0
Monday 6 Sep 2021 01:52

ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی کا خصوصی انٹرویو

ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی کا خصوصی انٹرویو
علامہ مقصود علی ڈومکی کا تعلق صوبہ سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ضلع جیکب آباد سے ہے، انکا شمار انقلابی، فعال اور متحرک علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ علامہ صاحب اسوقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان کی حیثیت سے ملی و قومی فرائض ادا کر رہے ہیں، جبکہ اس سے قبل ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سیکرٹری جنرل اور اس سے پہلے ایم ڈبلیو ایم بلوچستان کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ علامہ مقصود علی ڈومکی ہمیشہ ملی معاملات کے حل میں پیش پیش رہتے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی حالات پر بھی اچھی نظر رکھتے ہیں۔ علامہ صاحب اسوقت ایم ڈبلیو ایم کے عزاداری سیل کے انچارج بھی ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے کراچی میں تکفیری عناصر کیجانب سے تشیع مخالف اجتماع، پنجاب میں محرم الحرام کے دوران عزاداری کیخلاف مقدمات کے اندراج، معروف عالم دین علامہ شہنشاہ نقوی کیخلاف ایف آئی آر اور اس تناظر میں مجلس وحدت مسلمین کا موقف اور آئندہ کا لائحہ عمل جاننے کیلئے علامہ مقصود ڈومکی کیساتھ ایک تفصیلی انٹرویو کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: اس مرتبہ محرم الحرام میں خاص طور پر پنجاب میں عزاداری کیخلاف بے پناہ مقدمات درج ہوئے، اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کے اندراج کی کیا وجوہات ہیں۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
جی بالکل، پنجاب میں سینکڑوں مقدمات قائم ہوئے ہیں، پنجاب کو انہوں نے پولیس سٹیٹ بنا دیا ہے، مجھے انتہائی افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فقط ایک ضلع ملتان میں عزاداروں کیخلاف 72 ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ کس طرح جبر کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور کس طرح کی پولیس سٹیٹ قائم کی جا رہی ہے۔ ان کا جرم کیا ہے، جرم یہ ہے کہ ان لوگوں نے عزاداری کی ہے، اگر کہیں لائسنس موجود ہے تو بہانہ بنایا گیا کہ جلوس آدھا گھنٹہ کیوں لیٹ ختم ہوا، اس پر ایف آئی آر ہوگئی ہے، کہیں گھر کی چار دیواری میں مجلس ہوئی ہے تو اس پر ایف آئی آر درج ہوگئی ہے۔ بہاولپور، رحیم یار خان، میرے خیال میں پنجاب کا شائد ہی کوئی ایسا ضلع ہو، جہاں ایسا ظلم نہ ہوا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ اور وفاقی حکومت کو فوری طور پر اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں مجلس وحدت مسلمین کا کیا موقف اور لائحہ عمل ہے۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
ہم نے پنجاب کا دورہ شروع کر دیا ہے، جس میں ہم عزاداروں سے ملاقاتیں کریں گے، علمائے کرام اور اپنے تنظیموں احباب کیساتھ ملاقاتیں کریں گے اور ایک قومی لائحہ عمل کے حوالے سے ہم ایک مشاورت کر رہے ہیں کہ اس ظلم کیخلاف آواز بلند کی جائے، مجلس وحدت مسلمین قوم کی ایک نمائندہ جماعت ہے، لہذا جس طرح یہ ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں، جس طرح عزاداروں کو انتقام اور ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ایک عبادت کو جرم قرار دیکر سزاء دی جا رہی ہے، ہم سوال کرتے ہیں کہ ایک ہندو کو مندر جانے کی اجازت ہے، ایک سکھ کو اپنے گردوارے میں جانے کی اجازت ہے، ان کو اجازت ہے کہ وہ اپنے مذہبی تہوار اپنے عقیدے کے مطابق منا سکیں، حد یہ ہے کہ جب سکھوں کا اجتماع ہوتا ہے تو وزیراعظم اور وفاقی وزراء اس میں شریک ہوتے ہیں، لیکن اسی پنجاب کے اندر نواسہ رسول (ص) کا ذکر جرم بنا دیا جاتا ہے، پنجاب میں ہمارے قدیمی جلوسوں کیخلاف ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکی جماعت کی تو حکومتی جماعت کیساتھ اچھی ہم آہنگی ہے، اس خاص مسئلہ پر حکومتی سطح پر کیا کوئی بات چیت ہوئی ہے اور اگر یہ ایف آئی آرز واپس نہیں لی جاتیں تو پھر ایم ڈبلیو ایم کونسا راستہ اختیار کریگی۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
ہم عزاداری کیخلاف حکومتی اقدمات کی کھل کر مذمت کرتے ہیں، ہم اپنا یہ احتجاج اور یہ نقطہ نظر پی ٹی آئی کے ذمہ داران تک پہنچا چکے ہیں اور مزید بھی پہنچائیں گے اور اگر ضرورت ہوئی تو ہم احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین بنیادی طور پر اس ملت کی نمائندہ جماعت ہے، اس ملت کے حقوق کیلئے میدان عمل میں ہے، اگر ہم نے پنجاب میں کسی پارٹی کو کسی جگہ پر سپورٹ کیا یا اس سے سپورٹ لی تو وہ بھی اسی ملت کے مفاد میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عزادار اور عزاداری کا تحفظ ہمارے بنیادی اہداف کا حصہ ہے، ہم اس حوالے سے کسی صورت پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: پولیس اور انتظامیہ کا موقف ہوتا ہے کہ اشتعال انگیزی کرنیوالے مقررین کیوجہ سے ایسے مسائل آتے ہیں، اس موقف کو کس حد تک درست سمجھتے ہیں۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
مجلس وحدت مسلمین اتحاد بین المسلمین کی علمبردار ہے، ہم نے ہمیشہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی ہے، جو اس ملک میں اتحاد امت کیخلاف بات کرتے ہیں، چاہے وہ کوئی سنی مفتی ہو یا چاہے شیعہ ذاکر ہو، ہمارا اس حوالے سے موقف واضح ہے۔ ہم اپنے ذاکرین بھائیوں کا انتہائی احترام کرتے ہیں، وہ ہمارا حصہ ہیں، ان کی غالب اکثریت امن و محبت کا پیغام دیتی ہے اور مودت اہلبیتؑ کا پرچار کرتی ہے، وہ نفرت کی بات نہیں کرتے، البتہ ممکن ہے دو، چار ایسے افراد ہوں، جو منفی بات کرتے ہوں۔ آپ نے دیکھا کہ چند لوگ یزید پلید کی حمایت میں بات کر رہے ہیں، آٹھ اور دس محرم کو شادی کے فوائد کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ہم تو مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کیخلاف ایف آئی آر درج ہو، ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیئے۔

یہ توہین رسالت (ص) ہے، یہ توہین اہلبیتؑ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ذاکر ایسی منفی بات کرتا ہے تو ہم اسے کھل کر روکیں گے اور اس کو سمجھائیں گے۔ آپ نے دیکھا کہ اس سال اس قسم کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا اور کہیں پر ایسی کوئی بات رپورٹ نہیں ہوئی کہ کہیں کسی ذاکر نے ایسی کوئی بات کہی ہو کہ جو دل آزاری کا سبب ہو یا اتحاد بین المسلمین کیخلاف ہو۔ لیکن آپ دیکھیں کہ جو شرپسند ہیں، انہوں نے علامہ شہنشاہ حسین نقوی جیسی شخصیت کا نام لے لیا، جب انہیں کوئی ذاکر بھی ایسا نظر نہیں آیا تو انہوں نے ایک معروف عالم دین کا نام لے لیا، جو اتحاد کا حامی ہے، جو ہمیشہ اہلسنت کا اور ان کے اکابرین کا احترام کرتا ہے، ان لوگوں کو صرف شر انگیزی چاہیئے، جب کوئی بہانہ نہ بھی ہو تو وہ بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے علامہ شہنشاہ نقوی کا ذکر کیا، ہمیشہ محبت اور اتحاد کی بات کرنیوالے عالم دین کیخلاف ایف آئی آر کے اندراج کا کیا مقصد ہوسکتا ہے، کہیں حکومت نے یکطرفہ ٹریفک چلانے کا ارادہ تو نہیں کر لیا۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
علامہ شہنشاہ حسین نقوی کیخلاف مہم کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، ہم اس ملک میں امن چاہتے ہیں، اتحاد بین المسلمین چاہتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں نفرتوں کو ہوا دینے والے دشمنوں کے ایجنٹ ہیں۔ پاکستان میں تشیع کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو کہ انتہائی افسوس ناک اور انتہائی شرمناک ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایک طویل عرصہ اہل تشیع کیخلاف بم دھماکے کئے گئے، کافر کافر کے نعرے لگے، لیکن ان حالات میں بھی ہم نے اتحاد و اخوت کی بات کی۔ ایک مرتبہ پھر ان عناصر کو نظر آرہا ہے کہ ملک میں پرامن ماحول بنتا جا رہا ہے، اتحاد فروغ پا رہا ہے، لہذا یہ انہیں پسند نہیں ہے۔ اہل تشیع اس ملک کی ایک تہائی آبادی ہیں، ان کو اگر دیوار سے لگانے کی کوشش کی جائے تو یقیناً اس ملک کیلئے نقصان دہ ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی کیخلاف ایف آئی آر اسی سازش کا حصہ ہے، جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں ایک کالعدم اور فرقہ پرست جماعت کی سربراہی میں تکفیری مولویوں کو کانفرنس ہوئی، جسکا ایجنڈا تشیع مخالفت تھا، آپکے خیال میں اسکے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں، حکومت نے اس پر اب تک کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
یہ کانفرنس تکفیری ٹولے نے منعقد کی ہے، جس میں اہلبیتؑ کی توہین کی گئی، گذشتہ سال بھی اسی قسم کی سازش کی گئی تھی، اس وقت افواج پاکستان کے سربرہان نے بتایا کہ اس سازش کے تانے بانے بھارت سے ملتے تھے، سوشل میڈیا پر ایسے سینکڑوں پیجز اور اکاونٹس چلائے گئے، جس کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دینا تھا، اس حالیہ کانفرنس کے ذریعے بھی فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی گئی، ریاستی اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے اور تشیع کیخلاف زہر اگلنے والوں کیخلاف عملی کارروائی کرنی چاہیئے۔ شیعہ اذان کوئی نئی بات نہیں، یہ صدیوں سے چلتی آرہی ہے، آج اگر ایک شرانگیز مولوی آکر شیعہ اذان پر اعتراض کرنا شروع کر دے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسی شرانگیزی کا سدباب ریاستی اداروں کو فی الفور کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب شیعہ مخالف تکفیری تو اکٹھے ہو جاتے ہیں، لیکن شیعہ تنظیمیں اور اکابرین ایک پیج پر نظر نہیں آتے، کیا حالات یہ تقاضا نہیں کرتے کہ شیعہ قائدین اس حوالے سے کوئی اپنا مشترکہ لائحہ عمل پیش کریں۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
آپ کی بات بالکل درست ہے کہ تکفیری ٹولے نے متحد ہوکر شیعہ عقائد اور حقوق پر حملہ کیا ہے تو ایسے حالات میں تو پوری شیعہ قوم کو اکٹھا ہونا چاہیئے۔ علماء، ذاکرین، انجمنوں حتیٰ تمام سٹیک ہولڈرز کو متحد ہونا چاہیئے اور قوم کی نمائندہ جماعتوں کو اس حوالے سے پہل کرنی چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجلس وحدت مسلمین نے ہمیشہ اتحاد بین المومنین کی کوشش کی ہے اور اس حوالے سے ہم نے ہمیشہ پہل کی ہے اور اگر اس حوالے سے کوئی بھی کوشش ہوگی تو ہم اس حوالے سے سپورٹ کریں گے۔

آپ نے دیکھا کہ گذشتہ سال جب کراچی میں یزید لعنتی کے حق میں نعرے لگے اور شرانگیزی ہوئی تو تمام پاکستان کی تنظیمیں اکٹھی ہوئیں اور انہوں نے مشترکہ مسیج دیا، اب بھی حالات کا تقاضا یہی ہے کہ تکفیری اور یزیدی ٹولے کو ہماری طرف سے دوٹوک موقف جانا چاہیئے اور اس کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی یہ میسج جانا چاہیئے کہ شیعہ مقدسات اور عزاداری کے تحفظ کیلئے اور ملت کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہم اکٹھے ہوسکتے ہیں اور اکٹھے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے اکابرین اس حوالے سے غور کر رہے ہوں گے اور عنقریب ایسا اقدام ہوگا کہ جس سے ملت کی وحدت کا پیغام جائے گا اور دشمن کی سازش کو ناکام بنانے کیلئے لائحہ عمل کا اعلان ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 952327
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش