2
Wednesday 11 Aug 2021 13:59
"غنچہ زنی" زنجیر زنی کا متبادل نہیں

دستہ سقائے سکینہ کے رُوحِ رواں کاشف طوری کا خصوصی انٹرویو

اہلسنت و اہل تشیع میں غنچہ زنی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے
دستہ سقائے سکینہ کے رُوحِ رواں کاشف طوری کا خصوصی انٹرویو
گذشتہ کئی سالوں سے عزاداری کی ایک نئی رسم غنچہ زنی (کڑا زنی) پارہ چنار کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں میں رائج ہو رہی ہے۔ اس کی قبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ امسال معروف نوحہ خواں فرحان علی وارث نے ٹائٹل نوحہ "بولے سارا جہاں حُسین یاحُسین" میں بھی غنچہ زنی کے دستہ میں نوحہ پیش کیا ہے۔ اسلام آباد میں"سقائے سکینہ دستہ" منظم عزاداری کی ترویج کیلئے کوشاں ہے۔ اسلام ٹائمز نے دستہ کے روحِ رواں اور پارہ چنار کے مکین جناب کاشف طوری صاحب سے غنچہ زنی کے بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات اور ثقافت و عزاداری کے تناظر میں خصوصی انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عزاداری کے اس طریقہ کو غنچہ زنی کیوں کہتے ہیں۔؟
کاشف طوری: ہماری مقامی زبان میں غنچہ کو کڑا کہا جاتا ہے۔ عاشور کے بعد سیدہ سکینہ کو لشکر یزید نے جس زنجیر میں قید کیا گیا تھا، ہم اسی نسبت سے یہ کڑا اٹھاتے ہیں، سیدہ سکینہ (س) کے مصائب کو یاد کرتے ہیں اور ہر دور کے یزید سے اظہار برات کرتے ہیں۔ اردو میں اس کو "غنچہ" کہتے ہیں، غنچہ یعنی پھول کی مانند جو اس زنجیر کی طرف اشارہ ہے۔

اسلام ٹائمز: عزاداری کی اس رسم کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا۔؟
کاشف طوری: عزاداری کی یہ رسم بہت قدیم ہے چونکہ طوری قوم خانہ بدوش ہے، ترکی، عراق، ایران سے ہوتے ہوئے جب افغانستان اور پارہ چنار داخل ہوئے تو یہ مراسم بھی ہمارے ساتھ آئے۔ غنچہ زنی قدیمی رسمِ عزاداری ہے اور صدیوں سے نسل در نسل چلی آرہی ہے اور تاحال محفوظ ہے۔

کیا یہ قدیم رسم ہے یا برصغیر میں اب متعارف ہوئی ہے۔؟
کاشف طوری: یہ ایک قدیمی رسم عزاداری ہے۔ ایام عزاء کے دوران کربلا، نجف میں حرم امام حسین، حرمِ امام علی کے گرد و نواح میں بھی غنچہ زنی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ افغانستان کے صوبہ بامیان میں بھی اسی طرز کی عزاداری منعقد ہوتی ہے۔ غنچہ زنی پارہ چنار سے اب اسلام آباد شہر میں بھی منتقل ہوچکی ہے، وہ افراد جو پارہ چنار سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اپنی علاقائی ثقافت اور طور طریقے سے ہی عزاداری کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: غنچہ زنی زنجیر زنی کی متبادل رسمِ عزاداری ہے، کیا یہ تاثر درست ہے۔؟
کاشف طوری: برصغیر میں پہلے سے رائج عزاداری ثقافت کے عین مطابق ہے۔ غنچہ زنی، زنجیر زنی کا متبادل نہیں ہے، بلکہ ہم ایک منظم عزاداری کی ترویج کر رہے ہیں۔ ہم کربلا کے راستے کے راہی ہیں، کربلا ہمیں نظم سکھاتی ہے۔ کربلا سے ہم قول، افعال، ثقافت اور عزاداری منظم انداز میں کرنے کا درس لیتے ہیں۔ ہم بھی غنچہ زنی سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم ایک منظم قوم ہیں، جو کربلا والوں کی یاد میں عزاداری کو برپا کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: امسال فرحان علی وارث نوحہ خواں نے آپکے دستہ کیساتھ ایک نوحہ پیش کیا ہے، کیا یہ "غنچہ زنی" کو متعارف کروانے کا سلسلہ ہے۔؟
کاشف طوری: ہمیں بہت سارے عزادار دعوت دیتے ہیں کہ دیگر ایام میں دستہ اس مخصوص انداز میں عزاداری کرے۔ ہم نے پارہ چنار کے بعد جب اسلام آباد میں اپنے قبیلہ کے لوگوں کے تعاون سے یہ سلسلہ شروع کیا تھا تو یہ طے کیا تھا کہ ہم صرف اور صرف سیدہ سکینہ کے نام مخصوص چار دنوں میں ہی عزاداری کریں گے۔ اس لئے ہم 9، 10 اور 19، 20 ویں محرم الحرام کو جلوس ہائے عزا میں غنچہ زنی کرتے ہیں۔ ان چار دنوں کے علاوہ ہم کسی اور دن عزاداری نہیں کرتے، کیونکہ ہم سیدہ سکینہ کی یاد میں عزاداری برپا کرتے ہیں اور فقط اور فقط اُن کے ہی مصائب کی یاد میں غنچہ زنی کرتے ہیں، اس لیے ہم محرم کے دوسرے ایام میں عزاداری کو اس انداز سے نہیں مناتے ہیں۔ معروف نوحہ خواں فرحان علی وارث کے ساتھ گذشتہ سال ہم نے عزاداری کی اور امسال انہوں نے ہمارے دستہ کے ساتھ نوحہ خوانی کی ہے۔ ہمارا ہرگز مقصد شہرت کا حصول نہیں، ہم منظم عزاداری کو پاکستان بھر میں عام کرنا چاہتے ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: تو آپ پاکستان کے دیگر شہروں میں ترویج کیساتھ خود بھی دستہ منظم کرتے ہیں اور شریک ہوتے ہیں۔؟
کاشف طوری: چونکہ ہم دوستوں نے یہ تہیہ کیا تھا کہ ہم نویں دسویں محرم اور انیسویں اور بیسویں صفر کے علاوہ کہیں نہیں جائیں گے، لیکن جہاں کہیں غنچہ زنی کی عزاداری کا اہتمام ہوگا، وہاں ہم ساتھ دیں گے اور علاقائی نوجوانوں کی ہر طرح سے مدد کریں گے۔ گذشتہ سال فیصل آباد کے نوجوانوں نے دستہ سقائے سکینہ فیصل آباد غنچہ زنی کی عزاداری کا اہتمام کیا تو ہمیں ساتھ دینے کا کہا۔ ہم نے لبیک کہتے ہوئے وہاں انکا ساتھ دیا، جہاں کہیں غنچہ زنی (کڑا زنی) کے حوالے سے عزاداری کا اہتمام ہوگا، ہم ساتھ دیں گے، تاکہ بی بی سکینہ سلام علیہا ہم سے راضی ہوں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکے منظم دوست کسی خاص ہدف کیساتھ اسکو متعارف کروا رہے ہیں۔؟
کاشف طوری: غنچہ زنی، نوحہ و مرثیہ کا کلام سامعین و حاضرین تک منتقل کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ جب منظم اور ایک خاص ربط سے عزاداری ہوتی ہے تو نوحہ خواں جو کلام پیش کرتے ہیں، وہ دِل و دماغ میں سرایت کرتا ہے اور یوں کربلا والوں کا پیغام ہر شخص تک پہنچاتا ہے۔ پارہ چنار، اسلام آباد کے علاوہ کے ملک کے دیگر شہروں میں بھی غنچہ زنی کو بڑھایا جا رہا ہے، تاکہ ایسی منظم عزاداری کی ترویج کی جائے، جس کا تقاضہ کربلا کرتی ہے۔

جب عزاداری کی رسم کا آغاز کیا تو کیا مشکلات درپیش آئیں۔؟
کاشف طوری:
ابتدا میں ہمیں بہت مشکلات کا سامنا رہا، مگر ہماری منظم انداز میں عزاداری کو دیکھ کر اب قبولیت میں اضافہ ہوا ہے، جو خوش آئند ہے۔ ہمارے دستہ پر مختلف الزام لگائے گئے کہ آپ برصغیر کی عزاداری کے خلاف ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے، نہ تو ہم کسی تنظیم سے فنڈز لیتے ہیں بلکہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت دستہ کے اخراجات ادا کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد ثقافت کی تبدیلی نہیں، برصغیر میں رائج عزاداری کی اہمیت اور قبولیت اپنی جگہ ہے۔ ہم فقط ایک منظم عزاداری کی ترویج کیلئے کوشاں ہیں۔ یہ ایک پُر اثر اور با مقصد عزاداری کی رسم ہے، جسے اہلسنت احباب زیادہ پسند کر رہے ہیں اور زنجیر زنی سے تقابل کرتے ہوئے اسے قبول کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بہت سے شیعہ اور سنی عزاداری کی رسوم پر احادیث سے دلیل مانگتے ہیں، وہ پاکستان میں رائج اس نئی رسم پر جب سوال اٹھاتے ہیں تو آپ کیا جواب دیتے ہیں۔؟
کاشف طوری: موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے، اس سے قدیم دور کی بات کریں تو ہر جگہ پر اپنے علاقے کے مطابق عزاداری ہوتی تھی، ایک علاقہ دوسرے علاقے کی عزاداری سے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا۔ ایسی عزاداری جو شریعت کے منافی نہ ہو، اس کے بارے میں احادیث سے تلاش کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عزاداری کو قرآن و حدیث سے ثابت کریں تو ہم انہیں عرض کرتے ہیں کہ ہر علاقہ کی اپنی ثقافت ہے، عزاداری بھی اس طریقہ سے کی جاتی ہے اور ہاں اس بات کا ضرور خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ شریعت کے متصادم نہ ہو۔ عزاداری کو احادیث کے بجائے رسوم کی نگاہ سے دیکھیں، اس کو دل سے قبول کریں اور یہ دیکھیں کہ اِس رسم سے کربلا کا پیغام پہنچ رہا ہے اور لوگ کربلا و اسلام سے جُڑ رہے ہیں۔ منظم عزاداری سے ایک انسان کی زندگی میں نظم اور اعتدال نظر آتا ہے۔

 آپکے خیال میں عزاداری کا ثقافت سے کتنا تعلق ہے۔؟
کاشف طوری: عزاداری اور ثقافت کا بالکل خاص اور گہرا تعلق ہے۔ ہم قدیمی عزاداری کا جائزہ لیں تو سعودیہ، ایران، عراق، یورپ میں ہر علاقہ میں اپنی ثقافت اور طور طریقہ سے عزاداری کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ برصغیر میں عزاداری کا طریقہ بھی مختلف ہے۔ نوحہ خوانی، ذاکری، مرثیہ گوئی، زنجیر زنی کا اپنا ایک طور طریقہ ہے۔ دورِ حاضر میں حاج کریمی، ندیم سرور اور مہدی رسولی تین مختلف ممالک کے معروف نوحہ خواں ہیں اور ان تینوں کا انداز مختلف ہے۔
خبر کا کوڈ : 947964
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش