1
0
Sunday 3 Apr 2022 02:59

معروف مذہبی سکالر علامہ امین شہیدی کا خصوصی انٹرویو

معروف مذہبی سکالر علامہ امین شہیدی کا خصوصی انٹرویو
علامہ محمد امین شہیدی امت واحدہ پاکستان کے سربراہ ہیں۔ انکا شمار ملک کے معروف ترین علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز میں ہوتا ہے، دلیل کیساتھ اپنا موقف پیش کرتے ہیں، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شوز، مذاکروں اور مذہبی محافل میں شریک دکھائی دیتے ہیں۔ علامہ امین شہیدی اتحاد بین المسلمین کے حقیقی داعی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، وہ اپنی تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ اسلام ٹائمز نے حالات حاضرہ پر علامہ امین شہیدی صاحب کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: میرا پہلا سوال آپ سے سانحہ کوچہ رسالدار پشاور کے حوالے سے ہے کہ اس واقعہ کے محرکات کیا ہوسکتے ہیں اور اس تناظر میں حکومتی رویہ کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:
بسم اللہ الرحٰمن الرحیم، پشاور کا سانحہ ایک عظیم سانحہ تھا، اس سال میں اگر دیکھا جائے تو یہ انتہائی ہولناک سانحہ تھا۔ اس سانحہ کے حوالے سے دو پہلو ہیں، ایک تو اس کے پس پردہ محرکات ہیں، جن کی بنیاد پر ایک مرتبہ پھر تشیع کے مذہبی مرکز، نماز جمعہ کو اور اللہ کے سامنے سر بسجود ہونے والوں کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ اس سانحہ کا دوسرا پہلو حکومتی رویہ کے حوالے سے ہے۔ اگرچہ داعش نے اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ داعش، ٹی ٹی پی، سپاہ صحابہ ہو یا وہ تکفیری فکر، جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے مذہب کو استعمال کرکے باقی مسلمانوں کی تکفیر کے ذریعے سے اپنے حلقوں میں مذہبی جذبات اور ہمدردیاں بھی حاصل کرتے ہیں اور اپنے بیرونی آقاووں سے پیسے بھی لیتے ہیں، اب ان کا نام تبدیل کرکے آپ داعش رکھ لیں، ٹی ٹی پی رکھیں، سپاہ صحابہ رکھیں، النصرہ رکھیں یا پھر کوئی اور۔

ان سب کے پیچھے فکر امریکی ہے، سی آئی اے اور ایم آئی سکس کی ہے۔ اب اس کے مقابلہ میں ریاست کی جو ذمہ داری بنتی ہے، وہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی جانب سے بھی تشیع کے قتل عام کے حوالے سے کوئی حوصلہ افزاء اقدامات نظر نہیں آئے، ان شیعہ شہداء کے قاتلوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کیلئے شیعوں کو لاشوں کو لیکر کئی کئی دن تک بیٹھنا پڑا، تب کہیں جا کر حکومتوں کے کانوں پر جوں رینگی۔ عمران خان کی حکومت کے مقابلہ میں ماضی کی ان حکومتوں کے رویئے نسبتاً بہتر رہے، عمران خان کی ذات کے اندر ایک تکبر موجود ہے، اور یہ تکبر ان کے ساتھیوں میں ان سے بھی زیادہ ہے۔ لہذا اگر اہم اس حوالے سے دیکھیں تو خصوصی طور پر خیبر پختونخوا میں سابقہ دہشتگردی کے بڑے بڑے واقعات کے بعد جوائنٹ کمیٹیاں تشکیل پائیں، مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل پائیں، لیکن ملاقاتوں میں حکومتوں نے بہت سی چیزیں مان بھی لیں۔

اسی پی ٹی آئی کی حکومت نے مانیں، لیکن واقعہ تھوڑا ٹھنڈا ہونے کے بعد کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بعض اوقات ان شہداء کے وارث اور ہمارے عمائدین رابطے کرتے تھے، لیکن پرویز خٹک جیسے لوگ انہیں لفٹ تک نہیں کرواتے تھے۔ پشاور میں جامع مسجد کے حوالے سے یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے، اس سے قبل دو جمعہ کی نمازوں میں ایسے واقعات ہوچکے تھے اور ان واقعات کے بعد بھی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے بہت سارے وعدے کئے تھے، لیکن کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اس واقعہ کے موقع پر چونکہ مرکز میں بھی حکومت پی ٹی آئی کی تھی، تو ان کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، لیکن پی ٹی آئی نے اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں۔ اس حوالے سے پوری تشیع کو پی ٹی آئی کی حکومت سے گلا ہے اور قلبی طور پر کراچی سے گلگت بلتستان تک لوگ ان کے اس رویئے، اس طرح کی پالیسز، وعدہ کرکے مکر جانے اور ان شہداء کے خون کو اہمیت نہ دینے کی روش سے بہت نالاں ہیں، یقیناً اس کے اثرات پوری قوم پر پڑیں گے اور یہ اثرات بہت دیر تک سامنے آتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے حکومت نے اب تک کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، اگر یہی صورتحال رہی تو شیعہ علماء و اکابرین کا کیا لائحہ عمل ہوگا۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:
نصاب تعلیم کا مسئلہ پوری پاکستانی قوم کیلئے انتہائی اہم ہے، یہ صرف مکتب تشیع کا مسئلہ نہیں، اگرچہ مکتب تشیع نے اس مسئلہ پر اپنی حساسیت دکھائی ہے اور اس کے بعض پہلووں کو کافی حد تک اجاگر کیا ہے، لیکن اس کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ہے۔ ایک قوم، ایک نصاب کا نعرہ بڑا پیارا ہے، لیکن اس کے اہداف انتہائی خطرناک ہیں۔ ہماری ریاست مستقبل میں ایک ایسے نصاب کی طرف جا رہی ہے، جس میں ہمارے بچے گھر میں مسلمان پیدا ہوں، تعلیمی اداروں میں جا کر سیکولر ہو جائیں اور جب تعلیمی اداروں سے ڈگریز لیکر فارغ ہو جائیں تو دین کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں، ایسی منصوبہ بندی ہوچکی ہے اور اس کا ذریعہ یہ نصاب تعلیم ہے۔ جو نصاب تعلیم ڈیزائن کیا جا رہا ہے اور رفتہ رفتہ لاگو کیا جائے گا، وہ صرف اور صرف اسلامیات کے حوالے سے قابل اعتراض نہیں ہے، صرف اردو کی کتابوں کے حوالے سے قابل اعتراض نہیں ہے بلکہ برصغیر کی تاریخ کو مسخ کرنے کے حوالے سے، اسلامی تاریخ کو تبدیل کرنے کے حوالے سے، قرآنی اقدار کی پائمالی کے حوالے سے اور مختلف اخلاقی بحثوں میں سے روح نکال کر بچوں کو الفاظ کے گورکھ دھندوں میں الجھانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

جس کے نتیجے میں جو نصاب تعلیم سامنے آئے اس کو پڑھنے کے بعد بچے کے اندر حریت پیدا نہ ہو، بچہ اقدار کا حامل نہ ہو، بچہ دین کی روح سے ناآشانہ ہو، عبادات کو ورزش کی طرح ایک عمل کے طور پر دیکھے، اس کی روح عبادات کی لذت سے بے خبر ہو۔ ایسی چیزیں بچے کو پڑھائی جائیں کہ بچہ جب تعلیمی ادارے سے فارغ ہو تو دین کو پارٹ ٹائم جاب کے طور پر تو دیکھے، لیکن اپنی دنیا کے تمام مقاصد سے متصادم پائے، یہ سب کچھ بنیادی طور پر اس نظام تعلیم کی روح ہے۔ یہ نظام تعلیم صرف پاکستانی قوم کا مسئلہ نہیں ہے، یہ اقوام متحدہ کا ایک ایجنڈا ہے، جسے ویژن 2030ء کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے، اگر کوئی بھی محقق انسان ویژن 2030ء کے مندرجات پر غور کرے تو اسے اندازہ ہوگا کہ اقوام متحدہ، مغربی دنیا اور دنیا پر قابض مالیاتی ادارے پوری دنیا کو مغربی تہذیب میں ڈھال کر مذہب بیزار بنانے کے حوالے سے کیا کیا سوچ رہے ہیں اور یہ نظام تعلیم اس کا حصہ ہے۔

اس لئے اس نظام تعلیم سے نقصان صرف شیعوں کو نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو دین کی روح سے استفادہ کرنا چاہتا ہے، اس سے بری طرح متاثر ہوگا۔ اگر مستقبل بعید میں دیکھا جائے تو اس نظام تعلیم کو لینے کے بعد آپ کے سکول، کالجز اور تمام ہائیر ایجوکیشن کے ادارے سیکولر بچے پیدا کریں گے، جو ضد مذہب و دین ہوں گے۔ یہ سب نہ دیوبندیوں کیلئے بہتر ہے، نہ سلفیوں کیلئے، نہ بریلویوں کیلئے اور نہ ہی اہل تشیع کیلئے بہتر ہے۔ لہذا اس مسئلہ کو قومی مسئلہ بننا چاہیئے تھا، لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر جب کوئی ایسا مسئلہ اٹھتا ہے تو اس کو صرف فرقہ وارانہ رنگ میں ہی دیکھا جاتا ہے۔ برائی کو بھی کسی فرقہ کی دشمنی میں اپنا لیا جاتا ہے اور اچھائی کو اسی دشمنی میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ضرورت ہے کہ اسلام کے دیگر تمام مکاتب فکر کو یہ شعور دلایا جائے اور اس خطرے سے انہیں آشنا کیا جائے، تاکہ وہ اس مسئلہ میں تشیع کے ساتھ کھڑے ہوں۔

جہاں تک نصاب تعلیم اور تشیع کے عقائد کا تعلق ہے تو چونکہ پاکستان کے مختلف اداروں اور نظام تعلیم مرتب کرنے والے لوگوں میں ناصبی ذہنیت ہر جگہ نظر آتی ہے، لہذا ان کو سیکولرازم سے خطرہ محسوس نہیں ہوا، جبکہ اس کے مقابلہ میں اہلبیتؑ کے تذکرے اور اسلام میں ان کے کردار کے حوالے سے انہیں الرجی ضرور محسوس ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آئمہ اطہارؑ اور اہلبیتؑ کے ذکر اور ان کی زندگی کے تابناک پہلووں سے مسلمان امت کو محروم رکھنے کیلئے ان کے ناموں کا ہی صفایا کرنا شروع کر دیا، جبکہ اس کے مقابلہ میں مغربی تہذیب کی یلغار جس طرح ان نصابی کتابوں میں نظر آتی ہے، اس کی طرف انہوں نے بالکل بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ لہذا اب دونوں محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور آگاہی اور شعور کے ذریعے سے لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر لوگ بیدار ہو جائیں تو خود بخود اس ناقص اور ضد دین نظام تعلیم کے مقابلہ میں متحد ہو کر کھڑے ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملک میں جاری سیاسی بحران کا ذمہ دار آپ کس کو سمجھتے ہیں اور اس سیاسی محاذ آرائی کا نتیجہ کیا نکلتا دیکھتے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر ماضی کی حکومتوں پر غور کیا جائے، چاہے وہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہو، چاہے نون لیگ کی ہو، چاہے کسی اور جماعت کی ہو، چاہے فوجیوں کی حکومت ہو، یا کے پی کے میں مولویوں کی حکومت ہو، بہرحال اگر عالمی سیاست کی بساط میں موقف اور ترجمانی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عمران خان کا باقی سیاستدان مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس وقت پاکستان جس بحران کا شکار ہے، اس بحران میں عالمی طاقتوں کا اثر نظر آتا ہے۔ جس طرح سے ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان اٹھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر غریب اس سے متاثر ہے، ہر انسان اس سے متاثر ہے، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ لیکن اگر تھوڑی سے تحقیق کی جائے تو آپ کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ مہنگائی کا جو تناسب پاکستان میں ہے، باقی دنیا میں اس سے زیادہ ہے۔ اس عرصہ میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان کی نسبت دنیا میں مہنگائی مجموعی طور پر زیادہ بڑھی ہے۔

اس مہنگائی کی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن نے عدم اعتماد کی جو تحریک چلائی ہے، اس کے نتائج تو آنا شروع ہوگئے ہیں، اگر عددی برتری کے حوالے سے دیکھا جائے تو اپوزیشن کا ہاتھ اس وقت بھاری ہے اور عمران خان کے پاس ممبران کی کمی ہے۔ کوئی معجزہ ہو جائے تو الگ بات ہے، لیکن اس صورتحال میں عمران خان کی حکومت نہیں بچ پاتی۔ اس عدم اعتماد کے پس پردہ محرکات کو دیکھا جائے تو دو چیزیں بڑی قابل غور ہیں، ایک یہ کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے گروہوں کا آپس میں شیر و شکر ہو جانا اور دوسری طرف ان عالمی طاقتوں کی ناراضگی جو عمران خان کی پالیسز کے حوالے سے خوش نہیں۔ جب ہم تھوڑا سا غور کرتے ہیں تو یہ بات بعید نہیں لگتی کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے داخلی قوتوں کیساتھ ساتھ بیرونی قوتیں بھی شامل ہیں۔

جو بہرحال عمران خان نے ماضی کی پالیسز کو بدلتے ہوئے مغرب کی نسبت مشرق کی طرف اپنے جھکاو کا زیادہ رجحان دیکھایا ہے اور بین الاقوامی سٹیبلشمنٹ کے مقابلہ میں پاکستان کی خود مختاری کے حوالے سے ایک آواز بلند کی ہے۔ اس کے ساتھ افغانستان کے معاملہ میں امریکی مطالبات کی عدم قبولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک باوقار پالیسی کا اظہار کیا ہے۔ یہ چیزیں عالمی طاقتوں اور ان کے داخلی گماشتوں کو ہضم نہیں ہوتیں۔ عمران خان سے ہم لاکھ اختلاف کرتے ہیں، ان کی بعض حرکات سے دکھ ہوتا ہے، ان کے بعض اقدامات نقصان میں نظر آتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کے مقابلہ میں عمران خان باقی جماعتوں کی نسبت بہتر اقدامات کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ جس خط کا تذکرہ عمران خان کرتے ہیں، اگر اس کے مندرجات کو دیکھا جائے تو سیاسی حوالے سے ایسا ہی ہوتا ہے کہ کوئی بڑا ملک ہم جیسے ملک کی حکومت کو تھریٹ کرنے کیلئے ایسے ہی ذرائع کا سہارا لیا کرتا ہے، بہرحال اس صورتحال میں عمران خان کی حکومت بچتی ہوئی نظر نہیں آتی، اگر کوئی انہونی ہو جائے تو وہ الگ بات ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ انتخابات میں عمران خان کی جماعت کو ملت تشیع نے بھرپور سپورٹ کیا، لیکن حکومت کے بعض اقدامات کیوجہ سے تشیع کو مایوسی ہوئی، آپکے خیال میں ملت کی سیاسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیئے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:
بنیادی طور پر پاکستان میں تشیع کو انتخابی سیاست کے حوالے سے ایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے، وہ تشیع کا کسی ایک علاقہ میں مجتمع ہو کر زندگی نہ گزارنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت بڑی آبادی ہونے کے باوجود تشیع کا ووٹ بینک تقسیم ہو جاتا ہے۔ اسی چیز سے سیاسی جماعتیں فائدہ اٹھاتی ہیں اور عمران خان نے بھی اسی چیز سے فائدہ اٹھایا۔ گذشتہ الیکشن میں عمران خان نے چونکہ بہت سارے وعدے کئے تھے، اس لئے شیعہ قوم نے اعتماد کیا اور اس اعتماد کے تحت انہیں ووٹ دیا۔ لیکن گذشتہ پونے چار سالوں میں تشیع کے حوالے سے جو کچھ ہوا، وہ آپ کے سامنے ہے۔ میں یہ سجھتا ہوں کہ تمام شیعہ تنظیموں کو یہ چاہیئے کہ جن جن علاقوں میں وہ موثر ہیں، ان علاقوں کے سیاسی، اجتماعی اور دینی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی حکمت عملی بنائیں کہ جس بھی پارٹی سے الحاق ہو، معاہدہ ہو یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو، ہر صورت میں وہ جتنا فائدہ تشیع کے ووٹ بینک سے حاصل کرتے ہیں، اس سے زیادہ فائدہ ہماری قوم کے جوانوں کو، بچوں کو، تعلیم کے حوالے سے، علاقہ کی ترقی کے حوالے سے، صحت سے متعلق موضوعات کے حوالے سے، معیشت کے حوالے سے، مذہبی آزادی کے حوالے سے، دینی اقدار کے حوالے سے وہ فائدے حاصل ہوسکیں۔

چونکہ پاکستان کی غیر مذہبی سیاسی جماعتوں کے اندر عمل کے حوالے سے کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، موقف کے حوالے سے ہوسکتا ہے، لیکن عمل کے حوالے سے کوئی بہت زیادہ فرق موجود نہیں ہے۔ چونکہ فرق نہیں ہے، لہذا عمران خان ہوں، نواز شریف ہوں یا پیپلزپارٹی۔ تشیع کو اپنے مفادات کو سرفہرست رکھنا چاہیئے اور اپنے مفادات کی بنیاد پر ہی فیصلہ کرنا چاہیئے کہ کس جماعت سے وہ ووٹ کے بدلے تشیع اور اپنے دینی مفادات حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ شعور عوام میں بھی اجاگر کرنا ضروری ہے اور عوام کیساتھ ساتھ خواص میں بھی اور بالخصوص ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں میں بھی۔ اگر یہ مسئلہ اجاگر ہو جائے اور اس کے نتائج سامنے آئیں تو پھر کوئی بھی پارٹی جب تشیع کیساتھ الحاق کرے گی تو اسے یہ معلوم ہوگا کہ اس نے تشیع کو اپنے پانچ سالہ مدت میں کچھ دے کر جانا ہے۔ ورنہ تشیع سے وابستہ ان کا ووٹ بینک ان سے چھن جائے گا، یہ احساس ان کو ہونا چاہیئے۔ 
خبر کا کوڈ : 987005
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ممتاز علی
Pakistan
بہت ہی عمدہ، حقائق پر مبنی متوازن تجزیہ پیش کیا ہے شہیدی صاحب نے۔ علامہ صاحب ایک بہترین مدبر، مفکر، مبصر اور مدلل گفتگو کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
ہماری پیشکش