0
Monday 17 Feb 2020 00:34
ٹرمپ کی ثالثی مسئلہ کشمیر کا حل نہیں

پاکستان کو سعودی عرب کی کسی بھی غلط بات کو تسلیم کرنیکی ہرگز ضرورت نہیں، پروفیسر ابراہیم خان

ملائشیا، ترکی اور پاکستان ملکر ایران اور سعودی عرب کا مسئلہ حل کروا سکتے ہیں
پاکستان کو سعودی عرب کی کسی بھی غلط بات کو تسلیم کرنیکی ہرگز ضرورت نہیں، پروفیسر ابراہیم خان
پروفیسر ابراہیم خان کا شمار ملک کی اہم مذہبی و سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ اسوقت جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر کی حیثیت سے جماعتی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں، اس سے قبل وہ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر سمیت مختلف عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ انکا بنیادی تعلق ہنجل امیر خاں ضلع بنوں سے ہے، کالج دور میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ پروفیسر ابراہیم گومل یونیورسٹی میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں بطور لیکچرار بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، وہ جماعت اسلامی کیطرف سے سینیٹر بھی رہ چکے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں، اسلام ٹائمز نے ملنسار طبعیت کے مالک محترم پروفیسر ابراہیم خان کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کی حکومت ملک میں جاری مہنگائی کے طوفان، معاشی مسائل اور سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو قرار دے رہی ہے، کیا آپکی جماعت بھی حکومت کے اس موقف کی تائید کرتی ہے۔؟
پروفیسر ابراہیم خان:
درحقیقت اس بات سے ہم انکار نہیں کرتے، جس طرح کہ خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ گذشتہ حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، لیکن خان صاحب تو تبدیلی کا نام لیکر آئے تھے اور وہ سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کو ہی لیکر چل رہے ہیں۔ ان میں اور سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں میں کوئی فرق واضح نہیں ہوا۔ اگر وہ سمجھتے ہیں اور درست سمجھتے ہوں گے کہ سابقہ حکومتوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو ان کو انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت تھی، لیکن کسی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ لہذا میں یہ تو نہیں کہتا کہ خان صاحب کی حکومت کو فوری طور پر ختم کیا جائے، انہیں پورا پورا موقع دیا جانا چاہیئے، وہ یہ نہ کہیں کہ مجھے موقع نہیں دیا گیا۔ اگر عوام نے انہیں یہ مینڈیٹ دیا ہے تو عوام کو بھگتنا چاہیئے اور پھر مکمل موقع دینے کے بعد عوام یہ فیصلہ کریں کہ انہی لوگوں کو دوبارہ منتخب کرنا چاہیئے کہ نہیں۔ لہذا خان صاحب کا یہ طریقہ درست نہیں کہ وہ پچھلی حکومتوں کی پالیسیوں کو جاری رکھیں اور پھر انہیں ہی مورد الزام ٹھہرائیں۔ 

اسلام ٹائمز: پروفیسر صاحب جماعت اسلامی ایک مذہبی و سیاسی اور پارلیمانی جماعت ہے، اس صورتحال میں وہ قوم کو کیا گائیڈ لائن فراہم کر رہی ہے۔؟
پروفیسر ابراہیم خان:
خان صاحب نے کہا تھا کہ ہم کرپشن ختم کریں گے، آج ان کا بیان چھپا ہے کہ مہنگائی میں ہمارا بھی حصہ ہے، ان کا حصہ یہی ہے کہ ان کے ساتھ موجود ٹیم اس میں ملوث ہے۔ ان کے ساتھیوں کو عدالتوں نے نااہل قرار دیا، عمران خان کی ساری پالیسیوں میں جہانگیر ترین شریک ہیں۔ اسی طرح خسرو بختیار صاحب کے بارے میں سب کچھ منظر عام پر آگیا ہے۔ خان صاحب نے واضح طور پر کہا ہے کہ جن لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے ان لوگوں کو سزاء ملے گی، فائدہ تو ان لوگوں نے اٹھایا ہے۔ یہ دونوں افراد تو ابھی تک بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ لہذا اگر یہی پالیسیاں جاری رہیں تو تبدیلی ہرگز نہیں آئے گی۔ جماعت اسلامی واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہتی ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہی عوام کو ریلیف دے گا۔ کرپشن کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے کہ آپ کارروائی کریں، پچھلی حکومتوں کو لعن طعن نہ کریں۔

خان صاحب کو چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے اپنی پارٹی کا احتساب کریں، وہ اپنے اردگرد اور اپنی پارٹی میں موجود کرپٹ افراد کا احتساب کریں۔ اس کے بعد ان کی اتحادی جماعتوں میں موجود کرپٹ افراد کیخلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب نے اپنی اتحادی جماعتوں کو گذشتہ ادوار میں گالیاں دی تھیں، اگر کرپٹ لوگ ان کی جماعت، حکومت اور اتحادیوں میں موجود رہے تو کبھی تبدیلی نہیں آسکے گی۔ جماعت اسلامی کہتی ہے کہ کرپشن کا خاتمہ تب ہی ہوگا، جب آپ اپنے گھر سے آغاز کریں گے۔ لہذا خان صاحب سب سے پہلے اپنے خاندان سے، پھر اپنی پارٹی سے اور پھر اپنے اتحادیوں سے کرپشن ختم کریں گے تو پھر حقیقی تبدیلی آئے گی۔

اسلام ٹائمز: ترک صدر رجب طیب اردوغان کے حالیہ دورہ پاکستان کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر ابراہیم خان:
یہ بہت اچھا اقدام تھا، ترک صدر سے امت کو توقعات وابستہ ہیں، ملائشیاء اور ترک صدر نے عمران خان کو دعوت دی تھی اور خان صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملائشیاء میں ملیں گے، لیکن عمران خان نے کوئی وجہ بتائے بغیر وہاں جانے سے معذرت کرلی۔ اب اس کے ازالے کیلئے انہوں نے مہاتیر محمد صاحب کا دورہ کرایا اور اب ترک صدر کا دورہ کرایا گیا۔ اس وقت خان صاحب نے بہت بڑی غلطی کی تھی اور اس غلطی کا اعتراف خان صاحب کو کرنا چاہیئے کہ وہ بغیر جواز کے ملائیشیاء نہیں گئے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو نقصان پہنچا، ترکی، پاکستان اور ملائشیا امت مسلمہ کیلئے بہت اہم ممالک ہیں۔ اس وقت امت مسلمہ کے زخم ناسور بن چکے ہیں، مشرق سے لیکر مغرب تک، افریقہ میں، لیبیا میں، اسی طرح یمن میں، عراق، افغانستان، شام میں خون بہہ رہا ہے۔ خاص طور پر افغانستان کا مسئلہ بہت گھمبیر ہوچکا ہے۔ اسی طرح ایران اور سعودی عرب کے مسائل بہت بڑا مسئلہ ہے، اگر پاکستان، ترکی اور ملائشیاء اسی طرح آگے بڑھیں گے تو مجھے یقین ہے کہ ان مسائل میں کافی حد تک پیشرفت ہوسکتی ہے۔ اس تناظر میں ترک صدر کا دورہ پاکستان بہت اہم اقدام تھا اور ہمیں امید ہے کہ اس دورہ سے امت مسلمہ کے کئی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ملائشیا سمٹ کا ذکر کیا، ترک صدر نے تو اسوقت کہا تھا کہ عمران خان نے سعودی عرب کے دباو کیوجہ سے وہاں شرکت نہیں کی، جب ایک اہم مسلم ملک کا یہ رویہ ہو تو معاملات بہتر ہونے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔؟
پروفیسر ابراہیم خان:
جی بالکل، آپ نے درست نشاندہی کی ہے، مسئلہ تو یہی ہے کہ مسلمان آپس میں برسر پیکار ہیں اور ہمارے دشمن ہمارا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ عرض کروں کہ پاکستان اپنے گھر کو بھی درست کرے، اپنے ملک سے کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش کرے، جس طرح ملائیشاء اور ترکی نے کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان دونوں ممالک کیساتھ ملکر امت مسلمہ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ تین ممالک ملیں گے تو سعودی عرب پر بھی پریشر پڑے گا، سعودی عرب جو کہ پاکستان کو ملائشیاء سمٹ جیسے اہم ایونٹ سے منع کرتا ہے، تو وہ اس طرح آئندہ نہیں کرسکے گا۔ اس طرح سعودی عرب اور ایران کے اختلافات میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اسی طرح شام، عراق اور یمن کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ ہر جگہ مسلمان کا خون بہہ رہا ہے، لہذا ان تین ممالک کو ایک جگہ مل بیٹھنا چاہیئے۔ لہذا سعودی عرب کو سمجھانے کی ضرورت ہے اور اس کی کسی بھی غلط بات کو تسلیم کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔

اسلام ٹائمز: آج کشمیر میں کرفیو کی صورتحال کو 198 روز ہوگئے ہیں، پاکستان اس حوالے سے کیا کرنا چاہ رہا ہے، کیا محض تقریروں سے یہ سنگین مسئلہ حل ہوجائیگا۔؟
پروفیسر ابراہیم خان:
تقریروں سے یہ مسئلہ تو ہرگز حل نہیں ہوسکتا، پاکستان کے حکمرانوں اور ہمارے جرنیلوں کو فیصلہ کرنا ہوگا، اگر ہندوستان کو یقین ہو جائے کہ ہمارے حکمران اور جرنیل جہاد کیلئے تیار ہیں تو مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا ہے۔ لہذا یہ بات تو جرنیلوں اور حکمرانوں دونوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس حوالے سے دوٹوک فیصلہ کریں۔ یہ حکومت کیسے آئی ہے، آپ کو مجھ سے زیادہ بہتر معلوم ہے، لیکن انہی حکمرانوں اور فوج کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کشمیریوں کی مدد کو پہنچیں، پھر کشمیر کی آزادی کا دروازہ کھل جائے گا، بصورت دیگر باتوں سے کبھی کچھ نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ کیا ٹرمپ نے کشمیر ثالثی کی پیشکش کی ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ یہ مسئلہ حل کراسکتا ہے۔؟
پروفیسر ابراہیم خان:
علامہ اقبال (رہ) نے فلسطین کے مسلمانوں کو نصیحت کی تھی، میں آپ کے سوال کا جواب اس شعر کی صورت میں دونگا، انہوں نے کہا تھا کہ ‘‘تری دَوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یَہود میں ہے۔’’ ٹرمپ سے، مغرب سے، یورپ سے کوئی امید نہیں کہ وہ ہمارا کوئی مسئلہ حل کریں اور یہ تو ثالثی کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کا پرامن حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد اور وہ رائے شماری ہے۔ رائے شماری پر ہندوستان تیار نہیں ہے، جب ہندوستان کشمیر کے پرامن حل کیلئے تیار نہیں ہے تو جہاد واجب ہو جاتا ہے۔ ٹرمپ کی ثالثی مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 844964
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش