر لوگ ہیں، انہوں نے سخت ترین حالات میں بھی اپنے موقف میں تبدیلی پیدا نہیں کی۔ یہ پورے دنیا میں کمزور قوموں اور ممالک کیلئے ایک مثال ہے، یہ ایک دوسری وجہ ہے، جو امریکہ کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔

اسلام ٹائمز: ہماری حکومت کا موقف ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان دوستی کروا دینگے، کیا ایسا ممکن ہے، یہ کس بنیاد پہ ایسے دعوے کر رہے ہیں۔؟
سینیٹر غوث نیازی:
جب تک یہ سمجھ نہ لیا جائے کہ ایران ایک باوقار اور باعزت ملک ہے، اس کے بعد یہ ممکن ہے کہ خطے میں امن کی کوششیں بارآور ثابت ہوسکیں۔ امریکہ آج افغانوں سے مذاکرات اسی لیے کر رہا ہے، ایران کیخلاف حالیہ امریکی اقدامات شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی کر رہے ہیں، جیسا کہ پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ افغانستان میں یک طرفہ کامیابی تک امریکہ اپنی پالیسی پر عمل درآمد جاری رکھے گا، لیکن ایک کے بعد ایک آنیوالے صدر نے مذاکرات بھی کیے اور پاکستان سے تعاون بھی طلب کیا، ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کو صدام کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کی طرح دیکھنے کی ضرورت ہے، جہاں ایران کیخلاف صدام کو دنیا نے جارح تسلیم کیا، اب یہی موقف امریکہ کے لیے ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں میں یہ ہمت اور حوصلہ نہیں کہ وہ ایسا سوچ بھی سکیں، اس لیے یہ صرف زبانی دعوے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لیکن یہ تو واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی اور جنگ کیلئے استعمال نہیں کرنے دیگا۔؟
 سینیٹر غوث نیازی:
اس سے پہلے بھی انہیں اس سلسلے میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، یہ بے اختیار بھی ہیں اور مجبور بھی، اسی لیے وہ اپنے دوستوں مہاتیر محمد اور طیب اردوگان سے بھی اپنے اِس انکار کے پس پردہ عوامل کا تذکرہ بھی نہ کرسکے۔ لیکن وہ اپنی اِس بے اختیاری کا کھل کر اظہار اور اعتراف بھی نہیں کرسکتے۔ ایسا ہی ملائیشیاء کانفرنس میں اُن کے نہ جانے کا مسئلہ تھا، اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اتنا برا نہیں تھا، جتنے برے طریقے سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے دو ماہ پہلے وزیراعظم نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان خود ساختہ ثالث بن کر مفاہمت اور دوستی کرانے کے مشن پورا کرنیکا دعویٰ بھی کیا تھا۔

پھر نجانے کیا ہوا کہ واپس آکر کسی کو اُس مشن کے نتائج سے بھی آگاہ نہ کرسکے۔ شاید عمران خان یہ سمھ رہے تھے کہ اُس کے اِس عمل سے ساری دنیا اُسے ایک زبردست لیڈر ماننے پر مجبور ہو جائے گی۔ مگر ہمیشہ کی طرح ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان کسی صورت میں کسی جنگ کا حصہ بننے کا متحمل نہیں ہوسکتا، لیکن ہمیں اب خوف ہے کہ یوٹرن لینا تو ان کے لیے معمولی بات ہے، اب اگر پرویز مشرف کو جس طرح کال آئی تھی، اگر اسی طرح یہ مشن صدر ٹرمپ نے عمران خان کو سونپ دیا تو ہمارا وزیراعظم کہاں کھڑا ہوگا، اللہ پاک سے دعا کرنی چاہیئے کہ خدا کی ذات پاکستان کو اِس مشکل میں نہ ڈالے۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں خارجہ تعلقات کے حوالے سے بے بنیاد تقریروں کے پاکستان کی سیاست اور معاشی حالات پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
سینیٹر غوث نیازی:
یہ تو ایک قدرتی امر ہے، ویسے بھی تبدیلی کے دعوے تو حکومت میں آنے سے پہلے بھی کیے گئے تھے، انہوں نے یہ رٹ لگا رکھی تھی کہ پاکستان کا تو کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے اور یہ بار بار کہا گیا کہ نواز شریف کی خارجہ پالیسی کیوجہ سے پاکستان دنیا میں تنہاء ہوچکا ہے، یہ سمجھا گیا یا سمجھایا گیا کہ پی ٹی آئی جب اقتدار میں آئے گی تو تجربہ کار لوگ پالیسی بنائیں گے اور وزیر خارجہ کسی ماہر کو بنایا جائیگا، یہ بھی کہا گیا کہ ہم امریکہ اور چین کیساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھیں گے، لیکن ساتھ ہی سی پیک کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اب اسی وجہ سے امریکہ نے کھل کر تحفظات کا اظہار کیا ہے، اس کے باوجود جتنی مرتبہ عمران خان نے امریکی صدر کا بڑے فخر سے نام لیا ہے، اس طرح انہوں نے کبھی چین یا چینی حکام کا ذکر تک نہیں کیا، بلکہ خارجہ پالیسی میں جو تسلسل تھا، وہ کہیں نظر نہیں آرہا۔

نہ ہی کوئی سمت نظر آرہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت کشمیری مسلمانوں پر مظالم کے باوجود ہمیں مختلف عالمی اداروں میں آنکھیں دکھا رہا ہے، آئی ایم ایف ہو یا ایف اے ٹی ایف، کہیں بھی ہماری بات نہیں مانی جا رہی، بلکہ پے در پے ان اداروں نے اپنے مطالبات منوائے ہیں۔ پتہ نہیں کس منہ سے عمران خان ٹرمپ کیساتھ دوستی کی باتیں کرتے ہیں، اس دوستی کے کہیں ثمرات نہیں ہیں، صرف ہم امریکہ کی خوشنودی کیلئے کام کر رہے ہیں، کسی بھی ایسے معاملے میں پاکستان کو ریلیف نہیں ملا، جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکتے ہیں، بلکہ اس کے الٹ ہو رہا ہے، ایف اے ٹی ایف کا معاملہ ہو یا کشمیر کی صورتحال۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کیساتھ تو معاملات کو بہتر بنا لیا ہے، کیا یہ کامیابی شمار نہیں ہوگی۔؟
سینیٹر غوث نیازی:
نہ صرف انکی سوچ ٹیڑھی اور الٹی ہے بلکہ تدبیریں بھی غلط ہیں، انہوں نے جو ورلڈ کپ جیتنے کا دعویٰ کیا، وہ یہی ہے کہ اس کی قیمت پاکستانی عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں بھگت رہے ہیں، یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آئی ایم ایف کیساتھ معاملات بہتر ہوئے ہیں، ملک میں مہنگائی کا طوفان ان کی بے ڈھنگی ڈیل کی وجہ سے ہے۔ اب بجلی اور گیس کی قیمتوں کا تعین بھی وفاقی حکومت نہیں کریگی بلکہ وہ ادارے کرینگے، جہاں آئی ایم ایف جیسے اداروں کے لوگ پہلے سے بیٹھائے گئے ہیں، کسی پاکستانی کو ریلیف نہیں ملے گا۔ عالمی ادارے تو بہت طاقتور ہیں، موجودہ حکومت تو مقامی تاجروں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔

اسی طرح مستقبل میں بھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی لٹکتی تلوار، مودی کی دہشتگردی، بھارتی آبی جارحیت، مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیہ جیسے بڑے چیلنجز ہیں، پاکستان بھارت دو طرفہ مذاکرات کا امکان نہیں، کشمیر پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے، عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کیوجہ سے سفارتی سطح پر مشکلات ہیں، پاکستان کو متوازن پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی، مسلم دنیا، امریکا سمیت بڑے ممالک کیساتھ تعلقات مزید بہتر اور دوست ممالک کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ جو موجودہ وزیراعظم کے بس سے باہر ہے، ضروری ہے کہ یہ اقتدار سے الگ ہوں، بہتر ہاتھوں میں حکومت آئے اور پاکستان کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن جماعتوں نے ان ہاوس تبدیلی کے دعوے اور ملک گیر دھرنوں کے بعد اچانک کس دباو میں آکر پارلیمنٹ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی، یا یہ اندر خانے کسی مفاہمتی عمل کا نتیجہ ہے۔؟
سینیٹر غوث نیازی:
سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ترمیمی بل کی قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظوری قومی مفاد کی خاطر سیاسی مفاہمت کی آئینہ دار ہے۔ ان ترامیم کی رو سے ملکی دفاع کے سربراہان کی مدتِ منصب میں توسیع کا طریقہ کار واضح کیا گیا ہے اور تین سال کی مدت ملازمت کے بعد پوری ٹرم کی توسیع دی جا سکے گی۔ یہ اختیار وزیراعظم کو حاصل ہوگا کہ وہ حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سروسز چیفس کو توسیع دینے کیلئے صدر مملکت کو ایڈوائس کریں۔ اس سے قبل مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع ہمارے ہاں روایتی طور پر حکومت کے سربراہ کا اختیار سمجھا جاتا تھا اور اسی روایت کی روشنی میں ماضی میں توسیع دی جاتی رہی، قوانین میں ترامیم کے ذریعے اب توسیع کا طریقہ کار واضح ہوگیا ہے اور اس طرح بہت سے ابہام دور ہوگئے ہیں۔

ریاست کے دفاع کے اس ایک اہم ترین معاملے میں تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے جس بالغ نظری اور دور اندیشی کا ثبوت دیا گیا، وہ قابل ستائش ہے۔ موجودہ علاقائی اور عالمی صورتحال کسی سے اوجھل نہیں۔ بھارت میں عوام شدید احتجاج کر رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ان احتجاجی مظاہروں اور ان تشویش زدہ مظاہرین پر بھارتی فورسز کے تشدد میں بے رحمانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ آنے والے وقت میں وہاں کشیدگی میں اضافے کے واضح امکانات پائے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے اُٹھنے والی احتجاجی آوازوں کو دبانے کے لیے راشٹریہ سیوک سنگھ اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتوں کے غنڈے سرکاری سرپرستی میں جس دیدہ دلیری سے نوجوان طلباء و طالبات پر حملے کر رہے ہی، وہ سب دیکھ رہے ہیں۔

جب بھارت میں اندرونی طور پر انتشار انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے، اس صورتحال سے عالمی توجہ ہٹانے اور رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لیے بھارت کسی جھوٹی کارروائی کا سہارا لے سکتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے لازم ہے کہ دفاعی معاملات کے فیصلوں میں وسعتِ نظر اور دور اندیشی کا ثبوت دیا جائے، ملکی دفاع کے معاملے کو بلا وجہ الجھانے سے اجتناب کیا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر جماعتوں میں اختلاف رائے فطری بات ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیئے، مگر قومی معاملات کو ہر معاملے میں ترجیح دینا سیاسی لیاقت کا ثبوت اور جمہوریت کا حسن ہے۔
خبر کا کوڈ : 838626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش