0
Sunday 7 Aug 2011 04:43

کچھ لوگ یہاں رہتے ہوئے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے، میں اُن لوگوں میں ہوں جو پاکستان کو منتخب کر کے یہاں آئے، اِفتخار عارف

کچھ لوگ یہاں رہتے ہوئے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے، میں اُن لوگوں میں ہوں جو پاکستان کو منتخب کر کے یہاں آئے، اِفتخار عارف
افتخار عارف کا اپنی نسل کے شعراء میں سنجیدہ ترین شاعر ہیں۔ وہ اپنے مواد اور فن دونوں میں ایک ایسی پختگی کا اظہار کرتے ہیں جو دوسروں میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ وہ عام شعراءکی طرح تجربہ کے کسی جزوی اظہار پر قناعت نہیں کرتے بلکہ اپنا پورا تجربہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ اسے سمیٹتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے قارین کیلئے اُن سے خصوصی انٹرویو کیا ہے جو پیش خدمت ہے، تاہم افتخار عارف کا تعارف اور خاندانی پس منظر اُن کی زبانی ہی سنتے ہیں؟
اِفتخار عارف:مَیں 21 مارچ 1942ء کو لکھنو میں پیدا ہوا۔ لکھنو میرے آباﺅ اجداد کی زمین ہے۔ میری والدہ سے دو بھائی بہن تھے ایک مَیں اور ایک میری ہمشیرہ جن کا انتقال ہو گیا۔ دوسری ماں سے جو میرے بھائی بہن ہیں وہ لکھنو میں رہتے ہیں۔ میرے ننھیال فقہ جعفریہ کے لوگ تھے اور ددھیال
حنفی فقہ کے ماننے والے تھے، تو دونوں فقہی نقطہ ہائے نظر کے زیرِ اثر بچپن سے گھر میں مجالسِ عزا اور نذر و نیاز وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا اور نماز روزہ فقہ حنفیہ کے طور پر۔ فرنگی محل کے قریب ہی مدرسہ نظامیہ تھا، تو شروع کی ابتدائی تعلیم میں نے وہاں سے حاصل کی۔ اس کے بعد روایتی تعلیم کے لئے گورنمنٹ ڈگری کالج سے انٹر میڈیٹ کیا اور پھر بی اے کے لئے لکھنو یونیورسٹی چلا گیا۔ لکھنو یونیورسٹی سے مَیں نے ماسٹرز کیا۔ بی اے میں میرے Subjects سوشیالوجی، سوشل ورک، اردو، انگریزی، سنسکرت اور ایم اے تھے۔ بچپن غربت میں گزرا، مگر پڑھنے کا بہت شغف تھا۔ محنت سے پڑھتا لکھتا رہتا تھا اور کوشش کرتا تھا زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کروں۔
اسلام ٹائمز:پاکستان میں آمد کن حالات میں ہُوئی، اِبتدا میں کچھ مشکلات تو پیش آئی ہوں گی۔؟
افتخار عارف:شروع میں سب کو ہوتی ہیں۔ مَیں ایم اے کر کے آیا تھا اُس زمانے میں۔ پہلے تو (یعنی قیام پاکستان کے فوراً بعد) ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ جو بھی مسلمان لوگ یہاں آتے تھے، ان کو یہاں کی شہریت بآسانی فوری طور مِل جاتی تھی، لیکن پھر ایک قانون بنا۔ اس کے تحت یہ ہوا کہ جن لوگوں نے ماسٹرز کیا ہے، صرف انہی کو کچھ خاص Disciplines بتائے گئے۔ ان کو ایک سرٹیفیکیٹ دیتے تھے، جس کو ایمرجنسی سرٹیفیکیٹ کہتے تھے۔ مَیں نے 1965ء میں ماسٹرز کیا اور اسی کی بنیاد پر نیشنیلٹی ملی اور مَیں یہاں آیا۔ تو کچھ دنوں کے بعد جنگ شروع ہو گئی۔ مَیں ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس سے وابستہ ہو گیا تھا۔ مَیں نے وہاں سے خبریں پڑھنی شروع کیں۔ 1966ء میں میری شادی ہوئی۔ میرے محسن تھے سلیم گیلانی صاحب، جو ریڈیو پاکستان کے بعد میں ڈائریکٹر جنرل ہوئے۔ وہ ریڈیو پاکستان کی بیرونی سروس کے صدر ہوئے تھے۔ مجھ کو لے کر وہ اسلم اظہر کے پاس گئے جو کراچی ٹیلی ویژن کے ہیڈ ہوتے تھے۔ انہوں نے کسوٹی پروگرام شروع کیا، جسے مَیں، قریش پور اور عبیداللہ بیگ مِل کر کِیا کرتے تھے۔ اپنی اِنفرادیت کے باعث یہ پروگرام عوام میں بہت مقبول تھا۔ پھر اس کے بعد وہاں کچھ آسامیوں کا اشتہار آیا۔ ڈرامہ اسکرپٹس کے شعبہ میں، مَیں بطور سینئر پروڈیوسر منتخب ہوا۔ اس میں ایک اسٹیشن پر شہزاد احمد ایک پر مختار صدیقی مرحوم متعین تھے۔ مری عمر بہت چھوٹی تھی۔ مَیں 23برس کی عمر میں پاکستان ٹیلی ویژن کے اسکرپٹس شعبے کا نگراں مقرر ہو گیا، جو شاید PTV  کی ابھی تک کی تاریخ میں سب سے young پروڈیوسر کی مثال ہے۔
اسلام ٹائمز:جو مقام اور مرتبہ آپ کو پاکستان میں ملا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر بھارت ہی میں رہتے تو اس مقام پر پہنچ پاتے۔؟
افتحار عارف: سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آج کل پاکستان ٹیلی ویژن پر”کچھ باتیں، کچھ یادیں“ کے نام سے ایک سیریز چل رہی ہے۔ اس پروگرام میں چھ ایسے پاکستانیوں کا انٹرویو کیا گیا ہے جو ہندوستان میں پیدا ہوئے اور یہاں آ کر نام کمایا۔ ان میں مَیں ہوں، عبدالستار ایدھی، صاحبزادہ یعقوب، فریدہ خانم ہیں ،اور.... شہریار محمد خان ہیں۔ اسی طرح وہاں کے کچھ نام وَر لوگ ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے مگر ہندوستان میں نام کمایا۔
مَیں نے اس پروگرام میں کہا کہ اللہ نے مجھ پر پاکستان کے صدقے میں بہت کرم کیا ہے۔ جب مَیں آیا تھا تو اُس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دگرگوں تھی۔ خاص طور پر یو پی کے مسلمانوں کی وجہ سے اُردو اور مسلمانوں کو بہت سختیاں جھیلنا پڑی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کے سیاسی لوگوں کا ایک گروہ ایسا تھا جن کا خیال یہ تھا کہ اکھنڈ بھارت کو توڑنے میں اور پاکستان کے قیام میں یو پی میں بسنے والے مسلمانوں کا بڑا ہاتھ تھا، تو اس کی سزا اُن کو بھگتنا پڑی۔ مسلمان مشکل میں پڑے ہوئے تھے۔ اب ان کی صورتحال بہتر ہو گئی ہو گ ۔ جب مَیں تھا تو اُردو بھی مشکل میں تھی اور مسلمان بھی۔
اسلام ٹائمز:نمایاں خدمات کے صلے میں جن اعزازات سے آپ کو نوازا گیا ان کی تفصیل بھی قارئین کے لئے دِلچسپی کا موجب ہو گی۔؟
افتخار عارف:مَیں 1977ء میں پاکستان ٹیلی ویژن سے استعفیٰ دے کر لندن چلا گیا تھا۔ وہاں آغا حسن عابدی صاحب مجھے لے گئے تھے۔ وہ میرے محسن تھے اور اللہ نے ان کو ایک نعمت کی شکل میں عطا فرمایا۔ BCCI Bank کے وہ سربراہ تھے، انہوں نے جو مرکز قائم کیا تو مجھے اس کا نگرانِ اعلیٰ مقرر کیا۔ مَیں پہلا پاکستانی ہوں جس کو ملک سے باہر رہنے کے باوجود دو اعزازات سے نوازا گیا۔ پہلا اعزاز مجھ کو بے نظیر بھٹو صاحبہ کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس ملا۔ اور پھر 1984ء میری کتاب ”مہر دونیم“ شائع ہوئی تو اس کو سال کی بہترین کتاب قرار دیا گیا۔ پاکستان میں ستارہ اِمتیاز
اور ہلالِ اِمتیاز ملے۔
امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ع نے فرمایا ہے: ”سب حق والدین پر بچوں کے ہیں مگر بچوں کا ایک حق ہے اپنے والدین پر اور وہ یہ ہے کہ ان کے نام اچھے رکھیں۔ اور شاعری کی کتابوں کے نام اچھے رکھے جانے چاہئیں۔ مَیں نے سب کتابوں کے نام خود رکھے ہیں۔ ”مہرِ دونیم“ یوسفی صاحب نے تجویز فرمایا تھا۔ ایک کا پس منظر یہ تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ دوسرا یہ کہ میری ذات بھی دونیم ہی تھی، اس لئے کہ میں پاکستان کا رہنے والا لندن میں زندگی گزار رہا تھا۔ میرا آدھا وجود یہاں تھا، آدھا وہاں۔ یوں میرا وجود بٹا ہوا تھا۔ دونیم کا مطلب آدھا ہی نہیں ہوتا، اس سے مراد بٹا ہوا بھی ہوتا ہے۔
اسلام ٹائمز:1965ء میں آپ یہاں تشریف لائے تو کچھ ہی عرصے میں جنگ چھڑ گئی۔ فطری طور پر جو انسان کی جائے پیدائش ہوتی ہے، وہاں کی گلیاں، دوست یار، اعزہ.... یہ چیزیں اس کی یادوں سے محو نہیں ہوتیں۔ تو جنگ کے دَوران آپ کے تاثرات جائے پیدائش اور جائے سکونت کے حوالے سے کیسے تھے۔؟
افتخار عارف:یہ فطری سوال ہے۔ مَیں پاکستان اکیس برس کی عمر میں آیا تھا۔ جب مَیں پاکستان کا انتخاب کر رہا تھا تو یہ میرا شعوری انتخاب تھا ۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ ایک جگہ پیدا ہوئے وہاں جھگڑا ہو گیا۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو رہتے تو یہاں ہیں لیکن پاکستا ن کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ مَیں
اُن لوگوں میں ہوں جو پاکستان کو منتخب کر کے پاکستان آئے۔ جس وقت مَیں پاکستان کو منتخب کر رہا تھا تو یہ مجھے معلوم تھا کہ مَیں ایک ایسی جگہ جا رہا ہوں، جہاں میری شناخت موجود ہے.... میری اسلامی شناخت، میری پاکستانی شناخت۔ اور ظاہر ہے پاکستان کا اگر ہندوستان دوست ہو گا تو میرا دوست ہو گا اور اگر ہندوستان پاکستان کا دشمن ہو گا تو میر ادشمن ہو گا۔
اسلام ٹائمز:آپ نے اپنی ایک کتاب کا نام”شہر علم کے دروازے پر“ رکھا اس کا فلسفہ کیا ہے۔؟
افتخار عارف:جب ہم کسوٹی کرتے تھے۔ سوال بوجھنے کے لئے ایک کاغذ ہمیں
دیا جاتا تھا تو ہم اس پر لکھ لیا کرتے تھے۔” بسم اللہ الرحمن الرحیم.... اَنا مدینةُ العلم وَعلی بابُھا“.... اِسی حدیثِ مبارکہ سے آپ پسِ منظر سمجھ سکتے ہیں۔ میری پہلی نظم جو مَیں نے امیرالمومنین حضرت علی ع کے لئے لکھی تھی، اس کا عنوان تھا ”شہر علم کے دروازے پر“۔ چنانچہ جب
میری کتاب چھپنے لگی میں گیا ہوا تھا امریکہ۔ وہاں پر جعفر نقوی ملے۔ مشاعرہ ہو رہا تھا جب مشاعرہ ختم ہوا تو انہوں نے کہا، اگر زحمت نہ ہو تو آپ اپنی فلاں فلاں چیزیں سنائیے۔ وہاں محفل میں جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مجھ سے سلام اور منقبتیں سننا شروع کر دیں۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ یہ سب چیزیں محفوظ ہیں۔؟ میں نے کہا یہ میری مختلف کتابوں میں موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح نہیں ہو سکتا کہ یہ کلام جو محمد و آلِ محمد سے متعلق ہے، یکجا ہو جائے، تو مَیں نے کہا چلئے دیکھتے ہیں۔ اس پر زہراء نقوی نے کہا کہ افتخار بھائی ہمیں یکجا کر دیں تو ہم شائع کرا دیتے ہیں۔ میرے دوست اشفاق حسین زیدی وہاں کھڑے تھے، جن کا فیض پر بڑا کام ہے۔
انہوں نے کہا مَیں آپ کو یکجا کر دیتا ہوں۔ اس کے لئے تمام رقم زہراء نقوی اور جعفر بھائی نے دی اور یہ کتاب پاکستان میں آرٹ پیپر پر چھپی۔ مَیں نے اس کے کتاب کے کوئی حقو ق نہیں لئے، جس کا جی چاہے چھاپے۔ یہ کتب ہم نے مجالس عزا میں تقسیم کی ہیں، یہ سعادت پروردگارِ عالم نے
محمد و آل محمد کے وسیلے سے عطا کی۔ محمد و آلِ محمد کا وسیلہ ہمیشہ میرے کام آیا۔ جب بھی آپ کسی کے گھر جائیے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس کی شخصیت کے کیا اجزاء ہیں، اس کو بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اسلام ٹائمز:آپ نے نہج البلاغہ پہ بھی کام کیا؟
افتخار عارف:اس وقت میرے پاس پاکستان میں چھپنے والے تمام نقشے موجود ہیں۔ (ایک جانب، دیوار کی طرف اِشارہ کرتے ہُوئے) یہ میدان کربلا کا نقشہ ہے۔ مثلاً یہ عَلَم لگا ہوا ہے۔ مثلاً یہ کربلا کا وہ نقشہ ہے جو سو برس پہلے کا تھا۔ یہ سب کسی نمائش کے لئے نہیں رکھا گیا، یہ میری زندگی کے
اہم حوالے ہیں۔ آپ اندر تشریف لے جائیں گے تو دو مینار ہیں۔ ایک ابو الفضل العباس علیہ تسلیم کا، اُس طرف اِمام علی رضا علیہ الصّلوٰة و تسلیم کا۔ تو انسان کی جو محبوب ہستیاں ہوتی ہیں، ان کا ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مَیں کوئی مذہبی نہیں ہوں، گناہگار آدمی ہوں۔ مَیں نے اپنے مطالعے سے جو چیزیں اخذ کی ہیں اور اپنی محبت کا انہیں جزو بنایا ہے، ان کا برملا اظہار کرتا ہوں، یہ کسی کی خوشنودی کے لئے نہیں ہے۔ مَیں اپنے شعائر میں حنفی فقہ کی پابندی کرتا ہوں اور عقیدے میں حضرت علی علیہ الصلوة و تسلیم کو منصب مرتبے کے اعتبار سے اللہ اور رسول اللہ کے بعد سب
سے اہم سمجھتا ہوں۔
اسلام ٹائمز:دعائے کمیل کو آ پ نے اپنے کلام میں لکھا، اس کے بارے میں بتائیں۔؟
افتخار عارف:وہ ایک مشکل کے وقت میں، مَیں نے ایک نظم لکھی تھی۔ یاسریع الرضا اور وہ بہت مقبول بھی ہے۔ پروردگارِ عالم نے مجھ کو بہت عطا کیا مجھے ہلال امتیاز، سارہ اِمتیاز ملا اور مجھ کو پرائڈ آف پرفارمنس ملا۔ مَیں 1995ءمیں مقتدرہ قومی زبان کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا اور
ابھی تک اس منصب پر فائز رہا۔ مجھ کو کوئی مال منال کی خواہش نہیں تھی کہ بڑے بڑے گھر ہوں، بڑی بڑی کوٹھیاں ہوں۔ مجھے اللہ نے فرمانبردار اولاد عطا فرمائی۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی عطا فرمائی اور کتابیں خریدنے کی اسطاعت عطا فرمائی۔ ابھی میں ساری زیارتوں سے مشرف ہو کے آیا۔ چہاردہ
معصومین علیہ السلام کے ہاں حاضری مَیں نے دی۔ جناب زینب سلام اللہ علیھا کے ہاں دمشق جانے کا موقع میسر آیا.... تو ہر انسان کے اپنے محبوب ہوتے ہیں۔
اسلام ٹائمز:حق و باطل کے درمیان جو ستیزہ کاری ازل سے جاری ہے، کربلا اس کا سب سے نمایاں اِستعارہ ہے۔ آپ نے اس اِستعارے کو اپنی شاعری میں کیسے برتا اور اس کا کیا اثر لیا۔؟
افتخار عارف: میرے بارے میں دو مخالف گروہوں کے نقادوں اور اہل علم نے لکھا۔ فیض صاحب نے میرے بارے میں لکھا۔” افتخار عارف نے قیس اور فرہاد کی بجائے اسلامی تاریخ کے بڑے کرداروں کو اپنا موضوع سخن بنایا“۔ مَیں نے غزل میں کربلا کا واقعہ لکھنا شروع کیا۔ کربلا تو میر و انیس و دبیر
کے مرثیے کی شکل میں لکھی جا رہی تھی، غزل میں بھی اِکا دُکا مثالیں مل جاتی تھیں مگر میں نے کربلا کو تواتر کے ساتھ ایک روَیےّ کے طور پر لکھا۔ گوپی چند نارنگ، جو ہندوستان کے بہت بڑے نقاد ہیں، ان کی کتاب ہے ”کربلا کا شعری استعارہ"۔ اس میں بہت ہی وضاحت کے ساتھ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جہاں اور لوگوں کے ہاں اشارتاً اس کا تذکرہ آ جاتا ہے، میری شاعری میں تسلسل کے ساتھ اس علامت کو لکھا گیا۔ مَیں نے اس کے علاوہ بھی اسلامی تاریخ کی بعض نہایت متبرک ہستیوں پر نظمیں لکھی ہیں، جیسے ابوذر غفاری، حضرت ابو طالب، اسامہ ابن زید پر نظم لکھی ہوئی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دل کس طرف کو ہے اور مَیں نے اپنی شاعری میں قنبر کو
ذکر کیا ہے ابوذر کا ذکر کیا ہے، سلمان کا ذکر کیا ہے۔ مَیں نے اپنی منقبتوں میں، جو نہ شیعہ مسلک ہے نہ سنی مسلک ہے.... مسلکی بحثوں سے ہٹ کر ان ذواتِ مقدسہ سے، جن سے میری محبت ہے، اس کا اظہار کیا ہے۔ ہر فرقہ اس بات پر استوار ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہے، لیکن مَیں کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ مَیں صرف ایک بات جانتا ہوں، آپ اپنے فرقے پر قائم رہیے اور کسی دوسرے کے فرقے سے تعرض نہ کیجیے۔ اگر آپ کا کوئی محبوب ہے، اس کو محبوب جانیے، اس کے بارے میں لکھیے، اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلیے، اگر وہ آپ کے دل کے قریب ہے۔ جو محبتیں کرتے ہیں انہیں کسی دوسرے کی پروا نہیں ہوتی۔ مَیں نے مرثیہ نگاروں کو خواندگی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں لکھنو کا رہنے والا ہوں۔ خواندگی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ کہہ کر اپنی آواز سن کر شعر کہتے ہیں تو مَیں بھی اپنی آواز سن کر شعر کہتا ہوں۔ میں جب شعر کہتا ہوں۔ مَیں اس کو پڑھ کر دیکھتا ہوں، میرے اندر وہ پڑھا جا رہا ہوتا ہے۔ نان و نمک کی جستجو میں دربہ در کریہ بہ کریہ مارا مارا پھر رہا ہوں اور میری انگشتری پر یاعلی ع لکھا ہوا ہے۔ چنانچہ مصرع کی بُنت آپ سے خود پڑھوا لیتی ہے کہ اس کو کیسے پڑھا جائے۔
خبر کا کوڈ : 89352
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش