1
0
Tuesday 26 Jan 2021 20:35
قاسم سلیمانی کسی ایک ملک، قوم، یا مسلک کے نہیں بلکہ امت مسلمہ کے ہیرو ہیں

کرم میں قبائل کے مابین تنازعات ختم کرنے میں حکومت نے کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی، مولانا منیر حسین جعفری

کرم میں قبائل کے مابین تنازعات ختم کرنے میں حکومت نے کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی، مولانا منیر حسین جعفری
مولانا منیر حسین جعفری نے شہید علامہ سید عارف حسین  الحسینی اور علامہ سید عابد حسین الحسینی سے کسب فیض کرتے ہوئے ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں حاصل کی جبکہ اعلٰی دینی تعلیم کیلئے قم چلے گئے، قم میں کئی سال گزارنے کے بعد وطن لوٹ کر اپنا زیادہ تر وقت قوم کی خدمت کیلئے وقف کر دیا۔ ابتداء ہی سے تحریک حسینی میں فعال رہنما کی حیثیت سے کام کرتے رہے، بالآخر 2012ء میں تحریک کے صدر منتخب ہوئے اور پھر 2014ء میں دوبارہ صدر منتخب ہوکر 2016ء تک بحیثیت صدر تحریک حسینی مسلسل چار سال تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اسکے بعد بھی تحریک حسینی کی سپریم کونسل کے ممبر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے پاراچنار کی موجودہ صورتحال نیز شہدائے حریم زینبی کی برسی کے حوالے سے انکے ساتھ ایک نشست رکھی، جسے اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب! کرم میں جائیداد اور پہاڑوں پر قبائل کے مابین جو تنازعات پائے جاتے ہیں، جن پر فریقین کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں، انکا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکلا ہے کہ نہیں۔؟
مولانا منیر حسین جعفری: یہ تنازعات عشروں سے چلے آرہے ہیں۔ ان کا واحد حل صرف اور صرف حکومت کے پاس موجود ہے، کیونکہ اس کے پاس ریونیو ریکارڈ موجود ہے۔ جس کی روشنی میں وہ ہر حق کو حقدار تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر حکومت اپنے صوبدیدی اختیارات کا استعمال کبھی کرتی ہی نہیں، چنانچہ ان مسائل کا فوری طور پر کوئی حل نظر نہیں آرہا۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ سال جون کے مہینے میں جھڑپوں کے بعد سنا ہے کہ معاملے کے حل کیلئے جرگہ تشکیل دیا گیا، اس جرگے نے کوئی حل نہیں ڈھونڈا۔؟
مولانا منیر حسین جعفری: بڑے قبائل کے مابین جرگہ کوئی معمولی کام نہیں۔ اس سطح پر جرگہ کی اپنی کوئی خاص حیثیت اور اختیار نہیں ہوا کرتا، بلکہ بنیادی کردار حکومت ہی کا ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ جب تک حکومت خود کوئی دلچسپی نہیں لیتی، جرگہ ممبران کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

اسلام ٹائمز: کنج علی زئی، نستی کوٹ اور غوز گڑھی کے حوالے سے سنا ہے کہ ڈی سی اور فوج کے زیر نگرانی وہاں ریونیو سٹاف نے نقشہ تیار کیا ہے اور یہ کہ حد بندی بھی کرائی ہے، اس بارے میں کیا خیال ہے۔؟ 
مولانا منیر حسین جعفری: ہاں، حلقہ کا پٹواری اور گرداور گئے تھے۔ انہوں نے نقشہ تیار کیا ہے۔ شاید حقوق کا تعین بھی کر لیا ہوگا۔ تاہم ایک بات واضح ہو کہ یہاں حد بندی کا کوئی حق نہیں بنتا، حکام بالا پر ہم یہ پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ حد بندی ہمیشہ مالکان کے مابین کرائی جاتی ہے، جبکہ یہاں ایک مالک ہے، دوسرا کرایہ دار۔ کرایہ دار جسے ہم مقامی سطح پر ہمسایہ کہتے ہیں، مالک ہوتا ہی نہیں، اسکے ساتھ حد بندی کا کیا جواز۔ اسے تو جب بھی مالک چاہے، نکال دے اور وہ جاکر کہیں اور پر مکان حاصل کرے۔ چنانچہ یہاں حد بندی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی جواز۔

اسلام ٹائمز: کرم کے سینکڑوں افراد کو خلیجی ممالک سے نکال باہر کرایا جا رہا ہے۔ اس پر ابھی تک آپکی جانب سے یا پاکستان میں کہیں اور کوئی ردعمل سامنے آیا ہے۔؟
مولانا منیر حسین جعفری: بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 2010ء کے دوران ہزاروں اہلیان کرم کو بغیر کسی جرم کے بلکہ صرف اور صرف محبت اہل بیت کی پاداش میں وہاں سے نکال دیا گیا۔ کروڑوں مالیت کا کاروبار اور بونس وغیرہ وہاں پھنس کر رہ گیا۔ اس حوالے سے کوئی مداوا نہ کرایا گیا۔ متاثرین میں سے بعض اہل ثروت نے تو یورپ اور دیگر ممالک کا سفر اختیار کیا جبکہ مجبور اور غریب لوگ فاقوں پر مجبور ہوگئے۔ کئی سال بعد اس مرتبہ ایک بار پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس دفعہ تو انہوں نے مزید حد کردی کہ لوگوں کو اٹھا کر کئی ہفتوں بلکہ کئی ماہ تک غائب کروایا۔ جن میں سے درجنوں اب بھی لاپتہ ہیں۔ انہیں جیلوں میں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں، جبکہ حکومت پاکستان سے اس حوالے سے رابطے ہوئے۔ مگر حکومت نے اس حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ لگتا ہے کہ ہماری حکومت کا اپنا کوئی اختیار نہیں بلکہ یہ کسی مرکزی عرب حکومت کے ماتحت ایک صوبہ یا ضلع ہے۔ چنانچہ ابھی تک اس حوالے سے ہمارے لوگوں نے اپنی طرف سے احتجاج کے علاوہ اپنی آواز بھی پہنچائی ہے، تاہم کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک حسینی کے زیر اہتمام عشرہ شہداء حریم زینبی، آزادی قدس، کشمیر اور شہدائے کرم کے حوالے سے ذرا بتائیں کہ ملک کے باہر کے شہداء کی یاد یہاں منانے کا کیا فائدہ ہے۔؟  
مولانا منیر حسین جعفری: شہداء کا تعلق اگر ایک خاص مشن اور اپنے ہی دین سے ہو تو اس کے لئے کوئی سرحد نہیں۔ شہید سلیمانی، المہندس وغیرہ نے اپنے مفادات کی خاطر قربانی نہیں دی، بلکہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی اور دفاع کے لئے قربانی دی۔ چنانچہ وہ کسی خاص ملک، قوم، نسل اور مذہب کے شہداء نہیں بلکہ وہ شہدائے اسلام ہیں۔ انہوں نے بیت المقدس، امام حسین اور بی بی زینب علیہما السلام کی عزت کی خاطر دن رات ایک کرکے جہاد کیا اور بالآخر اسی راہ میں شہادت پائی، چنانچہ انکی یاد منانا ہم سب کا فریضہ ہے۔ باقی الحمد للہ ہم نے یکم جنوری سے 15 جنوری تک کرم بھر میں تقریباً 15 سے زائد پروگرامات منعقد کئے اور عوام الناس کو اسلام کی خاطر شہداء کی خدمات اور قربانیوں سے آگاہ کیا۔
خبر کا کوڈ : 912531
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Nooraan
Pakistan
(کرم میں قبائل کے مابین تنازعات ختم کرنے میں حکومت نے کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی، مولانا منیر حسین جعفری)
میرے محترم اہل کرم
اس خبر میں جو فوٹو آپ نے لگائی ہے، اس کی ایک وجہ آپ کی یہ پالیسی ہے کہ آپ نے بڑے پرچم پر خامنہ ای صاحب کا جھنڈا لگایا ہے۔ اسی وجہ سے وہ شیعوں پر ایرانی ہونے کا لیبل لگاتے ہیں۔
ہماری پیشکش