0
Friday 1 Jan 2021 02:30
قاسم سلیمانی نے داعش کو شکست دیکر انسانیت کا دفاع کیا

شہید سلیمانی کسی خاص مسلک نہیں بلکہ امت مسلمہ کے نمائندے تھے، علامہ سید عبدالحسین

شہید سلیمانی کسی خاص مسلک نہیں بلکہ امت مسلمہ کے نمائندے تھے، علامہ سید عبدالحسین
علامہ سید عبدالحسین الحسینی کا بنیادی تعلق ضلع ہنگو کے علاقہ ابراہیم زئی سے ہے، انہوں نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ سے حاصل کی۔ جسکے بعد جامعۃ المنتظر لاہور سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال تک جامع مسجد محمد علی سوسائٹی کراچی میں خطیب کی حیثیت سے ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ اسکے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے اور وہاں سپریم کورٹ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ پاکستان واپسی پر وحدت کونسل ہنگو کے سینیئر نائب صدر کے طور پر عہدہ سنبھالا اور پھر مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے قومی و ملی ذمہ داریاں سنبھالیں، علامہ سید عبدالحسین الحسینی علاقہ بنگش (ہنگو، کوہاٹ، اورکزئی) کی ایک فعال تنظیم وحدت کونسل کے صدر ہیں،  ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے عالم اسلام کے عظیم سپاہ سالار اور مدافع مقدسات حاج سردار شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور انکے رفقاء کی پہلی برسی کی آمد کے سلسلے میں ملک کی اہم مذہبی، سیاسی اور صاحب رائے شخصیات کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا ہے، تاکہ عالم اسلام کے ان عظیم شہداء کے کارناموں کو امت مسلمہ کی بیداری کا وسیلہ بنایا جائے۔ اسی سلسلہ میں علامہ سید عبدالحسین الحسینی کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا گیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: شہید قاسم سلیمانی کی جامع شخصیت کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور امریکہ نے آخر انہیں قتل کیوں کیا۔؟
علامہ سید عبدالحسین الحسینی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے ایک عظیم شہید کے حوالے سے مجھے بولنے کا موقع فراہم کیا۔ سب سے پہلے تو میں انکی برسی کے موقع پر رہبر معظم سید علی خامنہ ای، شہید کے خانوادے، ایران کے عوام اور تمام امت مسلمہ کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ شہید قاسم سلیمانی کسی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک مشن اور تحریک کا نام ہے، ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے۔ خدا اپنے کم ہی بندوں کو ایسی خصوصیات سے نوازتا ہے، جو کہ شہید قاسم سلیمانی کے اندر موجود تھیں۔ وہ دنیا کے حالات اور خاص طور پر دشمن کی سازشوں کو انتہائی قریب سے دیکھ لیتے تھے اور اسی کے تناظر میں اسلام اور مسلمانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کیلئے جو کچھ کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو انکا شکرگزار ہونا چاہیئے تھا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ امریکہ نے انہیں کیوں شہید کیا، تو اس حوالے سے میں یہی کہوں گا کہ ایسی شخصیات کا انجام شہادت ہی ہوتی ہے، ایسے لوگوں کو شہید ہونا ہی زیب دیتا ہے۔ جب وہ امریکہ کے تمام تر مکروہ منصوبوں کو اپنی دانشمندی اور شجاعت سے ناکام بنا رہے تھے تو امریکہ نے تو انہیں اپنے راستے سے ہٹانا ہی تھا۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں شہید قاسم سلیمانی نے فلسطینیوں کے ہاتھ کیسے مضبوط بنائے۔؟
علامہ سید عبدالحسین:
اگر کوئی یہ کہے کہ قاسم سلیمانی تو شیعہ تھا، اس نے شیعوں کا تحفظ کیا، تو میں کہتا ہوں کہ اگر اس نے صرف شیعوں کا تحفظ کرنا ہوتا تو ہر جگہ قدس کی بات کیوں کرتا تھا۔؟ وہ اسرائیل کا دشمن نمبر ایک کیوں تھا۔؟ وہ تو فلسطین کے سنیوں کیلئے بھی اسی طرح پریشان رہتا تھا، جس طرح ایران کے شیعوں کیلئے۔ اس کی نظر میں شیعہ، سنی نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام اور مسلمان تھے۔ وہ امت مسلمہ کا ہیرو تھا نہ کہ کسی مخصوص مسلک کا۔ جنرل قاسم سلیمانی نے دنیا بھر میں فلسطین کے مسئلہ کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا، وہاں کے مجاہدین کی مدد کی، اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان میں مجاہدین کو مضبوط کیا۔ وہ تو قدس کی آزادی کیلئے آخری سانس تک لڑتے رہے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی مزاحمت کی جڑیں مضبوط ہونے اور استعمار کی کمزوری میں شہید قاسم سلیمانی کے کردار کو آپ کیسے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عبدالحسین:
جب امریکہ نے داعش کے ذریعے اس خطہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو امریکہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قاسم سلیمانی ہی بنے، ان کی ایک رات شام میں ہوتی تھی تو صبح عراق میں، دن ایران میں تو شام کسی اور ملک میں۔ انہوں نے امریکہ مخالف اسلامی ممالک کو شعور اور جنگی حکمت عملی کے ذریعے دشمن کی سازشوں کے مقابلہ میں تیار کیا۔ وہ جنگی میدان میں اس قدر صلاحیتوں کے مالک تھے کہ دشمن بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے دفاعی معاملات میں ایران کے اتحادی ممالک کو مضبوط کیا، جس کی وجہ سے امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی ازخود کمزور ہوئے، جس طریقہ سے امریکیوں نے بھی اقرار کیا ہے کہ امریکہ اربوں روپے کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور اس کی وہ ساری منصوبہ بندی سید علی خامنہ ای کی ایک تقریر خاک میں ملا دیتی ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ رہبر کی اس تقریر کو عملی شکل قاسم سلیمانی جیسے ہیرے عطا کرتے ہیں۔ وہ اپنے رہبر کے ہر حکم کی تعمیل میں پیش پیش رہتے تھے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی نہ صرف عالم اسلام اور عرب دنیا میں اسلام پسند عناصر میں محبوب تھے بلکہ حتیٰ عرب دنیا کا قوم پرست طبقہ اور عیسائی برادری بھی ان پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔؟
علامہ سید عبدالحسین:
آپ نے بالکل درست فرمایا، میں نے کہا نہ کہ وہ ایک مسلک کے نمائندے نہیں تھے، انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا بلکہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی جان کے تحفظ کو بھی اپنا شرعی فریضہ سمجھتے تھے۔ مجھے بتائیں کہ کیا اس جنگ زدہ خطہ میں صرف مسلمان آباد تھے۔؟ داعش سمیت دیگر دہشتگرد گروہ تو عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی قتل کر رہے تھے، قاسم سلیمانی نے تو ان انسانیت دشمن دہشتگردوں کو شکست دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر طبقہ میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور شہادت کے بعد بھی آپ نے دیکھا کہ کس طرح لوگ ان کی شہادت پر غمزدہ تھے۔

اسلام ٹائمز: شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی برسی کی مناسبت سے کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔؟
علامہ سید عبدالحسین:
یہی پیغام ہے کہ ان شہداء نے تو اپنا کام کر دیا، اب ہمارا فرض ہے کہ ان کے مشن کو زندہ رکھتے ہوئے استعمار کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں، میں دعوت فکر دیتا ہوں، دنیا بھر کے مسلم ممالک کو، کہ وہ بھی اپنا شرعی فریضہ سمجھیں۔ امت مسلمہ کا دفاع صرف ایران کا کام نہیں، پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے اور امریکہ اور اسرائیل کے دباو میں آئے بغیر امت مسلمہ کی خاطر تمام مسلم ممالک ایک پیج پر آئیں، اپنے دشمن اور دوست میں تمیز کریں۔ خائن اسلامی ممالک کی پہچان کریں، شہید سلیمانی نے تو ایک گائیڈ لائن فراہم کر دی ہے۔ موت تو ایک دن آنی ہے، اس کا تو وقت معین ہے، لیکن کیا ہی اچھا ہے کہ بستر پر موت آنے کے بجائے میدان جنگ میں موت آئے یا پھر دشمن سے کسی نہ کسی محاذ پر نبرد آزما رہتے ہوئے آپ شہید ہوں۔
خبر کا کوڈ : 907290
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش