QR CodeQR Code

چیئرمین مینارٹی رائٹس فورم پاکستان رادھیش سنگھ کا خصوصی انٹرویو

15 Nov 2020 01:21

اقلیتی رہنماء کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ کہنے اور سننے کیلئے بہت باتیں مل جاتی ہیں گراونڈ پر کچھ نہیں ہے۔ ہمارے پشاور میں آج تک شمشان گھاٹ نہیں ہے، اسی طرح باقی بھی کئی اضلاع میں شمشان گھاٹ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ہمیں کئی مسائل درپیش ہیں، ہمارے لئے فیملی لاز نہیں بنائے گئے ہیں۔ لہذا میں کس طرح کہہ دوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی برابری کی بات کی جاتی ہے تو اقلیتوں کو ان کے حقوق دیئے جاتے ہیں، معاشرے میں ایک مقام دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔


چیئرمین مینارٹی رائٹس فورم پاکستان رادھیش سنگھ ٹونی کا شمار پاکستان کے اہم اقلیتی و سکھ رہنماوں میں ہوتا ہے، رادھیش صاحب کا تعلق خیبر پختونخوا کے مرکز پشاور سے ہے، انہیں دہشتگردی کیخلاف واضح موقف رکھنے کے باعث پشاور سے لاہور منتقل ہونا پڑا، اور پھر دہشتگردوں نے لاہور میں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا، مسلسل دھمکیوں اور خاندان کے تحفظ کی خاطر بیرون ملک منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔ رادھیش سنگھ اقلیتوں کے حقوق کیلئے ہمیشہ سے سرگرم رہے ہیں، سیاست کے میدان اور سماجی سطح پر بھی فعال رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے برطانیہ میں مقیم رادھیش سنگھ المعروف ٹونی بھائی کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)


اسلام ٹائمز: پاکستان ایک طویل عرصہ سے دہشتگردی کا مقابلہ کرتا آرہا ہے، آپ بھی پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے، پشاور میں گذشتہ ماہ ایک مدرسہ میں دھماکہ ہوا، آپ کے خیال میں کونسے عناصر پاکستان میں دہشتگردی کروانے میں ملوث ہیں۔؟
رادھیش سنگھ ٹونی:
پشاور کے مدرسہ میں گذشتہ دنوں دہشتگردی کا جو واقعہ ہوا، اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ گذشتہ چالیس سال کے دوران پاکستان میں دہشتگردی کے کئی واقعات رونماء ہوچکے ہیں۔ خاص طور پر پشاور میں ان گنت واقعات ہوئے ہیں۔ میری پچاس سال کے قریب عمر ہوچکی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ پشاور آئے روز دھماکوں سے گونجتا تھا۔ پشاور میں سب سے پہلا دھماکہ نوے کی دہائی میں قمر دین گڑھی کے ایک اسکول میں ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد اے پی ایس کا واقعہ اور اس طرح کے دیگر ان گنت واقعات ہوچکے ہیں۔ کمزوری تو نہیں کہوں گا، میں تو یہ کہوں گا کہ حکومت نے غلط عناصر کی پشت پناہیاں کی ہیں، حکومت ایسے لوگوں کو شہہ دیتی رہی ہے کہ جن کو وہ اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکے۔ میں مدرسہ میں پیش آنے والے دہشتگردی کے واقعے کی تو پرزور مذمت کرتا ہوں، لیکن دوسری جانب ایسے عناصر کو آج تک قانون کی گرفت میں نہیں لایا گیا کہ جو اس قسم کے دہشتگردی کے واقعات کرواتے ہیں اور رقم بٹورتے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: فرانسیسی صدر کیجانب سے پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) کی توہین کی گئی۔ کیا ایسے اقدامات عالمی امن کیلئے خطرہ نہیں۔؟
رادھیش سنگھ ٹونی:
جہاں تک فرانسیسی صدر کے بیان کی بات ہے تو ہمیں اس کو دیکھنا ہوگا کہ کسی بھی ملک کا صدر یا وزیراعظم ہو، اگر وہ کوئی ایسی بات کرتے ہیں تو اس کا کچھ نہ کچھ پس منظر ہوتا ہے، دوسری بات یہ کہ ہم نے بچپن سے دین اسلام کو پڑھا ہے، بہت اچھے طریقہ سے اس کی تعلیمات سے واقف بھی ہیں اور دین اسلام کی باتیں ہمیں بہت پسند بھی ہیں۔ ہم اس بات کی پرزور مذمت کرتے ہیں کہ جو فرانس میں ہوا، ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں۔ تمام ممالک میں جو اقلیتیں ہوتی ہیں، ان کے حقوق کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک آزاد ممالک ہیں، وہاں بولنے کی آزادی ہے، ہونا یہ چاہئے کہ آپ اس معاملہ کو سفارتی سطح پر اٹھائیں، اس سطح پر ان سے بات کی جائے۔ ایسی صورتحال میں بعض عناصر ملک میں افراتفری پیدا کردیتے ہیں۔

کہیں بھی اگر ایسا واقعہ ہوتا ہے تو ہمارے ملک میں ہڑتال اور ہنگامے شروع ہوجاتے ہیں، ایسی چیزیں نہیں ہونی چاہئیں۔ جہاں تک فرانسیسی صدر کی بات ہے تو پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کو ان سے بات کرنی چاہئے، چیف آف آرمی سٹاف، جو اصل میں وزیراعظم ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ فرانسیسی صدر سے بات کریں اور اس معاملہ کو سلجھائیں۔ جہاں تک عالمی امن کی بات ہے تو سب کو اس حوالے سے بیٹھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے، ہر مذہب والا دوسرے مذہب کا احترام کرتا ہے، یہ بھی دیکھیں کہ ایک ٹیچر نے ایسی بات کی تو ایک شاگرد نے اس کی گردن اتار دی۔ جو ٹیچر نے کیا وہ بھی قابل مذمت ہے اور جو شاگرد نے کیا وہ بھی قابل مذمت ہے۔ دنیا میں ایسے قوانین متعارف کرانے اور اخلاقی اسباب مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ فرانس وغیرہ کے لوگ ان باتوں کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیتے، تاہم ہمارے مسلم بھائی جو پاکستان سے وہاں گئے ہوتے ہیں وہ اس حوالے سے کافی حساس ہیں، لہذا ہمیں بیرون ممالک کے قوانین اور ان کے ماحول کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: مذاہب و مذہبی ہستیوں کی توہین کے اقدامات کو روکنے کیلئے آپکے خیال میں کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔؟
رادھیش سنگھ ٹونی:
اس حوالے سے سب سے اہم چیز اخلاقیات ہیں، ہر معاشرے میں خواتین کا پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے، خواتین کی اپنے مذہب سمیت دوسرے مذاہب کے حوالے سے آگاہی اور اخلاقیات کی تعلیم بہت ناگزیر ہے۔ کیونکہ معاشرے میں انسان بنانے کا اختیار خاتون کا ہے۔ مرد کا معاشرے میں کوئی اور کردار ہوتا ہے، خدا نے عورت کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ معاشرہ عورت نے بنانا ہوتا ہے، درس عورت نے دینا ہوتا ہے۔ اگر ہم پڑھی لکھی عورت بنانے میں کامیاب ہوجائیں تو معاشرے میں امن بھی آسکتا ہے اور کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ نہ تو کسی کی توہین ہوگی اور نہ ہی دل آزاری۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں۔؟
رادھیش سنگھ ٹونی:
دیکھیں جی، پاکستان میں تو یہ سیاسی لوگ اقلیتوں کو اقلیت سمجھتے نہیں تو انہیں حقوق کیا دیں گے۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ ہم آپ کو اقلیت نہیں سمجھتے بلکہ بھائی سمجھتے ہیں، لیکن درحقیقت ہمیں اقلیتوں کے حقوق بھی حاصل نہیں۔ اگر سیاست کی بات کی جائے تو کسی بھی سیاسی جماعت میں اقلیتوں کو سیاسی رول نہیں دیا جاتا بلکہ مینارٹی ونگ بنائے گئے ہیں۔ پاکستان پیلزپارٹی میں بعض مقامات پر اقلیتوں کے لوگوں کو جگہ دی گئی ہے، جہاں تک نوکریوں کی بات ہے تو نوکریوں کا کوٹہ ہی اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے کہ اگر پانچ دس نوکریاں نکلتی ہیں تو ان میں کبھی بھی اقلیتوں کا کوٹہ نہیں آتا۔ اگر سو اسامیاں آتی ہیں تو وہ پانچ فیصد کوٹہ بھی تقسیم کرکے ختم کردیا جاتا ہے۔ اگر تعلیم کی بات کی جائے تو میٹرک تک تو ہمارا بچہ آجاتا ہے لیکن اس سے آگے اس کیلئے سیٹ ہی نہیں ہوتی، کچھ اگر لائق بچے ہوتے ہیں تو ان کو کالج میں داخلہ مل جاتا ہے، جب انہیں آگے گریجویشن کیلئے یونیورسٹی جانا ہوتا ہے تو ان کیلئے آگے کوئی سیٹ یا کوٹہ نہیں ہے۔

کہنے اور سننے کیلئے بہت باتیں مل جاتی ہیں گراونڈ پر کچھ نہیں ہے۔ ہمارے پشاور میں آج تک شمشان گھاٹ نہیں ہے، اسی طرح باقی بھی کئی اضلاع میں شمشان گھاٹ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ہمیں کئی مسائل درپیش ہیں، ہمارے لئے فیملی لاز نہیں بنائے گئے ہیں۔ لہذا میں کس طرح کہہ دوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی برابری کی بات کی جاتی ہے تو اقلیتوں کو ان کے حقوق دیئے جاتے ہیں، معاشرے میں ایک مقام دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر اقلیتی کمیشن بنایا گیا ہے تو وہ بھی فرضی کمیشن ہے، گذشتہ دنوں کراچی سے ایک تیرہ سالہ بچی جو اٹھائی گئی، اس پر اس کمیشن نے ایک فرضی بیان تک جاری نہیں کیا۔ اس کے علاوہ سالانہ سینکڑوں بچیاں اٹھائی جاتی ہیں، ان کو زبردستی مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے، اس حوالے سے اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہمیں کوئی حقوق حاصل نہیں ہیں، سب جھوٹ ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں بسنے والی سکھ برادری ہندوستان میں جاری خالصتان تحریک کی کس حد تک حمایت کرتی ہے۔؟
رادھیش سنگھ ٹونی:
میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارا ملک دوسروں کے معاملات میں بہت مداخلت کرتا ہے، افغانستان کو تباہی کے راستے پر رکھا گیا ہے، اسی طرح کشمیر میں اور جہاں تک خالصتان تحریک کی بات ہے تو وہاں سکھوں کو ایک فٹبال بنایا گیا ہے، ایک طرف ہندوستان ہے تو دوسری طرف پاکستان ہے۔ ہمارے دسویں گورو نے کہہ دیا تھا کہ ’’راج کے بنا مذہب فروغ نہیں پاسکتا‘‘۔ وہ تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اورنگزیب نے لاکھوں ہندووں کو مار کر مسلمان کیا تھا، دنیا میں جتنے بھی سکھ ہیں وہ چاہتے ضرور ہیں کہ خالصتان بنے، ہماری بھی خواہش ہے کہ ہم بھی دنیا کے نقشے پر خالصتان دیکھیں، لیکن اس طرح نہیں کہ ہم کسی کے کہنے پر سکھ بھائیوں کی جانیں ضائع کروائیں، ہم دنیا سے ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ ہمارا سکھوں کا الگ ملک ہونا چاہئے، تاہم کسی کی لاش پر کھڑے ہوکر ہم اپنا وطن نہیں بنانا چاہتے۔ ہمیں گرووں نے ہمیشہ پیار محبت کا درس دیا ہے۔ جس طرح پاکستان بن گیا ہے، خالصتان بھی بن جائے گا، ہمیں صرف اور صرف اپنی آواز اقوام متحدہ تک اپنی آواز پہنچانی ہے اور وہ ہم پہنچا رہے ہیں لیکن کسی بھی طرح کی قتل و غارت گری کی حمایت نہیں کرتے۔


خبر کا کوڈ: 897854

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/897854/چیئرمین-مینارٹی-رائٹس-فورم-پاکستان-رادھیش-سنگھ-کا-خصوصی-انٹرویو

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org