0
Friday 1 Oct 2021 03:06

سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی کا خصوصی انٹرویو

سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی کا خصوصی انٹرویو
علامہ سید عابد حسین الحسینی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور مرکزی سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے ہیں۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مختلف ملکی و بین الاقوامی امور کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاکستان میں اربعین کے جلوسوں اور واکس میں عوام کی ریکارڈ شرکت، تکفیریوں کی گیدڑ بھپکیوں کا ردعمل ہے یا عالمی سطح پر فروغ پانے والی بیداری کا تسلسل۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
بسم اللہ الرحٰمن الرحیم۔ میرے خیال میں یہ دونوں عوامل شامل ہیں، یہ تکفیری عناصر ہمیشہ محرم الحرام سے قبل یا اس دوران کچھ نہ کچھ گڑبڑ کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، انہیں درحقیقت ریاستی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، یہ لوگ کرائے کے لوگ ہیں، جیسا ان کا آقا کہے گا یہ غلام ویسا ہی کرتے ہیں۔ نام یہ اسلام کا لیتے ہیں، لیکن ان میں اسلام کی ایک جھلک تک نہیں۔ میرے خیال میں کراچی میں جو انہوں نے بکواس کی، خاص طور پر شیعہ اذان کے حوالے سے، اس سے قوم میں شدید غم و غصہ تو تھا ہی۔ اس مرتبہ قوم نے یہ غم و غصہ درست طریقہ سے اپنا وجود ظاہر کرکے نکالا۔ جس کے نتیجے میں آپ نے دیکھا کہ کس طرح مشیاں ہوئیں اور جلوس عزاء ہوئے۔ اس کے علاوہ اربعین ہمارے فقہاء کے احکامات کی روشنی میں ایک عظیم اجتماع بنتا جا رہا ہے۔ وبا کے باوجود میں نے سنا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کے قریب لوگ کربلا گئے، اپنے وجود اور امام حسین علیہ السلام کیساتھ اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔ اس سے قوم میں ایک وحدت دیکھی جا رہی ہے، میرے خیال میں یہ مومنین کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا بہت کا بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اربعین واکس اور جلوسوں کے نتیجے میں ملک کے مختلف شہروں میں عزاداروں کیخلاف ایف آئی آرز کے اندراج کا سلسلہ جاری ہے، اس سے قبل محرم میں بھی یہ سب دیکھا گیا، نامور علماء پر پابندیاں لگیں، کیا یہ شہری آزادیوں کیخلاف اقدام نہیں۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
یہ تو ہمیشہ ہوتا ہے، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، جب کسی کو کہیں چوٹ لگتی ہے تو اس کی آواز تو سنائی دیتی ہے۔ انہیں عزاداری اور بیداری سے تکلیف ہے، اس لئے مقدمات قائم کیے جاتے ہیں، اس ملک میں ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہے، حتیٰ اقلیتی لوگوں کو بھی آزادی حاصل ہے لیکن شیعوں کو اجازت نہیں دیتے۔ حکومت کا یہ رویہ تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ ریاست کو تو غیر جانبدار ہونا چاہیئے، لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیئے، لیکن یہاں صرف شیعوں کیساتھ دشمنی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہاں شیعہ، سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، شیعہ، سنی تو ملکر عزاداریوں میں شریک ہو رہے ہیں، یہ پہلے کی نسبت اب زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے، بلکہ ہمارے شیعوں کو بھی چاہیئے کہ وہ ایسے ماحول کو فروغ دیں کہ سنی مجالس عزاء میں شریک ہوں۔

اسلام ٹائمز: چہلم شہدائے کربلا سے قبل بزرگ علمائے شیعہ کیجانب سے اسلام آباد میں ایک اجتماع کا انعقاد کیا گیا تھا، اسکو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
یہ بہت اچھی بات تھی کہ ملک بھر سے علمائے کرام اور زعمائے قوم وہاں ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور جہاں دشمن کو ایک واضح پیغام ملا، وہیں مومنین کو بھی کافی عرصہ بعد یہ موقع دیکھنا نصیب ہوا کہ ہماری قوم کے تمام طبقات ایک چھت تلے جمع ہوئے۔ بزرگان نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے انتہائی بروقت اقدام کیا، جس کی مجھے بے حد خوشی ہے اور ہم اس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: افغانستان سے امریکی انخلاء اور طالبان کی حکومت آنے کے بعد کیا خطہ میں امن قائم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
اس میں تو کوئی شک نہیں جہاں بھی یہ شیطان بزرگ گیا ہے، وہاں کا امن تباہ کیا اور لوگوں کو بے گناہ قتل کیا۔ امریکہ افغانستان سے بھی خالی ہاتھ ہی گیا ہے، اس کو ہر جگہ شکست ہی ہوئی ہے۔ اب اس خطہ کے ممالک پر منحصر ہے کہ وہ کیسے چلتے ہیں، میرے خیال میں ہندوستان کے علاوہ اس خطہ کے تمام ممالک اس بات پر راضی ہیں کہ یہاں امن ہونا چاہیئے اور امریکہ کی مداخلت دوبارہ نہ ہو۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ پاکستان سمیت چین، ایران، روس وغیرہ آپس میں بیٹھیں اور طے کریں کہ خطہ کیلئے کیا بہتر ہے۔ امریکہ کا وجود ایک منحوس سایہ ثابت ہوا ہے، یہ جہاں گیا ہے، وہاں معاملات خراب ہی کئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگردوں کو معافی دینے کی باتیں ہوئیں، اس حوالے سے آپ کیا موقف رکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسین الحسینی:
عجیب بات ہے کہ یہاں نواسہ رسول (ص) کے ذکر پر مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور دہشتگردوں کو معافی دینے کی باتیں کی جاتی ہیں، اس سے بڑا دوہرا معیار کیا ہوگا۔؟ دہشتگردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے، ان کیلئے کوئی معافی نہیں ہونی چاہیئے۔ جب تک مجرم کو سزاء نہیں ملے گی تو معاشرے میں امن کیسے قائم ہوگا۔؟ قاتلوں کو مجرم کی حیثیت سے دیکھا جائے اور جو لوگ بے گناہ ہیں، انہیں بیشک چھوڑا جائے، لیکن ہر صورت انصاف ہونا چاہیئے، قاتل کو معاف کرنے کا اختیار صرف اور صرف مقتول کے خانوادے کو ہے، انہیں کس نے اختیار دیا ہے کہ یہ قاتلوں کو معاف کر دیں۔؟
خبر کا کوڈ : 956607
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش