QR CodeQR Code

یمن کی وزارت صحت کے ترجمان:

غذائی قلت کے باعث 5 لاکھ یمنی بچوں کی جان خطرے میں ہے، ڈاکٹر یوسف الحاضری

29 Oct 2020 23:15

یمن کی وزارت صحت کے ترجمان کا اسلام ٹائمز سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اپنے منشور اور اصولوں کو فراموش کرچکی ہے، جو اب محض کاغذ کا ایک ٹکڑا بن کر رہ گیا ہے۔ یمن کے بحران میں اقوام متحدہ کا کریہہ چہرہ نمایاں ہوا ہے اور اسکا حقیقی کردار ابھر کر سامنے آیا ہے، جو عالمی استکباری قوتوں کیلئے دیگر ممالک پر تسلط اور انکے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار کا زمینہ فراہم کرنے پر مبنی ہے۔ اقوام متحدہ اب تک دو بار سعودی عرب کا نام یمنی بچوں کے قتل عام کی بلیک لسٹ سے باہر نکال چکا ہے۔ ایک بار جون 2016ء اور دوسری بار جون 2020ء میں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تین ہزار سے زیادہ یمن کے بیگناہ بچے براہ راست سعودی جنگی طیاروں کی بمباری میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ اسی طرح یمن کیخلاف محاصرے کے نتیجے میں سینکڑوں بچے انتہائی کمزور ہو کر سوکھ چکے ہیں۔"


یمن کی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر یوسف الحاضری نے اسلام ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ 52 لاکھ یمنی بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جن میں سے پانچ لاکھ بچوں کی حالت نازک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خود اقوام متحدہ یمن کو ایندھن ترسیل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، کیونکہ یہ عالمی ادارہ ہر ایسے اقدام کی مخالفت کرتا ہے، جو یمنی شہریوں کی افسوسناک صورتحال بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اسلام ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یمن کے شہری ان دنوں مغربی عربی سازشوں کے نتیجے میں ایندھن کی بندش کے باعث زندگی کے سخت ترین دن گزار رہے ہیں۔ دوسری طرف عالمی اداروں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مغربی اور عرب میڈیا جس کی اکثریت حکومت نواز ہے، اس نے بھی یمن کے مظلوم اور بیگناہ بچوں کی حالت زار کے بارے میں مکمل نیوز بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ سعودی عرب کی سربراہی میں جارح عرب اتحاد ہر روز یمن کے مختلف علاقوں کو بمباری اور فضائی حملوں کا نشانہ بناتا رہتا ہے، جس کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ سے زائد عام شہری جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ دسیوں ہزار افراد زخمی اور تیس لاکھ سے زائد شہری نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔

اسی طرح یمن کا اسی فیصد انفرااسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے، جس میں زیادہ تر صحت اور میڈیکل کی عمارتیں شامل ہیں۔ اس وقت یمن میں چار ہزار ایسے مریض موجود ہیں، جن کے گردے فیل ہوچکے ہیں اور وہ میڈیکل سہولیات نہ ہونے کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ مشکلات ایندھن نہ ہونے کے باعث پیدا ہوئی ہیں۔ سعودی اتحاد نے یمن کے خلاف محاصرہ کر رکھا ہے اور تمام سمندری راستے بند کر دیئے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ایندھن لانے والے بحری جہاز یمن کی بندرگاہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ گذشتہ چھ ماہ سے یمن کے خلاف پابندیاں لگائے جانے کی وجہ سے کسی تیل بردار کشتی کو یمن میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس عرصے میں مذاکرات کے نتیجے میں اب تک صرف پانچ تیل بردار کشتیاں الحدیدہ بندرگاہ میں داخل ہونے کی اجازت حاصل کر پائی ہیں۔ لیکن یمن کی آئل کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ 45 دن پہلے ملک میں تیل کے ذخائر ختم ہوچکے ہیں، جس کے باعث گذشتہ چند ہفتوں سے ملک کے اہم ترین مراکز کی محض دس فیصد ضروریات پوری کی جا رہی ہیں۔

اس بارے میں اسلام ٹائمز کے نمائندے نے یمن کی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر یوسف الحاضری سے انٹرویو لیا ہے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ڈاکٹر یوسف الحاضری سے ملک کے نظام صحت پر ایندھن کی قلت سے پیدا ہونے والے بحران کے اثرات کے بارے میں سوال کیا۔ انہوں نے جواب میں کہا: "قدرتی طور پر صحت کے نظام میں ایندھن مرکزی اہمیت کا حامل ہے اور اسی کی بدولت تمام سرگرمیاں انجام پاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے، گاڑیوں کی نقل و حرکت، ریفری جریشن اور اسپتالوں میں مشینوں کو چلانے کیلئے ایندھن درکار ہوتا ہے۔ لہذا ایندھن کی قلت کا مطلب نظام صحت کی تمام سروسز رک جانے اور مریضوں کو فراہم سہولیات کا خاتمہ ہو جانے کے مترادف ہے۔ یوں اسپتال ایسے مراکز میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جو صرف ابتدائی سہولیات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر بجلی کی پیداوار رک جاتی ہے تو ابتدائی گھنٹوں میں ہی ایک ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ مثال کے طور پر وہ افراد کو آپریشن تھیٹر میں ہیں یا شوگر کے مریض ہیں یا ایسی خواتین جن کا آپریشن جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بجلی نہ ہونے کی صورت میں جیسے جیسے وقت بڑھے گا، جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔"

ڈاکٹر یوسف الحاضری نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا اقوام متحدہ یمن میں ایندھن کے بحران پر قابو پانے کیلئے کوئی انسانی امداد نہیں کرسکتی، تاکہ یمن کے اسپتال اور میڈیکل کے مراکز نقصان سے بچ جائیں؟ کہا: "یمن کو درپیش اس انسانی بحران اور ایندھن کی بندش میں اقوام متحدہ مرکزی کردار کی حامل ہے۔ جب یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے اراکین نے اپنی آدھی تنخواہ سعودی اتحاد کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں سے متاثر ہونے والے افراد اور پیدا ہونے والے ناقص الخلقت بچوں کے علاج سے مخصوص کر دی تو اقوام متحدہ نے جارح ممالک کو یمن کا ایندھن بند کر دینے کا راستہ دکھلایا۔ اقوام متحدہ ہر ایسے اقدام کی مخالف ہے جو یمن کے مفلوک الحال شہریوں کی صورتحال میں بہتری پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اقوام متحدہ اپنے منشور اور اصولوں کو فراموش کرچکی ہے، جو اب محض کاغذ کا ایک ٹکڑا بن کر رہ گیا ہے۔ یمن کے بحران میں اقوام متحدہ کا کریہہ چہرہ نمایاں ہوا ہے اور اس کا حقیقی کردار ابھر کر سامنے آیا ہے، جو عالمی استکباری قوتوں کیلئے دیگر ممالک پر تسلط اور ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار کا زمینہ فراہم کرنے پر مبنی ہے۔ اقوام متحدہ اب تک دو بار سعودی عرب کا نام یمنی بچوں کے قتل عام کی بلیک لسٹ سے باہر نکال چکا ہے۔ ایک بار جون 2016ء اور دوسری بار جون 2020ء میں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تین ہزار سے زیادہ یمن کے بیگناہ بچے براہ راست سعودی جنگی طیاروں کی بمباری میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ اسی طرح یمن کے خلاف محاصرے کے نتیجے میں سینکڑوں بچے انتہائی کمزور ہو کر سوکھ چکے ہیں۔"

اسلام ٹائمز کے نمائندے نے یمن کے خلاف جارح ممالک کی جانب سے کیمیائی اور ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان ہتھیاروں کے تخریبی اثرات کے بارے میں پوچھا اور سوال کیا کہ اب تک ان ہتھیاروں سے متاثر ہونے والے شہریوں کی تعداد کتنی ہے؟ ڈاکٹر یوسف الحاضری نے جواب دیا: "کیمیائی ہتھیاروں کے اثرات دو قسم میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ ایک فوری اثرات اور دوسرے دوررس اثرات۔ فوری اثرات میں سے ایک حمل کا ضائع ہونا ہے، جس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح معذور بچوں کی پیدائش کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔ جارحیت اور محاصرے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شدید مالی مشکلات کی وجہ سے حمل ضائع ہونے کے واقعات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور اکثر واقعات میں خاتون کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ ناگوار واقعات گھروں میں ہوتے ہیں اور کوئی ان سے آگاہ نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے اس بارے میں سرکاری اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق حمل ضائع ہونے کے واقعات میں 15 فیصد جبکہ معذور بچوں کی پیدائش کے واقعات میں 2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔"

یمن کی وزارت صحت کے ترجمان نے مزید کہا: "چونکہ سعودی اتحاد یمن کے پہاڑی علاقوں پر بہت زیادہ گولہ باری اور بمباری کرتا ہے، لہذا یہ پہاڑ ایسے گولوں اور بموں سے بھرے پڑے ہیں، جو پھٹے نہیں ہیں اور ہر لمحہ دھماکے سے پھٹ سکتے ہیں۔ اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں کوئی بچہ جیسے ہی ایک گولے کو چھوتا ہے، وہ پھٹ جاتا ہے۔ ایسے واقعات کے نتیجے میں بڑی تعداد میں بچے زخمی ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثر معذور ہوگئے ہیں۔" ڈاکٹر یوسف الحاضری نے روزمرہ ضروریات کی قلت کے باعث یمنی شہریوں خاص طور پر بچوں کیلئے پیدا ہونے والی مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں 48 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوچکے ہیں اور ان میں سے پانچ لاکھ بچوں کی حالت نازک ہے۔ 80 ہزار سے زائد بچے بموں اور میزائلوں کے دھماکوں کی آوازیں سن کر نفسیاتی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔ اسی طرح دسیوں ہزار بچے ایسے ہیں، جو شدید امراض کا شکار ہیں اور چونکہ اگست 2016ء سے صنعا ایئرپورٹ بند پڑا ہے، لہذا انہیں علاج معالجے کیلئے دیگر ممالک نہیں بھیجا جا سکتا۔ اگرچہ یمن کے تمام شہریوں کی حالت زار بری ہے لیکن بچوں کی صورتحال زیادہ نازک اور قابل رحم ہے۔"

جب ڈاکٹر یوسف الحاضری سے یہ سوال پوچھا گیا کہ وہ یمن کی وزارت صحت کے اعلیٰ سطحی عہدیدار ہونے کے ناطے دنیا کے آزاد منش انسانوں اور اسلامی ممالک سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: "یمن کے خلاف جنگ کو دو ہزار تیس دن گزر چکے ہیں اور اس دوران ان ممالک نے ہماری مدد کیلئے کیا کیا ہے، جو ہم ان سے توقعات قائم کریں؟ البتہ ایران اور چند اسلامی مزاحمتی تحریکوں نے ہماری مدد کی ہے اور ان کا حساب الگ ہے۔ عرب اور اسلامی ممالک امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ امریکی اور اسرائیلی فوجیوں کا خون بچانے کیلئے اپنے بچوں کا خون قربان کر رہے ہیں۔ ہمیں ان سے کوئی توقع نہیں ہے۔ ہاں ان سے یہی توقع ہے کہ وہ ہمارے خلاف شرپسندی جاری رکھیں گے۔ جو ملک ان کی سربراہی کر رہا ہے، وہ وہی نجدی شیطان کا سینگ سعودی عرب ہے۔"

یاد رہے کہ سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور امریکہ کے تعاون سے 2015ء میں ایک عربی امریکی اتحاد تشکیل دیا اور یمن کے خلاف جارحیت کا آغاز کر دیا۔ آج اس جارحیت کو شروع ہوئے پانچ سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس مدت میں متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے علاوہ باقی اتحادی سعودی اتحاد چھوڑ چکے ہیں۔ دوسری طرف ابوظہبی نے جنوبی یمن کے کچھ علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے اور اس وقت ریاض کا یہ پرانا اتحادی اس کا حریف بن چکا ہے۔


خبر کا کوڈ: 896150

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/896150/غذائی-قلت-کے-باعث-5-لاکھ-یمنی-بچوں-کی-جان-خطرے-میں-ہے-ڈاکٹر-یوسف-الحاضری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org