2
0
Friday 19 Aug 2011 03:01

جمعۃ الوداع کو "یوم القدس" کا نام دے کر امام خمینی نے ایک اہم اور مبارک کام کیا ہے، جسکی ہم بھرپور حمایت کرتے ہیں، پروفیسر ابراہیم خان

جمعۃ الوداع کو "یوم القدس" کا نام دے کر امام خمینی نے ایک اہم اور مبارک کام کیا ہے، جسکی ہم بھرپور حمایت کرتے ہیں، پروفیسر ابراہیم خان
خیبر پختونخوا جماعت اسلامی کے صوبائی امیر اور سینیٹ کے ممبر پروفیسر ابراہیم خان 28 ستمبر 1954ء ہنجل امیر خاں تحصیل و ضلع بنوں میں پیدا ہوئے۔ پروفیسر صاحب کالج سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہو گئے۔ 1973ء سے 1975ء تک اسلامی جمعیت طلبہ بنوں شہر کی ذمہ داری ادا کی۔ 1975ء سے 1977ء تک گومل یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہے اور پھر 1977ء سے 1980ء تک اسلامی جمعیت طلبہ ڈیرہ اسماعیل خان کی ذمہ داری پر فائز رہے۔ 1982ء میں تعلیم کی تکمیل کے بعد پروفیسر ابراہیم صاحب کی گومل یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں بطور لیکچرر تقرری ہوئی اور یہاں پر 1985ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اسی دوران جماعت اسلامی پاکستان سے وابستہ ہو گئے اور پھر 1981ء سے 1982ء تک قیم جماعت اسلامی بنوں اور 1982ء سے 1984ء تک قیم جماعت اسلامی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ جون 1985ء میں قیم جماعت اسلامی صوبہ سرحد مقرر ہوئے اور 1994ء تک بطور قیم خدمات انجام دیتے رہے۔ اپریل 1994ء میں جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے امیر منتخب ہوئے اور اکتوبر 2003ء کو سینیٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے۔ فروری 2006ء میں دوبارہ سینیٹ کے لیے ان کا انتخاب عمل میں آیا۔ یوم القدس کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے اُن کا خصوصی انٹرویو کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز:قبلہ اول اور بیت المقدس کی اُمت مسلمہ کے لئے کیا اہمیت ہے؟ اس پر روشنی ڈالیں۔
پروفیسر ابراہیم خان:بلاشبہ حضور ص اور صحابہ کرام نے ہجرت کے بعد 17 ماہ تک بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز ادا کی اور 17 ماہ بعد تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا، اُس کے بعد حضور ص نے اپنا رخ بیت المقدس سے مسجد الحرام کی جانب پھیر لیا اور 3 مقامات ایسے ہیں جن کی زیارت کا حکم خود حضور ص نے دیا اول مسجد الحرام، دوم مسجد نبوی اور سوئم بیت المقدس۔ 1967ء میں اسرائیل کا قبضہ ہونے کے بعد مسلمانوں کو بیت المقدس کی جانب جانے کی اجازت نہیں ہے، نہ صرف مسلمان کو وہاں جانے سے روکا جا رہا ہے بلکہ وہاں کے مسلمانوں پر ظلم و ستم بھی ہو رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کے مسلمان حکمرانوں کی طرف سے القدس کی آزادی کیلے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ عرب ممالک اس کو عرب مسئلہ سمجھ رہے ہیں اور دوسرے اسلامی ممالک اس کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتے، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ التوا میں پڑا ہوا ہے۔ اگر تمام مسلمان حکمران یہ عزم کرکے اُٹھیں کہ ہم نے بیت المقدس کر اسرائیل کے قبضے سے چھڑانا ہے۔ تو ہم ہر صورت میں القدس کو اسرائیل سے آزاد کروا لیں گے، لیکن تمام مسلمانوں اور تمام اسلامی تنظیموں کی کوتاہی کی وجہ سے بیت المقدس اسرئیل کے قبضے میں ہے اور وہاں کے بسنے والے مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور کسی بھی اسلامی ملک کو القدس کی آزادی پر سوچنے کی فرصت نہیں۔ اس لحاظ سے انقلاب اسلامی ایران کے بانی آیت اللہ امام خمینی رہ نے اس مسئلے کو زندہ رکھنے کیلے جمعتہ الوداع کو یوم القدس کا نام دیا ہے اور یہ بہت اہم اور مبارک کام ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے پورے عالم اسلام کیلے، ایک اچھا پیغام ہے اور جماعت اسلامی کی طرف سے ہم اس کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور یوم القدس کے بیشتر پروگرامات میں ہم نے شرکت کی ہے اور انشاءاللہ آئندہ بھی شریک ہوں گے اور یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے کیونکہ قدس کے مسلمانوں کو یہود کے پنجے سے چھڑانا تمام عالم اسلام پر فرض ہے۔
اسلام ٹائمز:جیسا کہ آپ نے فرمایا کے امام خمینی نے جمعتہ الوداع کو یوم القدس کا نام دیا ہے اور القدس کی آزادی پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود القدس کی آزادی کے لیے لبنان میں حزب اللہ کے علاوہ جہان اسلام بالخصوص پاکستان میں کسی قسم کا کوئی کام نظر نہیں آ رہا اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
پروفیسر ابراہیم خان:جی ہاں اس کیلئے مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہو گی۔ یعنی حقیقت یہ ہے کے ایران کے بہت سارے اقدامات ایسے ہیں جن کی ہم تائید کرتے ہیں۔ ایران کے اندر بسنے والے اُمت کا حصہ ہیں لیکن وہ شیعہ ہیں اور ایلسنت اور اہل تشیع میں کچھ فاصلے ہیں اور اُن فاصلوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان فاصلوں کے باوجود کچھ لوگ اُن کی بات مان لیتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کے لیے فرقہ ایک رکاوٹ بن جاتا ہے، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کے پوری امت ایک امت بن جائے۔ حقیقت تو یہ ہے جب کفر ہمارے اُوپر حملہ آور ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کے کون شیعہ ہے اور کون سنی، کفر تو صرف مسلمان پر حملہ کرتا ہے۔ اگر ہم فرقہ واریت کو بھول جائیں اور مسلمان کی حیثیت کو مقدم رکھیں تو شائد اس مشکل پر بھی ہم قابو کرسکیں۔ لیکن اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہو گی اور فوری طور پر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، لیکن اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: بیت المقدس مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اور اسلام میں بے حد اہمیت رکھتا ہے اسکے باوجود ابھی تک اس پر اسرائیل کا قبضہ کیوں قائم ہے؟
پروفیسر ابراہیم خان:اسکی بڑی وجہ صیہونیوں کا سازشی ذہن ہے، صیہونی نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ پوری دنیا کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی سازشوں کے ذریعے امریکہ کو بھی پھانس رکھا ہے اور بدقسمتی سے اس وقت قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اسی امریکہ کی پشت پناہی کے نتیجے میں اسرائیل معرض وجود میں آیا۔ وہ ابھی تک قدس پر اپنا قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کے مسلم حکمران الا ماشاء اللہ امریکہ سے خائف ہیں، اللہ کا خوف اُن کے دلوں میں نہیں اور امریکہ کا خوف ان کے سینوں میں ہے۔ اس وجہ سے وہ قدس کی آزادی کے لئے کوئی اقدام کرنے سے گریزاں ہیں اور قدس کی آزادی کے لئے جو کچھ ہونا چاہئے تھا  ویسا کچھ نہیں ہو رہا۔ اس وقت مصر میں تبدیلی آ رہی ہے۔ حسنی مبارک کی حکومت نے غزہ کے محاصرے میں شرکت کر کے غزہ کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا، مصر کی جو سرحد فلسطین کے ساتھ تھی، اسے مصر کی حکومت بند رکھتی تھی، ابھی موجودہ حکومت نے غزہ کے محاصرے کو کسی حد تک ختم کیا ہے، اللہ کرے کے مصر میں اب کوئی باشعور اور اچھے مسلمان اقتدار میں آجائیں اور فلسطین کے مسلمانوں کو اردن اور مصر کی طرف سے امداد شروع ہو جائے، تو اس کی دیکھا دیکھی باقی اسلامی ممالک اس طرف متوجہ ہوں تو پھر مسجد اقصٰی کو آزاد کرایا جا سکتا ہے۔
اسلام ٹائمز:آخر میں آپ جماعت اسلامی کی طرف سے فلسطین کی عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
پروفیسر ابراہیم خان:القدس کے مسلمانوں کو ان کی جدوجہد پر ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، انہوں نے قربانیاں دی ہیں اور وہ اس وقت بھی ڈٹے ہوے ہیں، تمام تر مشکلات کے باوجود انہوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور یہ اُن کی ایمانی جرات ہے۔ مجھے یقین ہے کے ایک دن بیت المقدس ضرور آزاد ہو گا، انشاءاللہ۔
خبر کا کوڈ : 92641
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

salam, nice interview. Jamat islami koo bee zaroorat hai, Shia Momneen kay sath shana bashana youm ul quds manain.
Pakistan
please read it
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش