QR CodeQR Code

مقامی رہنماؤں کیخلاف ایف آئی آر قومی مسائل سے توجہ ہٹانے کی غرض سے درج کرائی گئی ہے, علامہ یوسف جعفری

28 Sep 2020 08:42

سابق صدر تحریک حسینی نے اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہا کہ قومی جرگے کے دوران ڈی سی کرم نے کاغذات مال اور مری جرگے ہی کو بروئے کار لانے کی تاکید کی، تاہم یہ بات کہنے میں بندہ حق بجانب ہوں کہ ماضی میں حکومتوں کی غفلت اور قوانین کو بروئے کار نہ لانے کیوجہ سے ہی حالات یہاں تک پہنچے ہیں۔ حکومت آج بھی اخلاص سے کام لے تو مسئلے کا پرامن حل نہ نکلنے کی کوئی وجہ ہی نہیں۔


مولانا یوسف حسین جعفری کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے نستی کوٹ سے ہے۔ دینی علوم کے علاوہ یونیورسٹی سے اسلامک سٹڈیز میں ماسٹر کیا ہے۔ محکمہ تعلیم میں جب تھیالوجی ٹیچر تھے، تو اس دوران تنظیم العلماء صوبہ سرحد کے صدر رہے۔ ایک سال تک مجلس علمائے اہلبیت پاراچنار کے صدر رہے، جبکہ 11 مئی 2016ء کو تحریک حسینی کے صدر بن گئے۔ اپنی پہلی صدارت کے ابتدائی 6 مہینے قومی حقوق کی پاداش میں جیل میں گزارے۔ مولانا صاحب نڈر اور جوشیلے مزاج کی حامل ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ کسی بھی مصلحت کے تحت اپنے جائز موقف سے پیچھے ہٹنے پر یقین نہیں رکھتے۔ تحریک حسینی کی دو سالہ صدارت نہایت احسن طریقے سے نبھانے کے بعد جون 2018ء میں دوسری مرتبہ تحریک کے صدر بن کر مئی 2020ء میں اپنی دوسری مدت بھی احسن طریقے سے پوری کی۔ موصوف اسوقت تحریک حسینی کی مذاکراتی ٹیم کے چیئرمین نیز سپریم کونسل کے ممبر بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے صدہ عباس کے مقام پر ہونیوالے جرگے کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا ہے، جسے اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: آغا صاحب! گذشتہ روز صدہ عباس میں ہونیوالے جرگے کا ایجنڈا کیا تھا؟ فریقین کے کتنے کتنے افراد نے شرکت کی اور کیا نتیجہ نکلا۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
بسم اللہ الرحمن الرحیم، اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے اسلام ٹائمز کی ٹیم کا بہت بہت شکریہ۔ آپ نے جرگے کے ایجنڈے کے حوالے سے سوال کیا تو عرض یہ ہے کہ جرگے کا واحد ایجنڈا بالش خیل کی اراضی کا حل نکالنا تھا۔ چنانچہ کافی مذاکرات اور بحث و مباحثوں اور کئی لڑائی جھگڑوں کے بعد 22، 22 افراد پر مشتمل 44 رکنی جرگہ تشکیل دیا گیا اور جرگے کی تشکیل کے بعد گذشتہ روز جمعرات کو زیارت عباس علمدار صدہ میں اس کی پہلی باقاعدہ نشست رکھی گئی۔ جرگے میں طوری بنگش کا موقف یہ تھا کہ مسئلے کا حل ریونیو ریکارڈ اور مری معاہدے کو مدنظر رکھ کر نکالا جائے، جبکہ پاڑہ چمکنی کا موقف طوری قبائل کے موقف کے برعکس تھا۔ انہوں نے جرگے میں ڈی سی اور دیگر سرکاری حکام کے سامنے کہا کہ انہیں ریونیو ریکارڈ اور کاغذات مال کسی صورت میں قبول نہیں اور یہ کہ انہیں مقامی روایات کے علاوہ کچھ بھی قابل قبول نہیں۔ چنانچہ اگر ایسی صورتحال ہے اور جرگے میں قوانین سے ہٹ کر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں تو واضح ہے کہ جرگے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

اسلام ٹائمز: سرکاری کاغذات کو مسترد کرکے اپنی من مانی پر حکومت خصوصاً ڈی سی کا موقف کیا تھا۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
دیکھیں، حکومت کے ماتحت ایک ایسے گرینڈ جرگے میں کسی بھی ناجائز موقف اور غلط بات کہنے والے کو تنبیہہ کرنا حکومت کا فرض منصبی ہے۔ ڈی سی صاحب نے اس حوالے سے دوٹوک انداز میں کہا کہ کاغذات مال اور مری جرگے ہی کو بروئے کار لایا جائے گا۔ تاہم میں اتنا ضرور کہوں گا کہ ماضی میں حکومتوں کی غفلت اور قوانین کو بروئے کار نہ لانے کیوجہ سے ہی حالات یہاں تک پہنچے ہیں۔ حکومت آج بھی اخلاص سے کام لے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ مسئلے کا پرامن حل نہ نکلے۔

اسلام ٹائمز: کاغذات مال اور ریونیو ریکارڈ کے علاوہ کوئی متبادل راستہ موجودہ ہے، جسے بنیاد بنا کر مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
ریونیو ریکارڈ سے ہٹ کر اس مسئلے کا کوئی متبادل حل نہیں، دیوانی مسائل کا حل ہمیشہ محکمہ مال اور ریونیو ریکارڈ ہی کو بروئے کار لاکر نکالا جاتا ہے، جبکہ پاڑہ چمکنی قبیلہ روایات کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انہیں انگریز کا بنایا ہوا ریکارڈ اور کاغذات مال نہیں بلکہ اپنی مقامی روایات قابل قبول ہیں۔ اس موقع پر ماسٹر نیاز محمد نے جرگے میں ان سے کہا کہ اگر انگریز کا ریکارڈ اور قانون تمہیں منظور نہیں تو ان کے بنائے ہوئے ملک سسٹم کے حوالے سے تمہارا کیا خیال ہے؟ حالانکہ جس چیز میں تمہارا نفع اور خیر ہے، وہ تو تمہیں منظور ہے اور قانون کی جس شق میں تمہارا نقصان ہے، اسے مسترد کرتے ہو۔ انہوں نے چمکنی قبیلہ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ تمہاری روایات کیا ہیں؟ مگر ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

اسلام ٹائمز: جرگے میں فریقین بھی موجود تھے یا صرف جرگہ ممبران ہی موجود تھے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
جرگے میں فریقین میں سے صرف پاڑہ چمکنی قبیلہ موجود تھا جبکہ بالش خیل قبیلہ موجود نہیں تھا۔ حالانکہ قبائلی روایات کے مطابق جرگے میں فریقین خود شامل نہیں ہوا کرتے، اگرچہ فریقین کے ساتھ رابطہ کرکے انکا موقف بار بار معلوم کیا جاتا ہے۔ تاہم یہاں کچھ عجیب سی صورتحال تھی کہ ایک طرف فریق تھا، فریق ہی سے جرگے کو تشکیل دیا گیا تھا جبکہ دوسری جانب فریق کے بجائے جرگہ ممبران آئے تھے۔ چنانچہ اس سلسلے میں حاجی سردار حسین نے اعتراض بھی اٹھایا کہ ایک فریق موجود ہے جبکہ دوسرے فریق کا کوئی فرد موجود نہیں۔ اگر پاڑہ چمکنی فریق آسکتا ہے تو بالش خیل کو بھی حاضر ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں جرگے کا کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے، یعنی اس جرگے سے کوئی فائدہ مل سکتا ہے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
میرے خیال میں جرگے کا کوئی نتیجہ ممکن نہیں۔ تاہم ایک فائدہ ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ حکومت کو پتہ چلے گا کہ کونسا فریق ظالم، قصوروار اور ہماری مقامی اصطلاح کے مطابق کبرجن ہے۔ قانون کا احترام کون کرتا ہے اور قانون شکنی کون کرتا ہے؟ کس فریق نے ہمیشہ جنگ کی ابتداء کی ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ جرگہ صرف بالش خیل کا مسئلہ حل کرنے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے یا کرم کے دیگر مسائل کو بھی حل کریگا۔؟
مولانا یوسف جعفری:
بالش خیل کا مسئلہ کرم کے امن و امان کے مسئلے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ جرگہ دراصل مسئلہ بالش خیل ہی کے لئے تشکیل دیا جا گیا ہے۔ تاہم جرگے کے دوران بوشہرہ کے حاجی بخت جمال نے کہا کہ بالش خیل سے پہلے بوشہرہ کی شاملات کا مسئلہ حل کیا جائے تو اس کے جواب میں، بندہ نے کہا کہ حکومت کے پاس ایک ایجنڈا موجود ہے۔ ہمیں جس مسئلے کے لئے بلایا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی بھی موضوع پر بات نہیں ہوسکتی۔ میں نے یہ بھی کہا کہ آج یہاں ہمارا امتحان ہے کہ ہم میں سے حلال خور اور صالح کون ہے اور حرام خور، شرپسند اور بدمعاش کون ہے؟ ویسے یہ پہلی نشست تھی، اگلی نشستوں میں پیشرفت کا بھی امکان موجود ہے۔ بندہ کی نظر میں اس جرگہ کی تشکیل ایک اچھا اقدام ہے۔

اسلام ٹائمز: صدر تحریک حسینی حاجی عابد کی حوالگی کے حوالے سے ذرا بتائیں کہ ان پر لگائے جانیوالے الزامات کیا حقیقت پر مبنی تھے۔؟ 
مولانا یوسف حسین جعفری:
اس حوالے سے حکام بالا، فوجی افسران سے ہماری بار بار ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ انہیں اپنے موقف سے آگاہ کرچکے ہیں کہ میلوں دور بیٹھ کر اگر ایف آئی آر کاٹنے کی روایت چل پڑی تو یہ علاقے کے لئے ایف سی آر سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ جس پر اکثر افسران نے اپنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اقرار کیا ہے کہ ایف آئی آر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ تاہم قانونی تقاضے پورے کرنا بھی ضروری ہیں۔ اس حوالے سے ایک بات کہہ دوں کہ ایف آئی آر کا واحد مقصد تحریک حسینی کو قومی مسائل کے حوالے سے اپنے موقف سے ہٹانا تھا۔ جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ یہ بات ہر ایک اپنے ذھن میں رکھے کہ تحریک بشمول طوری بنگش قبائل کے، کبھی کسی پر ظلم کریں گے، نہ ہی کبھی کسی کا ظلم برداشت کریں گے۔ چنانچہ اپنے جائز موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنا تحریک حسینی کے لئے موت کے مترادف ہے۔ تاہم قومی حقوق کی خاطر جیل جانا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس سے پہلے مئی 2016ء میں بحیثیت صدر بندہ سمیت تحریک کے 40 افراد نے 6 ماہ تک جیل کاٹی اور آخری دن تک ہم اپنے موقف ہی پر ڈٹ کر قائم رہے۔ عابد حاجی کی حوالگی جیسے بھی ہے، قانون کے احترام میں کرائی ہے۔


خبر کا کوڈ: 888824

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/888824/مقامی-رہنماؤں-کیخلاف-ایف-آئی-آر-قومی-مسائل-سے-توجہ-ہٹانے-کی-غرض-درج-کرائی-گئی-ہے-علامہ-یوسف-جعفری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org