0
Monday 10 Aug 2009 13:38

فتح کانفرنس کا مقصد اسرائیل کا تحفظ اور مسئلہ فلسطین کو سرد خانے میں ڈالنا ہے

فتح کانفرنس کا مقصد اسرائیل کا تحفظ اور مسئلہ فلسطین کو سرد خانے میں ڈالنا ہے
فلسطین میں رائٹرز اینڈ جرنلسٹ یونین کے رکن اور معروف صحافی غازی حسین نے کہا ہے کہ فتح کی موجودہ قیادت شکست خوردہ ہے، وہ قومی مقاصد اور مفادات کے بجائے اسرائیل کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے، فتح کی موجودہ نااہل قیادت نے فلسطین میں قومی منصوبے اور عرب ممالک کے اقدامات کو نقصان پہنچایا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے فتح کی جنرل کانفرنس اور فلسطین کی موجودہ صورت حال پر غازی حسین نے بات چیت کی جسے ذیل میں پیش کیاجاتا ہے۔ 
ٌ مرکز اطلاعات فلسطین: آپ ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے کیا سمجھتے ہیں کہ فتح کی موجودہ جنرل کانفرنس فلسطین کے سیاست پر کچھ اثرات مرتب ہوں گے یا یہ محض ایک نمائشی کانفرنس ہے جو غیرملکی خاکوں میں رنگ بھرنے کے لیے منعقد کی گئی ہے؟
غازی حسین: فتح کا قیام جن مقاصد کے لیے عمل میں لایاگیا تھا، لمحہ موجود میں وہ مقاصد دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ 1967 میں اس تنظیم نے اپنے قیام کے مقاصد کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کو اپنا مطمع نظر بنایا اورسیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مسلح جدو جہد کو لازمی قرار دیا، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ فتح کے موقف میں تبدیلی آتی رہی اور یہ مسلسل پسپائی در پسپائی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ چنانچہ فتح کا پہلا قدم اس وقت پھسلا جب اس کی قیادت نے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک فلسطینی ریاست کی تجویز پیش کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر غور شروع کیا۔ بعد ازاں 1974 میں فتح کے سربراہ نے اقوام متحدہ میں ایک انوکھی تجویز پیش کی اور کہا کہ وہ فلسطین میں یہودیوں اور مسلمانوں پر مشتمل ایک سیکولر ریاست کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ پسپائی کے اس تسلسل کے بعد 1993 کے اس معاہدے کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جس کے تحت فلسطینیوں کے بنیادی حقوق پر کلہاڑا چلایا گیا اور "اوسلو" جیسے بدنام زمانہ معاہدے پر دستخط کر کے اسرائیلی قبضے کو جواز فراہم کر دیا گیا۔ فتح کی اصل ناکامی اس وقت شروع ہوئی جب اس نے اسرائیل کے خلاف اپنی مسلح جدو جہد کو ترک کرتے ہوئے امریکہ کی زیر نگرانی مسائل کے حل کے لیے سیاسی اور سفارتی ذرائع کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب تک فتح کا ہیڈ کوارٹر بیروت میں تھا تب تک اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کی تحریک جاری تھی، فتح قیادت نے اس وقت پلٹا کھایا جب اس نے باقاعدہ طور پر اپنا کام فلسطین کے اندر شروع کیا۔ جب پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی تو فتح نے اس وقت بھی دو رخی پالیسی اپنائی۔ ایک طرف اس نے تحریک انتفاضہ کو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا پروگرام بنایا اور دوسری جانب تحریک انتفاضہ سے علیحدگی کا بھی تاثر دیا تاکہ دنیا کے سامنے خود کو اسرائیل کا حامی ثابت کیا جا سکے۔ 
موخر الذکر کیفیت کو صدر محمود عباس کی حمایت حاصل تھی اور وہ تحریک انتفاضہ کے سخت خلاف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون نے تکرار کے ساتھ کہا کہ وہ یاسر عرفات کو تحریک انتفاضہ کی آڑ میں سیاسی مفادات سمیٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مذاکرات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن بات چیت تحریک انتفاضہ کے تناظر میں نہیں ہو گی۔ اب یہ بات فاروق قدومی کی یاسر عرفات کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی دستاویز کے منظر عام پر آنے کے بعد عملاً ثابت ہو چکی ہے کہ اسرائیل نے یاسر عرفات کو زہر دے کر ہلاک کروایا۔ یاسر عرفات کے قتل میں محمود عباس اور دحلان بھی شامل ہیں۔ رہی موجودہ جنرل کانفرنس، تو یہ فلسطینی عوام کے خلاف محض ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ فتح فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑنے سے پہلے ہی دست بردار ہو چکی تھی۔ اب اس نے القدس کی آزادی پر بھی سمجھوتہ کر لیا ہے۔ فتح کے نزدیک فلسطینی پناہ گزینوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اس کانفرنس کا مقصد محمود عباس اور اس کی ٹیم کے اقتدار کو دوام بخشنا، اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا، اس کے جرائم پر پردہ ڈالنا اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی سودے بازی کرنا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین: آپ کے خیال میں فتح کی یہ کانفرنس فلسطینیوں کے حق واپسی اور مسلح مزاحمت کے تحفظ کا فیصلہ کر سکے گی؟
غازی حسین: فلسطینی اتھارٹی گزشتہ کئی برسوں سے اسرائیل سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مذاکرات میں اب تک اراضی کے تبادلے، بیت المقدس کو متحد رکھنے اور پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی راہ روکنے کے باے میں بات چیت ہوتی رہی ہے اور کافی حد تک فلسطینی اتھارٹی نے اس سے اتفاق بھی کیا ہے۔ رہی مسلح مزاحمت، اس سے بھی فلسطینی اتھارٹی عملاً دستبرداری کا اعلان کر چکی ہے۔ اب صرف یہ کوشش جاری ہے کہ کسی طرح ایک نام نہاد معاہدہ عمل میں لایا جائے جس کے تحت ایک عارضی اور ایک غیر مستقل ریاست قائم کر دی جائے اور اس ریاست کی حیثیت بھی اسرائیل کے ماتحت ایک علاقے کی سی ہو گی۔ فتح 1967ء میں اپنے قیام سے لیکر اب تک تنظیم آزادی فلسطین کی نگرانی کر رہی ہے۔ اس دوران اربوں ڈالرز کی بیرونی امداد ملتی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ڈالر کہاں ہیں؟ فتح کے پاس سے وہ بھاری اسلحہ کہاں گیا۔ بدقسمتی سے ان سوالوں کا جواب بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کیونکہ فتح کی کرپشن کے جو اسکینڈلز سامنے آتے رہے دنیا کی کسی دوسری جماعت کی ایسی بھیانک تاریخ نہیں ہے۔ فتح میں احتساب سیل ہونے کے باوجود انہیں کیوں سزا نہیں دی جا رہی۔ یہ یقینافتح پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ فتح کی موجودہ حقیقت اور تنظیم آزادی فلسطین کی قیادت اپنی آئینی حیثیت کھو چکی ہیں۔ فتح کی ایگزیکٹو کونسل 1991 سے غیر قانونی طو ر پر غلط ہے جبکہ اس کی مرکز ی کمیٹی بھی مسلسل غیر قانونی طور پر فتح کے کندھوں پر سوار ہے۔ اب صدر محمود عباس تو 9 جنوری 2009 سے غیر آئینی صدر قرار دئیے جا چکے ہیں۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطین کے تمام اہم اداروں، تنظیم آزادی فلسطین، اس کے ذیلی اداروں، مالی، انتظامی اور عسکری شعبوں کے واحد مالک بھی یہی ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ امر مغربی کنارے میں فتح کا قبضہ ہے۔ وہاں پر فتح کے قبضے کے دوران تحریک مزاحمت کو جو نقصان پہنچایا گیا اس کی مثال نہیں دی جا سکتی ہے۔ فتح نے امریکا اور اسرائیل سے فوجی امداد حاصل کر کے تحریک مزاحمت کو کچلنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران فتح نے جنگی تربیت اور مزاحمت کچلنے کیلئے امریکا سے 65 ملین ڈالر کی خطیر رقم حاصل کی۔ میرے پاس اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ موجودہ صدر فتح کو تحریک مزاحمت کچلنے کیلئے ایک آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔  
مرکز اطلاعات فلسطین: ایک تاثر یہ بھی ہے کہ فتح کی موجودہ کانفرنس اسرائیل کی اجازت کے تحت منعقد ہوئی ہے اور اس میں وہی بات مدنظر رکھی جائے گی جو اسرائیل کے لئے مفید ہو۔ حتی کہ فتح کے کئی اسرائیل مخالف رہنماوں کو یہ احساس دلایا جا چکا ہے کہ وہ جنرل کونسل کے اجلاس میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے جو اسرائیل کو منظور نہ ہو۔ آپ اس کے بارے میں کہا کہتے ہیں؟ غازی حسین: فتح ایک شکست خوردہ اور اسرائیلی پنجوں میں جکڑی ہوئی جماعت ہے۔ اب یہ جماعت کوئی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتی جو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہو اور اسرائیل کے خلاف ہو۔ اسرائیل کی حمایت اس کا وطیرہ رہا ہے۔ اس نے عرب ممالک کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے لئے کی جانے والی کوششوں اور اقدامات کو بھی سبوتاژ کیا ہے۔ فتح کی قیادت میں اختلاف رہا ہے جس کی بنیادی وجہ اس کی اسرائیل کی حمایت اور مخالف دھڑے بندی ہے۔ فتح کے جو لوگ جنرل کانفرنس کا انعقاد فلسطین سے باہر چاہتے تھے ان کے پیش نظر مزاحمت کے حق میں آزادانہ فیصلے ہی ہیں لیکن صدر عباس نے فلسطین کے اندر اس کے انعقاد کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کو اسرائیلی خوشنودی مقصود ہے تاکہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے نام نہاد مذاکرات کے تسلسل کی راہ ہموار کر سکیں- ادھر اسرائیل نے بھی اپنا پینترہ بدل لیا اور وہ بھی عظیم تر اسرائیل کی بجائے مشرق وسطی میں اقتصادی سطح پر بالا دستی چاہتا ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ وہ اقتصادی امن کے نعرے کے ساتھ مشرق وسطی کے ممالک کی دولت سمیٹ سکے۔ ایسی صورتحال میں میں سمجھتا ہوں کہ بیت اللحم میں منعقدہ کانفرنس کا مقصد فتح کی اسرائیلی حامی قیادت کو موثر بنانے اور اسے آگے لانا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین: فتح کی جنرل کونسل کا بائیکاٹ کرنے والے گروپ میں فاروق قدومی نمایاں ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت جماعت میں ایک مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
غازی حسین: اس وقت امریکا، یورپی یونین، اسرائیل اور بعض عرب ممالک جن کے بارے میں ’’اعتدال پسند‘‘ ہونے کا تاثر ہے محمود عباس کی پشت پر ہیں۔ غزہ میں مقیم ارکان کی بیت اللحم میں جنرل کانفرنس میں شرکت کے بدلے حماس کے قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں عباس گروپ نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ محمود عباس کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حماس نے فتح کی یہ پیشکش ٹھکرا دی ہے جس میں قیدیوں کی رہائی کے بدلے فتح کے ارکان کو غزہ سے باہر جانے کی اجازت دینا تھی- دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی ڈیل طے نہ ہونے کی وجہ سے فتح کا رویہ مزید جارحانہ ہو گیا ہے۔ فتح کے غصے کی ایک وجہ 2006 کے انتخابات میں حماس کے ہاتھوں اس کی شکست بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فتح اور حماس کو ایک دوسرے کے قریب آنے کی اجازت نہیں دیتا اور محمود عباس اور فتح کے برسر اقتدار دھڑے کی مدد کر رہا ہے۔ محمود عباس بیرون ملک فتح کے بعض قائدین کو نوازنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ فتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمد غنیم اس کی ایک مثال ہیں۔ محمود عباس محمد غنیم کو جو بیرون ملک فتح کے سرکردہ رہنما ہیں فتح کی انقلابی کمیٹی کے ممبر بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ایک فرزند مغربی کنارے میں سلام فیاض کی حکومت میں وزیر بھی ہے جبکہ ان کے ایک دوسرے بچے کو وزارت تفویض کی جا رہی ہے۔ اس طرح محمود عباس فتح میں اپنا حامی گروپ مضبوط سے مضبوط تر بنانے کیلئے کوشاں ہیں تاکہ وہ نہ صرف اپنی صدارت کی توسیع کر سکیں بلکہ دوباہ کامیاب ہونے کیلئے اپنے حامی بھی تیار کر سکیں۔ اسی طرح ام جہاد کو دوبارہ مرکز ی مجلس کا رکن بنانے اور اس کے بیٹوں کو انقلابی کمیٹی کا ممبر بنانے کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ اسی طرح کئی پرانے ارکان کو نکال دیا جائے گا اور ان کی جگہ محمود عباس کے حامی گروپ کےافراد لائے جائیں گے تاکہ انکے گروپ کو اکثریت حاصل ہو جائے۔
مرکز اطلاعات فلسطین: فتح کی مرکزی کمیٹی کے ارکان کی بڑی تعداد بیرون ملک ہے یا ملک بدر ہے؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کے باوجود فتح کی جنرل کونسل کا اجلاس آئینی ہے؟
غازی حسین: ایسا بالکل ممکن نہیں ہے کیونکہ بیرون ملک کانفرنس کے انعقاد کیلئے فتح کی انتظامی کمیٹی دو سال تک اجلاس کے انعقاد کیلئے کوشاں رہی ہے لیکن وہ اس میں ناکام رہی ہے۔ محمود عباس نے چند افراد کو جمع کیا اور باقی بیرون ملک سے آئے ان کی ووٹنگ کے ذریعے ان کی حمایت کے حصول کا ڈھونگ رچایا گیا جو غیر آئینی ہے۔ لہذا فتح کے موجودہ اجلاس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس کے فیصلوں کو قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین: موجودہ حالات میں آپ فتح کے نام کیسا پیغام دیں گے؟ 
غازی حسین: میرا خیال ہے کہ فتح کانٹوں کی جو فصل بو چکی ہے اسے ختم کر دینا چاہیے۔ وہ اوسلو معاہدہ ہو یا اسرائیل سے بے سود مذاکرات، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ ہو یا کچھ اور، فتح اپنی پالیسی تبدیل کرے اور قومی دھارے میں شامل ہو کر تحریک مزاحمت کی حمایت کا کھل کر اعلان کرے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ اس کانفرنس کا مقصد ہونا چاہیے تھا جبکہ عرب اور اسلامی دنیا بھی اس سے یہی توقع رکھتی ہے۔

خبر کا کوڈ : 9573
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش