0
Tuesday 28 Jul 2020 12:53

ذاتی دشنی کو قبائلی یا مذہبی رنگ دینا جاہلیت کی پرانی روایت ہے، علامہ یوسف جعفری

ذاتی دشنی کو قبائلی یا مذہبی رنگ دینا جاہلیت کی پرانی روایت ہے، علامہ یوسف جعفری
مولانا یوسف حسین جعفری کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے نستی کوٹ سے ہے۔ دینی علوم کے علاوہ یونیورسٹی سے اسلامک سٹڈیز میں ماسٹر کیا ہے۔ محکمہ تعلیم میں جب تھیالوجی ٹیچر تھے، تو اس دوران تنظیم العلماء صوبہ سرحد کے صدر رہے۔ ایک سال تک مجلس علمائے اہلبیت پاراچنار کے صدر رہے، جبکہ 11 مئی 2016ء کو تحریک حسینی کے صدر بن گئے۔ اپنی پہلی صدارت کے ابتدائی 6 مہینے قومی حقوق کی پاداش میں جیل میں گزارے۔ مولانا صاحب نڈر اور جوشیلے مزاج کے حامل ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ کسی بھی مصلحت کے تحت اپنے جائز موقف سے پیچھے ہٹنے پر یقین نہیں رکھتے۔ تحریک حسینی کی دو سالہ صدارت نہایت احسن طریقے سے نبھانے کے بعد جون 2018ء میں دوسری مرتبہ تحریک کے صدر بن کر مئی 2020ء میں اپنی دوسری مدت بھی احسن طریقے سے پوری کرچکے ہیں۔ موصوف اسوقت تحریک حسینی کی مذاکراتی ٹیم کے چیئرمین نیز سپریم کونسل کے ممبر بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے کڑمان اور پھر صدہ میں ہونیوالے حادثات کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا ہے، جسے محترم قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب! بازی خیلہ کڑمان میں جو واقعہ ہوا ہے، اس حوالے سے ذرا اپنے نکتہ نظر سے آگاہ فرمائیں۔؟
مولانا یوسف جعفری:
کڑمان بازی خیلہ میں جو واقعہ ہوا ہے، اس پر ہمیں بہت افسوس ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ انہیں کس نے قتل کیا ہے، حالانکہ نشانہ بننے والے فریق کے ایک مشر عقل میر نے اپنے ایک بیان میں خود کہا ہے کہ ہمیں اپنے دشمن کا بخوبی علم ہے۔ اس کے باوجود صدہ میں جنازے رکھ کر عوام کو اشتعال دلایا گیا۔ جنہوں نے گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، خواتین کی بے حرمتی کی، نیز ایک ریٹائرڈ صوبیدار زینت علی کو نہایت بے دردی سے شہید کر دیا، قانون اپنے ہاتھ میں لیکر اپنی من مانی کی گئی۔

اسلام ٹائمز: آغا صاحب! کرم میں قبائلی دشمنی کی جو روایت ہے، یہاں پر اکثر اصل دشمن اور قاتل کی جگہ اسکے قبیلے کے غیر مربوط فرد کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اسکی کیا حقیقت ہے۔؟ 
مولانا یوسف جعفری:
دیکھیں، یہ مشرکین اور کفار مکہ کی قدیم روایت ہے۔ جاہلیت کے زمانے میں ذاتی دشمنی قبائلی دشمنی پر منتج ہوا کرتی تھی۔ جس میں اصل قاتل اور مجرم کی جگہ بے گناہ افراد مارے جاتے تھے۔ یہاں کرم میں بھی یہ جاہلیت ہی کی روایت ہے۔ دیکھیں، بازی خیلہ میں وچہ درہ کے کچھ افراد کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ جو خود تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں اپنا دشمن معلوم ہے۔ ہماری اطلاع کے مطابق عقل میر ولد گلاب خان منگل کی متعدد دشمنیاں ہیں۔ وچہ درہ کے ایک شیعہ قبیلے کے علاوہ انکی خود پاڑہ چمکنی میں قبیلہ لسیانی اور دیگر قبائل کے ساتھ بھی دشمنی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شیعوں نے ہی انکے جنازے اٹھائے اور انہیں ہسپتال پہنچایا۔ پھر ہسپتال سے انکے جنازے صدہ لے کر گئے۔ مگر صدہ میں انہیں یہ صلہ دیا گیا کہ ایمبولینس کے اسی ڈرائیور کو زدو کوب کیا گیا، جس نے انکے جنازوں کو باعزت طریقے سے صدہ پہنچایا۔ یہی نہیں بلکہ ایک بے گناہ مسافر صوبیدار کو خواتین سمیت گاڑی سے اتار کر قتل کیا گیا، اگرچہ بعض نیک سیرت افراد نے پشتون روایات کو قائم رکھتے ہوئے خواتین کی حفاظت کی۔ انہوں نے اسی جاہلیت کا ارتکاب کرتے ہوئے ذاتی دشمنی کے شاخسانے کو قبائلی اور مسلکی جنگ میں تبدیل کیا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ اس متاثرہ خاندان کی پاڑہ چمکنی قبیلے کیساتھ بھی دشمنی ہے تو کیا اس نے خود اسکا ذکر کیا ہے کہ اسکی پاڑہ چمکنی کیساتھ بھی دشمنی ہے؟ یا اسکا دشمن پاڑہ چمکنی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔؟
مولانا یوسف جعفری:
یہ عقل میر لوگ وچہ درہ کے رہائشی ہیں۔ ان کے ساتھ اس علاقے میں دوسرے منگل، طوری اور لسیانی قبائل بھی آباد ہیں، جبکہ دوسری لائن پر یعنی اس علاقے کے جنوب اور مشرق میں پاڑہ چمکنی قبیلہ آباد ہے۔ یہاں پر لسیانی قبیلے کا تاجو نامی ایک شخص بھی رہتا ہے، اس کے ساتھ نیز دیگر پاڑہ لوگوں کے ساتھ بھی ان کی دشمنی چلی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ 2003ء میں جب طالبان اور القاعدہ کے جنگجو افغانستان تورہ بورہ سے اس راستے سے پاکستان میں داخل ہوئے تو انہوں نے ان کے افراد کو چائے پانی پلانے کے بہانے ان سے بندوقیں اور مشین گنیں چھینیں۔ جس کے ردعمل میں پاڑہ چمکنی قبیلے نے اتفاق سے گلاب خان منگل کا گھر نذر آتش کر دیا۔ جس کے بعد یہ لوگ یہاں سے صدہ اور پشاور شفٹ ہوگئے۔ پاڑہ چمکنی قبائل نے القاعدہ اور طالبان کی طرفداری میں ان کو نقصان پہنچایا۔ ان کے کچھ بندوں کو نشانہ بھی بنایا۔ چنانچہ اب حکومت کو چاہیئے کہ عقل میر سے معلومات کرے کہ کن کن لوگوں سے ان کی دشمنی چلی آرہی ہے؟ تاکہ معمہ واضح ہو جائے اور ذاتی دشمنی کو مسلکی اور قبائلی رنگ دینے کی جاہلانہ روایت دم توڑ دے۔

اسلام ٹائمز:  اہلیان کرم خصوصاً طوری بنگش قبائل میں مہمان کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کیا آپکی ذمہ داری نہیں بنتی تھی کہ آپکے علاقے میں جو لوگ قتل ہوئے تھے، انکے قتل کے خلاف احتجاج کرتے۔؟
مولانا یوسف جعفری:
دیکھیں، مقتولین کے ورثاء نے بہت برا کیا، پتہ نہیں کس کی سازش میں آکر، اپر کرم سے جنازوں کو لوئر کرم لے جایا گیا؟ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ غیر مربوط افراد کو نشانہ بنا کر انہوں نے اپنے دشمنوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ انہیں چاہیئے تھا کہ جنازوں کو پاراچنار پریس کلب کے سامنے رکھ کر احتجاج کرتے۔ یہاں انکے ساتھ احتجاج میں طوری بنگش بھی شامل ہو جاتے۔ انکے جائز مطالبات لیکر ہم حکومت کے پاس جاتے اور ممکنہ دشمن اور قاتل کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے میں تعاون کرتے۔ مگر وہ جنازے یہاں سے لیکر صدہ لے گئے۔ جہاں شرپسندوں کو موقع میسر آیا اور انہوں نے روڈ بلاک کرکے مسافروں کو اتارنا شروع کر دیا۔ اگرچہ اس دوران صدہ کے اصل باشندوں نے مثبت کردار بھی ادا کیا۔ کافی شیعہ لوگ صدہ میں محصور تھے، انہیں پناہ بھی دی گئی۔ ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ تاہم یہ سارا ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری مقتول کے ورثاء خصوصاً عقل میر اور مولوی نور بادشاہ وغیرہ پر عائد ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: غلط قبائلی روایات کی بنیاد پر اگر ایک طرف اہلسنت ایسا کرتے ہیں، تو دوسری جانب آپ لوگ بھی جواباً ایسا ہی کرتے ہیں، اس پر آپ کیا کہیں گے۔؟
مولانا یوسف جعفری:
ہرگز نہیں، تاریخ میں شاید پہلے ایسا ہوچکا ہوگا۔ مگر مجھے یاد نہیں کہ کبھی شیعہ نے بغیر ذاتی دشمنی کے جواباً کارروائی کرتے ہوئے کسی سنی مسافر کو مار ڈالا ہو۔ اگر کسی کو ایسا یاد ہے تو وہ بتا دیں۔ دیکھیں، لوئر کرم میں مین روڈ نیز پشاور اور دیگر اضلاع میں ہمارے سینکڑوں بے گناہ افراد کو قتل کر دیا گیا، مگر جواباً ہمارے لوگوں کے پاس سینکڑوں مقامی اور غیر مقامی اہل سنت پناہ لئے ہوئے تھے۔ مگر کسی کو گزند تک نہ پہنچائی گئی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ فلان جگہ پر سنی کو روڈ میں مارا گیا۔ مثلاً شنگک میں ایک مقبل کو قتل کیا گیا تو عرض یہ ہے کہ متاثرہ مقبلان نے شاخ دولت خیل کے ایک خاص قبیلے پر دعویٰ کرکے ذاتی دشمنی کا اعتراف کیا، کیونکہ انہیں خود ہی علم تھا، 10 سال پہلے پہاڑ میں مقبلان نے شاخ دولت خیل کے 6 افراد کو گولی مار کر قتل کیا تھا۔ چنانچہ مقبلان کی ذاتی دشمنی تھی۔ مختصراً یہ کہ طوری بنگش قبائل نے کبھی طالبان کی سیرت پر چل کر بے گناہ مسافر کو قتل نہیں کیا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کرینگے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ایک اجتماع میں کہا تھا کہ ہم نے یہاں ہر مظلوم کی آواز سنی ہے، خواہ وہ شیعہ ہو یا سنی؟ تو جو تین بندے قتل ہوئے یا اس سے پہلے واقعات ہوئے ہیں،اس حوالے سے آپ نے کیا کردار ادا کیا ہے۔؟
مولانا یوسف جعفری:
دیکھیں، پہلے کہا گیا کہ طوری بنگش منظم، تعلیم یافتہ اور مہذب قبیلے ہیں۔ ہم نے ایک نہیں بلکہ کچہری میں درجنوں ایسے کیسز کی پیروی کی ہے، جن کا تعلق اہل سنت سے تھا۔ اہل سنت فریاد لیکر ہمارے پاس آئے، ہم نے انکا کام اپنا سمجھ کر بطریق احسن سرانجام دیا ہے۔ جن میں سے خروٹی قبائل، خود پاڑہ چمکنی قبیلے کا معاملہ ہم نے ہی نمٹایا۔ سرکار کی طرف سے غلط جگہ پر بنائی جانیوالی چیک پوسٹ پر پاڑہ چمکنی قبیلے کو تحفظات تھے، ہم نے انکے موقف کو سرکار تک پہنچایا اور انکا کام کروایا۔ حال ہی میں بوشہرہ کے سنی بنگش قبائل ہمارے پاس فریاد لیکر آئے، ہم نے انکے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دھانی کرائی۔ تاہم ہمارا انتظار کئے بغیر انہوں نے اگلے ہی دن حملہ کرکے جنگ چھیڑ دی۔ ایسے درجنوں مواقع ہیں، جس میں ہم نے اہل سنت کی جائز وکالت کی ہے۔ چنانچہ اگر وہ یہ جنازے پریس کلب لیکر آتے، ہم انکے ساتھ شانہ بشانہ شامل ہو جاتے اور انکی فریاد رسی کر لیتے۔ مگر انہوں نے کسی کے اشارے پر جنازے صدہ چوک لے جا کر عوام کو مشتعل کیا اور شیعوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔
خبر کا کوڈ : 877055
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش