0
Thursday 30 Sep 2021 19:33
افغانستان سے داعش کا خطرہ اب بھی موجود ہے

اربعین حسینی بیداری کی نہ ختم ہونیوالی تحریک بنتی جا رہی ہے، مولانا حاجی عابد حسین

اربعین حسینی بیداری کی نہ ختم ہونیوالی تحریک بنتی جا رہی ہے، مولانا حاجی عابد حسین
مولانا عابد حسین جعفری کا شمار بزرگ عالم دین علامہ سید عابد حسین الحسینی کے شاگردوں نیز انکے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مئی 2020ء کو تحریک حسینی کے صدر کی حیثیت سے فرائض سنبھالے، صدارت کے دو ماہ کے اندر قومی حقوق خصوصاً بالش خیل اور ابراہیم زئی کی اراضی کے حوالے سے حق بات کہنے کی پاداش میں انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ حاجی عابد حسین جعفری قومی معاملات میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں، حاجی عابد حسین تحریک حسینی کے دیرینہ مسئولین میں بھی شمار ہوتے ہیں، اسلام ٹائمز نے ان کیساتھ حالیہ اربعین، تکفیریوں کیجانب سے ملک بھر میں فرقہ واریت پھیلانے کی کوششوں، کرم کے مقامی حالات سمیت دیگر اہم امور پر ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: اس مرتبہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اربعین شایان شان طریقہ سے منایا گیا، کیا اسکو بیداری کی تحریک سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
بسم اللہ الرحٰمن الرحیم۔ بالکل، یہ مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کے پاک خون کی تاثیر ہے کہ گزرتے وقت کیساتھ ساتھ ان کا ذکر پھیلتا جا رہا ہے، آپؑ کے چاہنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تمام تر پابندیوں کے باوجود امام علیہ السلام کے چاہنے والے اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر مظلوم کربلا کا غم منانے نکل پڑتے ہیں۔ یہ بیداری کی تحریک ہے اور ان شاء اللہ اس تحریک کا نتیجہ ظہور امام زمانہ (عج) کی شکل میں برآمد ہوگا۔ آپ نے دیکھا کہ پاکستان بھر میں لوگوں نے اربعین کے جلوسوں اور مشی میں تاریخی طور پر شرکت کی، کروڑوں عاشقان امامؑ سڑکوں پر نکلے، اپنے مظلوم امامؑ کو پرسہ دیا اور اس بیداری کی تحریک کا حصہ بنے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ سلسلہ ان شاء اللہ ہر آنے والے سال میں مزید بڑھے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ عزاداری کو روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
دراصل عزاداری امام مظلومؑ ہر انسان کو بیداری اور شعور کا درس دیتی ہے، ظالم حکمرانوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیتی ہے، حق و باطل کی پہچان کرواتی ہے، انسان کو عزت سے جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ اس لئے حکمرانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ عزاداری کو محدود سے محدود کیا جائے۔ یہ سلسلہ بین الاقوامی ہے، استعمار ہماری تین چیزوں سے خوفزدہ ہے، نمبر ایک مرجعیت، نمبر دو مہدویت اور نمبر تین عزاداری امام حسینؑ۔ لہذا استعماری قوتوں کی کوشش ہے کہ ان تینوں امور کیخلاف سازش کرے، لیکن ماضی کے مقابلہ میں اب ہمارے مومنین کافی بیدار ہوچکے ہیں اور استعمار کی تمام تر سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔

اسلام ٹائمز: کچھ دنوں قبل ایک مرتبہ پھر تکفیری عناصر نے فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی، کیا وجہ ہے کہ ریاست اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کرتی۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
یہ لوگ اہلسنت کی نمائندگی نہیں کرتے، بلکہ خود اہلسنت ان سے نفرت کرتے ہیں، یہ غلیظ لوگ ہیں، جن کا کوئی مذہب یا مسلک نہیں، بلکہ یہ دین اسلام کے دشمن ہیں۔ ہمیں ہمیشہ سے یہ شکوہ رہا ہے کہ ریاست اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کرتی، اس وجہ سے ہمارے مسلک میں یہ تاثر آتا ہے کہ یہ سب کچھ شائد حکومت کی سرپرستی میں ہو رہا ہے، اگر حکومت اس میں ملوث نہیں تو کالعدم جماعتوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیئے اور ملک میں فرقہ واریت کا موجب بننے والے کسی بھی طبقہ کو سر اٹھانے کا موقع نہیں ملنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: اب ذرا کرم کے حالات کی طرف آتے ہیں، یہاں گذشتہ چند ماہ سے زمینوں کے مسائل پر قتل و غارت گری کے کئی واقعات ہوچکے ہیں، جن میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں، یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
اس مسئلہ کا حل تو حتمی طور پر حکومت کو کرنا ہے، تنظیموں اور عمائدین نے تو اپنا کردار ادا کیا ہے، حکومت جب تک اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لے گی، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہم اور ہمارے بزرگوار علامہ سید عابد حسین الحسینی عرصہ دراز سے اس مسئلہ کی طرف حکومت کو متوجہ کرتے آرہے تھے، لیکن حکومت نے اس مسئلہ پر توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ لہذا اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنا کردار ادا کرے اور زمینوں کے مسائل کو حل کرے۔

اسلام ٹائمز: افغانستان میں حالات بدلنے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ داعش پاکستان کے قبائلی علاقوں کیطرف آسکتی ہے، کیا یہ خطرہ اب بھی موجود ہے۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
بالکل یہ خطرہ اس وقت بھی تھا اور اب بھی موجود ہے، کیونکہ طالبان کی حکومت آنے سے وہاں طالبان مخالف عناصر پاکستان پر دباو ڈالنے کیلئے داعش کو استعمال کرسکتے ہیں، اب تک ہماری حکومت اور طالبان کے معاملات تو اچھے نظر آریے ہیں، لیکن طالبان بھی کہہ چکے ہیں کہ داعش کا خطرہ موجود ہے، لہذا اگر داعش کے دہشتگرد پاکستان کا رخ کرتے ہیں تو ان کا پہلا ہدف کرم اور دیگر قبائلی علاقے ہوسکتے ہیں۔ اب یہ ہماری سکیورٹی فورسز اور پاک فوج کی ذمہ داری ہے کہ داعش کے خطرے سے کیسے نمٹا جائے۔
خبر کا کوڈ : 956529
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش