0
Friday 24 Jan 2020 21:34
مسلمانوں کو چاہیئے کہ امریکہ کو اپنی اپنی سرزمین سے نکال باہر کریں

اب خطے کے ممالک کو اپنا تحفظ امریکہ کی بجائے ایران کیساتھ تعلقات میں نظر آئیگا، علامہ عابد الحسینی

حملے اور جوابی حملے کے بعد امریکہ اپنی تمام تر ساکھ کھو بیٹھا ہے
اب خطے کے ممالک کو اپنا تحفظ امریکہ کی بجائے ایران کیساتھ تعلقات میں نظر آئیگا، علامہ عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ پاکستان میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مشرق وسطی کے تازہ ترین حالات کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: ایران امریکہ کشیدگی کے خطے بالخصوص پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: 
ظاہر ہے کہ کشیدگی کی وجہ سے علاقے پر بیشتر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ کرنسی کی قیمت سے لیکر تیل کی قیمتوں تک ہر چیز متاثر ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں سب سے زیادہ اثر خلیجی ممالک خصوصاً ابوظہبی، بحرین، قطر اور کویت پر پڑ سکتا ہے۔ جہاں اپنی آبادی سے کئی گنا زیادہ غیر ملکی مسافر آباد ہیں۔ چنانچہ یہاں کا کاروبار سخت متاثر ہو جائے گا۔ باہر سے آنے والے لوگوں میں کمی کی وجہ سے وہاں کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ جائے گا۔ ہوٹل، فلیٹس، سکول اور دیگر ادارے خالی ہونے کی وجہ سے علاقہ مکمل طور پر سنسان ہوکر رہ جائے گا، جبکہ پاکستان پر اس حوالے سے شاید منفی سے کچھ زیادہ مثبت اثرات مرتب ہوں، کیونکہ اس دوران پاکستان سونے کی چڑیا ثابت ہوگا۔ امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر پاکستان کو ہر قسم کی امداد دینے پر تیار ہو جائے گا، پاکستان جو چاہے گا، امریکہ دینے پر راضی ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حالات میں حکومت پاکستان کے نکتہ نظر اور پالیسی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ آپکی نظر میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیئے۔؟ 
علامہ سید عابد الحسینی:
 ہمارے سیاستدان اقتدار میں آنے سے پہلے ہمیشہ آزاد خارجہ پالیسی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ وہ اپنے مدمقابل کو امریکہ کا غلام گردانتے نہیں تھکتے۔ اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان سے لوگوں کی کافی امیدیں وابستہ تھیں کہ یہ آکر امریکہ کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دینگے۔ مگر اس نے امریکہ اور اس کے دیگر غلاموں کی غلامی کے سابقہ تمام ریکارڈ توٖڑ ڈالے۔ ہماری حکومت کی پالیسی کے حوالے سے اتنا کہوں گا کہ یہ غلام نہیں بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔ میرے خیال میں عمران صاحب اپنے مفادات کے لئے ہر زہر مار کھانے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ ہماری حکومتوں کی تاریخ ہی ایسی رہی ہے۔ ہم نے اسامہ کے حوالے سے کیا کیا؟ کہ ایک فون کال پر ہماری حکومت وقت ڈھیر ہوگئی۔ یمن اور سعودی عرب کے حوالے سے ہم نے کیا کیا؟ اور اب تک کیا کر رہے ہیں؟ حال ہی میں ملائیشیاء کانفرنس میں شرکت نہ کرکے عمران نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران بنائے جانے والی شخصیت بھی خاک میں ملا دی۔ چنانچہ امریکہ ایران کشیدگی کے دوران ایک جانب اقتصادی مجبوری، دوسری جانب امریکہ کے ساتھ ہمارے کچھ تاریخی تعلقات اور رشتے، ہمیں اپنا شرعی فریضہ ادا کرنے کی بجائے اپنے تاریخی آقاوں کے گود میں بٹھانے پر مجبور کرینگے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ ایران کشیدگی میں اقتصادی نکتہ نگاہ سے کس فریق کا زیادہ نقصان ہوا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
قاسم سلیمانی کی شہادت سے بے شک ایران ایک ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوا، تاہم امریکہ کو اقتصادی لحاظ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ایک تو یہ کہ موقع پر وہ ایک قیمتی فوجی بیس سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ جس پر اربوں ڈالر خرچ کئے گئے تھے۔ تاہم یہ اس کے لئے شاید کوئی بڑا مسئلہ نہ رہے۔ اس کے لئے اس سے بڑا مسئلہ اور ناقابل قبول نقصان یہ ہے کہ دنیا کے سینکڑوں ممالک کے ساتھ امریکہ کا ہتھیاروں کا لین دین ہے۔ عراق میں موجود انتہائی اہم اور پر خرچ اڈوں پر کامیاب حملوں کے بعد ان تمام ممالک کا امریکہ کے اسلحے پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔ یوں یہ ممالک امریکہ کے ساتھ ہتھیار کے حوالے سے کئے گئے تمام سودے ختم کریں گے۔ چنانچہ امریکہ کو اس حملے کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا اقتصادی نقصان پہنچا۔

اسلام ٹائمز: اسی ضمن میں اگلا سوال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی کارروائی اور جوابی کارروائی میں کس فریق کو شکست اور کس کو فتح حاصل ہوئی۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
جنرل
سلیمانی کو شہید کیا گیا۔ ان کی جگہ ان کے جانشین نے لی، جو شاید امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے اس سے خطرناک تر ثابت ہوگا۔ امریکہ کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ عراق سے وہ اپنا بوریا بستر سمیٹنے جا رہا ہے۔ عراق اور اس کے بعد پورے خلیج سے اس کی رخصتی اس کی بدترین شکست کی نشانی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا جھوٹ پوری دنیا پر واضح ہوگیا۔ جو ہمیشہ اپنے خریداروں کو یہ باور کراتا تھا کہ انکا پیٹریاٹ نظام مکمل طور پر محفوظ ترین نظام ہے۔ جس پر ان کے خریدار مکمل بھروسہ کر رہے تھے، جبکہ اس کارروائی کے بعد سب کو امریکہ کے جھوٹ کی حقیقت ثابت ہوگئی، جبکہ ایران دنیا میں ایک سپر پاور کے طور پر ابھر کر آگیا۔

اسلام ٹائمز: اس کارروائی کے بعد خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کا کیا ہوگا اور خطے کے ممالک کیا پالیسی اختیار کریںگے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
اس کارروائی کے بعد امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہوگیا اور مزید کم ہوتا جائے گا۔ خطے کے ممالک اب امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اپنے لئے خطرہ تصور کریں گے، جبکہ وہ امریکہ کی بجائے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے کی سعی کریں گے اور کسی بھی ملک کی نسبت وہ ایران سے کمک طلب کرنے کو ترجیح دینگے۔ دنیا بھر کے مظلوم اور محروم اقوام بالخصوص امریکہ کے ہاتھوں پٹے اور ستم دیدہ اقوام اپنی نجات ایران کے ساتھ تعلقات میں ڈھونڈیں گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی علماء اور مذہبی تنظیموں کو اس حوالے سے کیا کرنا چاہیئے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
میرے خیال میں پاکستانی علماء اور تنظیموں کو چاہیئے بلکہ دنیا بھر کے مستضعفین کو چاہیئے کہ اپنی اپنی سرزمین کو امریکہ کے لئے جھنم بنا دیں، تا آنکہ امریکہ تمام اسلامی ممالک سے اپنا بوریا بستر باندھ کر رخصت ہونے پر مجبور ہو جائے۔ اس حوالے سے عراقی علماء اور سیاسی جماعتوں کا فیصلہ نہایت خوش آئند ہے۔
خبر کا کوڈ : 840450
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش