0
Wednesday 28 Oct 2020 19:12

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے بڑھتے اثر و رسوخ کے حوالے سے علامہ سید عابد الحسینی کا خصوصی انٹرویو

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے بڑھتے اثر و رسوخ کے حوالے سے علامہ سید عابد الحسینی کا خصوصی انٹرویو
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ پاکستان میں صوبائی صدر اور مرکزی سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے عرب ممالک پر اسرائیلی اثر و رسوخ اور دوبئی میں اہل تشیع کی گرفتاری کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! اسلامی خصوصاً عرب ممالک میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسینی:
اسرائیل خود کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کے پیچھے امریکہ ہے اور امریکہ آج نہیں بلکہ عشروں سے عرب ممالک کو ڈرا دھمکا کر، دباو میں رکھ کر یا کوئی جھانسہ دیکر اسرائیل کی طرف راغب کرنے میں مصروف عمل ہے۔ خطے میں فسادات اور خانہ جنگیوں کے ذریعے عربوں کو اسرائیل اور اپنی ضرورت کی طرف راغب کراتا ہے۔ انہیں یہ باور کراتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے تعاون کے بغیر وہ (عرب) ایک دن بھی اپنی حیثیت اور حکومت برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو ایک خاص ٹارگٹ بھی دیا گیا ہے کہ عرب دنیا کی زیادہ سے زیادہ حکومتوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ کریں، جسے پورا کرنے کے لئے محمد بن سلمان دن رات مصروف عمل ہے۔

اسلام ٹائمز: عرب امارات کیجانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنیکے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسینی:
یہ بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا پہلے ذکر کیا۔ امارات ایک چھوٹی سی ریاست ہے، تاہم اسے مصر، سعودی عرب اور قطر کی طرح عرب دنیا کی سرپرستی کرنے کے سہانے خواب دکھائی دے رہے ہیں۔ چنانچہ اسے اب اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں اپنی سلطنت کے تحفظ کے علاوہ دیگر ممالک پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کا وہم ہوگیا ہے، تو امارات کے تعلقات کے پیچھے اس کی یہی بے سود خواہش ہے۔کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بعد وہ عرب دنیا کا شہنشاہ بن جائے گا۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ عرب امارات خصوصاً دوبئی میں گلگت اور پاراچنار کے اہل تشیع کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار اور لاپتہ کیا جا رہا ہے، اسکی کیا حقیقت ہے۔؟ 
علامہ سید عابد حسینی:
ہاں یہ بالکل سچ ہے۔ دوبئی میں پاراچنار اور گلگت سمیت پاکستان کے کئی دیگر علاقوں کے اہل تشیع کو ان کی گاڑیوں سمیت اٹھایا جاچکا ہے، جبکہ ایسے افراد کے کیس کی کوئی پیروی بھی نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی جاکر وجہ پوچھتا ہے تو اسے بھی دھمکی دی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کے احکامات ہیں۔ جو وہ سعودی عرب اور امارات کو دے رہے ہیں۔ وہ انہیں ڈراتے ہوئے یہ باور کراتے ہیں کہ ان لوگوں سے تمہاری سلطنتوں کو خطرہ ہے۔

اسلام ٹائمز: اس کیس کے حوالے سے آپکا ردعمل کیا ہوگا۔؟ 
علامہ سید عابد حسینی: 
اپنے شہریوں کے حقوق اور جان و مال کا تحفظ پاکستان سمیت ہر رہاست کا فرض بنتا ہے۔ چنانچہ ہم اپنی حکومت کے ذمہ دار اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اندرون و بیرون ملک اپنے عوام کا تحفظ یقینی بنائیں۔ پاکستان کو شروع ہی سے ایک مسئلہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے دفاع اور حقوق کے حوالے سے غیر سنجیدہ ہے۔ اسے ان کے حقوق کی کوئی فکر نہیں۔ کبھی اس نے اپنے شہریوں کے حقوق کے لئے کسی فورم پر آواز نہیں اٹھائی۔ حالانکہ دنیا کے انتہائی کمزور اور چھوٹے ممالک بھی اپنے شہریوں کے حقوق سے صرف نظر نہیں کرتے۔ 2015ء میں حج کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشوں کا مسئلہ پیدا ہوا تو اکثر ممالک نے اپنے حجاج کی لاشیں طلب کرکے حاصل کیں، جبکہ پاکستان نے بے بسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حجاج کی لاشوں کو بخش دیا۔ چنانچہ ہم اپنی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے عوام کی جاں و مال کا تحفظ کریں، ورنہ شیعہ عوام اپنا تحفظ خود کرنے کا سلیقہ بخوبی جانتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے حوالے سے کیا خیال ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریگا۔؟
علامہ سید عابد حسینی:
ہر ملک کی حکومتیں یہ خواہش رکھتی ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں، مگر انہیں اپنے عوام کا خوف لاحق ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا حالیہ بیان بھی اسی حقیقت کی عکاسی کر رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر عوام اسے قتل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ سعودی عرب اور پاکستان سمیت دیگر تمام ممالک کو عوامی ردعمل کا خوف نہ ہوتا تو 20 سال پہلے وہ اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہوتے۔ خصوصاً پاکستان کے عوام تو انتہائی جذباتی ہیں۔ یہاں جس دن اسرائیل کو تسلیم کیا گیا، حکومت اسی دن ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ میرا خیال نہیں کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خطرہ مول لے۔
خبر کا کوڈ : 894557
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش