1
Tuesday 7 Jul 2020 22:41

علامہ حمید امامی کا پاراچنار کے مخصوص حالات کے تناظر میں خصوصی انٹرویو

علامہ حمید امامی کا پاراچنار کے مخصوص حالات کے تناظر میں خصوصی انٹرویو
علامہ حمید حسین امامی کا تعلق کوہاٹ سے ہے۔ وہ شیعہ علماء کونسل اور اسلامی تحریک خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر ہیں، وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد علامہ شہید عارف حسین الحسینی کے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں دینی تعلیم کے حصول کیلئے گئے اور 6 سال تک علامہ عارف حسین الحسینی اور سید عابد حسینی کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے ایران کے شہر قم المقدسہ کا رخ کیا اور 14 سال تک وہاں تعلیم حاصل کی۔ اس دوران انہیں آیت اللہ فاضل لنکرانی، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ مشکینی اور آیت اللہ جوادی آملی کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا، انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری قم سے حاصل کی، 1996ء کے اواخر میں وطن واپس آئے اور اسلامی تحریک کیساتھ وابستہ ہوگئے۔ اسوقت ایس یو سی خیبر پختونوا کے صوبائی صدر ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ حمید امامی کیساتھ پاراچنار کے مخصوص حالات کے تناظر میں ایک مختصر انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاراچنار، بالشخیل کا دراصل بنیادی مسئلہ کیا ہے اور اسے ابھی تک حل کیوں نہیں کیا گیا۔؟
علامہ حمید امامی:
عرض یہ ہے کہ پاراچنار ایک ایسی جگہ واقع ہے، جس کے مغرب، شمال اور جنوب تینوں طرف بڑے بڑے پہاڑ ہیں، جہاں اہل سنت برادران سکونت پذیر ہیں۔ دراصل یہ پہاڑی علاقہ جات اہل تشیع کی ملکیت ہیں، اہل سنت بطور ہمسایہ تھے، تاکہ زمینوں اور جنگلوں کی حفاظت کریں۔ مرور زمان کے ساتھ وہ قابض ہوگئے۔ کاغذات مال میں اصل مالک اہل تشیع ہیں۔ بالش خیل اور ابراہیم زئی کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ یہاں ہزاروں ایکڑ زمین کی ملکیت اہل تشیع اور خارکلئ کے اہلسنت کی ہے۔ متاسفانہ سابق سینیٹر رشید خان اور ایم این اے منیر اورکزئی، جو اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے زمانے میں پاڑہ چمکنی قوم کے کچھ گھرانے غیر قانونی طور پر یہاں آباد ہوئے۔ آہستہ آہستہ غیر قانونی آبادی زیادہ ہوگئی۔ اہل تشیع نے قانونی راستہ اختیار کرکے ہر دروازے کو کھٹکٹایا، لیکن کوئی سننے والا نہیں ملا، نہ کوئی انصاف ملا۔ آخر کار اہل تشیع اپنی زمین پر ٹینٹ لگا رہے تھے کہ کہ پاڑہ چمکنی کے لوگوں نے فائرنگ شروع کر دی، دونوں طرف لڑائی میں جانی اور مالی نقصان بھی ہوا۔ مقامی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی دیکھ رہی تھی کہ کون سی قوم غالب ہوگی۔

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب ایک طرف زمینوں پر قبضے، دوسری جانب اکابرین کیخلاف ایف آئی آرز، انتظامیہ کا طوری قبائل کیساتھ یہ رویہ کیا نتیجہ اخذ کریگا۔؟
علامہ حمید امامی:
 پانچ، چھ دن بالش خیل اور پاڑہ چمکنی کے درمیان خون ریز جنگ میں 12 یا 13 آدمی، بوڑھے جوان چل بسے۔ ہر طرف سے مقامی انتظامیہ پر انگلیاں اٹھنے لگیں، خاص کر ڈی سی، اے سی، ڈی پی او ضلع کرم کی ناکام پالیسی زیر سوال آرہی تھی۔ درحقیقت یہ اس وقت شرمندہ ہوئے، جب محسن داوڑ صاحب نے قومی اسمبلی میں آواز اٹھائی، پھر مقامی انتظامیہ نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے اکابرین و علماء پر ایف آئی آر درج کرنا شروع کیں، وہ بھی یک طرفہ یعنی صرف اہل تشیع پر، جو کہ انتہائی قابل مذمت اور ناانصافی پر مبنی اقدام ہے۔ اس سلسلے میں حکام بالا تک بات پہنچائی ہے، لیکن کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا، ہم نے بار بار حکام بالا وزیراعلیٰ، گورنر کے پی کے سے پرزور مطالبہ کیا کہ موجودہ ڈی سی شاہ فہد، اے سی اور ڈی پی او جان بوجھ کر حالات خراب کرنا چاہتے ہیں، لیکن کوئی شنوائی نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا علامہ ساجد نقوی کو پاراچنار کے حالات کے حوالے سے آپ نے آگاہ کیا اور وہ اس حوالے کیا موقف رکھتے ہیں۔؟
علامہ حمید امامی:
میں وقتاً فوقتاً مرکزی دفتر راولپنڈی کو اطلاع دے دیتا ہوں، وہ قائد محترم تک ضرور پہنچاتے ہیں، میں قائد محترم کیساتھ رابطہ میں ہوں۔ قائد محترم بھی حکام بالا سے دفتر راولپنڈی کے ذریعے رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاراچنار کی موجودہ صورتحال کس طرح بہتر ہوسکتی ہے اور اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو آپکی جماعت کا کیا لائحہ عمل ہوگا۔؟
علامہ حمید امامی:
 شیعہ علماء کونسل پاکستان کا موقف واضح ہے کہ کبھی بھی جنگ یا لڑائی، جھگڑوں سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں۔ قائد محترم کے واضح احکامات ہیں کہ تمام تر مسائل کا حل افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے نکالیں۔ ملکیت کاغذات مال کے مطابق زمینوں کا مسئلہ حل ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: موضوع سے ہٹ کر، لیکن موجودہ صورتحال میں اہم سوال کہ لاہور میں ایک مرتبہ پھر نصیری طبقہ نے شرارت کی کوشش کی، اس حوالے سے آپکی جماعت کا کیا موقف ہے۔؟
علامہ حمید امامی:
اس حوالے سے اتنا عرض کروں گا کہ جیسے دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہے، اسی طرح غالیوں اور نصیریوں کا کوئی مذہب نہیں۔ ان لوگوں کا دین، مذہب صرف اور صرف پیسہ ہے۔ انہوں نے ولایت کے نام پر بازار گرم کیا ہوا ہے اور انہیں ایم آئی 6 سے پیسہ ملتا ہے۔ حالانکہ جب یہ لوگ یعنی غالی و نصیری مجتہدین، علماء اور فقہاء کو گالیاں دیتے ہیں، ممبر رسول (ص) کو غلط استعمال کرتے ہیں، ولایت کے نام پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں تو ولایت کے مخلص کہاں سے ہوئے۔؟ ان بدبختوں کو تو نماز پڑھنا بھی نہیں آتی ہے، قرآن کریم کی آیات بھی غلط تلاوت کرتے ہیں اور ہیں یہ ولایت کے ٹھیکدار۔
خبر کا کوڈ : 872865
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش