0
Friday 22 May 2020 22:55
پاکستان کے مسلمان کبھی بھی دنیا کے مسلمانوں سے لاتعلق نہیں رہے

فلسطین اور کشمیر کے متعلق حکمرانوں کی خیانت کیوجہ سے مسلمان عوام کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، زبیر احمد گوندل

فلسطین اور کشمیر کے متعلق حکمرانوں کی خیانت کیوجہ سے مسلمان عوام کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، زبیر احمد گوندل
جماعت اسلامی پاکستان یوتھ ونگ کے مرکزی صدر اور ضلع سرگودہا کے سابق امیر زبیر احمد گوندل، پنجاب یونیورسٹی کے ناظم اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت کے مرکزی ناظم اعلٰی رہے ہیں۔ تحریکی شخصیات میں سے مولانا مودودی اور امام خمینی کی کامیاب انقلابی جدوجہد سے بے حد متاثر ہیں۔ وفاقی حکومت کی کرونا وائرس بارے پالیسی، عالم اسلام، کشمیر، فلسطین کی صورتحال سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: اسلام سب سے زیادہ انسان کو عقل استعمال کرنے اور بہتر زندگی کی تعلیم دیتا ہے، کرونا وائرس کے حوالے سے مذہبی طبقہ اجتماعات پر کیوں مصر ہے۔؟
زبیر احمد گوندل:
ہمارے ملک میں ہر بات کو سیاسی رنگ دینے کی روش اس لیے ہے کہ مقتدر حضرات ناکامیوں کو چھپانے اور نااہلی پر پردہ ڈالنے کیلئے ہر دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے اور مختلف بہانے تراشتے ہیں۔ اس میں میڈیا بھی کسی حد تک اس کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی تجاویز بھی آتی رہی ہیں کہ مساجد کو تالے لگوا دیئے جائیں، اس کے باوجود علماء نے کبھی لاک ڈاون کی خلاف ورزی کے متعلق نہیں کہا، نہ کسی مذہبی جماعت نے کوئی اجتماع کیا ہے۔ لاک ڈاون کا مقصد ہے کہ ہجوم کیوجہ سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جائے، تو اسکا مطلب ہونا چاہیئے کہ ہجوم کو کنٹرول کیا جائے۔ اب اس میں کوئی تقسیم نہیں کہ ہجوم کو ہر جگہ کنٹرول کیا جانا چاہیئے، چاہے وہ مارکیٹ ہو، بازار، کسی میڈیا ہاوس کے اندر ہو، بینک میں ہو، نہ کہ صرف مساجد میں نماز کیلئے آنے والوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ان سب باتوں کے باوجود سرکاری اداروں کے اندر میٹنگز ہو رہی ہیں۔ اصول تو ہجوم کیلئے ہونا چاہیئے، لیکن نماز، باجماعت نماز کو ہی موضوع اور ایشو بنایا جا رہا ہے، اب ہمارا اعتراض لاک ڈاون نہیں بلکہ شعائر اسلام کو نشانہ بنانے پر ہے۔ لیکن واضح طور پر حکومتیں لاک ڈاون پر عمل درآمد میں ناکام رہی ہیں۔ ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ مساجد سمیت ہر جگہ مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔

اسلام ٹائمز: سرکاری طور پر جاری کی گئی ہدایات میں یہی کہا گیا، صرف ہجوم نہ کرنیکی بات کی گئی، لیکن مذہبی جماعتوں نے سخت ردعمل کیوں دیا، مساجد کی تالا بندی کی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی تو ایسا تاثر کیوں دیا گیا ہے۔؟
زبیر احمد گوندل:
 بہت ساری احتیاطیں تو مسجد جانے والے کو آداب کی صورت میں ہی انجام دینی ہوتی ہیں، ہر مسجد جانیوالا پاک صاف اور باوضو ہو کر جاتا ہے، اب کپڑا بھی لے جائیگا تو وہ پاک صاف ہوگا، مسجد تو ویسے ہی صاف رہتی ہے، اب صفوں کے بغیر تو صفائی اور بھی ضروری ہے۔ پوری دنیا کے حکمران اور سائنسدان یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ اب ہمیں کرونا کیساتھ رہنا پڑیگا، تو کیا مساجد کیلئے کوئی تدبیر اختیار نہیں کرنا پڑیگی۔ بالکل نہیں، مساجد ہوں یا دوسرے مقامات، سارا کاروبار زندگی چلے گا، لیکن مکمل احتیاط کیساتھ۔ ہونا تو یہ چاہیئے لیکن کرونا ایکسپرٹس روزانہ ٹی وی پہ بیٹھ سیاست چمکا رہے ہیں کہ جیسے کرونا انہوں نے ایجاد کیا ہے، جو گھر سے باہر نکلنے والے صرف ان افراد کو نشانہ بناتا ہے، جو مسجد یا نماز کیلئے جاتے ہیں، باقی اگر میں نے بازار جانا ہے، مارکیٹ جانا ہے، یا کسی میٹنگ میں جانا ہے تو کرونا کچھ نہیں کہے گا، ایسا نہیں ہے تو ہر ایک کو ذمہ داری کیساتھ بات کرنی چاہیئے۔

اصول احتیاط ہے، ہجوم کو کنٹرول کرنیکی بات ہے، اس دوران مساجد کے آئمہ کو گرفتاریوں کی دھمکی بھی دی گئی۔ یہ ایک آزمائش ہے، اس سے پہلے بھی امتوں کو آزمائشوں میں ڈالا گیا، تاکہ ہم عاجزی اختیار کریں، آہ و زاری کریں، اللہ پاک سے رجوع کریں، ہمارا المیہ یہ ہے کہ اسباب پر توجہ دے رہے ہیں، لیکن مسبب الاسباب کی جانب رجوع نہیں کر رہے، ہونا یہ چاہیئے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اللہ پاک سے فریاد کریں، توبہ کریں اور اپنے گناہوں سے معافی مانگیں۔ ایک دوسرا مسئلہ ہے لاک ڈاون کے دوران لوگوں کو مدد فراہم کرنیکا، جب یہ لاک ڈاون ہوا ہی اس لیے ہے کہ لوگوں کو کرونا وائرس لگنے سے بچایا جائے اور اس کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے، تو اس سے جس قدر ہولناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس سے لوگوں کو وائرس سے لگنے والی بیماری کا خوف بھول گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومتی ہدایات اور احکامات کو ایک طرف رکھتے ہوئے معاشرے میں کن تدابیر کو اختیار کرکے زندگی رواں رکھی جا سکتی ہے۔؟
زبیر احمد گوندل:
ہمارے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح ایک طرف رکھ کر حکومت کے رحم و کرم پہ سب کچھ چھوڑ دیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ حکمرانوں کو سمجھائیں، انہیں باور کروائیں کہ ہوش سے کام لیں، اپنے ذاتی مفادات کیلئے جو لوگ سیاست کرتے ہیں، ان پر نظر رکھنا بھی ایک اہم احتیاطی تدبیر ہے، تاکہ حکومت شعائر اسلام سے باغیانہ رویوں کا رخ نہ پیدا کرے۔ شعائر اسلام پر بھی احتیاطیں ضروری ہیں، چاروں مسالک کے علماء اپنے اتفاق سے خود ہی مساجد پر احتیاطیں نافذ کریں گے۔ حکومتیں اپنی ساری توجہ باجماعت نمازوں سے روکنے، نماز جمعہ پر قدغن کی تشہیر پر نہ لگائیں۔ حرمین میں نمازوں کی بندش، مساجد میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی، باجماعت نمازوں سے محرومی اہل اسلام کے لیے بڑے صدمہ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ اجتماعی سجدوں کی نعمت و رحمت پھر سے عطا کرنے اور کورونا وبا سے تمام انسانوں کو نجات عطا کرے۔ کورونا وبا سے بچاؤ کے لیے عوام میں رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار کا رحجان اہل ایمان میں زندگی کی علامت ہے۔

کورونا وائرس کی صورتحال نے پوری دنیا کو بحران سے دوچار کر دیا ہے، یہ انسانوں کے لیے اللہ کی طرف سے وارننگ کی گھنٹی اور آزمائش ہے۔ چینی و آٹا چور قیادت سے راشن اور امدادی رقم کی منصفانہ تقسیم کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ ایسی قیادت کورونا کی طرح ملک و قوم پر عذاب کی طرح ہے، قدرتی آفت سے لڑنا نہیں بلکہ بچنا ہے اور اللہ سے رجوع کرکے توبہ استغفار کے ذریعے اس سے نجات حاصل کرنا ہے، کرونا وائرس کے خاتمے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز کو ماسک، کٹس و حفاظتی سامان کی بجائے پولیس کے ڈنڈے اور توہین آمیز رویہ صوبائی حکومتوں کے لئے شرمناک بات ہے۔ جس طرح حالت ِ جنگ میں عوامی سطح پر افواج کا حوصلہ بڑھایا جاتا ہے، اسی طرح کرونا کیخلاف میدان عمل میں موجود ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکرز کو بھی خراج تحسین پیش کریں اور ساتھ ان کی حفاظتی ضروریات کو بھی پورا کرنیکی کوشش کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر حزب المجاہدین کے کمانڈر شہید ہو رہے ہیں، پاکستان سے پہلے کیطرح گرم جوشی کیساتھ بھارتی مظالم کیخلاف آواز کیوں نہیں آٹھائی جا رہی۔؟
زبیر احمد گوندل:
پاکستانی عوام اپنے بچوں اور اولادوں کی طرح کشمیری بھائیوں اور آزادی کے متوالوں سے محبت کرتے ہیں، لیکن حکومتوں کو جو کردار ادا کرنا چاہیئے تھا، اس میں انہوں نے خیانتیں کی ہیں، کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پہ جو ظلم کا بازار گرم ہے، یہ خون کے آنسو رلا دینے والا ہے، وہ ہمیں پکار بھی رہے ہیں، ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ انہیں ایک لمحے کیلئے بھی تنہائی کا احساس نہ ہونے دیں، ہر فورم پر آواز  اٹھائیں، برہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح آزادی کی تحریک میں نیا موڑ آیا تھا اور ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تحریک میں شامل ہوگئے تھے، اسی طرح ریاض نائیکو کی شہادت سے کشمیری نوجوانوں میں نیا جوش و جذبہ پیدا ہوا ہے، بھارتی قابض فوج کشمیری قیادت کو چن چن کر قتل کر رہی ہے، گذشتہ نو ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں بدترین لاک ڈاؤن ہے، کورونا کی عالمی وباء کے دوران بھارتی فوج نے ظلم و جبر کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔

اب کورونا کو معصوم کشمیریوں کے خلاف ہتھیار کے طو رپر استعمال کر رہی ہے، ایک طرف کشمیری اپنے گھروں میں محصور ہیں اور دوسری طرف قابض فوج گھر گھر تلاشی کی آڑ میں کشمیری نوجوانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کر رہی ہے۔ بھارت تمام تر مظالم اور جبر و تشدد کے باوجود آزادی کی تحریک دبا نہیں سکے گا، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیر میں بھارتی مظالم کو رکوائے اور کشمیریوں سے حق خود ارادیت کے اپنے وعدے کو پورا کرے۔ ان شاء اللہ ان عظیم شہداء کا مقدس خون کسی بھی صورت رائیگاں نہیں جائے گا، ان کا مقدس خون ہزارہا محمد بن قاسم کو جنم دے گا۔ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے اور محکوم اور مظلوم قوم کو احساس ہوتا ہے کہ ظالم و جابر قوتیں پرامن ذرائع سے نہیں بلکہ طاقت کے جواب میں طاقت سے ہی زیر ہوسکتی ہیں تو پھر ان حالات میں ہی ان مجاہدین اور شہداء جیسی پاک اور سعید روحیں انسانی وجود لے کر سامنے آتی ہیں اور ظالم اور جابر قوتوں کا غرور خاک میں ملا دیتی ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک ایسی چنگاری ہے، اگر اس کا درست حل سامنے نہ لایا جا سکا تو پورے خطے کو کبھی خاکستر کر دے گی۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کے مسائل جڑے ہوئے ہیں، جب ہمارے ملک کی شہ رگ کیلئے حکومتیں خیانت برت رہی ہیں تو صیہونی ریاست کو شکست دینے کیلئے ہمارا جو کردار ہونا چاہیئے، وہ ہم کیسے ادا کرسکتے ہیں۔؟
زبیر احمد گوندل:
ظلم دراصل کہیں بھی ہو، وہ اپنے انجام کو ہی پہنچتا ہے، اگر ان حکمرانوں نے کچھ کرنا ہوتا تو نہ کشمیر پر بھارت کر قبضہ ہوتا اور نہ ہی بیت المقدس صیہونی درندوں کے پنجے میں قید ہوتا، نہ کشمیری شہید ہوتے، نہ ہی فلسطینیوں کے خون کی ندیاں بہتیں، چاہے زمانہ جتنا بھی برا ہو، لیکن دنیا میں جہان بھی مسلمانوں مظلوموں نے علم جہاد بلند کیا ہے، دنیا میں موجود دوسری ظالم طاقتوں کیخلاف جدوجہد کرنیوالوں نے ان سے اثر لیا ہے، اس لیے کشمیر ہو یا فلسطین، یا افغانستان، ہر جگہ جہاں اغیار نے زور اور جبر کو بنیاد پر قبضہ کیا ہے، وہاں مسلمانوں نے ان کے اس ظلم و جبر کی پروا کیے بغیر اپنی آزادی اور قابض طاقت کی نابودی کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ اگر یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے تو پوری دنیا کے مسلمان یوم القدس بھی مناتے ہیں اور کشمیری مسلمانوں کیساتھ فلسطین کی آزادی کیلئے بھی آواز بلند ہوتی ہے۔ صیہونیوں کی فلسطینی سرزمین پر مزید قبضہ کرنے کے لئے امریکی حمایت کے باوجود، فلسطینی ریاست کسی بھی قیمت پر اور اپنے اصل مقام پر قائم ہوگی۔ القدس کی آزادی کے لئے ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: بالخصوص یت المقدس کی آزادی اور فلسطین کے حوالے سے تازہ ترین سازشوں کے متعلق کیا موقف ہے۔؟
زبیر احمد گوندل:
قبلہ اول کی سرزمین فلسطین پر اولین حق فلسطینیوں کا ہے۔ مئی 1948ء میں 14 لاکھ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا اور اسرائیل کی ناجائز ریاست وجود میں لائی گئی، جو غیر قانونی عمل تھا۔ آج بھی امریکہ اور اسرائیل اس کوشش میں ہیں کہ مغربی کنارے کے مزید 30 فیصد رقبہ پر قبضہ کر لیا جائے۔ ہم فلسطین کے خلاف عالمی سازشوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اقوام عالم فلسطینیوں کی قانونی جدوجہد کی زبانی حمایت کرتے ہیں، تاہم مزید عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جبر و بربریت کا محاذ کھول رکھا ہے، لیکن فلسطینی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور پاکستانی عوام ان کی جرات مندانہ جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ استعماری سازشیں ناکام ہوں گی اور فلسطینی ریاست اپنی اصل حدود میں قائم ہو کر رہے گی۔

قبلہ اول کی آزادی کے لیے اسلامی دنیا کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ دنیا کا ہر مسلمان فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی چاہتا ہے اور فلسطین کی ایک انچ زمین سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ آپ لوگوں کا ساتھ دیا ہے۔ آپ کی محبت و عقیدت ہمارے دلوں میں موجود ہے اور قبلہ اول کی آزادی کا عزم اور جذبہ ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہے۔ قبلہ اول کو صیہونیوں سے آزاد کرانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ عالمی استکبار کی سازشیں ناکام ہو جائیں گی، تاہم عالم اسلام کو قبلہ اول کو دہشت گردوں سے آزاد کروانے میں مدد کے لئے بھرپور جدوجہد کرنی ہوگی۔ قبلہ اول کی سرزمین فلسطین پر اولین حق فلسطینیوں کا ہے۔ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں بسنے والے مسلمان کبھی بھی دنیا کے مسلمانوں کے حالات سے لاتعلق نہیں رہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان دلوں میں جذبہ، تڑپ اور درد کی دولت موجود ہے، صرف ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جسے ان جذبات کا پاس ہو۔
خبر کا کوڈ : 864225
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش