0
Tuesday 28 Dec 2021 20:58
کسی ایک حق سے پیچھے ہٹنا اپنے تمام حقوق کا سودا کرنے کے مترادف ہے

پیواڑ معاملے میں غیر متعلقہ قبائل اور افراد کی مداخلت معنی خیز ہے، علامہ عابد الحسینی

پیواڑ معاملے میں غیر متعلقہ قبائل اور افراد کی مداخلت معنی خیز ہے، علامہ عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ موصوف کیساتھ کرم کی تازہ صورتحال کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کرم کی موجودہ کشیدہ صورتحال کے حوالے سے ذرا یہ بتائیں کہ اسکے پیچھے کونسے عوامل کارفرما ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
بار بار وضاحت کی جاچکی ہے کہ کرم میں کسی بھی جھگڑے کے پیچھے ہمیشہ اراضی اور شاملات کے تنازعات کارفرما ہوتے ہیں۔ کرم کے پوری ماضی کو اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہاں 98 فیصد لڑائی جھگڑے زمینی تنازعات پر ہوچکے ہیں۔ اکا دکا تنازعات کے پیچھے شاید فرقہ واریت کار فرما رہی ہو، مگر ہماری بدقسمی یہ ہے کہ انہی عام و روایتی تنازعات کو بعد میں فرقہ واریت کا رنگ دیا گیا ہے اور یہی سنت و روایت آج تک جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: سوشل میڈیا پر اہلیان پیواڑ کے حوالے سے ایک بات سننے میں آرہی ہے کہ پیواڑ کا علیزئی قبیلہ کسی جرگے اور قانون کو تسلیم نہیں کر رہا، یہ کہاں تک درست ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
یہ سراسر بہتان اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ہے۔ لگ بھگ ایسا موقف تو متقابل فریق کا ہے، وہ اور ان کے حمایتی دیگر قبائل کا کہنا ہے کہ ریونیو ریکارڈ انگریز کا مرتب کردہ ہے اور یہ کہ انگریز کا مرتب کردہ قانون انہیں کسی صورت میں منظور نہیں۔ پیواڑ کا علی زئی قبیلہ تو کاغذات مال، عدالت بلکہ سرکار کے ہر قانون کو مانتا ہے، انکے پاس عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں۔ اپنے بیانات میں وہ انہی کا حوالہ دیتے ہیں، تو قانون سے ہٹ کر بات وہ کیسے کرسکتے ہیں۔ علی زئی تو کیا، طوری بنگش قبائل نے تو کلی طور پر اور ہر زمانے میں حکومت کو قبول اور سپورٹ کیا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ حکومت کے بعض اداروں نے طوری بنگش قبائل کو امن و امان فراہم کرنے کی بجائے انکی مخالفت کی ہے۔

ان کی نسل کشی کرنے میں ہر طرح سے معاونت اور سہولت کاری کی ہے، جبکہ جواب میں طوری بنگش اقوام نے افغان بارڈر سمیت پورے کرم میں حکومت کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ دوسری ایجنسیوں اور علاقوں بلکہ خود لوئر اور سنٹرل کرم کی نسبت طوریوں کے علاقوں میں حکومت خود کو نسبتاً زیادہ محفوظ تصور کرتی ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ دوسرے قبائلی اضلاع میں حکومت کو کتنا جانی و مالی نقصان پہنچا ہے، اور اس کے مقابلے میں کرم میں خصوصاً اپر کرم اور لوئر کرم کے طوری نشین علاقوں میں انہیں کیا نقصان پہنچا ہے۔ اس کے باوجود مقامی متعصب انتظامیہ نے طوریوں کی بجائے ہمیشہ مخالف افغان قبائل کو سپورٹ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: پیواڑ گیدو کے حوالے سے سننے میں آرہا ہے کہ متحارب دونوں فریق پہاڑ کے مجوزہ مسئلے کو ریونیو ریکارڈ کے مطابق حل کرنے کے متمنی ہیں، تو پھر تنازعہ کس بات پر ہے۔؟ 
علامہ سید عابد الحسینی:
یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے، مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ فریقین سے کچھ زیادہ غیر وابستہ قبائل اور لوگ تنازعے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ غیر متعلقہ قبائل و افراد کی مداخلت بہت خطرناک ہوتی ہے۔ ایسے لوگ مسئلے کو طول دیکر مزید الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم فریقین اور غیر وابستہ ایسے شرپسند لوگوں سے بھی زیادہ قصور وار مقامی انتظامیہ ہے، جس کے تساہل اور سستی نے جنگ کی آگ کو مزید بھڑکنے کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ حکومت آج ہی چاہے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے، مگر وہ مسئلہ حل کرنے کی بجائے ہمیشہ فریق کا کردار ادا کرتی ہے۔ غیر وابستہ اور بدامنی پھیلانے والے افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنا ہی حکومت کا جرم ہے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت معاملے کا اصل ایشو کیا ہے، جس پر فریقین یا جرگہ متفق نہیں ہو رہا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
دراصل علیزئی کا موقف یہ ہے کہ پہاڑ ان کی ملکیت ہے۔ ان کے پاس اس کا ثبوت موجود ہے اور اس پر فریقین کے مابین معاہدہ ہے کہ ہر سال دونوں فریق 20 دن لکڑی کاٹیں گے۔ اس کے علاوہ فریقین کے مابین ایک معاہدہ ہے کہ روڈ، پہاڑ اور پانی کی نہر آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ ان تینوں پر ایک ہی ساتھ امن فراہم کیا جائے گا۔ چنانچہ ان کا خیال ہے کہ اپنے پہاڑ جا کر مخالف فریق نے حملہ کرکے ان کے 11 افراد کو قتل کیا۔ لہذا جب تک انہیں اپنے پہاڑ جانے کی اجازت اور تحفظ فراہم نہیں، اپنے قاتلین کو روڈ پر امن کی ضمانت نہیں دے سکتے اور یہ کہ ان کا مسئلہ گیدو کے منگل قبیلے کے ساتھ ہے، دیگر علاقوں کے منگل قبائل سے انکا کوئی مسئلہ نہیں، وہ بلا خوف و خطر گزر سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ پٹھانوں میں یہ روایت عام ہے کہ اپنی جان کے خوف کیوجہ سے کوئی قاتل مقتول کے راستے سے نہیں گزر سکتا۔ دوسری طرف صدہ میں آباد قبائل جن کی ملزمان کے ساتھ کوئی قبائلی راہ و رسم نہیں، آئے دن ملزمان کے حق میں دھرنا دے کر مین تجارتی شاہراہ کو بلاک کر دیتے ہیں، جس پر حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ حالانکہ یہی حکومت پیواڑ اور نستی کوٹ کے پرامن دھرنوں پر پوری طرح سے حرکت میں آکر ان کے درجنوں افراد کے خلاف ایف آئی آر کاٹتی ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ گیدو کے صرف 20 گھرانے اتنی جسارت پر اتر آئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: امن و امان کی خاطر علیزئی قبیلہ اگر تھوڑا سا صبر سے کام لے تو یہ کرم کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
حکومت اور مخالف قبیلہ تو چاہتا یہی ہے کہ طوریوں پر دباو ڈالا جائے، انہیں مجبور کرکے ان کی من مانی شرائط پر راضی نامہ کروایا جائے۔ تاکہ ہر جگہ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاسکے۔ طوری قبیلہ بالش خیل میں عرصہ دو دہائیوں سے صبر کرتا آرہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غیر قانونی پندرہ بیس مکانات کی جگہ آج وہاں سینکڑوں مکانات تعمیر ہوچکے ہیں اور مزید تعمیرات ہو رہے ہیں۔ حکومت کوئی اقدام ہی نہیں کرتی۔ چنانچہ کل بالش خیل اور آج پیواڑ میں صبر کریں تو مستقبل میں طوریوں کو اپنے تمام حقوق سے مکمل طور پر ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
خبر کا کوڈ : 970745
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش