0
Saturday 27 Feb 2021 22:59
مسنگ پرسنز کا مسئلہ نہایت سیریئس ہے، لوگ کئی سالوں سے لاپتہ ہیں

کرم کے حقوق پر کوئی سودا بازی ہوگی اور نہ ہی اسکی اجازت دی جائیگی، علامہ سید عابد الحسینی

کرم کے حقوق پر کوئی سودا بازی ہوگی اور نہ ہی اسکی اجازت دی جائیگی، علامہ سید عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے کرم کے موجودہ مسائل  کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! اہلیان کرم کے حقوق کے حوالے سے آپ اکثر آواز اٹھاتے آرہے ہیں، مگر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کچھ عرصہ سے خاموش ہیں، کیا اسکے پیچھے کوئی مصلحت ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
 بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ بات درست نہیں کہ ہم خاموش ہوگئے ہیں۔ ہاں شاید ہم میں کوئی خامی بھی ہو، تاہم کرم کے حقوق کے حوالے سے کبھی خاموش نہیں ہونگے۔ اس کے علاوہ یہ ضروری بھی نہیں کہ ہم ہی آواز اٹھائیں بلکہ اگر کوئی اور آواز اٹھائے تو ہم اس کی بھی تائید کریں گے۔ اس حوالے سے یہ کبھی نہیں دیکھیں گے کہ آواز کس نے اٹھائی ہے، بلکہ میں تو عرصہ سے یہ بات کہتا آرہا ہوں کہ اس (طوری بنگش) قبیلے کا قائد وہی ہے، جو اس کے حقوق کے لئے آواز بلند کرے اور قیام کرے۔ خواہ وہ عالم ہو، ڈاکٹر ہو، استاد ہو، حتی وہ ہتھ گاڑی چلانے والا مزدور ہی کیوں نہ ہو۔

اسلام ٹائمز: بالش خیل اور کنج علی زئی کے مسئلے کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، اس حوالے سے کوئی پیشرفت ہوئی ہے یا مسئلہ جوں کہ توں پڑا ہے۔؟َ
علامہ سید عابد الحسینی:
ایک سال ہی نہیں بلکہ دہائیاں گزر چکی ہیں۔ حکومت اس مسئلے سمیت کرم کے کسی مسئلے کو بھی حل کرانے میں سنجیدہ نہیں، بلکہ ہر دفعہ عوام کو خاموش کرانے کے لئے ان کے مسئلے کو وقتی طور پر اٹھاتی ہے۔ اس پر کوئی کانفرنس بلاتی ہے۔ پھر مہینوں وہ مسئلہ سرد خانے میں پڑا رہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مسائل کے حل کیلئے حکومت کیجانب سے بائیس بائیس رکنی ایک کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے، اس حوالے سے آپکا کیا خیال ہے۔؟ 
علامہ سید عابد الحسینی:
ہم نے اس حوالے سے اپنے موقف کا اظہار کر دیا ہے۔ بائیس بائیس اراکین پر مشتمل جرگہ اسکا حل نہیں نکال سکتا۔ بیشک اس میں اچھے افراد بھی ہونگے، تاہم حکومت اکثر ایسے افراد کا انتخاب کرتی ہے، جو سو فیصد ان کی منشاء کے مطابق چلیں اور حکومت کے سامنے اپنے موقف کا اظہار نہ کرسکیں، جبکہ قومی مسائل کے حل کے لئے انجمن اور تحریک دونوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیئے۔ نمائندوں کے انتخاب کا حق انجمن اور تحریک کو دیا جائے۔ جو اپنی طرف سے ایسے افراد کا انتخاب کرسکیں، جو کسی کا حق غصب بھی نہ کریں اور ساتھ کسی پریشر میں آکر اپنے حق سے دستبردار بھی نہ ہوں۔

اسلام ٹائمز: یہ بھی ایک معمہ ہے، کیونکہ وہ تو ہمیشہ اپنا جائز و ناجائز موقف مخالف فریق پر مسلط کرتے رہیں گے تو مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھ جانے کا اندیشہ ہوگا؟ اس حوالے سے آپکا کیا خیال ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
اس حوالے سے بھی ہم نے حکومت کو ایک اختیار تو دے رکھا ہے، وہ اسی کو فالو کرے۔ وہ یہ کہ کاغذات مال کی روشنی میں حقدار کو اس کا حق دلا دے۔ چنانچہ جرگے کا رکن کچھ بھی کہے، جب کاغذات مال سے واضح ہو کہ یہاں حق طوری بنگش کے ساتھ نہیں تو ان سے دوسروں کا حق فوری طور پر لیا جائے۔ اس میں مشکل کس بات کی ہے۔؟

اسلام ٹائمز: دیگر قبائل کاغذات کے بجائے روایات پر زور دیتے ہیں تو کیا آپکو روایات قبول ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
یہ بات اکثر پاڑہ چمکنی کے لوگ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی ہمارا موقف واضح ہے کہ پہلے بارڈر لائن کا تعین کیا جائے کہ بالش خیل کا جو شاملاتی رقبہ ہے، جس پر تنازعہ چلا آرہا ہے۔ یہ علاقہ لوئر کرم کا علاقہ ہے یا ایف آر کا؟ اگر یہ علاقہ ایف آر میں شامل ہے تو پھر روایات پر بات کی جائے۔ تاہم اگر علاقہ لوئر کرم کا ہے تو یہاں ریونیو ریکارڈ موجود ہے۔ جب سرکاری ریونیو ریکارڈ موجود ہے تو روایات سے کوئی کام نہیں چلے گا۔ ریونیو ریکارڈ ہی کو ترجیح دی جانی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: مسنگ پرسنز کے حوالے سے ملک بھر میں بالخصوص اسلام آباد میں احتجاجات اور دھرنے ہو رہے ہیں، آپکا اس حوالے سے کیا موقف ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
بیشک مسنگ پرسنز کا مسئلہ نہایت سیریئس ہے۔ لوگ کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ ان لاپتہ افراد سے زیادہ تکلیف اور مشکل ان کے گھر والوں کو ہے۔ جنہیں اپنے پیاروں کا کچھ بھی علم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ لاپتہ افراد کو متعلقہ عدالتوں میں پیش کیا جائے اور عدالتوں کے توسط سے ان کی تحقیقات کرائی جائیں۔ اگر کسی پر انٹی سٹیٹ ٹائپ کا کوئی قابل سزا جرم ثابت ہوتا ہے تو بیشک اسے سزا دی جائے، ورنہ انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 918753
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش