0
Sunday 21 Aug 2011 00:59

یوم القدس منانے سے مظلوموں کی حوصلہ افزائی اور اسرائیل پر دباو میں اضافہ ہوتا ہے، راجہ ظفرالحق

یوم القدس منانے سے مظلوموں کی حوصلہ افزائی اور اسرائیل پر دباو میں اضافہ ہوتا ہے، راجہ ظفرالحق
جناب راجہ ظفر الحق ایک ماہرِ قانون، ممتاز دانشور، سیاسی رہنما اور سیکرٹری جنرل موتمرِ عالمِ اسلامی ہیں اور ان کا شمار ملک کی معروف بزرگ شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1935ء میں پیدا ہوئے۔ 1950ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کی اور ماسٹر ڈگری (پولیٹیکل سائنس) پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ 1958ء میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کیا اور 1958ء سے 1981ء اور بعدازاں 1987ء سے 1991ء تک ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی حیثیت سے پریکٹس کی۔ 1977-78 کے لئے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے اور 1981ء میں ہائی کورٹ بار کے وائس پریذیڈنٹ بنے۔ پاکستان لاء کمیشن کے ماہرین کے پینل میں شامل کئے گئے۔ 1981ء سے 1985ء تک وزیر اطلاعات و نشریات اور مذہبی امور رہے۔ 1985-86 میں مصر میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 1986-87 میں وفاقی وزیر کے مساوی عہدے پر وزیراعظم پاکستان کے سیاسی مشیر بنائے گئے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 45 ویں اجلاس منعقدہ 1990-91 میں پاکستان کے نمائندہ کے طور پر شریک ہوئے۔ 1991ء میں چھ سال کے لئے پاکستان سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1992ء میں عالم اسلام کی قدیم ترین تنظیم موتمر عالمِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے جو کہ 1926ء میں قائم ہوئی تھی۔ 1994ء سے 96 تک پاکستان سینیٹ کے لیڈر آف دی اپوزیشن رہے اور سینیٹ کے لیڈر آف دی ہاﺅس کے طور پر انتخاب 1997 سے 99 تک عمل میں آیا۔ 1997ء سے 2002ء تک موتمرِ عالمِ اسلامی کے دوبارہ سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور پھر 2002ء سے تاحال اس عہدے پر فائز ہیں۔
 سیاسی حوالے سے جائزہ لیں تو 2000ء سے 2009ء تک اور پھر 2011ء میں دوبارہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے چیئرمین منتخب ہونے کے بعد اب تک اِس محاذ پر سرگرم عمل ہیں۔ جناب راجہ ظفر الحق اب بھی (2009سے 2015تک کی ٹرم کے لئے) بطور سینیٹر کام کر رہے ہیں۔ آپ نہایت شریف النفس، محبِ وطن اور اِسلامی دُنیا کا درد رکھنے والے پاکستانی ہیں، اور اس کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ گذشتہ دِنوں موتمرِ عالمِ اِسلامی کے دفتر میں پاکستان اور اِسلامی دُنیا کے موضوع پر ان کے ساتھ ہونے والی ایک نشست کا خلاصہ قارئین اِسلام ٹائمز کی نذر ہے۔

اِسلام ٹائمز:اِسلامی دُنیا قدرت کے عطا کردہ بے پایاں وسائل کے باوجود بے چارگی اور زبوں حالی کی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ آپ کے نزدیک اس کے اسباب کا کیا تجزیہ ہو سکتا ہے۔؟
راجہ ظفرالحق: عالم اسلام میں دو قسم کے ممالک ہیں، ایک وہ ملک ہیں جن کو قدرت نے وافر وسائل دئیے ہیں۔ ان میں سعودی عرب، ایران، قطر، کویت، عمان وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے پاس قدرت کی عطا کردہ بے پناہ نعمتیں ہیں اور اِس بنا پر وہاں کے لوگوں کی معاشی حالت بھی بہتر ہے۔ لیبیا اور عراق کی حالت بھی ٹھیک تھی۔ صدام کے زمانے میں مَیں نے وہاں دیکھا ہے کہ سکول کے بچوں کی تعلیم مفت، ان کے لئے ٹرانسپورٹ مفت، ہاﺅسنگ کے بہت پراجیکٹس تھے اور یہی کیفیت لیبیا کی تھی۔ ایران میں بھی اسی نوع کے حالات ہیں۔ ایران ایک بہت developed ملک ہے۔ امریکہ، جو اس سے ایک خاص کدورت رکھتا ہے، اس کی طرف سے اور اس کے کہنے پر عائد کی جانے والی ساری sanctions کے باوجود انہوں نے بڑی ترقی کی ہے بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ اقتصادی پابندیاں لگنے کی وجہ سے ہم اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوئے ہیں اور ہم نے دُنیا کے ان چند ممالک کی طرف سے روا رکھے جانے والے اس سلوک سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ایک تو یہ گروپ ہے۔ 
دوسرا گروپ وہ ہے جن کے پاس وسیع اسباب تو مہیا نہیں ہیں، مثلاً انڈونیشیا، ملائیشیا، مراکش، تیونس، نائیجیریا وغیرہ، تاہم ان کے پاس بھی اتنے وسائل بہر حال موجود ہیں کہ وہ اپنا گزر بسر قومی وقار کو داو پر لگائے بغیر کر سکتے ہیں۔ انڈونیشیا بہت اچھا develop ہوا ہے۔ ملائیشیا کی بھی فی کس آمدنی بہت زیادہ ہے۔ برونائی دارالسلام بہت امیر ملک ہے، جس کے شاہی خاندان کی ہر روز کی آمدنی 44 کروڑ ہے۔ اب اِسلامی دُنیا میںت علیم بھی عام ہوئی ہے، جس اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ سعودی عرب کی مجلس شوریٰ میں 65 پی ایچ ڈی شامل ہیں، جو دُنیا کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی پارلیمنٹ ہے۔
اسلام ٹائمز:کیا عالمی سطح پر مسلم اُمّہ کے ایک پاور فُل عسکری اور اقتصادی طاقت بننے کے کچھ آثار ہیں۔؟
راجہ ظفرالحق: عسکری طاقت اپنے دفاع کے لئے تو ان کے پاس کافی ہے۔ ایران کے پاس دفاع کے لئے میزائل ٹیکنالوجی، ایٹمی ٹیکنالوجی موجود ہے، اسی طرح ترکی دفاعی طور پر بہت مضبوط ہے۔ باقی انڈونیشیا اور ملائیشیا وغیرہ بھی اپنی ضرورت کے لحاظ سے ٹھیک ہیں۔ لیبیا بھی ٹھیک تھا، اب ساری نیٹو اس کے اُوپر پڑی ہے اور جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی سے لیس یہ مُلک چار پانچ ماہ سے اس پر حملہ آور ہیں، لیکن حالات کی بدنصیبی دیکھئے کہ حملہ کرنے کے لئے بھی عرب لیگ نے قرار داد پاس کی تھی جو کہ نہایت قابل افسوس تکلیف دہ عمل ہے۔ موجودہ حالت کے حوالے سے جائزہ لِیا جائے تو جو عوامی تحریکیں تیونس اور پھر مصر میں چلی ہیں اور انہوں نے دائمی اِقتدار کی لت میں گرفتار حکمرانوں کو محلات سے دھکیل باہر کیا، یہ مسلم عوام میں بیداری کی توانا علامت ہیں۔ جب اقتدار عوام کی حقیقی قوتوں کے ہاتھ آئے گا تو تبدیلی بھی آئے گی، اس کے بغیر تبدیلی کی توقع عبث ہے۔ یہ تحریکیں ابھی چل رہی ہیں اور حالات اِس قدر اَبتر ہیں کہ پاکستان بھی ان کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ قوت کا اظہار جو ہر جگہ ہو رہا ہے، وہ یہاں بھی ہو سکتا ہے۔ یہ جو عوامی تحریکیں چلتی ہیں ان میں کوئی وقت معین نہیں کیا جاسکتا، لوگ ایک دوسرے سے inspiration لیتے ہیں اور یہ تحریکیں چل پڑتی ہیں۔ عرب ان تحریکوں کو Spring یعنی بہار کہتے ہیں، عوامی قوت کی بہار۔
اسلام ٹائمز:اسرائیل، جو متعدد مواقع پر اپنے عزائم آشکار بھی کر چکا ہے، ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے خائف بھی ہے، تو کیا وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جیسے کہ عراق کے ایٹمی مراکز کو اس نے فضائی حملے میں تباہ کر ڈالا تھا۔؟
راجہ ظفر الحق:میرے خیال میں اسرائیل ایسا نہیں کر سکے گا کیونکہ ایران نہ صرف اپنے دشمنوں کی طرف سے پوری طرح الرٹ ہے بلکہ اس نے ایسی کسی کوشش کے توڑ کے لئے مناسب ہتھیار تیار کر لئے ہیں اور ٹیکنالوجی بھی لے لی ہے۔ وہ ایسے کسی مرحلے کے رُو بہ کار آنے سے اسرائیل کو بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ قوت کا مقابلہ قوت ہی کر سکتی ہے۔ اب اسرائیل کے لئے مشکل حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ جو دو دفعہ غزہ کے محصورین کی غذائی اور طبی امداد کے لئے دنیا سے لوگ ایک نقطے پر جمع ہُوئے اور وہاں (غزہ) گئے ہیں، ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔ تو اس سے اسرائیل under pressure ہے۔ دنیا بھر میں یہ محسوس کیا جا رہا ہے، جس میں مسلمان بھی ہیں مگر ان سے زیادہ عیسائی دنیا میں یہ تاثر ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں پر انسانیت سوز ظلم کر رہا ہے۔ فضا ایسی بن گئی ہے کہ اس دفعہ دسمبر کے مہینے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اِجلاس کے بارے میں اسرائیل کو تشویش یہ لاحق ہے کہ وہاں پر ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے ایک قرارداد لائی جا رہی ہے اور وہ جنرل اسمبلی میں پاس ہو سکتی ہے۔ اب ان کو ہاتھ پاوں پڑے ہُوئے ہیں اور ان کی طرف سے یہ بھاگ دوڑ لگی ہوئی ہے کہ وہ قرارداد پیش نہ ہو جائے۔ جو ملک اسے پیش کر رہے ہیں، کسی طور ان کو روکا جائے یا اگر پیش ہو بھی جائے تو وہ پاس نہ ہو لیکن غالب خیال یہ ہے کہ اگر یہ قرارداد پیش ہو گئی تو پاس بھی ہو جائے گی۔
اسلام ٹائمز:کیا امت مسلمہ یورپین یونین کی طرز پر متحد نہیں ہو سکتی۔؟
راجہ ظفر الحق:اس میں وقت لگے گا۔ اس کی مخالفت بہت زیادہ ہے۔ دشمن سازشیں کرتے ہیں اور ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران عوامی طاقت کے ساتھ آئیں تو ان سازشوں کا یقیناً مقابلہ کر سکتے ہیں، لیکن منتخب حکومتیں نہ ہونے کی وجہ سے ان میں وہ قوت نہیں ہے جو عوامی طاقت میں ڈھل سکتی ہے۔ البتہ اب رفتہ رفتہ معاملات اتحادِ امت کی طرف جا رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز:اِسلامی ممالک کے عوام کی عمومی سوچ اپنے حکمرانوں سے یکسر مختلف اور حقائق سے قریب تر ہے جبکہ پاکستانی حکمرانوں کی ترجیحات بھی بالعموم غیر مُلکی آقاوں کی ڈکٹیشن کے تابع رہتی ہیں۔ زوال کا اصل سبب کیا یہی طرزِ عمل تو نہیں ہے۔؟
راجہ ظفر الحق: سارے سیاسی لوگ ایسے نہیں ہیں۔ چند ایسے رہ گئے ہیں جو بیرونی Dictation لیتے ہیں اور اثر میں آ جاتے ہیں اور میرا خیال ہے جو اہداف اور ایجنڈے کا تضاد ہے، وہ بھی جلد ختم ہو جائے گا کیونکہ عوامی جذبات کے خلاف کوئی حکمران زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں سکتا۔
اسلام ٹائمز:اِسلامی دُنیا کے یہ دو غیرمعمولی طور پر اہم عسکری طاقت کے حامل ممالک، یعنی ایران اور پاکستان، جن کی سرحدیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں، کیا یہ آنے والے وقت میں مِل کر عالمِ اِسلام کے دِفاع کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔؟
راجہ ظفر الحق :بالکل آسکتے ہیں۔ موجودہ عالمی حالات میں اسلامی دُنیا کی بات تو ذرا مختلف ہے، مگر وہ اس خطے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب، ترکی اور پاکستان بہت اہم ممالک ہیں۔ جس گرداب میں اسلامی دُنیا آئی ہوئی ہے، یہ انتہائی نازک معاملات ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ ہے، کشمیر کا مسئلہ ہے، ان دونوں معاملات میں پیش رفت کی اشد ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز:جمہوریت کا تجربہ تو پاکستان میں بارہا آزمایا گیا اور ہر بار ناکام ہی رہا۔ موجودہ حکومت بھی عوام کے ریلیف کے لئے عملی اِقدامات کے بجائے آئے دِن انہیں مصائب و مشکلات سے دوچار کرنے میں مگن ہے۔ یہ تباہ کن صورتِحال کیا ایرانی طرز کے اِنقلاب پر منتج ہو گی یا اس کا کوئی اور بھی حل ہے آپ کی نظر میں؟
راجہ ظفر الحق:آپ نے کیا محسوس نہیں کیا کہ ڈکٹیٹر شپ کا تجربہ بھی بار بار کیا جاتا رہا ہے؟ ایسے حکمرانوں کو چار پانچ دفعہ آزمایا جا چکا ہے۔ جب آتے ہیں تو لوگوں کی اُمیدیں جاگ اُٹھتی ہیں، جب جاتے ہیں تو پہلے سے زیادہ مسائل چھوڑ جاتے ہیں۔ یحییٰ خان جیسے لوگ بھی آئے، جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ پرویز مشرف پاکستان کو ایسی دلدل میں پھنسا گیا ہے کہ خدا معلوم اس دلدل سے ہم کب نکلیں گے۔ تو ذمہ دار سیاست دان ہی نہیں ہیں، کچھ دوسرے عناصر نے بھی پاکستان کو پیچھے دھکیلنے میں کردار ادا کیا ہے۔
اسلام ٹائمز:جمعة الوداع کو امام خمینی رہ نے یوم القدس قرار دیا ہے۔ آپ کے خیال میں اس دِن کو عالمی سطح پر منانے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
راجہ ظفر الحق: یہ دن نہ صرف منانا چاہیے بلکہ اس کے مقاصد کو بارآور بنانے کے لئے موثر عملی کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس سے مظلوموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اسرائیل پر دباﺅ میں اضافہ ہوتا ہے۔ مَیں یہ کہتا ہوں کہ جن مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے اور جو Recognition اسے دی ہوئی ہے، وہ کچھ بھی نہ کریں، صرف اسے واپس لے لیں۔ اس کے لئے جنگ تو نہیں کرنی پڑتی، اس میں گولی نہیں چلانی پڑتی، اپنا سفیر واپس بلا لیا جائے، تعلق توڑ لیا جائے۔ اسرائیل کو توRecognition چاہیے تھی، چنانچہ اس نے ایک ایک کرکے سب دنیا سے اپنے آپ کو تسلیم کرا لیا ہے اور بے شمار اسلامی ملک ایسے ہیں جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے۔ اگر یہ ممالک اسے تسلیم کرنے سے تائب ہو جائیں تو اس سے بہت بڑا اَثر سامنے آ سکتا ہے۔
اسلام ٹائمز:اخوان المسلمون اِسلامی دُنیا کی قابلِ ذکر جماعت ہے جس نے اپنی طویل تاریخ میں بہت قربانیاں بھی دی ہیں۔ مصر میں آپ پاکستان کے سفیر رہے ہیں، تو وہاں اس جماعت کا آپ کیا رول دیکھتے ہیں۔؟
راجہ ظفر الحق: یہ جو عوامی تحریک مصر میں چلی تھی، اس میں زیادہ بڑا رول اخوان المسلمین کا ہی تھا اور آج بھی ان کا مطالبہ یہ ہی ہے کہ پہلے الیکشن کروائے جائیں اور الیکشن کے بعد جو پارلیمنٹ منتخب ہو وہ ملک کا آئین بنائے۔ موجودہ آئین کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ جو اخوان کے مخالف سیکیولرسٹ لوگ ہیں یا وہ دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے آئین بنے اور بعد میں الیکشن ہوں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر الیکشن پہلے ہوئے تو اخوان بہت سیٹیں لے جائیں گے۔ ویسے بھی ان پر پابندی عائد تھی وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ وہ ایک کالعدم جماعت تھی لیکن وہ دوسری جماعتوں کے ذریعے سے کافی سیٹیں لے جاتے تھے۔ اخوان کی ایک اور خصوصیت یا اِمتیاز یہ ہے کہ وہ تشدد اور مزاحمت نہیں کرتے۔ پندرہ پندرہ بیس بیس سال جیل میں رہ کر آتے ہیں، باہر آ کر اس کا تذکرہ تک نہیں کرتے کہ ہم نے یہ کیا اور ہم نے یہ قربانی دی۔ مختلف ادوار میں ان پر جو بڑے ہولناک قسم کے مظالم ہوئے اور بعد میں بھی ان کے خلاف جو سلوک روا رکھا گیا، اسے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کسی مظاہرہ بازی کے بجائے وہ اپنے کام کو لگے رہتے ہیں۔ یہ بڑی مثبت سوچ ہے۔ ان کی شعوری سطح کا اندازہ کرنا ہو تو ان کے وابستگان کی قابلیت کو سامنے رکھا جائے کہ ان میں ڈاکٹرز ، انجبنیرز، علماء، پروفیسرز حتٰی کہ زندگی کے ہر شعبے سے لوگ شامل ہیں۔ اس اعتبار سے ان کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسلام ٹائمز: حسنی مبارک کے بعد مصر کا مستقبل کیا ہو گا؟
راجہ ظفر الحق:میں سمجھتا ہوں مصر کی جو آبادی اور محل وقوع ہے، اسے سامنے رکھا جائے تو وہ واحد Afro-Asian ملک ہے جو افریقہ کے اندر بھی ہے اور ایشیا کے اندر بھی ہے۔ وہاں نہر سویز ہے، تعلیم کا تناسب بہت بلند ہے۔ پی ایچ ڈیز کی تعداد وہاں بہت زیادہ ہے۔ مصری پوری دنیا میں ہر شعبے میں موجود ہیں۔ مصر افریقہ کا ایک دروازہ ہے، تجارت کے لئے بھی اور کلچر کے لئے بھی۔ ان تمام حقائق اور حوالوں کے پیشِ نظر مصر دوبارہ اُبھرے گا۔
خبر کا کوڈ : 93037
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش