QR CodeQR Code

کسی پاکستانی حکومت کیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے

شہادت خود طالب ہوتی ہے کہ حاج قاسم سلیمانی جیسی ہستی کب اسکی آغوش میں آئے، علامہ رمضان توقیر

شہید قاسم سلیمانی کے ہم فکر سالار ہی عالم اسلام کی محافظت کے ضامن ہیں

29 Dec 2020 11:35

شہید حاج قاسم سلیمانی برسی کی مناسبت سے شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب علامہ محمد رمضان توقیر نے اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ایک ایسی ہستی کہ جس کی حیات کا بیشتر حصہ بطور مجاہد محاذ پہ گزرا ہو۔ جس نے افرادی قوت، جنگی ساز و سامان و آلات کی کمی کے باوجود ہر محاذ پہ دشمن کو خاک چاٹنے پہ مجبور کیا ہو اور ایسا سالار کہ جو ہر خطہ زمین سے ایسی فوج تیار کرنا جانتا ہوکہ جو نہ مال غنیمت کی شیدائی ہو اور نہ ہی عیش و عشرت کی بلکہ محض خوشنودی خدا کی خاطر شیطانی طاقتوں کے خلاف قیام کا عزم رکھے۔ ایسی ہستی کیلئے خود شہادت طالب ہوتی ہے کہ کب یہ ہستی اس کی آغوش میں آئے۔ ان کے لہو کی ہیبت ملاحظہ فرمائیں کہ شہادت کے فوراً ہی بعد امریکہ کو عراق سے انخلاء پہ مجبور کر دیا۔


شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر اور سابق مشیر وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علامہ محمد رمضان توقیر کا بنیادی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے دور میں تحریک کی ضلعی صدارت سے باقاعدہ خدمات کا آغاز کیا، اسکے بعد تحریک کی صوبائی نائب صدارت اور پھر 1993ء میں صوبائی صدارت کی ذمہ داریاں آپکو سونپی گئیں، 4 سال بعد تحریک کے مرکزی رہنماء کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے اور پھر صوبائی سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ بعد ازاں شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں مخصوص حالات کے باوجود یہاں اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے میں انکا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ دینی جماعتوں کے غیر فعال اتحاد متحدہ مجلس عمل کے رہنما بھی رہے، ''اسلام ٹائمز'' نے علامہ محمد رمضان توقیر سے خصوصی ملاقات کی۔ جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جاری چہ مگوئیاں اور شہید حاج قاسم سلیمانی کی برسی کے عنوان جو گفتگو ہوئی، وہ انٹرویو کی صورت پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: تین ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ڈی آئی خان میں قتل ہونیوالے صحافی قیس جاوید کے قاتل تاحال گرفتار نہیں ہوسکے، آپکے نزدیک اسکی کیا ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
یہ المیہ ہے، صرف قیس جاوید ہی کیا، ڈیرہ اسماعیل خان کی سرزمین پر اندھے قتل کے سینکڑوں سانحات سوالیہ نشان ہیں اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہ سانحات کسی ایک یا کسی خاص دور حکومت میں وقوع پذیر نہیں ہوئے بلکہ مختلف ادوار میں پیش آئے۔ البتہ ان سانحات میں یہ چیز مشترک ہے کہ ان کو انجام دینے والے قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔ کیفر کردار تک نہیں پہنچتے۔ صحافی قیس جاوید کے قتل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایک معروف صحافی کو گھر کے دروازے پہ قتل کر دیا گیا۔ آج کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود قاتل گرفتار نہیں ہوسکے۔ میں نے پہلے بھی اپنے مذمتی بیان میں مطالبہ کیا تھا کہ اس قتل میں دہشتگردی کی دفعات شامل کی جائیں اور فی الفور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پولیس اور دیگر اداروں کو چاہیئے کہ ہر طرح کے وسائل بروئے کار لاکر اس کیس کو حل کیا جائے، تاکہ میڈیا سے متعلق افراد سمیت عوام میں پائے جانے والے عدم تحفظ کے احساس کو زائل کیا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک بڑی تیزی سے جاری ہے، کیا یہ تحریک حکومتی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
حکومت کے خلاف جو جماعتیں تحریک چلا رہی ہیں، وہ خود کئی مرتبہ اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ عوام انہیں بھی دیکھ چکے ہیں۔ ان کے ادوار میں بھی کوئی دودھ کی نہریں نہیں بہتی تھیں۔ موجودہ حکومت کی کارگردگی زیادہ اچھی نہ سہی مگر پی ڈی ایم کی تحریک سے کوئی بڑی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ علاوہ ازیں پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بظاہر ایک سیاسی پلیٹ فارم پر موجود ہیں مگر خود بھی اختلافات کا شکار تو ہیں اور حکومت کے خلاف اپنائی جانے والی حکمت عملی پر بھی آپسی اختلافات کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایم کا حکومتی تبدیلی اور نئے انتخابات کا جو ایجنڈا ہے، وہ بھی زیادہ عوامی نہیں ہے، چنانچہ یہ تحریک حکومت پر ایک پریشر تو بنا سکتی ہے مگر اس سے بڑھ کر کامیابی غیر متوقع ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آپکی جماعت مولانا فضل الرحمان کی حلیف جماعت ہے تو کیا آپ پی ڈی ایم کا حصہ ہیں۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
ہماری جماعت بابصیرت قیادت رکھتی ہے، ہم پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے ایجنڈے و عزائم سے اتفاق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام مظلوم و غریب شہری ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ کچھ مدت کیلئے اقتدار کے حصول کی جنگ کو چھوڑ کر عوام کی تعلیم و تربیت، فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی پہ توجہ دیں۔ عوام کے مسائل کا حل حکومتی تبدیلی یا بار بار انتخابات میں نہیں بلکہ عوام دوست پالیسیاں ترتیب دینے میں ہے۔ اس کے علاوہ اداروں کی آزادی و مضبوطی ہی ملکی استحکام کا باعث بنتی ہے جبکہ ریاستی اداروں کے خلاف منفی پروپگینڈا لامحالہ ریاست کی کمزوری کا باعث بنتا ہے، چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں کے ساتھ تعاون کی روش اپنائی جائے ۔ البتہ ان عناصر کی نشاندہی میں کوئی عار نہیں کہ جو عوامی اور ریاستی مفاد کو ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: موجودہ دور حکومت میں ایک مرتبہ پھر سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ کیا سمجھتے ہیں کہ حکومت ایسا کوئی اقدام لے گی اور ایسی صورت میں کیا ممکنہ ردعمل ہوگا۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
امریکہ و اسرائیل نواز طاقتیں ہر دور میں اسرائیل موضوع کی حساسیت کو کم کرنے اور عوام میں اس کے خلاف پائے جانے والے شدید ردعمل کا درجہ حرارت کم کرنے کے لیے گاہے بگاہے میڈیا کے ذریعے یہ تذکرہ جاری رکھتی ہیں۔ تاہم یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے۔ اس کی اجازت نہ ہی پاکستان کا آئین دیتا ہے اور نہ ہی قانون۔ علاوہ ازیں بانی پاکستان کا بھی اسرائیل کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک موقف موجود ہے۔ ان سب سے بڑھ کر پاکستان کے اسلام اور مسلمان پسند کبھی بھی کسی حکومت کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ایسی ناجائز، غیر قانونی قوت کو بطور ریاست تسلیم کرے، جو فلسطین کے آزاد مسلمانوں کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہو۔

باقی جب جب اسرائیل کے حق میں کسی کونے کھدرے سے امریکہ، اسرائیل یا کسی عرب نواز کا کوئی بیان سامنے آیا ہے تو اس سے کئی گنا زیادہ ایسے جلسے، جلوس، سیمینارز کانفرنسیں بھی منعقد ہوئی ہیں کہ جن کا نعرہ تحریک آزادی فلسطین کی حمایت، فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی تھا۔ ان اجتماعات میں درجنوں، بیسیوں یا سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں عوام کی شرکت بھی دنیا نے دیکھی اور یہ بھی دیکھا کہ ان اجتماعات میں ہر شعبہ ہائے زندگی اور ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے، لہذا میرے نزدیک کسی حکومت کیلئے ایسا ممکن نہیں کہ پاکستان کے آئین و قانون، عوامی مرضی و منشا اور بانی پاکستان کے موقف کو نظرانداز کرتے ہوئے محض امریکی خواہش کے پیش نظر اسرائیل کو تسلیم کرے۔

اسلام ٹائمز: ان تمام امور کو نظرانداز کرتے ہوئے اگر کوئی حکومت ایسا قدم اٹھاتی ہے تو پھر کیا ہوگا۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
عوامی غیض و غضب کے سامنے ایسی حکومت خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی اور ایسے کسی بھی اقدام سے حکومت کو باز رکھنے کیلئے مذہبی و آزاد سیاسی جماعتیں ہر حد تک جائیں گی۔

اسلام ٹائمز: عرب ممالک اسرائیل کی محبت میں گرے جا رہے ہیں اور یکے بعد دیگرے اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں، ان عرب ممالک کا پاکستان میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ کیا یہ پاکستان پہ دباؤ نہیں ڈالیں گے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
ہمارے سامنے تو عرب پہلے ہی بے نقاب تھے۔ اب ان کے سامنے بھی عربوں کا اصلی چہرہ بے نقاب ہوا ہے کہ جو انہیں اسلام اور مسلمانوں کا خیر خواہ مانتے تھے۔ کیا آپ کو دکھائی نہیں دیتا کہ اسرائیل کو اعلانیہ تسلیم کرنے کے بعد پاکستان میں عربوں کی بے جا وکالت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ پاکستان سمیت کئی ممالک کے سادہ لوح عوام کو عربوں کے نمک خواروں نے یہ باور کرایا ہوا تھا کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے حامی اور خیرخواہ ہیں۔ اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد ان کی حقیقت بے نقاب ہوچکی ہے۔ آپ یہ بھی دیکھیں کہ اسرائیل کو وہی ممالک زیادہ عجلت کے ساتھ قبول کر رہے ہیں کہ جو پہلے سے ہی مکمل طور پر امریکہ کے زیردست ہیں اور وہاں کے عوام اپنے حکمرانوں سے شدید شاکی ہیں۔

عوام مخالف ایسے اقدامات سے اور ظلم و ظالم کی حمایت سے ان حکمرانوں کی گرفت اقتدار اور ریاست پر بتدریج کمزور ہوتی جائے گی اور بالآخر یہاں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ پاکستان میں عربوں کے اثر و رسوخ سے انکار ممکن نہیں، مگر اسرائیل دوست اقدامات سے یہ اثر و رسوخ بھی متاثر ہوا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے عوام میں جس طرح اسرائیل کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں، وہیں اداروں کی پالیسی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف ہے۔ حکومتوں کو پریشرائز کرنے اور انہیں دفاعی پوزیشن پہ لانے کیلئے ایسی باتوں کو ہوا دی جاتی ہے کہ جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔

اسلام ٹائمز: شہید حاج قاسم سلیمانی کی پہلی برسی کی آمد ہے اور ایران کی انقلابی حکومت کیجانب سے انتقام سخت کی تکرار جاری ہے، یہ انتقام سخت کیا ہے۔؟ 
علامہ محمد رمضان توقیر:
آپ عالمی حالات کا ایک سرسری جائزہ لیں تو آپ کو دکھائی دے گا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا میں وہ اکلوتی قوت ہے جو کہ دنیا بھر میں بالعموم اور خطے میں بالخصوص امریکی و اسرائیلی مفادات کے راہ میں دیوار کی طرح حائل ہے اور یہ دیوار اتنی مضبوط ہے کہ امریکہ اور اس کے دوست ممالک جن میں بیشتر عرب ملک بھی شامل ہیں، ہر طرح کی کوششوں کے باوجود نہ ہی اس دیوار کو عبور کر پائے ہیں اور نہ ہی اسے کمزور کر پائے ہیں۔ شہید حاج قاسم سلیمانی اس دیوار کی تعمیر کا کلیدی کردار تھے۔ خطے میں امریکی و اسرائیلی عزائم کے سامنے بند باندھنے والے معمار تھے۔ ایک ایسی ہستی کہ جس کی حیات کا بیشتر حصہ بطور مجاہد محاذ پہ گزرا ہو۔ جس نے افرادی قوت، جنگی ساز و سامان و آلات کی کمی کے باوجود ہر محاذ پہ دشمن کو خاک چاٹنے پہ مجبور کیا ہو اور ایسا سالار کہ جو ہر خطہ زمین سے ایسی فوج تیار کرنا جانتا ہو کہ جو نہ مال غنیمت کی شیدائی ہو اور نہ ہی عیش و عشرت کی بلکہ محض خوشنودی خدا کی خاطر شیطانی طاقتوں کے خلاف قیام کا عزم رکھے۔

ایسی ہستی کیلئے خود شہادت طالب ہوتی ہے کہ کب یہ ہستی اس کی آغوش میں آئے۔ ان کے لہو کی ہیبت ملاحظہ فرمائیں کہ شہادت کے فوراً ہی بعد امریکہ کو عراق سے انخلاء پر مجبور کر دیا۔ جہاں تک ایران اور دنیا بھر میں امریکہ و اسرائیل کے خلاف جاری مقاومتی تحریکوں کی جانب سے انتقام سخت کی اصطلاح کا تعلق ہے تو شہید قدس، سالار حاج قاسم سلیمانی کے بدلے میں دشمن کا کوئی جرنیل، کوئی کمانڈر قتل کرنا کوئی انتقام نہیں ہے۔ شہید قدس اور ان کے رفقاء کا نعم البدل کوئی شخص یا گروہ نہیں ہوسکتا بلکہ دنیا بھر میں بالعموم اور اسلامی دنیا بالخصوص خطے سے سامراجی طاقتوں کو نکال باہر کرنا انتقام سخت ہے۔ ایسا انتقام کہ جو دشمن کیلئے خلاف توقع اور شدید ہو اور جس سے دشمن اپنے ارادوں و منصوبوں میں ناکامی و نامرادی سے دوچار ہو۔ یہ انتقام سخت ہے اور یہ جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا شہید قاسم سلیمانی کی شہادت خطے میں انقلابی قوتوں کی ناتوانی کا باعث بنے گی۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
شہید حاج قاسم سلیمانی اپنی ظاہری حیات میں جس طرح ہر محاذ پہ کامیاب و سرخرو رہے، اس طرح بعد از شہادت بھی ان کا لہو کامیاب و سرخرو ہے۔ بعد از شہادت بھی ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے اور ان کی شہادت کے بعد جس طرح ان کی حیات اور محاذ جنگ پہ ان کی سپاہانہ حکمت عملی کے مختلف پہلو اب دنیا کے سامنے اجاگر ہو رہے ہیں تو نہ صرف عوامی حلقوں بلکہ عسکری حلقوں میں انہیں آئیڈیل مانا جا رہا ہے۔ آج کروڑوں لوگ ان سے عقیدت و محبت کا اظہار کر رہے ہیں تو یہ امور انقلاب کی قوت و طاقت میں اضافے کا باعث ہیں۔ بظاہر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ جیسے اس شہادت کے بعد انقلابی قوتیں، مقاومتی تحریکیں اب کمزور پڑ جائیں گی، تاہم معاملہ اس کے الٹ رہا۔ شہید قاسم سلیمانی کے فن حرب و ضرب سے متعلق صلاحیتوں کا اپنوں اور غیروں نے اعتراف کیا۔ آج عالم اسلام کو قاسم سلیمانی کی سیرت و کردار اور فکر و صلاحیتیں رکھنے والے سپہ سالاروں کی ضرورت ہے اور ایسے ہی سالار عالم اسلام کے دائمی تحفظ کی ضمانت دے سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: انکی برسی کی مناسبت سے کیا آپ بھی کسی تقریب کا انعقاد کر رہے ہیں۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
ہم نے یہاں مجلس ترحیم کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں علماء کرام، ذاکرین اور مدرسین نے اظہار خیال کیا تھا۔ علاوہ ازیں ان کی برسی کے موقع پہ ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جس میں چنیدہ اسکالرز اور علماء اظہار خیال فرمائیں گے، چونکہ کورونا کی وجہ سے بڑے عوامی اجتماعات پہ پابندی ہے تو یہ کانفرنس ایس او پیز کو ملحوظ رکھ کر منعقد کی جا رہی ہے۔


خبر کا کوڈ: 906783

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/906783/شہادت-خود-طالب-ہوتی-ہے-کہ-حاج-قاسم-سلیمانی-جیسی-ہستی-کب-اسکی-ا-غوش-میں-ا-ئے-علامہ-رمضان-توقیر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org