0
Thursday 29 Jul 2021 23:47

محرم کو روایتی انداز سے منانے کے بجائے عملی مومن بن کر منائیں، علامہ عابد الحسینی

محرم کو روایتی انداز سے منانے کے بجائے عملی مومن بن کر منائیں، علامہ عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ پاکستان میں صوبائی صدر اور مرکزی سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! قومی حقوق کے حوالے سے آپ نے بیداری عوام کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا تھا، وہ کہاں تک پہنچی ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
یوم القدس کے موقع پر ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے قومی حقوق کے ساتھ کھیلا جانے والا کھیل بند کیا جائے، نیز تمام حل طلب مسائل کو فوری طور پر حل کرکے علاقے کے امن کو یقینی بنائیں۔ ورنہ رمضان کے بعد ہم کرم بھر میں احتجاج شروع کریں گے۔ چنانچہ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جو ہم نے شروع کر رکھی ہے۔ ہم نے کرم بھر میں درجنوں اجتماعات کئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ تاہم بندہ کی بیماری کی وجہ سے پروگرامات میں کافی حد تک خلل اور تعطل آگیا۔ تاہم وہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ 5 اگست کو پیواڑ میں بھی اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: ان پروگرامات سے ابھی تک کوئی فائدہ بھی ہوا ہے اور اسکا کوئی خاص نتیجہ بھی نکل سکا ہے۔؟ 
علامہ سید عابد الحسینی:
 ہر انسان خصوصاً مسلمان پر تو فرض ہے کہ وہ نہ صرف اپنے خلاف ظلم کو برداشت نہ کرے، بلکہ کسی بھی مظلوم پر ہونے والے ظلم پر بھی خاموشی اختیار نہ کرے۔ جس کی مذمت رسول اللہ (ص) نے بھی کی ہے، بلکہ ایسے شخص کو اسلام سے خارج کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے ایسی حالت میں رات گزار کر صبح کی کہ اس نے مسلمانوں کے امور سے آگہی حاصل نہ کی ہو تو وہ مسلمان نہیں۔ جہاں تک فائدے کی بات ہے۔ تو اس کا فائدہ بھی ہوا ہے۔ حکمران جس بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ اور متعصبانہ طریقے سے پاراچنار اور اہلیان پاراچنار کو زیادتی کا نشانہ بنا رہے تھے۔ وہ کم ہوا ہے، بلکہ وہ لوگ مذکرات کرانے اور رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ ہم نے مذاکرات کے لئے کچھ شرائط رکھے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایکسپریس ٹریبیون میں چھپی ایک خبر نیز ڈی سی کے بیان کے حوالے سے افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ آپ لوگ پاراچنار میں طالبان جیسے نظام کا اجراء چاہتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
دراصل یہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے قومی مسائل کو حل کرنے سے فرار کا ایک بہانہ ہے۔ مقامی انتظامیہ علاقے میں کرپشن، بے حیائی اور منشیات کے فروغ کے درپے ہے۔ وہ اپنے مذموم مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے ہی ایسا کر رہی ہے۔ حالانکہ ہم خواتین کے بنیادی اسلامی حقوق کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ ہم نے اس حوالے سے پاکستان کی سطح پر سب سے پہلے (1980ء میں) خواتین کی اسلامی یونیورسٹی (جامعۃ الدار الزہراء) کا قیام عمل میں لایا ہے۔ جس سے ملک بھر کی ہزاروں خواتین فیض یاب ہوچکی ہیں اور کرم، کوہاٹ، ہنگو اور اورکزئی کی سطح پر سینکڑوں کی تعداد میں ہمارے مدرسے سے فارغ التحصیل خواتین سرکاری سکولوں اور کالجوں میں تدریس کے شعبوں سے وابستہ ہیں اور اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ہمارے مدارس کی طالبات علاقے میں خواتین کو شمع علم سے روشناس کرانے میں مصروف عمل ہیں، جبکہ ہمارا یہ عمل فحاشی، عریانی اور منشیات کے خلاف ہے۔ انتظامیہ اگر سنجیدہ ہوتی تو وہ یا تو خود اقدام کرتی، یا ہمارے ساتھ کمک کرتی۔ مگر ان سے نیکی اور بھلائی کی توفیق اللہ تعالیٰ نے سلب کی ہے۔ اس لئے وہ عملاً کام کرنے کے بجائے اعتراض کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: خواتین کے حوالے سے آپکے تحفظات اور اعتراضات کیا ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیئے ہیں، وہ ان سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ تعلیم ہو یا ملازمت اسلام کے دائرے اور حدود میں ہو، اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کی گئی کہ خواتین کی تعلیم کے لئے پاکستان بھر میں سب سے پہلا دینی ادارہ اور مدرسہ 1980ء میں ہم ہی نے بنایا اور یہ کہ کرم میں شعبہ تعلیم میں کام کرنے والی خواتین میں سے سب زیادہ تعداد ہمارے ہی مدرسے کی ہے اور یہ کہ کسی بھی ادارے یا سکول اور کالج کے مقابلے میں ہمارے مدرسے (حوزہ علمیہ) سے فارغ التحصیل طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ تاہم خواتین کو کام کرتے وقت اسلامی حدود کا لحاظ بھی رکھنا ہوگا۔ خواتین اور ایک اسلامی معاشرے کے مردوں کو بھی قرآن اور اسلام کے احکام کا پورا پورا لحاظ رکھنا ہوگا۔ سورہ احزاب میں خواتین کے حوالے سے واضح احکامات ہیں کہ گھروں میں بیھٹی رہیں، نامحرموں کے سامنے بناؤ سنگار نہ کریں اور یہ کہ اپنے جسم کو پوری طرح چادر سے ڈھانپیں۔ اس حوالے سے سورہ احزاب میں تفصیل سے احکامات موجود ہیں۔ چنانچہ خواتین بیشک ضرورت پوری کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ حصول تعلیم کے لئے تعلیمی اداروں نیز بیماری کے لئے ہسپتالوں وغیرہ میں جاسکتی ہیں، تاہم جہاں اور جس جس پہلو سے اخلافی مفاسد کا خدشہ ہو، وہاں خواتین کیا، مردوں کو بھی احتراز کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: منشیات کی روک تھام کے حوالے سے آپ خود اقدام کرینگے یا حکومت کے توسط سے کوئی قدم اٹھائیں گے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
حکومت سے بار بار کہا گیا ہے، اب بھی ہم کوشش کرتے ہیں کہ حکومت اور متعلقہ ذمہ دار اداروں کو آمادہ کرکے اس لعنت کو روکنے بلکہ جڑ سے ختم کرانے کے لئے مناسب قدم اٹھائیں۔ تاہم اگر وہ سنی ان سنی کرکے معاملے کو ٹال دیتے ہیں تو ہم خود ہی جوانوں کو تیار کرکے منشیات کے اڈوں پر چھاپے ماریں گے اور غلط مواد برآمد ہونے پر اسے فوری طور پر تلف کریں گے۔ خیال رہے کہ متعدد علاقوں میں ہم نے ایسے جوانوں کو تیار بھی کیا ہے، جو رات یا دن کے مختلف اوقات میں افغانستان سے سمگل شدہ منشیات کو پکڑ کر تلف کر دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: محرم کی آمد آمد ہے، محرم کے حوالے سے لوگوں کو کوئی پیغام دینا پسند کرینگے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
محرم غم امام حسین اور غم اہلبیتؑ کا مہینہ ہے۔ مردوں اور خواتین سے بالاتفاق گزارش ہے کہ حقیقی حسینی بن کر محرم منائیں۔ خواتین سادہ لباس پہن کر محرم کو نہایت سادگی سے منائیں۔ علمائے کرام سے گزارش ہے کہ محرم کے دوران قوم کو اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ کیا کریں۔ فضائل اہلبیتؑ کے ساتھ ساتھ دینی احکام، مسائل بالخصوص قومی مسائل کو بھی اجاگر کیا کریں۔ روایتی محرم تو ہم سینکڑوں سالوں سے مناتے ہیں، جس کا فائدہ کم ہے۔ محرم کو روایات سے نکال کر عوام کو میدان عمل میں لے آئیں۔
خبر کا کوڈ : 945818
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش