0
Wednesday 3 Aug 2011 17:48

امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں نے ملک کو موجودہ صورتحال تک پہنچایا ہے، علامہ حیدر علوی

امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں نے ملک کو موجودہ صورتحال تک پہنچایا ہے، علامہ حیدر علوی
علامہ محمد حیدر علوی تحریک اسلام کے سربراہ ہیں، ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے حوالے اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، آپ اس سے پہلے سنی تحریک کے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں، طالب علمی کے زمانے میں انجمن طلبہ اسلام پنجاب کے ناظم رہے ہیں، اس کے علاوہ دعوت اسلامی میں بھی مختلف عہدوں پر کام کیا ہے۔ علامہ حیدر علوی عالم اسلام، اسلامی تحریکیوں اور موجودہ صورتحال پر ایک خاص نگاہ رکھتے ہیں، اسلام ٹائمز نے ملک کی مجموعی صورتحال پر اُن کا مؤقف جانا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، ملک میں جاری قتل و غارت، دہشتگردی اور بالخصوص مذہبی دہشتگردی جو مذہب کے نام پر شروع ہوئی اس کی اصل وجوہات کیا دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے کون سی سوچ کارفرما ہے۔؟
علامہ حیدر علوی :میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اندر جو افغان وار تھی اُس کے اندر پاکستان نے اپنے آپ کو شامل کیا، ضیاءالحق کے دور میں ایک مخصوص مکتبہ فکر کے لوگوں کو مدارس سے نکالا گیا، انہیں مجاہد کا نام دیا گیا، امریکی اور سعودی پیسہ صرف کیا گیا اور اس ساری صورتحال میں افواج پاکستان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اس جنگ کو اسلام کی جنگ قرار دے کر پوری قوم سے حمایت حاصل کی گئی اور ظاہر کیا گیا کہ اگر روس ٹوٹے گا تو خطے میں امن و استحکام پیدا ہو گا، لیکن عملاً کچھ اور ہی ہوا، افغانستان میں طالبان کی حکومت بنا دی گئی اور اس کی تائید کی گئی۔ اب کیونکہ طالبان کو پوری دنیا سے منفی نظریات پر اکھٹا کیا گیا اور جب اُن کی حکومت قائم ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ وہ لوگ اپنے نظریات دوسروں پر تھونپنے اور زبردستی مسلط کرنے لگے اور جو ان کی مخالفت کرتا تھا انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ آج پاکستان کے اندر جتنی بھی کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں اُسی مخصوص مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہیں۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، پاکستان کا اہم مسئلہ کیا سمجھتے ہیں کہ جو حل ہو جائے تو وطن عزیز مسائل سے نکل سکتا ہے۔؟
علامہ حیدر علوی: میں اس میں دو چیزیں دیکھتا ہوں، ایک ملکی سطح پر اسلامی نظام رائج کیا جائے اور وہ اسلام جو نبی کریم ص صاحبِ لولاک نے دیا، جن میں تمام لوگوں کے لئے امن اور سکون ہے۔ دوسرا یہ کہ ہماری سیکورٹی فورسز پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا اور وہ آج ہر سطح پر دہشت گردی میں ملوث ہیں، اُن لوگوں کے خلاف بے رحم آپریشن کیا جائے، اُن کو غیر مسلح کیا جائے، ان کے ہاتھ کاٹے جائیں، پارلیمنٹ کے ذریعے اُن کے خلاف ایسی سخت قانون سازی کی جائے کہ پھر کوئی اس راستہ کا انتخاب نہ کرسکے۔ دوسری اہم بات یہ کہ غیرملکی انسوٹمنٹ کو روکا جائے، ایسے مدارس کو فی الفور بند کیا جائے جو مذہب کے نام پر ملک میں تقسیم کا عمل جاری کیے ہوئے ہیں، وہ جن کے سوا سب کافر ہیں کے نظریات پھیلانے والے مولویوں کو گرفتار کیا جائے۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، ملک کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مذہبی رواداری کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں امن قائم ہو سکے اور لوگ ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کریں۔؟
علامہ حیدر علوی:آج اُمت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر غیروں نے اپنے اہداف پورے کئے ہیں۔ یہ غیر مسلموں کی سازش تھی کہ مسلمانوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے، یقیناً فرقہ بندی یا فرقہ سازی کا عمل تو چودہ سو سال سے کسی نہ کسی صورت میں اختلاف رائے رہا ہے، لیکن اُس اختلاف رائے سے کبھی یہ نہیں ہوا کہ مسلمان کسی دوسرے مسلمان گردن کاٹے، اُس پر اسلحہ تان لے اور اپنے نظریات کو پروان چڑھانے کیلئے اس حد تک چلا جائے کہ دوسروں کے لئے جینا مشکل کر دے۔ موجودہ حالات میں ہر مکتبہ فکر کے سنجیدہ علمائے کرام کا فرض بنتا ہے کہ وہ باہم مل بیٹھیں، مل بیٹھنے سے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہمارے اختلافات فروعی ہیں نہ کہ اصول پر کوئی زیادہ مسئلہ ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ بیٹھا جا سکتا ہے اور مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ بیٹھنے سے مفاہمت اور ہم آہنگی ہو سکتی ہے۔ ملکر نہ بیٹھنے میں بیرونی پیسے نے اہم کردار ادا کیا ہے ، جنرل ضیاءالحق کے دور میں جو کلاشنکوف کلچر اور فرقہ وارانہ تنظیموں پر ہاتھ رکھا گیا، کافر کافر کے نعروں کو باقاعدہ ایک سازشن کے تحت پروان چڑھایا گیا۔ اس ساری صورتحال میں اسلام کے نام پر کہ آج مختلف فرقوں کو آپس میں مل بیٹھنے میں بھی کافی مشکلات ہوتی ہیں۔ اُن کو اپنی قوم کہتی ہے کہ آپ جن کو کافر کہتے رہے ہیں، آج ان کے ساتھ کیسے بیٹھ گئے ہیں، بات چیت کا سلسلہ ختم ہونا نقصان دہ ہے، بات چیت شروع ہو جائے تو یقیناً ہمارے ہاں ہم آہنگی پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، ملک میں کالعدم تنظیمیں دوبارہ فعال ہو رہی ہیں، ملک اسحاق جیسے دہشتگرد کو پنجاب حکومت اور عدالتیں رہا کر دیتی ہیں اور وہ رہائی کے فوراً بعد یہ کہے کہ وہ اب بھی وہی کام کرے گا جو پہلے کرتا رہا ہے اور اس جماعت کی مرکزی لیڈر شپ بھی وہاں موجود ہو اور وہی کافر کافر کے نعرے دوبارہ لگنا شروع ہو جائیں، تو کیا آپ نہیں سجھتے کہ ایک سازش کے تحت ملک کو دوبارہ فرقہ واریت اور تشدد کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔؟
علامہ حیدر علوی:دُکھ اسی بات کا ہے کہ پاکستان کے اندر ظلم کو سپورٹ کیا جاتا ہے جبکہ مظلوم کی داد رسی نہیں کی جاتی۔ ایک بات واضح ہے کہ یا تو کالعدم کہنا چھوڑ دیں یا پھر انہیں قابل نفرت سمجھیں، ایک وزیر کہتا ہے کہ یہ کالعدم تنظیم ہے لیکن اس کے ووٹ لینا اس کی مجبوری ہے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں انسان نہیں، یہی وجہ ہے کہ ووٹ لینے کی خاطر دہشتگردوں کے ساتھ جلسوں میں جایا جاتا ہے، پنجاب کے وزیر قانون نے کالعدم تنطیم کے ساتھ کافر کافر کے نعروں کی گونج میں جلسہ سے خطاب کیا اور اپنے تعاون دینے اور دوسری جانب سے تعاون لینے کی بات کی گئی۔ جس جماعت کا وزیر قانون اپنی سیاسی کمپین کافر کافر نعروں میں شروع کرے، اس جماعت سے کیا توقع وابستہ کی جاسکتی ہے۔ ایسے ماحول میں قانون کا محافظ قانون کی دھجیاں بکھیرے اور پوری قوم کو پیغام دے کہ ووٹ کی خاطر سب کچھ جائز ہے، ایسے میں صرف ملک اسحاق ہی کیا دنیا کا بڑے سے بڑا دہشتگرد بھی رہا ہو سکتا ہے۔
حیرانگی اس بات کی ہے شریف لوگوں کو کوئی سکیورٹی نہیں دی جا رہی جبکہ سینکڑوں افراد کے قاتل دہشتگرد ملک اسحاق کی سکیورٹی پر سو سو افراد معمور کیے جاتے ہیں، دوسری جانب جید علمائے کرام دہشتگردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو مل بیٹھ کر یہ سوچنا ہو گا اور سوچنا چاہیے کہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ کیا کرنا ہے۔
 دیکھا جائے کہ کون لوگ ہیں جو اس مادر وطن کا امن غارت کر رہے ہیں، اور ماضی میں کون لوگ ملوث رہے ہیں، ان سب کیخلاف سخت قانون سازی کی جائے، اور پھر انتظامیہ اس پر عملدآمد یقینی بنائے۔ عدلیہ یہ قرار دیکر دہشتگردوں کو رہا کر رہی ہے کہ شواہد کمزور ہیں، ایسے میں پارلیمنٹ کا کردار اہم ہے اس حوالے سے پارلیمنٹ کو ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کاٹ کے پھینکا جا رہا ہے، دوسری جانب عوامی نمائندے صرف بیانات پر ٹرخا رہے ہیں، صورتحال تشویشناک ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے لئے، اسلام کی بقاء کے لئے، امن وحدت کیلئے کالعدم تنظیموں کیخلاف سخت فیصلے کرنا ہونگے۔ ایک اور اہم مسئلہ بھی درپیش ہے کہ جب تنظیموں کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے تو وہ فوراً نام تبدیل کر لیتی ہیں اور جب حکومت کو متوجہ کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں اس نام پر پابند ی تھی اس پر نہیں ہے۔ یعنی نام پر پابندی ہے لیکن کام پرنہیں، افراد پر اور اس فکر و سوچ پر پابند ی نہیں ہے، ان تنظیموں کے اخبار، روزنامے، ہفت روزے، اسی طرح چھپ رہے ہیں اور وہ اپنی مخصوص فکر کو من وعن پھیلا رہے ہیں۔ بڑے بڑے صحافی جن کے قلم بھی خوفزدہ ہیں اور بکے ہوئے ہیں وہ اپنے قلم کے ذریعے انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ جب تک اپنا کردار ادا نہیں کرتی اور قومی نمائندے یہ درک نہیں کر لیتے کہ یہ تنظمین ملک اور وطن عزیز کے امن کیلئے خطرہ ہیں اس وقت تک عوام گاجر مولی کی طرح کٹتے رہیں گے۔
اسلام ٹائمز:پنجاب حکومت کی کیا مجبوری ہے کہ اس طرح کے عناصر کو سپورٹ کر رہی ہے، دوسرا یہ کہ آئندہ الیکشن میں ن لیگ کو اس کی کیا قیمت چکانی پڑے گی۔؟
علامہ حیدر علوی:میں سمجھتا ہوں کہ ذوالفقار کھوسہ کے گھر کے باہر فقط ایک چھوٹا سا کریکر پھٹا اور وہ اس قدر ڈر گیا کہ اب وہ ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاو ن کر رہا ہے، پنجاب میں ن لیگ نے صوبے کو دہشتگردوں کے حوالے کر دیا ہے۔ پنجاب حکومت کو دہشت گردی کے خلاف زیادہ ایکشن لینا چاہے تھا لیکن آج پورا صوبہ کالعدم تنظیموں کی آماجگاہ بن چکا ہے، جنوبی پنجاب میں ان دہشتگرد تنظیموں کے نیٹ ورک فعال ہیں اور باقاعدہ ٹرینگ سینٹرز بنائے ہوئے ہیں، جہاں مسعود اظہر جیسے لوگ پل رہے ہیں۔ جب اس طرح کے حقائق سامنے آئیں اور پنجاب حکومت کوئی سنجیدگی نہ دکھائے اور الٹا تعاون کرے تو پھر ن لیگ کو آئندہ انتخاب میں عوامی سوچ کو جان لینا چاہیے۔ آئندہ الیکشن ثابت کریں گے کہ ن لیگ کو اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ پنجاب حکومت اگر تھوڑی بہت بھی سنجیدہ ہوتی تو یہاں پر وزیرستان شمالی، جنوبی وزیر ستان جیسا آپریشن کیا جاتا اور صوبے کو ان دہشتگردوں سے پاک کیا جاتا۔ پنجاب حکومت کا نرم رویہ ظاہر کرتا ہے یہ لوگ اندر سے مکمل طور پر ملے ہوئے ہیں جو کہ قابل مذمت ہے۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب،کراچی کے حالات گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے سنگین ہو چکے ہیں آئے روز لاشیں گر رہی ہیں، امن ریلی بھی کراچی کا امن واپس نہ لا سکی، حالانکہ اس ریلی میں تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک تھے، اس کے پیچھے کون سے عوامل ہیں جو پاکستان کے معاشی حب کو بدامنی کی طرف دھکیلانا چاہتے ہیں۔؟
علامہ حیدر علوی:یقیناً کراچی ایک بین الاقوامی شہر ہے، جہاں دنیا بھر سے لوگ رہتے ہیں وہی پر ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور گاؤں سے لوگ روزی کمانے کی غرض سے رہ رہے ہیں اور بہت سارے لوگ تو افغانستان سے جمع ہو چکے ہیں، اس وقت شدت پسند لوگ بھی وہاں جمع ہیں، کالعدم تنظیموں کے لئے وہاں سر چھپانے کے لئے جگہیں قائم ہو چکی ہیں، کراچی کے مقامی عوام کا معاشی ذریعہ کاروبار ہے اور انہیں کاروبار کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ آج اُنہوں نے اگر دفاع کے نام پر اسلحہ اٹھایا ہے تو انہیں یہ احساس دلانا ہو گا کہ سیکیورٹی ادارے ان کے ساتھ ہیں۔ اگر رینجرز کے آنے سے وہاں امن قائم ہو سکتا ہے تو یقیناً اُسے بھی آنا چاہیے۔ کالعدم تنظیمیں پوری طرح سے وہاں پر موجود ہیں۔ وہاں کے دینی مدارس اُن کالعدم تنظیموں کی پوری طرح سے مدد کر رہے ہیں۔ کراچی میں دہشتگرد افغانستان اور شمالی وزیرستان کے تربیت یافتہ ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو آ کر وہاں سے تمام لشکروں اور جیشوں کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے اور میری اپنی رائے ہے کہ پاک فوج کراچی میں امن و امان بحال کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، یہ جو سنی اتحاد کونسل بنی ہے اور اہلسنت کی سترہ سے زائد مذہبی تنظیمیں اس کا حصہ بنی اور آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کا بھی اعلان کیا گیا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کوئی بڑی کامیابی سمیٹ سکے گا اور سیاست کے میدان میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن ہے۔؟
علامہ حیدر علوی: اگر میڈیا سپورٹ کرے، وہ عناصر اور طبقات جو دہشتگردی سے متاثرہ ہیں اور وطن عزیز کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں آپس میں مل بیٹھیں، تو سنی اتحاد کونسل کوئی نتائج دے سکتا ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ کوئی بھی اتحاد بنے، اُسے عوام کے ایشوز پر بات کرنا ہو گی، اگر یہ نہیں کریں گے تو سیاسی جماعتیں اس سے فائدہ اٹھا جائیں گی، وہ لوگ عوام کو فائدہ تو کوئی نہیں پہنچاتے، تاہم دل کو بھانے والے نعروں کے ذریعے عوام کے ووٹ لے جاتے ہیں، اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ سنی اتحاد کونسل ہو یا کوئی اور مذہبی جماعت جو سیاست میں آنا چاہتی اور عوام کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے، اسے عوام کے تمام ایشوز کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا۔ میں اپیل کرنا چاہوں گا کہ خدارا اپنے فروعی اختلافات کو بھلائیں اور ایک ہو جائیں۔ ہمارے درمیان کافی سارے مشترکات ہیں جن پر اکھٹے ہوا جاسکتا ہے، اسی میں اسلام کی خدمت ہے اور وطن کا قرض بھی ادا ہو گا۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب، تونائی کا بحران، گیس کی قلت، وطن عزیز کئی مسائل سے دوچار ہے، دوسری جانب دیکھتے ہیں تو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں تاخیری حربے اختیار کیے گئے اور اب کہا جا رہا ہے کہ انشاء اللہ دو ہزار چودہ میں پائپ لائن منصوبے کو مکمل کر لیا جائے گا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر پاک ایران مشترکہ تجارت کریں اور آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہوں تو مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔؟
علامہ حیدر علوی:اس میں بین الاقوامی قوتیں زیادہ کار فرما ہیں۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ امریکہ اور سعودیہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان، ایران اور چائنہ ملکر کوئی بلاک بنائیں اور ایشیاء میں ایک قوت بن کر ابھریں، اس میں ان لوگوں کے مفادات کا نقصان ہوتا ہے۔ امریکہ اور سعودیہ ہمیں تیل ادھار پر دے سکتا ہے، لیکن ایسا کوئی عمل ان دونوں کیلئے قابل قبول نہیں جو پاکستان کو استقلال کی جانب لیکر جائے یا جس سے پاکستان خود کفیل ہو۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں مضبوطی آنی چاہیے اور دونوں ممالک کو عالم اسلام کے مسائل ملکر حل کرنے اور مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے اور آپس میں تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا چاہیے، لیکن وہی بات کہ مذکورہ دونون ممالک یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایسا ہو۔
ایران کے خلاف جس طرز کا محاذ بنایا جا رہا ہے اور نیٹو فورسز جس میلی آنکھ سے دیکھ رہی ہے اور اگر خدا نخواستہ ملت ایران پر جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان کی غیور عوام اپنے بھائیوں کی مدد میں اُن کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی، یہی وجہ ہے ایک سازش کے تحت ملک میں کالعدم تنظیمین دوبارہ فعال کی جا رہی ہیں کہ اگر ایران پر حملہ کیا جائے تو اس کے ہمسایہ ملک میں لوگوں کو آپس میں الجھا دیا جائے، یہ ایک عالمی ایجنڈا ہے، جو بن چکا ہے۔ ہمارا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ وہ برادر اسلامی ملک ایران سے بہتر تعلقات بنائے، یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہمارے دو ہی تو ہسایہ ممالک ہیں جن کی طرف سے ہر مشکل گھڑی میں مدد کی جاتی ہے اور ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ہمسایہ ملک کے ساتھ دشمنی پالنا کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں ہے، جبکہ برادر اسلامی ملک ایران سے ہمارے تاریخی، روحانی، دینی اور برادرانہ تعلقات ہیں، اسے ہمیں انتہائی سنجیدگی لینا چاہیے۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، مجموعی طور پر سعودی عرب کے پورے عالم اسلام میں کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، آج تک سعودی حکومت نے اسلامی جہادی تنظیم حماس، حزب اللہ کی مدد نہیں کی، جبکہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ سعودی حکومت کے تعلقات سب پر عیاں ہیں۔؟
علامہ حیدر علوی: اصل میں پوری دنیا سعودی عرب کی جانب اس لئے دیکھتی ہے کہ وہاں قبلہ شریف ہے اور امت سمجھتی ہے کہ شائد ان کا لیڈنگ رول ہے، لیکن نو آبادیاتی نظام میں برطانیہ نے سعودیہ اور عرب آمارات میں اپنے من پسند لوگ لے آئے اور انہیں حکمرانی تک پہنچا دیا، اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہاں پر لوگ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، سعودی عرب کا پورے عالم اسلام میں کوئی اچھا کردار نہیں ہے، جس پر بات کی جاسکے، آج عالم اسلام کے جتنے بھی مسائل ہیں بشمول پاکستان کے، اس میں سعودیہ براہ راست ہاتھ ملوث ہے، اسلامی انقلاب ایران کی بات ہو تو اُس کیخلاف پاکستان کے اندر محاذ سعودیہ نے بنایا، اور یہاں کے لوگوں پر اپنے من پسند نظریات ٹھوسنے کی کوشش کی گئی۔ سعودیہ نے اپنی مرضی کا اسلام یہاں پر لانے کی کوشش کی، لوگوں سے اظہار رائے چھینا گیا، اقوام متحدہ سعودیہ کے خلاف ایکشن لے، جس کی وجہ سے یہاں پر اتنی بڑی تباہی ہوئی، اور آج جتنی بھی مذہبی شدت پسند نتظیمیں ہیں اس میں سعودیہ کے ہاتھ اور اِن کے ریال اور امریکہ کے ڈالرز ہیں جس کی وجہ سے پاکستان آج اس نوبت تک پہنچ چکا ہے۔ سعودیہ نے پاکستان کے اندر اپنی من پسند شریعت، اپنی من پسند نظریات ٹھونسنے کے لئے عربوں ریال خرچ کر رہا ہے۔ جو پاکستان کی سلامتی کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔
آج وزارت داخلہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہاں سینکڑوں نہیں ہزاروں مدارس ہیں جن کو باقاعدہ سعودی حکومت پیسے دیتی ہے اور وہ لوگ دہشتگری میں ملوث ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج اُمت کو کافر اور مرتد کہا جاتا ہے، اُن کے نظریات کو مجروح کیا جاتا ہے۔ اس سارے ماحول کے اندر سعودیہ کے اندر تبدیلی نہ گزیر ہے۔ بحرین کے اندر جہاں مسلمانوں نے اپنی مظلومیت کے خلاف آواز اُٹھائی تو ہمارے پاکستان کی افواج کا یہ حق نہیں بنتا تھا کہ وہاں جا کے مداخلت کرے، جس طرح مصر، لیبیا اور دیگر عرب ممالک میں تبدیلی کی ہوا چلی ہے اب وہ سعودی عرب کو بھی متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑے گی۔ اُنہیں عوام کو حقوق دینے پڑیں گے، بحرین کے عوام کو حقوق دینے پڑیں گے۔ سعودی عرب کو بلاامتیاز مسلک، بلا امتیاز فرقہ، سوچنا پڑے گا کہ وہاں پر شریعت کے جو چار مسالک ہیں، اُن کے نظریات مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے محب وطن اداروں کو اس پر سوچنا ہو گا، اگر اُن کو پاکستان کی سلامتی سے ذرا بھی غرض ہے تو پاکستان میں سعودیہ اور دیگر ممالک سے آنے والی امداد کو روکے، جو مدارس کے نام پر، مساجد کے نام پر اور لٹریچر کے نام پر امداد آ رہی ہے، اُسے روکا جائے۔
خبر کا کوڈ : 89048
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش