1
0
Monday 28 Feb 2022 12:34
پیروان اہلبیت کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی بھی فیصلہ قبول نہیں کیا جائیگا

متنازعہ نصاب تعلیم کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا، علامہ عابد الحسینی

متنازعہ نصاب تعلیم کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا، علامہ عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ موصوف کے ساتھ کرم کی تازہ صورتحال کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آغا صاحب! موجودہ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے آپکی اور آپکے مدرسے و تنظیم کی کیا پالیسی ہے۔؟
علامہ عابد الحسینی:
الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدوار ہماری اس مقدس دھرتی اور علاقے کے بچے ہیں۔ ہمارے لئے سب برابر اور قیمتی ہیں۔ جو بھی کامیاب ہو، ہمارے لئے باعث مسرت ہوگا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ عز وجل ہر ایک کو قوم اور اس سرزمین کی کما حقہ خدمت کرنے کی توفیق عنایت کرے۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کے حوالے سے امیدواروں سے آپکی کیا امیدیں ہیں اور کیا پیغام ہے۔؟
علامہ عابد الحسینی:
اہلیان کرم نہایت قابل، تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ ہیں۔ محب وطن اور آپس میں محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ تاہم الیکشن کے دوران مسائل پیش آتے ہیں۔ محبتیں نفرت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ میں تمام امیدواروں سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ بیشک اپنی انتخابی مہم جاری رکھیں۔ تاہم نفرت آمیز باتوں اور ایسی پالیسی اور تقریروں سے پرہیز کیا جائے، جن سے عوام کے مابین نفرت پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ کافی عرصہ بعد علاقے میں مہر و محبت کی فضا قائم ہوئی ہے، چنانچہ اس مٹی کے تمام فرزندان سے میری یہ خواہش اور گزارش ہے کہ اس فضا کو مکدر اور آلودہ نہ بنایا جائے۔

اسلام ٹائمز: یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے اپنی رائے اور پالیسی واضح  کریں۔؟
علامہ عابد الحسینی:
عمران خان سے عوام کی کافی امیدیں وابستہ تھیں۔ خصوصاً ان کے اس دعوے کی وجہ سے کہ وہ ریاست مدینہ کا قیام عمل میں لائے گا۔ انہوں نے ظلم، غربت اور کرپشن کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر کوئی بھی وعدہ ایفا نہ کرسکے، بلکہ الٹا قیام پاکستان سے رائج اسلامی دفعات تک کو بدلنے کی جسارت کر رہا ہے۔ جس طرح کہ سننے میں آرہا ہے کہ مجوزہ نصاب سے اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ذکر کو نکال کر دشمنان اہلبیتؑ کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔ تو ثابت ہو رہا ہے کہ یہ ناصبی اور دشمن اہلبیت ہے۔ تاہم شیعیان علی اس کے خلاف ملکی سطح پر بھرپور احتجاج کرتے ہوئے اس کا راستہ روکیں گے۔

اسلام ٹائمز: اہلبیتؑ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام کے تذکرہ کے حوالے سے آپکے تحفظات کیا ہیں۔؟
علامہ عابد الحسینی:
صحابہ کرام کے حوالے سے ہمارے کوئی تحفظات نہیں۔ جو کرام ہیں، وہ ہمارے سر کے تاج ہیں، بلکہ مسلمانوں کے مابین جو ہستیاں متفق علیہ ہیں۔ اس پر تو کوئی بات ہی نہیں کی جا رہی۔ مگر اہلبیت علیہم السلام بالخصوص مولا علی علیہ السلام کے حوالے سے تو کوئی تنازعہ ہی نہیں۔ یہ تو تمام مسلمانوں کے مابین غیر متنازعہ بلکہ مقدس ترین ہیں۔ اہلبیت کے حوالے سے تو خود سلف صالحین کے مابین بھی کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا، بلکہ امام شافعی کے ایک معروف شعر سے تو ہر مومن واقف ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اے اہلبیت محمدؑ، آپکی فضیلت کے لئے تو یہی کافی ہے کہ جو بھی نماز میں آپ پر صلوات نہ بھیجے، اس کی نماز ہی قبول نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ امام احمد بن حنبل کا اپنے بیٹے کو یہ جواب دینا بھی اہلبیت علیہم السلام کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے کہ اہلبیت اور ہستیاں ہیں جبکہ صحابہ کچھ اور۔ چنانچہ اہلبیت کے حوالے سے کوئی تنازعہ موجود نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں اسکا حل کیا ہے۔؟  
علامہ عابد الحسینی:
پاکستان میں پیروان اہلبیت کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ کل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ شیعہ ہیں، جبکہ اہلبیت کے محبین بریلوی اور دیگر اہلسنت کل آبادی کا پچاس فیصد ہیں۔ انکے عقیدے کا خیال و لحاظ نہ رکھا گیا تو اس کا نتیجہ بہت ہی بھیانک ہوگا۔ شیعہ سڑکوں پر آئیںگے۔ سوشل بائیکاٹ اور سکولوں کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ جس سے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی ایسی متنازعہ باتوں کے خلاف ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کو کیا تجویز دینا پسند کرینگے۔ ؟
علامہ سید عابد الحسینی:
نصاب سے تمام متنازعہ مواد حذف کیا جائے۔ متقفہ مواد کی کوئی کمی تو نہیں، جو متنازعہ مواد کو شامل نصاب کیا جا رہا ہے۔ تاریخ اسلام میں کافی ایسا مواد موجود ہے۔ اس کے علاوہ احکام، فرائض و مستحبات میں بھی متفق علیہ مواد کی کوئی کمی نہیں۔ جس طرح جنگ بدر، جنگ خیبر، جنگ احد اور فتح مکہ وغیرہ کا تذکرہ۔ اسی طرح قیام نماز و روزہ اور ان کی تعداد نیز حج کی ادائیگی، قبلہ کی شناخت اور اہمیت وغیرہ، جبکہ تراویح شیعہ نہیں بلکہ خود اہلسنت میں متنازعہ ہے۔ تو اس کی شمولیت کا کیا جواز بنتا ہے۔ جس کا دیوبندیوں کے علاوہ کوئی اسلامی فرقہ قائل نہیں، مگر پتہ نہیں یہ حکومت بلکہ عمران خان شاید محمد بن سلمان کی تقلید کر رہا ہے اور پاکستان میں رائج برائیوں کے خاتمے کی بجائے رائج اچھائیوں کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم پیروان اہلبیت کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی بھی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 981247
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

رباب حسینی
Pakistan
میں مولانا سید عابد حسین الحسینی صاحب کی رائے کا احترام کرتی ہوں اور ان کی رائے سے پوری طرح سے متفق ہوں۔ میرے خیال سے ان کی آواز کو وطن عزیز کے ہر شخص تک پہنچانا ضروری ہے۔
ہماری پیشکش