0
Tuesday 25 Jan 2022 23:34

معروف عالم دین علامہ محمد امین شہیدی کا خصوصی انٹرویو (حصہ دوئم)

معروف عالم دین علامہ محمد امین شہیدی کا خصوصی انٹرویو (حصہ دوئم)
علامہ محمد امین شہیدی امت واحدہ پاکستان کے سربراہ ہیں۔ انکا شمار ملک کے معروف ترین علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز میں ہوتا ہے، دلیل کیساتھ اپنا موقف پیش کرتے ہیں، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شوز، مذاکروں اور مذہبی محافل میں شریک دکھائی دیتے ہیں۔ علامہ امین شہیدی اتحاد بین المسلمین کے حقیقی داعی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، وہ اپنی تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ اسلام ٹائمز نے حالات حاضرہ بالخصوص ملک میں دہشتگردی کی حالیہ نئی لہر، نئی قومی سلامتی پالیسی، ایران، سعودیہ تعلقات میں بہتری، یمن سمیت خطہ کے حالات جیسے اہم ایشوز پر علامہ امین شہیدی صاحب کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، انٹرویو طولانی ہونے کیوجہ سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، دوسرا حصہ پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: یمن کا مسئلہ گزرتے وقت کیساتھ ساتھ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، ایک طرف انصار اللہ کا یو اے ای پر حملہ اور دوسری طرف یمن میں بے گناہ افراد پر سعودی فوجی اتحاد کی بمباریاں، مسئلہ کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:
دیکھیں، نہ ہی امریکہ کی یہ خواہش ہے اور نہ ہی یورپ کی یہ خواہش ہے کہ اس خطہ میں ایک اور نظریاتی ریاست وجود میں آئے، جو اس خطہ میں مغربی مفادات کیلئے چیلنج ثابت ہو، یمن پر جنگ اسی پس منظر میں مسلط کی گئی ہے اور اس کیلئے سعودی بھی استعمال ہوئے ہیں اور یو اے ای والے بھی۔ اصل جنگ اس خطہ میں نظریات کی ہے۔ سعودیوں کو یہ خوف ہے کہ اگر کسی عرب ملک کے اندر یہ نظریات جڑ پکڑ جائیں تو باقی عرب ممالک کا ان نظریات سے متاثر ہونا فطری ہے۔ نتیجتاً سعودیوں کی اپنی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے، سعودیوں کی بقاء خطرے میں پڑ جائے تو یورپ اور امریکہ کا اس خظہ کے اندر اثر و رسوخ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ لہذا اس وجہ سے یہ جنگ ملسط کی گئی۔ یہ عجیب ہے کہ ایک طرف تو خالی ہاتھ حوثی ہیں، جن کے پاوں میں شائد جوتے بھی نہ ہوں، لیکن انہوں نے اپنے ارادوں کی مضبوطی اور ایمان کی دولت سے گذشتہ سات سالوں میں مسلسل جنگ لڑ کر اس خطہ میں یہ بات ثابت کر دی ہے کہ یمنیوں کو ساری دنیا ملک کر بھی شکست نہیں دے سکتی۔

دوسری طرف تیس ہزار سے زائد لوگوں کا قتل عام اور یمن کے انفراسٹرکچر کی یو اے ای، سعودی عرب اور ان کی متحدہ افواج کے ہاتھوں بے دردی سے تباہی سے یمنیوں کے اندر ان کیلئے نفرت تو پیدا ہوگئی ہے۔ جو اسلحہ یمن میں یمنی عوام کیخلاف استعمال ہوتا ہے، وہ جرمنی کا ہے، فرانس کا ہے، برطانیہ کا ہے، خود امریکیوں کا اسلحہ ہے اور فورسز کرائے کی ہیں، یمنی بہرحال تاریخی اعتبار سے غیرت مند قوم ہیں اور اپنی اسی غیرت و ہمیت کی وجہ سے وہ پورے عرصے میں آگے بڑھے ہیں، پیچھے نہیں ہٹے۔ سات سال کے اس عرصہ میں وہ کمزور ہونے کی بجائے مزید طاقتور ہوئے ہیں اور اس دوران سعودی اور اماراتی اثر و رسوخ کم سے کم ہوتا چلا گیا ہے۔ امارات والے اس جنگ سے نکل گئے تھے، لیکن جب وہ اس جنگ میں دوبارہ داخل ہوئے تو یمنیوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ ان کے کان کھینچیں۔ یمنیوں نے اگر یو اے ای کے ائیرپورٹ پر راکٹ برسائے تو یہ صرف خبردار کرنے کیلئے ٹوکن تھا۔ چونکہ یو اے ای میں جتنی بھی سرمایہ کاری ہے، وہ باہر کی ہے۔ اگر وہاں پر ان سرمایہ کاروں کو اپنی جان اور مال کے محفوظ ہونے کا یقین نہ ہو اور خطرہ پڑ جائے تو وہ کیوں وہاں پر رہیں گے؟ اور یہی چیز ان کی اقتصادی موت کا باعث ہے۔

یمنیوں نے انہیں (یو اے ای کو) اسی حوالے سے متوجہ کیا ہے کہ ابھی تو ہم نے صرف ٹریلر دکھایا ہے، اگر آپ اس جنگ میں مزید آگے بڑھے تو پھر آپ کو اس سے بڑے حملوں کیلئے تیار ہونا چاہیئے۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس یمنی قوم کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ابوظہبی ائیرپورٹ کے ایسے حصے کو نشانہ بنائیں کہ جس میں نقصان تو کم ہو لیکن انہیں خبردار کیا جائے تو وہ بڑے اہداف کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں، آئل ریفائنریز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ائیر پورٹس کو بھرپور نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ نتیجتاً یو اے ای کی ساری معیشت پھر تباہی کے دہانے پر کھڑی ہو جاتی ہے اور یہ چیز امریکیوں کو بھی معلوم ہے، سعودیوں کو بھی معلوم ہے اور اماراتیوں کو بھی معلوم ہے۔ یمنی اس حوالے سے کسی جذباتیت کا شکار ہوئے بغیر بڑے ہی دھیمے انداز میں تحمل اور بردباری کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور دنیا میں ثابت کر رہے ہیں کہ وہ عقل و دانش سے بھرپور قوم ہیں، جبکہ ان کے مقابلہ میں بن سلمان ہو یا یو اے ای کے حکمران، ان میں وہ عقل و تدبر نظر نہیں آتا۔

راستہ صرف ایک ہی ہے کہ یہ جارح افواج یمن سے نکل جائیں اور یمن کو یمنیوں کے حوالے کر دیں، یمنی عوام مل کر اپنی قسمت کا فیصلہ کریں اور ان ممالک کی مداخلتوں سے آزاد ہوں۔ اگر یہ ممالک وہاں مداخلت سے باز آتے ہیں اور اپنی فوجیں نکال لیتے ہیں تو اس کے بعد یمن کی نئے سرے سے آبادکاری اور وہاں عوامی امنگوں کے مطابق حکمرانی کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں اور وہاں امن قائم ہوسکتا ہے۔ لڑ کر، اسلحہ کے زور پر اور بین الاقوامی دباو کے ذریعے نہ سعودی اور اماراتی کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ امریکی و یورپی اس قوم کو دیوار سے لگا سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایران کے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی نے روس کا اہم ترین دورہ کیا اور اسی طرح ایران اور چین کے مابین طے پانیوالے کئی معاہدوں پر بھی عملدرآمد شروع ہوچکا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خطہ کے ان ممالک کے مابین فروغ پاتے تعلقات امریکہ مخالف حقیقی بلاک کی تشکیل کیطرف اشارہ ہے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:
ممالک کے درمیان دوستی اور دشمنیوں کا معیار ان کے مفادات ہوتے ہیں، ایران اس وقت جس پوزیشن میں ہے، سارے یورپ اور امریکیوں نے ان کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے اور پابندیاں لگائی ہوئی ہیں، جتنی پابندیاں ان کے کیلئے ممکن تھیں، وہ ساری کی ساری لگا چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایران نے ترقی کی ہے، ایران ہر گزرتے دن کیساتھ مضبوط ہوا ہے۔ ایران یہ چاہے گا کہ خطہ کے دیگر ممالک کیساتھ اس کے تعلقات امریکی پریشر کے باوجود ہر گزرتے دن کیساتھ مضبوط ہوں۔ اس حوالے سے اگر امریکہ مخالف قوت کے طور پر آپ دیکھیں تو روس کو بھی ایران سوٹ کرتا ہے اور چائینہ کو بھی۔ روس بھی اپنے مفادات کیلئے یہ کام کرے گا اور چائینہ بھی اپنے ہی مفادات کیلئے۔ اس لئے اگر آپ بلاکس کے اعتبار سے دیکھیں تو روس شام جنگ میں مغربی بلاک کے مقابلے میں ایران کیساتھ کھڑا رہا، امریکی کسی بھی ملک کے ساتھ اس وقت تک ہیں، جب تک ان کے اپنے مفادات محفوظ ہیں، خود اس ملک کو وہ کوئی فائدہ نہیں پہنچانا چاہتے، وہ صرف اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں، اس ضمن میں اگر اس ملک کو کوئی فائدہ پہنچ جائے تو الگ بات ہے، جیسے خود ہمارے ملک کیساتھ یہ تجربہ بارہا دوہرایا جاچکا ہے۔

عرب ممالک بھی عملاً اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکیوں کی دوستی کوئی بہت منافع بخش نہیں ہے، وہ صرف وقتی اور ان کے اپنے مفادات کے حصول کیلئے ہوتی ہے۔ اس وقت معیشت کے اعتبار سے امریکیوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج چائینہ ہے، اپنے اپنے مفادات کے تحت ممالک کے بلاکس خود بخود بن ہی جاتے ہیں۔ صدر آیت اللہ رئیسی کے دورہ روس میں سب سے نمایاں چیز ان دونوں ممالک کے درمیان معیشت، بین الاقوامی پالیسز اور ایران پر لگنے والی پابندیوں کے حوالے سے وہ چینلجز ہیں، ایران یہ چاہے گا کہ اس حوالے سے روس سے مدد لے اور روس بھی اپنے مفادات کے آئینے میں یہ چاہے گا کہ ایران اس کے ساتھ تعاون کرے۔ یہ مفادات کی دنیا ہے اور اس دنیا میں کچھ لو اور کچھ دو کا اصول غالب ہوتا ہے۔ اگرچہ مغربی دنیا اور امریکہ تسلط کا کردار چاہتے ہیں جبکہ ایران برابری کی سطح پر بات کرنا چاہتا ہے، لہذا روس اور چین کیساتھ ایران کا اس حوالے سے تجربہ مثبت رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ چائینہ کیساتھ ایران کے 25 سالہ اقتصادی منصوبے کا آغاز اسی ہفتے ہوچکا ہے اور وہ چونکہ معیشت کی پالیسی ہے، جس میں دونوں ممالک کے مفادات ہیں، اس کے نتیجے میں امریکیوں کو خود بخود پریشانی لاحق ہو جاتی ہے اور امریکہ اور مغربی ممالک کو تکلیف ہوتی ہے۔

ایران بہرحال ایک بڑی مارکیٹ ہے، روس اور چائینہ کیساتھ قربت کیوجہ سے امریکیوں اور یورپ کے لئے اس مارکیٹ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، لہذا ایشیاء میں موجود ممالک کے درمیان اس طرح کے اقتصادی تعاون اور مضبوط اقتصادی رشتے خود بخود اس پورے خطے کو یورپ اور امریکہ کے مقابلہ میں ایک بلاک کی صورت میں سامنے لے آتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ظاہر ہے کہ یہ بلاک مزید مضبوط ہوگا، امریکیوں کی جو پالیسیاں اب تک سامنے آئی ہیں، اس کے نتیجے میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکی کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جا رہے ہیں، ان کی دنیا پر گرفت ڈھیلی پڑتی چلی جا رہی ہے۔ ان کا رعب و دبدبہ جو بعض ممالک پر تھا، اس میں کمی آرہی ہے، ان ممالک کو بھی یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ امریکی کمزور ہوچکے ہیں۔ لہذا ان علاقائی ممالک کے آپس کے معاشی، اقتصادی اور دفاعی رشتے جتنے مضبوط ہوں گے تو یہ ممالک یقینی طور پر ایک مضبوط بلاک کی صورت میں امریکہ اور مغرب کے مقابلے میں کھڑے ہو جائیں گے۔

پاکستانی حکمران بھی ظاہر ہے کہ اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کا مفاد امریکہ میں نہیں ہے، علاقائی ممالک چین اور روس کیساتھ جڑنے سے پاکستان زیادہ محفوظ اور ترقی کی طرف گامزن ہوسکتا ہے، یہ بات پاکستان کو بھی سمجھ آگئی ہے۔ اس لئے آنے والے دنوں میں اس بات کی توقع رہنی چاہیئے کہ مجموعی طور پر ہم مغرب اور امریکیوں کے مقابلے میں اس خطہ میں ایک مضبوط بلاک دیکھیں۔ لہذا آیت اللہ رئیسی کا دورہ اس حوالے سے بہت اہم ہے اور چائینہ و ایران کے درمیان 25 سالہ اقتصادی معاہدے کا اجراء اور عملی طور پر اس پر عملدرآمد اس صورت حال میں انتہائی اہم ہے کہ امریکیوں اور ان کے چھ ممالک کے ایران کے ساتھ جوہری حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔ ایران جارحانہ انداز بھی اختیار کر رہا ہے، یورپ اور امریکہ کو ان مذاکرات میں کامیابی کی کوئی شکل نظر بھی نہیں آرہی اور ادھر ایران بڑی مضبوطی کیساتھ اپنے موقف پر کھڑا ہے اور اردگرد کے ممالک کیساتھ اپنے روابط کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں مصروف بھی ہے۔ تو یہ سب چیزیں اس خطہ کے اچھے مستقبل کے حوالے سے نوید اور خوش خبری کا باعث ہیں اور ایک اچھا مستقبل اس خطہ کے انتظار میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 975428
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش