0
Saturday 20 Aug 2011 17:33

امام خمینی رہ عالم اسلام کے بہت بڑے اور عظیم رہنماء تھے، مغربی طاقتوں کے آگے سرنگوں نہیں ہوئے، اُن کی بات میں وزن تھا، جنرل عبدالقیوم

امام خمینی رہ عالم اسلام کے بہت بڑے اور عظیم رہنماء تھے، مغربی طاقتوں کے آگے سرنگوں نہیں ہوئے، اُن کی بات میں وزن تھا، جنرل عبدالقیوم

لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، قومی اور بین الاقوامی سیاست پر ان کے بے لاگ اور جاندار تبصرے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل عبدالقوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ واہ کے سابق چئیرمین، سابق چیئرمین پاکستان سٹیل ملز، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض انجام دے چکے ہیں اور اس وقت نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کے صدر کی حیثت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گزشتہ روز قبلہ اول کی آزادی اور مسئلہ فلسطین سے متعلق ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو قارئین کی خدمت پیش ہے۔ ادارہ 
 
اسلام ٹائمز:جنرل صاحب، سرزمین مقدس فلسطین پر دنیا بھر سے یہودیوں کو جمع کیا گیا اور ناپاک اسرائیلی ریاست کو وجود میں لایا گیا۔ اس کے علل و اسباب کیا سمجتھے ہیں؟
جنرل عبدالقیوم: 1791ء کے فرانس کے انقلاب کے بعد یہودیوں کو فرانس سے برابر کے حقوق ملنے شروع ہوئے، نپولین نے بھی یہودیوں کے حقوق کو تسلیم کیا، اسی طرح 1856ء میں انگلینڈ اور 1871میں جرمنی میں بھی یہودیوں کو خوش آمدید کہا گیا۔ لیکن انیسویں صدی کے اختتام پر روس اور مشرقی یورپ نے یہودیوں پر پابندیاں لگانا شروع کیں، تو یہودیوں نے مشرقی یورپ سے ہجرت کرکے امریکہ کا رخ کیا، لیکن انِ میں سے کچھ موجودہ اسرائیل میں آ کر ایک نئی ریاست کے قیام کا سوچنے لگے۔ 1882ء سے 1903ء تک تقریباً 35 ہزار یہودی فلسطین پہنچ گئے، سلطنت عثمانیہ کے حاکم یہودوں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے کہ 1917ء کے بیلفور اعلان کے مطابق انگریزوں نے فلسطین میں یہودیوں کی ریاست آباد کرنے کی اجازت دے دی، جس کو امریکہ اور لیگ آف نیشن نے 1922ء میں قبول کر لیا۔ سرحدوں کا تعین بھی انگریزوں کی مرضی سے ہوا۔ اس کے بعد دوسری جنگ عظیم سے قبل لاکھوں یہودی یورپ سے ہجرت کر کے فلسطین آ گئے، لیکن پھر بھی چونکہ یہودی اکثریت میں نہ تھے اس لئے برطانیہ کی حکومت نے فلسطین پر اکثریتی حکومت کا فارمولا بھی رد کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم کی ابتدا سے پہلے تقریباً ساڑھے چار لاکھ یہودی فلسطین پہنچ چکے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں یہودیوں کو عرب سرزمین پر ایک منصوبے سے آباد کرنا مغرب کی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک گھناونی سازش تھی، اب اسرائیلی اپنے عرب ہمسایوں سے تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور فلسطین میں ہی فلسطینیوں کا جینا حرام کر دیا ہوا ہے۔ آج پوری دنیا میں تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ یہودی ہیں جن میں سے پچاس لاکھ یہودی اسرائیل میں اور ستر لاکھ امریکہ جبکہ باقی یورپ میں آباد ہیں۔
اسلام ٹائمز:جنرل صاحب، عالم استعمار (امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی) ممالک اسرائیل کی ناجائز سپورٹ کیوں کرتے ہیں؟
جنرل عبدالقیوم: یورپ کے سارے ممالک اور امریکہ یہودیوں کی ہربات ماننے پر مجبور ہیں چونکہ یہودی لابیاں اِن ممالک میں بہت مضبوط ہیں۔ امریکی صدر بھی یہودیوں کے خلاف بیان دینے کی جرات نہیں کرسکتا۔ امریکہ کے ایک بانی قائد بیجمن فرینکلن نے یہودیوں کو امریکہ میں آئینی تحفظ دینے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے آج سے تقریبا سوا دو سو سال (1789) پہلے کہا تھا کہ:
 There is a great danger for the United States of America. That great danger is the Jews. Gentlemen in whichever land the Jews have settled, they depressed the moral level and lowered the degree of commercial honesty. They have created a state with in a state and when they are opposed, they attempt to strangle the nation financially as in the case of Portugal and Spain. If they are not excluded from the United States by the constitution, with in less than 100 years, they will stream into this country in such number that they will rule and destroy us. I warn you gentlemen, if you do not exclude the Jews forever, your children and your children’s children will curse you in your graves. Their ideas are not those of America. The Jews are a danger to this land, and if they are allowed to enter they will imperil its institutions. They should be excluded from the constitution
اسلام ٹائمز:جنرل صاحب، فلسطین کی آزادی کیلئے عالم اسلام نے کیا کردار ادا کیا اور اب کیا کردار ادا کرنا چاہیے، جبکہ کئی ممالک اسرائیل کو ریاست تسلیم کرچکے ہیں جن میں مصر، اردن اور دیگر ممالک شامل ہیں؟
جنرل عبدالقیوم:فلسطین کی آزادی کیلئے بدقسمتی سے عالم اسلام وہ کردار نہ ادا کرسکا جو کرنا چاہیے تھا۔ مصر جیسے بڑے مضبوط مسلمان ملک نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے اُن کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کر لیا۔ اردن بھی اسرائیل کے قریب ہو گیا۔ دوسری عرب ممالک کی افواج اور سفارت کاری دونوں بہت کمزور تھیں۔ مسلمانوں میں عدم اتفاق سے یہودیوں نے فائدہ اُٹھایا اور اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے تقریباً ایک سو سال میں ایک سو پچاس کروڑ مسلمانوں میں صرف تین مسلمان نوبل انعام حاصل کر کسے، لیکن صرف ڈیڑھ کروڑ یہودیوں میں سے 180 یہودیوں کو یہ اعزاز ملا۔
اسلام ٹائمز:جنرل صاحب، قبلہ اول گذشتہ کئی دہائیوں سے یہودیوں کے شکنجے میں ہے، اور فسلطیوں کو وہاں نماز پڑھنے کی بھی آزادی نہیں، کیا آپ سمجتھے ہیں اگر عالم اسلام یک سو ہو کر اقدام اٹھائیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟
جنرل عبدالقیوم: یہ بات ٹھیک ہے کہ قبلہ اول یہودیوں کے قبضے میں ہے لیکن مجھے ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اگر مسلمان اتفاق کریں اور ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کریں تو قبلہ اول کو یہودیوں کے قبضے سے آزاد کروایا جاسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز:جنرل صاحب، قبلہ اول اور فسلطین کی آزادی کیلئے امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی کے فرمان پر ہر سال دینا بھر میں رمضان المبارک کے جمعتہ الوداع کو یوم القدس کی آزادی کے نام پر منایا جاتا ہے، کیا اگر تمام عالم اسلام ملکر اسے فلسطینی بھائیوں اور قبلہ اول کی یہودیوں کے شکنجے سے آزادی کیلئے منائیں تو دنیا کو ایک مضبوط پیغام جائے گا؟
جنرل عبدالقیوم: مسلمان متفق ہو کر اگر احتجاج کرتے رہیں اور اپنی سفارتکاری کی مہم کو زور دار طریقے سے چلایں تو اسرائیل پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی چونکہ عالم اسلام کے ایک بہت بڑے اور عظیم رہنماء تھے اور اُن کو دنیاوی لالچ نہ تھا اور وہ مغربی طاقتوں کے آگے سرنگوں نہیں ہوئے، اس لئے اُن کی بات میں وزن تھا۔ مسلمان ریاستوں میں اتفاق نہیں اور آدھے سے زیادہ امریکہ نواز ہیں، جو ہماری کمزوری کا ظاہر کرتا ہے۔
اسلام ٹائمز:جنرل صاحب، فلسطین پر مظالم کی انتہا کی گئی اور ہو رہی ہے، لیکن عالمی اقوام اس پر خاموش ہیں، اسرائیل فلسطین پر مسلسل جنگ مسلط کیے ہوئے ہے اور اگر سلامتی کونسل میں کوئی فلسطین کے حق میں کوئی قرارداد آتی ہے تو امریکہ اسے ویٹو کر دیتا ہے،اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جنرل عبدالقیوم: مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی تقریباً 229 قرار دادیں ہیں، اس کے علاوہ جتنی سلامتی کونسل کی قراردادیں اسرائیل کے خلاف آئیں اُن کو امریکہ نے اس لئے ویٹو کیا چونکہ امریکی صحافت، معیشت اور سیاست پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔
اسلام ٹائمز:جنرل صاحب، جمہوریت کے چمپین امریکہ نے سب سے پہلے حماس کی جمہوری حکومت کی مخالفت کی، کیا یہ کھلی منافقت اور جمہوریت کے راگ الاپنے والے ممالک کے منہ پر طمانچہ نہیں؟
جنرل عبدالقیوم: یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ امریکہ کے دوہرے معیار ہیں۔ ایران میں 1950ء کی دہائی میں امریکہ نے مصدق کی جمہوری حکومت گروا دی اور بادشاہت قائم کروائی۔ پھر صدام حسین جیسے ڈیکٹیٹر کی، ایران کی جمہوری حکومت کیخلاف مدد کی۔ سوڈان میں انتخابات جیتی ہوئی پارٹی کو اس لئے آگے آنے کی اجازت نہ دی چونکہ اُن کا رجحان اسلام کی طرف تھا۔ فلسطین میں حماس کی جیت پر بھی جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی بات کرنے والا امریکہ خوش نہیں۔ پہلے مصر کے حسنی مبارک کو ہر طرح کی مدد دی۔ صدر اوباما نے دنیا کے مسلمانوں کو خطاب کرنے کیلئے بھی مصر کا انتخاب کیا اور حسنی مبارک کو میزبانی کا شرف بخشا۔ لیکن پھر جونہی ہوا کا رخ بدلتے دیکھا تو دوسری طرف چھلانگ لگا دی۔ پاکستان میں بھی ہمیشہ آمروں کی پشت پناہی کی اور عوامی جمہوری حکومتوں کو منہ پر ڈرون حملوں کے طماچے مارے۔
اسلام ٹائمز:جنرل صاحب، آپ کی نظر میں پاکستان کو کشمیر، فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کی خاطر کیا اقدام اٹھانے چاہییں؟
جنرل عبدالقیوم: پاکستان نے اگر فلسطین، کشمیر اور قبلہ اول کی آزادی کیلئے مؤثر کردار ادا کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنے داخلی حالات بہتر کرنا ہونگے۔ چونکہ معاشی لحاظ سے مضبوط پاکستان دنیا کی قوموں کی برادری میں ایک زور دار آواز بن کر ابھر سکتا ہے۔ پاکستان کو صرف دیانتدار اور باکردار قیادت کی ضرورت ہے، ہمیں باہر سے کچھ بھی نہیں چاہیے، کپتان کے بغیر سفینہ سمندری لہروں کے رحم و کرم پر ہی رہے گا۔

خبر کا کوڈ : 92959
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش