0
Sunday 23 Aug 2020 02:40

ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء علامہ ارشاد علی کا خصوصی انٹرویو

ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء علامہ ارشاد علی کا خصوصی انٹرویو
علامہ ارشاد علی کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو سے ہے، انکا شمار مجلس وحدت مسلمین کے دیرینہ کارکنوں میں ہوتا ہے، علامہ صاحب اسوقت ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ملی و قومی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، جبکہ اس سے قبل ایم ڈبلیو ایم ضلع ہنگو کے سیکرٹری جنرل اور صوبائی سیکرٹری تربیت کی مسئولیت پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے صوبہ کی صورتحال اور متحدہ عرب امارات کیجانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے بعد کی صورتحال پر علامہ ارشاد علی کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا،جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں اسوقت صرف پاراچنار وہ علاقہ ہے، جہاں مسائل مسلسل چلے آرہے ہیں، یہاں پائیدار امن قائم نہ ہونے کی آخر کیا وجوہات ہیں۔؟
علامہ ارشاد علی:
بسم اللہ الرحٰمن الرحیم۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ نے درست فرمایا، واقعاً پاراچنار کے حالات کو ابھی تک کنٹرول نہیں کیا جاسکا ہے، اس کی ایک وجہ وہاں ماضی میں رہنے والے فرقہ وارانہ مسائل ہیں، اس کے علاوہ بارڈر پر موجود ہونا اور تشیع کی ایک بڑی تعداد ہونا بھی ایک وجہ ہے، جو دشمن کو نہیں بھاتی۔ یہاں ماضی میں فرقہ پرستوں اور دہشتگردوں نے اہل تشیع کا قتل عام کیا۔ اب جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں امن قائم ہوچکا ہے تو پاراچنار کے عوام اب بھی امن کی تلاش میں ہیں۔ گذشتہ چند ماہ سے ایک مرتبہ پھر پاراچنار میں حالات خراب کئے جا رہے ہیں، کبھی دہشتگردی کے ذریعے، کبھی زمینوں کے مسئلہ کو لیکر، تو کبھی مقامی انتظامیہ پرامن لوگوں پر بلاجواز ایف آئی آر درج کرکے امن قائم نہیں ہونے دے رہی۔ مقامی سطح پر کچھ عناصر ایسے ہیں جو حالات بہتر ہونا نہیں دیکھنا چاہتے، پولیس اور ایف سی میں کچھ عناصر تعصب اور نااہلی کی بنیاد پر حالات خراب کر رہے ہیں، حکومت کو چاہیئے کہ اس طرف توجہ دے، تاکہ معاملات کو بہتر کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کا آغاز ہوچکا ہے، اسوقت صوبہ بھر میں حکومت کیجانب سے سکیورٹی سمیت کئے گئے دیگر انتظامات سے کس حد تک مطمئن ہیں۔؟
علامہ ارشاد علی:
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ خیبر پختونخوا کے حالات ملک کے دیگر صوبوں کے برعکس ہمیشہ سے مختلف رہے ہیں، یہاں سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا ہے، اب ہمارے ضلع ہنگو سمیت پاراچنار، کوہاٹ، ڈی آئی خان اور پشاور حساس علاقوں میں شمار ہوتے ہیں، ہمارے صوبائی سیکرٹری جنرل نے گذشتہ دنوں پریس کانفرنس میں بھی یہ مطالبہ رکھا تھا کہ حساس اضلاع میں فوج کی خدمات حاصل کی جائیں، باقی انتظامات تسلی بخش ہیں، تاہم سکیورٹی کے حوالے سے ہماری حکومت اور اداروں کو کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہیئے، اور فول پروف انتظامات کئے جانے چاہئیں، کیونکہ لوگوں کی جانوں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔

اسلام ٹائمز: عرب مسلمان ملک یو اے ای نے اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرلیا ہے، اس اقدام کے عالمی حالات پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ ارشاد علی:
عرب امارات کا یہ اقدام انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے، تاہم ان عرب ممالک سے اسی قسم کے اقدامات کی توقع کی جاسکتی ہے، عرب امارات کا اسرائیل کو تسلیم کرنا دنیا کے امن کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ عرب ممالک کے اصل چہروں سے آہستہ آہستہ نقاب اتر رہی ہے۔ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ امریکہ کی غلامی میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ان حکمرانوں میں اتنی بھی شرم نہیں کہ کم از کم قرآن کے احکامات کا خیال رکھ لیں، انہوں نے مسلمانوں کی غیرت داو پر لگا دی ہے۔ اسرائیل ایک جارح اور ناجائز ریاست ہے، اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا یو اے ای کیلئے خودکشی ثابت ہوگی۔

اسلام ٹائمز: یو اے ای کے وزیر نے گذشتہ دنوں دعویٰ کیا ہے کہ بعض دیگر اسلامی ممالک بھی جلد انکی طرح اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے، کیا ایسا ممکن ہے۔؟
علامہ ارشاد علی:
میں نے تو کہا کہ ان لوگوں سے کوئی بھی توقع کی جاسکتی ہے، کئی ممالک کے درپردہ اسرائیل کیساتھ تعلقات ہیں لیکن وہ ظاہر نہیں کر رہے۔ یو اے ای کے اقدام کے بعد اب ان عرب ممالک کے لئے بھی راستہ کھل جائے گا، جن کے اسرائیل کیساتھ تعلقات پس پردہ تھے، اب وہ بھی کھل کر سامنے آجائیں گے۔ یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔ سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک امریکہ کے حقیقی غلام ہیں، وہ امریکہ کے کہنے پر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں حکومت پاکستان کیجانب سے جو ردعمل ظاہر کیا گیا، وہ کس حد تک اطمینان بخش ہے۔؟
علامہ ارشاد علی:
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ردعمل تو معمولی تھا، میری رائے پوچھیں تو پاکستان کے عوام کے مزاج کے بالکل برعکس تھا، تاہم اس کے بعد جب میڈیا نے حکومت پر دباو ڈالا تو وزیراعظم سمیت دیگر وزراء کی جانب سے وضاحتیں سامنے آئیںِ، جو کسی حد تک اطمینان بخش تھیں۔ تاہم پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بحث کا شروع ہونا کوئی اچھا شگون نہیں۔ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا، قبلہ اول کی آزادی کی حمایت اور فلسطینی عوام کی حمایت پاکستان کی بنیادی پالیسی میں شامل ہے۔ پاکستان کے عوام کشمیر اور فلسطین کیساتھ خصوصی محبت رکھتے ہیں اور قبلہ اول کی وجہ سے عقیدت کا پہلو بھی شامل ہے۔ پاکستان کے عوام اسرائیل کے حوالے سے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ لہذا اس قسم کی باتیں پاکستان میں بند ہونی چاہیئں، بلکہ اس پر بات ہونی چاہیئے کہ فلسطین اور قبلہ اول کو کیسے آزاد کرایا جائے۔

اسلام ٹائمز: آخر میں محرم الحرام کے حوالے سے کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔؟
علامہ ارشاد علی:
واقعہ کربلا حق اور باطل کے درمیان ایک لیکر کھینچتا ہے اور تاقیامت انسانیت کو یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ خدا کی خاطر انسان کو اپنی قیمتی سے قیمتی شے بھی قربان کرنی پڑے تو ہمیں دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ امام خمینی (رہ) نے فرمایا تھا کہ محرم تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ ہے۔ موجودہ ملکی حالات نفاق کی جانب لیجانے کی کوشش ہو رہی ہے، فرقہ وارانہ مسائل کو سوشل میڈیا کے ذریعے خوب اچھالا جا رہا ہے، ایسے میں ہمیں بلاتفریق مسلک کربلا کی جانب رجوع کرنا ہوگا، ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ امام حسین علیہ السلام سمیت تمام شہدائے کربلا تمام مسلمانوں کیلئے قابل احترام ہیں، یہ صرف شیعوں کی میراث نہیں۔ ہمیں اپنے دلوں کو کھولنا ہوگا، تمام علماء اور خطباء سے میری گذارش ہوگی کہ اس محرم الحرام میں اتحاد و وحدت کی ضرورت پر لازمی زور دیں۔
خبر کا کوڈ : 881953
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش